نبی اکرمؐ جس معاشرے میں مبعوث ہوئے، وہ مکمل طور پر ’جس کی لاٹھی، اس کی بھینس‘ کا نمونہ پیش کرتا تھا۔ طاقت ور قبائل اپنے سے کمزور قبائل کو دبا لیتے اور ان کے حقوق سے انھیں محروم کر دیتے۔ اسی طرح شخصیات کا معاملہ تھا۔ جو شخص جتنی قوت اپنے پاس رکھتا تھا، اتنا ہی معتبر، معزز اور قابلِ احترام شمار ہوتا تھا۔ انسان اپنی انسانیت کھو بیٹھا تھا اور احترامِ انسانیت کی بات کرنے والوں کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ معاشرے میں زیادہ مظلوم وہ لوگ تھے، جنھیں غلام اور لونڈیاں کہا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ بحیثیت مجموعی عورت بھی حقیر اور کمتر شمار ہوتی تھی۔ بیٹیوں کو عار سمجھا جاتا اور انھیں زندہ درگور کر دیا جاتا۔
اللہ کا ارشاد ہے: ’’یہ خدا کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں، سبحان اللہ! اور اُن کے لیے وہ جو یہ خود چاہیں؟ جب اِن میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اُس کے چہرے پر کَلَونس چھا جاتی ہے اور وہ بس خون کا سا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ اس بری خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے۔ سوچتا ہے کہ ذِلّت کے ساتھ بیٹی کو لیے رہے یا مٹی میں دبا دے؟‘‘ (النحل16: 59-57)۔ سورۃ الزخرف آیات16تا18میں بھی اس مضمون کو بیان کیا گیا ہے۔
نبی اکرم ؐ نے عورت کو بے انتہا عزت و احترام دیا۔ آپؐ جب بھی کوئی لشکر کفار کے مقابلے پر بھیجتے، صحابہ کو تلقین فرماتے کہ وہ کسی کمزور بوڑھے، بچے اور خاتون پر ہر گز ہاتھ نہ اٹھائیں۔ غزوۂ احد میں ابو دجانہؓ کو اپنی تلوار مبارک دی تو تاکید کی کہ کسی خاتون پر اسے نہ چلائیں۔ ایک جنگ میں کفار کی لاشوں کے درمیان آپؐ نے ایک کافر عورت کی لاش دیکھی تو سخت ناراضی کے عالم میں فرمایا: ’’لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ عورت بھی ان کے ہاتھ سے نہ بچی؟‘‘ اسلام میں عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی چاروں حیثیتوں میں اتنا اعزاز واکرام بخشا گیا ہے کہ دنیا کی کسی تہذیب، مذہب اور معاشرے میں اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ماں کے متعلق نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا:
معاویہ بن جاہمہ سے روایت ہے کہ میرے والد جاہمہ رسول اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : میرا ارادہ جہاد میں جانے کا ہے اور میں آپ سے اس بارے میں مشورہ لینے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ آپؐ نے اُن سے پوچھا: کیا تمھاری ماں ہیں؟ انھوں نے عرض کیا: ہاں! آپؐ نے فرمایا: تو پھر انھی کے پاس اور انھی کی خدمت میں رہو، اُن کے قدموں میں تمھاری جنت ہے۔ (مسند احمد، سنن نسائی)
اللہ و رسول کے نزدیک ماں کا مقام و درجہ اتنا عظیم ہے کہ بڑے گناہوں کی معافی ماں کی خدمت سے مل جاتی ہے اور پھر اگر ماں نہ ہو تو خالہ، پھوپھی وغیرہ کی خدمت کا بھی وہی درجہ ہے۔ یہاں تک کہ ایک حدیث میں تو یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ ماں باپ موجود نہ ہوں تو ان سے دوستی رکھنے والے دوست اور سہیلیاں بھی اسی طرح عزت و احترام کے مستحق ہیں، جس طرح والدین کا معاملہ ہے۔ عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسولؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے ایک بہت بڑا گناہ کیا ہے تو کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے (اور مجھے معافی مل سکتی ہے) آپ نے پوچھا: تمھاری ماں زندہ ہے؟ اس نے عرض کیا کہ ماں تو نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: تو کیا تمھاری کوئی خالہ ہے؟ اس نے عرض کیا کہ ہاں خالہ موجود ہے۔ آپ نے فرمایا: تو اس کی خدمت اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو (اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے تمھاری توبہ قبول فرمالے گا اور تمھیں معاف فرما دے گا۔ (جامع ترمذی)
بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک کی بھی نبی اکرمؐ بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے حتیٰ کہ اپنے آخری ایام میں بھی آپؐ بیویوں اور غلاموں کے حقوق پر زور دیتے رہے۔ ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐؐ نے فرمایا: لوگو! بیویوں کے ساتھ بہتر سلوک کے بارے میں میری وصیت مانو ( میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کی ان بندیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو، نرمی اور مدارات کا برتاؤ رکھو) ان کی تخلیق پسلی سے ہوئی ہے (جو قدرتی طور پر ٹیڑھی ہوتی ہے) اور زیادہ کجی پسلی کے اوپر کے حصے میں ہوتی ہے، اگر تم اس ٹیڑھی پسلی کو (زبردستی) بالکل سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی، اور اگر اُسے یونہی اپنے حال پر چھوڑ دو گے (اور درست کرنے کی کوئی کوشش نہ کرو گے) تو پھر وہ ہمیشہ ویسی ہی ٹیڑھی رہے گی، اس لیے بیویوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کی میری وصیت قبول کرو۔ (بخاری ومسلم)
نبی اکرمؐ اس معاملے میں امت کے لیے اسوۂ حسنہ ہیں۔ اس حوالے سے آپؐ نے اپنی مثال دے کر ارشاد فرمایا: سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ وہ آدمی تم میں زیادہ اچھا اور بھلا ہے جو اپنی بیوی کے حق میں اچھا ہو۔ (اسی کے ساتھ فرمایا) اور میں اپنی بیویوں کے لیے بہت اچھا ہوں۔ (جامع ترمذی) جہاں تک بیٹیوں اور بہنوں کا تعلق ہے، ان کے ساتھ حسنِ سلوک اور محبت کو جنت کا پروانہ قرار دیا گیا ہے۔ عرب کے معاشرے میں بیٹیوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا تھا، اس کا تذکرہ اوپر ہوچکا ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلام نے انھیں اتنی عزت اور احترام دیا، جس کا تصور بھی قدیم و جدید دور کے کسی اور معاشرے میں محال ہے۔ زندہ درگور کی جانے والی بچیوں کے بارے میں اللہ نے ارشاد فرمایا: ’’اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی؟‘‘ (التکویر81:9-8)
نبی اکرمؐ کی ایک اور حدیث میں بیٹیوں کے ساتھ بہنوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: جس شخص نے تین بیٹیوں یا بہنوں کو پرورش کیا، ان کو اچھا ادب سکھایا اور ان سے شفقت کا برتاؤ کیا یہاں تک کہ وہ اس کی مدد کی محتاج نہ رہیں تو اللہ اس کے لیے جنت واجب کردے گا۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اور دو۔ فرمایا: اور دو بھی۔ حدیث کے راوی ابن عباس کہتے ہیں کہ اگر لوگ اس وقت ایک کے متعلق پوچھتے تو آپ اس کے بارے میں بھی یہی فرماتے۔ (شرح السنۃ بروایت ابن عباسؓ)
کسی کی بیٹی یا بہن اگر بیوہ یا مطلقہ ہو کر اس کے پاس آجائے تو اسے بھی بوجھ نہیں سمجھنا چاہیے۔ نبی اکرمؐ نے اس کے بارے میں سراقہؓ بن مالک بن جعشم سے فرمایا: میں تمھیں بتاؤں کہ سب سے بڑا صدقہ (یا فرمایا: بڑے صدقوں میں سے ایک) کیا ہے؟ انھوں نے عرض کیا: ضرور بتائیے یا رسول اللہ۔ فرمایا تیری وہ بیٹی جو (طلاق پا کر یا بیوہ ہوکر) تیری طرف پلٹ آئے اور تیرے سوا کوئی اس کے لیے کمانے والا نہ ہو۔ (بخاری فی الادب المفرد)
مغربی معاشرے نے بے خدا تہذیب کے زیرِ اثر ترقی و روشن خیالی کے نام پر ایسے ایسے گھناؤنے جرائم کیے ہیں کہ انسانیت و شرافت سرپیٹ کے رہ جاتی ہے۔ عورت کو نام نہاد آزادی کے جھوٹے خواب دکھا کر اسے شمع محفل بنا دیا گیا۔ بے چاری سادہ لوح عورت سمجھی کہ اسے اعزاز بخشا جارہا ہے مگر ظالم شیطانی تہذیب نے اس سے اس کی حیا چھینی، اسے بازار کا بکاؤ مال بنایا اور پھر اس سے مطالبہ کیا کہ وہ معاشی دوڑ میں بھی مرد کے ساتھ برابر کی شریک ہو۔ معاش کمانے کے لیے اس کے گلے میں بھی جوا ڈال کر اسے مرد کے ساتھ جوت دیا گیا۔ اسلام نے عورت کو وراثت میں حصہ دیا مگر معاشی بوجھ سے اسے بری قرار دیا گیا۔ وہ اپنی دولت و ثروت میں سے حسبِ ظروف و ضرورت رضا کارانہ خرچ کرسکتی ہے مگر بطور ماں، بیوی، بہن اور بیٹی اس کی معاشی کفالت بیٹے، خاوند، بھائی اور باپ کے ذمے ہے۔ آج بھی مغرب میں خواتین کے اسلام قبول کرنے کی شرح مردوں سے زیادہ ہے تو اس کا سب سے بڑا عامل اسلام میں خواتین کو دی گئی عزت اور تحفظ کی ضمانت ہی ہے۔ خواتین کے حقوق کے سب سے بڑے ضامن رسولِ رحمت اور محفوظ ترین قلعہ دینِ اسلام ہی ہے۔