اپنے آغاز سے لے کر آج تک دین اسلام کامقصد ہمیشہ یہ رہا ہے کہ خواتین کے حوالے سے ہماری سوچ، خیالات، احساسات اور طرز زندگی میں نمایاں بہتری لائی جائے اور معاشرے میں خواتین کامقام بلند سے بلند تر کیا جائے۔ اس وقت دنیا کی آبادی کا تقریباً پانچواں حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ یہ آبادی بہت سے معاشروں میں تقسیم ہے۔ ان مسلم معاشروں کا طرز زندگی یکساں نہیں ہے۔ کچھ معاشروں میں اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جاتا ہے تو کچھ معاشرے اسلامی تعلیمات سے دُور ہیں۔ ان 2 طرح کے رویوں کے اثرات خواتین کے حقوق اور ان کی زندگیوں پر بھی پڑتے ہیں۔ اسلام میں خواتین کے حقوق کیا ہیں، اس کا فیصلہ ان مسلمان معاشروں کو دیکھ کر نہیں کیا جائے گا بلکہ شریعت اسلامی کے حقیقی مصادر سے رہنمائی لی جائے گی۔ اسلامی تعلیمات کے مستند اور بنیادی مصادر قرآن اور سنت ہیں۔ مشینی دور کی افرا تفری اور سرمایہ دارانہ نظام کی دھکم پیل میں الجھ کر انسان، مسلم وغیر مسلم، عورت و مرد، سب ہی اسلامی تعلیمات کے مصادر و مآخذات یعنی قرآن و سنت سے دوری کا شکار ہیں اس لیے خواتین کے وہ حقوق جو دین اسلام نے اسے عطا فرمائے ہیں، ان کے بارے میں غلط فہمی یا نا فہمی ایک عام رویہ بن چکی ہے۔
اسلام مرد و عورت کو مساوی حقوق دیتا ہے لیکن یہ حقوق مساوی ہیں، یکساں نہیں ہیں۔ اگر یہ دونوں اپنی جگہ پر اپنا کردار اسلامی احکامات کے مطابق ادا کریں تو نہ ان کے درمیان رقابت ہوگی اور نہ مخالفت۔
زیر نظر موضوع میں ہم یہ دیکھیںگے کہ دینی و روحانی حیثیت سے اسلام عورت کو کیا مقام عطا کرتا ہے۔ مغربی دنیا میں اسلام کے حوالے سے جو غلط فہمیاں عام ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسلام میں جنت کا تصور صرف مرد کے لیے ہے عورت کے لیے نہیں۔ با الفاظ دیگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام میں بہشت صرف مردوں کے لیے مخصوص ہے اور عورت جنت میں نہ جاسکے گی۔
اسی طرح خود مسلم معاشرے کی خواتین کے ذہنوں میں بھی یہ سوال پایا جاتا ہے کہ جنت میں مردوں کو تو حوریں ملیںگی تو عورتوں کو کیا انعام ملے گا؟ اول الذکر غلط فہمی جو غیر مسلموں میں پائی جاتی ہے اس کی تردید تو قرآن کی درج ذیل آیات بخوبی کردیتی ہیں کہ:
(ترجمہ) ’’اور جو نیک عمل کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن تو ایسے لوگ ہی جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرہ برابر حق تلفی نہ کی جائے گی‘‘۔
اسی سے ملتی جلتی بات سورۃ النحل میں بھی کی گئی ہے ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (ترجمہ) ’’جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو، اسے ہم دنیا میں بھی پاکیزہ زندگی بسر کروائیںگے اور ایسے لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق آخرت میں بھی بہترین اجر سے نوازیںگے‘‘۔
مندرجہ بالا آیات سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام میں جنت کے حصول کے لیے جنس کی کوئی شرط موجود نہیں ہے۔
سترہویں صدی عیسوی میں روم میں ہونے والی کونسل کے اجلاس میں عیسائی عملاً اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ عورت میں روح موجود نہیں ہوتی… یونانی تہذیب میں بھی عورت ’’انسانوں سے کم تر‘‘ تھی۔ یونانی دیومالائی قصوں میں ’’پنڈورا‘‘ نامی ایک خیالی عورت کا تذکرہ ملتا ہے جو اس دنیا میںنوع انسانی کے تمام تر مسائل اور پریشانیوں کی سب سے بڑی وجہ تھی۔ مصری تہذیب میں عورتوں کو برائی سمجھا جاتا تھا اور انہیں شیطان کی نشانی قرار دیا جاتا تھا۔ قرآن حکیم ان تمام عقائد کی نفی کرتا ہے۔ سورۃ النسا میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:۔
(ترجمہ) ’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مر اور عورت دنیا میں پھیلا دیے‘‘۔
(ترجمہ) ’’اور وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے تمہاری ہم جنس بیویاں بنائیں اس نے ان بیویوں سے تمہیں بیٹے اور پوتے عطا کیے‘‘۔ (النحل)۔
(ترجمہ)’’ پھر اس کی نک سک کو درست کیا اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی اور تم کو کان دیے اور آنکھیں دیں اور دل دیے تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو ‘‘(السجدہ)
مندرجہ بالا آیات سے یہ بات واضح طور پر سامنے آ جاتی ہے کہ روحانی حوالے سے اسلام مرد و عورت کی فطرت میں کوئی تفریق نہیں کرتا ۔
زیر بحث موضوع کا ایک اور پہلو سے بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے ۔ کچھ مذہبی صحائف میں’’زوالِ آدم‘‘ یا جنت سے نکالے جانے کا سبب عورت کو قرار دیا گیا ہے لیکن اسلام کا نقطۂ نظر اس حوالے سے قطعاً مختلف ہے ۔ قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر اس واقعے کا ذکر ملے گا ۔ سورۃ الاعراف کی انیسویں آیت میں اور دیگر مقامات پر بھی آدم و حوا ؑ کا طرزِ عمل یکساں ہی بتایا گیا ہے ۔ دونوں سے غلطی ہوئی ، دونوں کو اپنی غلطی پر ندامت ہوئی ۔ دونوں معافی کے خواستگار ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے دونوں کی توبہ قبول فرمائی ۔ بائبل میں نہ صرف یہ کہ جنت سے نکالے جانے کے واقعے کی تمام تر ذمے داری حوا پر ڈالی گئی بلکہ اس سے یہ عقیدہ بھی وضع کر لیا گیا کہ ہر انسان ہی گناہ گار پیدا ہوتا ہے۔ مغربی معاشروںمیں، خواتین سے متعلق رویوں پر انہی عقائد کی چھاپ نظر آتی ہے ۔ ان کے نزدیک عورت محض ایک جنس ہے ۔ روح سے خالی ایک جسم ہے جیسے جب چاہے اپنے اغراض و مقاصد کے لیے استعمال کر کے ٹشو پیپر کی طرح رد کیا جا سکتا ہے ۔ عورتوں کی فطری و روحانی خواہشات سے اور ان خواہشات کی تکمیل میں ان کا ساتھ دینے سے وہاں کے مردوں کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اور نہ ہی وہاں ایسی کوئی اخلاقی قوت موجود ہوتی ہے جو مردوں کو مجبور کر سکے کہ جن عورتوں کو تم نے وقتی تفریح کا ذریعہ بنا رکھا ہے ان کو ایک گھر کا تحفظ ، اولاد جیسی نعمت کی خوشی معاشرے میں عزت و وقار سے جینے کا حق بھی ادا کرو ۔ ایسی صورتحال میں عورت کا وجود گویا ایک بے روح جسم بن کر رہ گیا ہے جس میں زندگی کی حرارت تو موجود ہے لیکن اپنی روح کے تقاضوں کی تسکین کے لیے معاشرتی و خانگی زندگی میں کوئی ذریعہ اسے حاصل نہیں ہے۔ خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ ، شرحِ طلاق میں اضافہ ، برتھ کنٹرول ، ہم جنس پرستی اور جنسی استیصال و تشدد جیسے خوفناک عفریت مغربی خواتین کی زندگی کو تباہ کرنے کے لیے مسلسل ان کے تعاقب میں رہتے ہیں ۔ مسلم معاشروں میں بھی ، اغیار کے ایسے معاشرتی رویوں کی نقالی کا رجحان ایسی ہی خوفناک صورتحال پر منتج ہو سکتا ہے۔ جبکہ مسلم معاشروں میں دینی تعلیمات سے غفلت ایک عام روش بن چکی ہے ۔ اسی غفلت کے سبب مسلم خواتین دین اسلام کے عطا کردہ اپنے حقوق کو کم تر یا ناکافی جانتی ہیں ۔ اسی بنا پر اکثر خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ دین اسلام مردوں کو تو روحانی درجات اور انعامات سے نوازتا ہے اور جنت میں مردوں کا انعام مردوں کو دیا جائے گا لیکن عورتوں کو ان کے صالح اعمال کا کیا انعام دیا جائے گا ؟ اس معاملے میں بھی وہ سمجھتی ہیں کہ دیگر معاملوں کی طرح یہاں بھی عورتوں کے ساتھ معاذ اللہ انصاف نہیں کیا گیا ہے ۔
قرآن میں حور کا لفظ 4 مقامات پر استعمال ہوا ہے جو کہ درج ذیل ہیں:
سورۃ دخان آیت نمبر54
سورۃ رحمٰن آیت نمبر 50 اور76
سورۃ واقعہ آیت نمبر 22
بیشتر تراجم و تفاسیر خصوصاً اردو تراجم و تفاسیر میں لفظ ’’حور‘‘ کے معنی خوب صورت عورت ہی بتائے گئے ہیں اگر لفظ کے معنی واقعی صرف خوبصورت عورت کے ہیں توپھر تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عورت کو جنت میں کیا عطا ہو گا؟
لیکن در اصل معاملہ یہ ہے کہ اس لفظ کے معنی صرف خوبصورت نہیں ہیں یہ لفظ در اصل میں جمع ہے جس کا واحد’’اھور‘‘ بھی ہے ۔ ان میں سے ایک لفظ مذکر اور ایک مونث ہے جبکہ جمع دونوں کی حور ہی ہے۔ لفظ کا لغوی مطلب’’بڑی خوبصورت آنکھیں‘‘ ۔ اسی مقصد کے لیے قرآن میں مختلف مقامات پر ازواج کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے ۔
مثال کے طور پر سورۃ البقرۃ آیت نمبر25 اور سورۃ النسا آیت57 ازواج کا لفظ زوج کی جمع ہے اور زوج کا معنی ہے ساتھی یا شریک زندگی ۔ مرد کے لیے عورت زوج ہے اور عورت کے لیے مرد زوج ہے۔ یہ دونوں لفظ ایسے ہیں جن کی کوئی جنس مخصوص نہیں ہے۔ یہ لفظ مذکر کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے اور مونث کے لیے بھی ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مرد کو جنت میں بڑی بڑی آنکھوں والی خوبصورت شریک زندگی ملے گی اور عورت کو بھی بڑی بڑی خوب صورت آنکھوں والا ساتھی ملے گا ۔
خواتین کے روحانی مقام و مرتبے اور ان کے حقوق کے حوالے سے بہت سی آیات موجود ہیں ۔ جن میں عزت و بزرگی کے معاملے میں خواتین کو بطور مثال یا بطور نصیحت پیش کیا گیا ہے ۔ مثلاً فرعون کی بیوی آسیہ کا ذکر ملتا ہے تو اس میں انہیں’’ نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے نمونہ‘‘ کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔ اسی طرح حضرت مریمؑ، حضرت عائشہ ؓ اور خولہ بنت ثعلبہ ؓ کے حق میں اللہ تعالیٰ کی نظر میں عورتوں اور مردوں میں روحانی مقام کے لحاظ سے محض جنسی تفریق کی بنا پر کوئی فرق روا نہیں رکھا گیا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین اپنے مقام اور مرتبے کو پہچانیں اور دینی تعلیمات کے مطابق اپنے حقوق کا مطالبہ اور فرائض کی ادائیگی کریں تاکہ دنیا و آخرت میں سر خرو ہوں۔