March 29th, 2024 (1445رمضان19)

تربیت اولاد میں حیا کا عنصر

نگہت حسین

اولاد ماں باپ کے پاس اللہ تعالیٰ کی ایک امانت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس لطیف، خوب صورت، زند گی سے بھرپور اور معصوم نعمت کے حصول کے لیے پیغمبروں نے بھی اپنی اپنی التجا اللہ رب العزت کے سامنے دعا کی صورت میں رکھی۔ حضرت زکریا ؑ نے صالح اولاد کے لیے دعا فرمائی جو سورئہ آل عمران میں اس طرح موجود ہے: رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآئِ (اٰل عمران ۳:۳۸)،’’اے میرے رب! مجھے اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطا فرما بے شک تو دعا سننے والا ہے‘‘۔ حضرت ابراہیم ؑ نے ان الفاظ میں اپنے رب کو پکارا: رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَo (الصافات۳۷:۱۰۰)،’’اے میرے رب مجھے ایک صالح(لڑکا )عطا فرما‘‘۔ حضرت ابراہیم ؑ کی یہ دعا ایک پاک باز، نیک و صالح اور امام امت کے لیے دعا تھی۔ حضرت اسماعیل ؑ کی فرماںبرداری، اللہ کی اطاعت اور قربانی کا جذبہ ایک ایسا نشان راہ ہے جو اُمت ِمسلمہ کے لیے اپنی اولادوں کی تربیت کے لیے مثالی نمونہ ہے۔ تربیت کی اسلامی بنیادیں بچوں کی تربیت کا کام والدین کی اصل ذمہ داری ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے کہ: ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا (التحریم۶۶:۶)، ’’اے ایمان والو! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو (جہنم کی) آگ سے‘‘۔ بچوں سے متعلق منصوبے بنانا اور ان کے مستقبل کے لیے تگ و دو کرنا ایک فطری عمل ہے۔ ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے کامیابی و کامرانی کے ساتھ نمایاں مقام حاصل کریں۔ تاہم، صرف دنیاوی کامیابی کا تصور اس کوشش، جدوجہد اور ساری مساعی کو صرف اس فانی دنیا تک محدود کر دیتا ہے، جب کہ دنیا کی کامیابی و کامرانی بھی غیر یقینی ہوتی ہے۔ مومن کی اپنی ذات کا ایک ایک لمحہ اللہ رب العزت کی خوشنودی کے لیے وقف ہوتا ہے۔ اسی طرح اس کے اولاد سے متعلق منصوبے اور خواہشات بھی اللہ کی رضا و خوشنودی کے حصول کے لیے ہوتے ہیں۔ دنیا کی محدود کامیابی کے برعکس اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جہاں کامیابی کا ایک وسیع تصور دیتا ہے، وہاں کامیابی کے ہمیشگی کے تصور کو سمجھنے کے لیے ایک خاص ذہنی بلوغت کا بھی مطالبہ کرتا ہے جس کا تعلق ایمان کی دولت اور خوف خدا رکھنے والے دل سے ہے۔ کامیابی کا یہ تصور جو قرآن میں جا بجا موجود ہے تربیت اولاد کا ایک اہم جزو ہے۔ عصر حاضر میں جب طاغوتی قوتوں کی سربراہی میں ہر طرف امت مسلمہ کے لیے فتنہ و فساد برپا کر رکھا ہے وہاں نسلِ نو کی اسلامی نہج پر تربیت ایک ایسی اہم ذمہ داری ہے جس کا احساس ہنگامی بنیادوں پر کرنا ضروری ہے۔ اسلامی تاریخ ہمارے سامنے حضرت علی ؓ ، معاذ ؓ و معوذؓ ، معصب بن عمیر ؓ جیسے نوعمر صحابہ کرام ؓ کی مثالیں رکھتی ہے۔ دوسری طرف بہادر، جری نوعمر محمد بن قاسم جیسا سپہ سالار بھی اسی تاریخ کا حصہ ہے جو اپنی نوجوانی کے دور میں ہی اسلامی تاریخ میں اَنمٹ نقوش چھوڑ گئے۔ آج اس عمر کو کھیل کود کے دن کہہ کر ضائع کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے اور یوں امت مسلمہ کا ایک گراں قدر سرمایہ اس مادی دنیا کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے جس کا حاصل سوائے خسارے کے کچھ نہیں ہے۔ ابتدائی عمر اور بچے کی تربیت بد قسمتی سے جس قدر ابتدائی عمر کو تربیتی حوالے سے اہمیت حاصل ہے اسی قدر اس عمر کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق بچوں کی شخصیت کی تعمیر کا ۸۰ فی صد ابتدائی چھے سال کی عمر میں مکمل ہوجاتا ہے۔ باقی پوری زندگی اسی چھے سالہ تربیت کے محاسن کا عکس ہوتی ہے۔ اس عمر میں مزاج، عادتیں اور ذوق و شوق کو جس طرف لے جایا جائے گا اسی طرف بچے کا رحجان ہوجاتا ہے۔ اس عمر میں عادت بنانا آسان بھی ہے اور ضروری بھی۔ اسلام اصلاح کا جو فطری طریقہ بتاتا ہے وہ بھی عادت پر ہی منحصر ہے۔ اسلام میں چھوٹے بچوں کی تربیت کے لیے تلقین کے ساتھ ساتھ عادت ڈالوانے کا فطری طریقہ اختیار کرنے کو کہا گیا ہے۔ ابتدائی عمر میں بچے کی سیکھنے کی صلاحیت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ امام غزالی کے مطابق اس عمر کا بچہ ایک پاک و نفیس موتی کی مانند ہوتا ہے، لہٰذا اسے خیر کا عادی بنایا جائے تو وہ اسی میں نشوونما پائے گا۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو فطرتاً سلیم الطبع اور توحید پر پیدا ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے کہ اللہ کی اس فطرت کا اتباع کرو جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی فطرت میں تبدیلی نہیں (الروم ۳۰:۳۰)۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ :ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے بھر اس کے والدین یا اسے یہودی بناتے ہیں یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں (مسلم)۔ گویا ماحول بچے کی پاکیزہ فطرت کو پراگندہ کرتا ہے، لہٰذا بچے کے لیے اردگرد کے افراد اور ماحول دونوں کا اسلامی حوالوں سے پاکیزہ ہونا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ شخصیت پر موروثی اثرات سے زیادہ ماحول کی تربیت کا اثر پڑتا ہے۔ کہا جاتا ہے عادتیں صرف ۳۰ فی صد مورثی اور باقی ۷۰ فی صد ماحول سے بنتی ہیں۔ بچے کی تربیت کا پہلو یوں تو بہت ہمہ گیر اور وسیع ہے لیکن اس کا اہم جز تصورِ حیا ہے۔ اس مضمون میں اسی پہلو کی طرف والدین اور مربی کی توجہ مبذول کروانا مقصود ہے تاکہ اسلامی معاشرے کی کمزور ہوتی اقدار کی طرف ہماری توجہ ہو۔ تصورِ حیا اسلام میں تصورِ حیا شخصیت کا ایک اہم جز ہے اور بنیادی اخلاقی صفت ہے۔ ارشاد رسولؐ پاک ہے کہ: ’’ہردین کا ایک اخلاق ہوتا ہے اور ہمارے دین کا ممتاز اخلاق شرم کرنا ہے۔ بچے کی اخلاقی تربیت کا ایک اہم عنصر تصورِ حیا ہے۔ معاشرے کی مضبوطی ایسے اخلاق و کردار کے لوگوں سے وابستہ ہے جن کا کردار شرم وحیا کا پیکر ہو۔ جب پورا معاشرہ بے حیائی اور فحش مناظر سے بھرا پڑا ہو، چاروں طرف بے ہودہ ہورڈنگز، فحش رسالوں، اخبارات ، پوسٹروں کی بھرمار ہو اور سٹرکوں، گھروں، مجالس اور محافل پر شیطانیت کی یلغار ہو، لوگوں کی گفتگو حتیٰ کہ موبائل فون پر بھیجے جانے والے پیغامات تک بھی فحش گوئی کے چنگل میں گرفتار ہوں___ ایسے میں بچوں میں تصورِ حیا پیدا کرنا اور ابتدا ہی سے بچوں کے مزاج کا حصہ بنا دینا والدین و مربی کا اہم فرض ہے۔ حیا کے تصور کو مزاج کا حصہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ’احتیاطی تدابیرـ‘ اور پرہیزگاری کا اصول اپنایا جائے تاکہ بے حیائی کے قریب پائی جانے والی چیزوں سے بھی بچا جاسکے۔ بچوں کو ابتدائی عمر ہی سے حیا کا احساس دیں۔ گفتگو میں حیا بچہ جب پیارے اور اچھے الفاظ بولتا ہے تو کتنا پیارا لگتا ہے۔ اگر اسے صاف ستھرے اور بھلے الفاظ سکھائے جائیں تو کتنا بھلا معلوم ہوگا۔ لیکن یہی ننھی ننھی زبانیں گالم گلوچ، بے ہودہ گانے، ٹی وی اور فلموں کے لچر مکالموں کو ادا کرنے لگیں تو سماعت پر انتہائی گراں گزرتا ہے۔ رفتہ رفتہ یہ الفاظ جو معصومیت اور نا سمجھی میں ادا ہوتے ہیں بچوں کی گفتگو کا حصہ بن جاتے ہیں، اور ان کو ایسی بے ہودہ گفتگو میں لطف آنے لگتا ہے۔ عام طور پر نومولود بچوں سے پانچ سال تک کے بچوں کے بارے میں یہ سوچ کر کہ یہ بچے ناسمجھ ہیں ہر طرح کی بات، فحش گوئی، لچر مذاق، اور دوسری بد اخلاقیاں بغیر کسی شرم و حیا کے کرنا عار نہیں سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ تمام باتیں ننھے سے ذہن میں بیٹھ جاتی ہیں اور رفتہ رفتہ شخصیت کا حصہ بن جاتی ہیں۔ یوں تصورِ حیا پر جو کاری ضرب پڑتی ہے وہ ابتدا ہی سے بچے کو بے حیائی کی ترغیب دے کر بے باک بننے پر اُکساتی ہے۔ زبان کو پاکیزہ رکھنے کے لیے غیر اخلاقی گفتگو، ناشائستہ الفاظ، گالی گلوچ، غیبت و جھوٹ سے بچنا بہت اہم ہے۔ حدیث ہے کہ ’’انسان کوئی بات کرتا ہے اور اسے اتنا معمولی سمجھتا ہے کہ اسے کہنے میں کوئی حرج نظر نہیں آتا مگر درحقیقت وہ بدی ہوتی ہے، جس کے بدلے وہ ۷۰برس کی راہ تک آگ میں گر جائے گا۔ (ترمذی)۔ فضول گوئی کے علاوہ بچوں کو زبان کی آلودگی سے بچانا ہی دراصل زبان کو پاکیزہ بنانا ہے۔ زبان زد عام الفاظ بچہ سیکھتا ہی اپنے ماحول سے ہے۔ گھر کے بڑوں کی زبانوں پر بداخلاقی، بے ہودگی اور فحش گوئی بچے کو اس گندگی سے بے نیاز کردے گی۔ یوں بچہ ایسی ہی زبان کا عادی ہو جائے گا۔ شعور کی عمر آنے پر لڑکے اور لڑکیوں کو یہ بتانا بھی بہت ضروری ہے کہ خواتین مردوں سے اور مرد خواتین سے میٹھے، پیارے، لوچ دار لہجے میں بات نہ کریں۔ جب بچے اپنے ماں، باپ، یا دیگر رشتہ داروں کو دیکھتے ہیں کہ خواہ مخواہ ہی امی کی آواز بازار میں دکان داروں کے ساتھ انتہائی مٹھاس والی ہوجاتی ہے یا ابو جان ضرورتاً بھی کسی خاتون سے بات کرتے وقت بناوٹی تمیز اور شائستگی کی مٹھاس گھول لیتے ہیں، تو نوعمر ذہن اس تبدیلیِ لہجہ اور الفاظ کو اپنا کر دوسروں کو متوجہ کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاق کا حصہ بھی سمجھتا ہے۔ اسی لیے جب کبھی کوئی ایسا موقع آئے جہاں بچوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی خریداری یا کسی مرد و عورت ملازمہ سے بات کا مظاہرہ کرنا ہو تو بالخصوص اس بات کی تاکید کردی جائے کہ دکان دار کو اپنے مطلب کی چیز نکلوانے کے لیے اٹھلانا اور لاڈ دکھانا کسی طور بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔ ڈرائیور، ملازم، دکان دار، اساتذہ سے بات کرنے کا شائستہ طریقہ سکھانا اور مناسب لہجہ جس سے کسی بھی قسم کی دلی بیماری اور بدنیتی کا شائبہ نہ رہے، حیا کا اہم جز ہے جس کی تاکید قرآن میں سورۂ احزاب میں کی گئی ہے: ’’اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو‘‘ (۳۳:۳۲)۔ بلوغت کے بعد اس قرآنی آیت پر عمل کرنا اسی وقت آسان ہو گا جب بچپن سے اس کی عادت ہوگی۔ اسی لیے ایسی گفتگو جو ایمانی حالت کو تباہ کرنے کا باعث بنے اور شیطانی اثرات رکھتی ہو اس سے بچنا اور بچانا ایک مسلسل تربیت کا تقاضا کرتا ہے۔ لباس میں حیا لباس اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے اور حیا کے مظاہر میں سے ایک مظاہرہ لباس سے بھی ہوتا ہے۔ اس ضمن میں چھوٹے بچوں کے ساتھ عام طور پر بے حد لاپروائی اختیار کی جاتی ہے۔ بچوں کے کپڑے تبدیل کرنا، نہلانا، ڈایپر بدلنا جیسے تمام کام بعض اوقات لوگوں کی موجودگی میں کیے جاتے ہیں جس میں بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں کی موجودگی بھی نظرانداز کر دی جاتی ہے۔ بعض گھرانوں میں بچوں کو کپڑوں سے بے نیاز کرکے آزادانہ گھومنے پھرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اسی طرح چھوٹے بچوں کو مکمل برہنہ کرکے ایک ساتھ غسل کرنے کو بھی عار نہیں سمجھا جاتا ہے۔ بچیوں کو بچپن میں بغیر آستین اور کھلے گلے کی فراک و قمیص یا ٹانگیں کھلی رکھنے کو ایک عام فعل خیال کیا جاتا ہے۔ فقہا لکھتے ہیں کہ: چار سال سے کم عمر کا بچہ چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی، اس کا جسم ستر کے حکم میں نہیں۔ پھر جب وہ چار سال سے زیادہ کا ہو جائے تو اس کا مستور جسم شرم گاہ اور اس کے اطراف ہیں، بالغ ہونے پر ستر بالغ افراد کی طرح ہوگا۔ تاہم، بچے کو بچپن ہی سے پردے کا جتنا عادی بنایا جائے اتنا ہی اچھا ہے (اسلام اور تربیت اولاد، شیخ عبداللہ ناصح علوان، ص۷۱۵)۔ لہٰذا کپڑے تبدیل کرتے وقت ایسی جگہ کا انتخاب کرنا چاہیے جہاں کوئی نہ دیکھ رہا ہو۔ بعد ازاں جب بچے اپنا لباس خود تبدیل کرنے کے عادی ہو جائیں تو ان کو بھی یہی ہدایت کرنی چائیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ستر دکھانے والے اور یکھنے والے کو اللہ اپنی رحمت سے دُور رکھیں‘‘( شعب الایمان ۶؍۲۶۱ سنن بیہقی ۸؍۹۹) اگر ابتدا ہی سے بچوں کو اپنے جسم کو چھپانے اور اس کی حفاظت کرنے کی عادت نہیں ڈالوئی جاتی تو بچے بچپن ہی سے بے حیا اور بد نگاہ ہو جاتے ہیں۔ جن بچوں کو ہم اپنے شوق پورے کرنے کے لیے مغربی طرز کے ایسے لباس پہناتے ہیں جن میں ابتداء ہی سے ایک معصوم بچے کا تاثر ہونے کے بجائے حیا باختہ لڑکی یا لڑکے کا تصور پنہاں ہوتا ہے وہ دیکھنے والوں کو بھی اس معصوم کے اندر بچوں والی معصومیت کے بجاے لڑکا یا لڑکی تلاش کرنے کا موقع دیتا ہے۔ آئے دن اخبارات میں دل دہلا دینے والی خبریں آتی ہیں کہ درندہ صفت لوگ چھوٹی بچیوں کو بھی اپنی ہوس کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے۔ حیا کی پرورش اسی وقت ہی ممکن ہے جب اس کو بچے کے ننھے سے دل میں پروان چڑھنے کا موقع دیا جائے۔ فطری حیا کو ختم کرنے کے بجاے اس کو ابھارا جائے تاکہ حیا بچے کی شخصیت کا لازمی جز بن جائے۔ لہٰذا بچوں میں ایسے مرد و خواتین جن کے لباس حیا سے عاری ہوں دیکھنے پر، اس لباس سے نفرت اور نا پسندید گی کاجذبہ بیدار کیا جائے۔ ایسی گڑیاں (خصوصاً باربی) جن کے لباس اسلامی لباس کے لحاظ سے مناسب نہیں ہوتے، نہ دلائی جائیں، اور بچوں کو اس کی وجہ بھی بیان کی جا ئے کہ اس کا لباس اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق نہیں ہے۔ روز مرہ زندگی میں حیا حاکم اور ابو داود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’تمھارے بچے سات سال کے ہو جائیں تو انھیں نماز کا حکم دو،اور جب ۱۰ سال کے ہوجائیں تو ان کو مارو، اور ان کے بستر علیحدہ علیحد ہ کردو۔ اس نص سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ والدین شرعاً اس بات پر مامور ہیں کہ بچے جب ۱۰سال کے ہوجائیں تو ان کے بستر الگ کر دیے جائیں تاکہ ایک ساتھ لیٹنے کی وجہ سے کہیں ایسا نہ ہو کہ بلوغت کی عمر تک پہنچنے پر کبھی شیطان غالب آجائے اور ان کے جذبات کو شیطانی رنگ دے دے۔ اسی طرح خلوت کا ماحول فراہم کرنا جس میں کزن آپس میں بے تکلفانہ ماحول میں موجود ہوں، یا ایسے انداز و اطوار کا خیال نہ کرنا جس میں نامحرم رشتہ دار بچوں سے زیادہ بے تکلف نہ ہوں ، مستقبل کے مفاسد کا راستہ آسان کرتا ہے۔ احتیاط علاج سے بہتر ہے کا اصول اپنایا جائے تو ابتدا ہی سے ایک ایسا مزاج ڈھالا جا سکتا ہے جو اسلامی حدود کی پابندی کرنے والا ہوگا۔ ورنہ ایک خاص عمر میں پہنچ کر زور زبردستی کرنے سے بچے میں بغاوت، چڑچڑا پن پیدا ہوجاتا ہے اور وہ اپنے آپ کو قیدی تصور کرتا ہے۔ بے حیائی کے محرکات بچے کی نیک صالح تربیت کے لیے اسلام ان تمام محرکات کا بھی قلع قمع کرتا ہے جو جذبات کو مشتعل کرنے اور نفس کو غالب کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

ٹیلی وژن: بے حیائی کا ایک بڑا محرک ٹیلی وژن ہے۔ مادیت پرستی ، نفسانیت، اور بے مقصد زندگی کی طرف مائل کرنے والا یہ ایک اہم ذریعہ جس کے ابتدائی عمر سے ایسے زہریلے اثرات ہوتے ہیں کہ وہ پوری زندگی کا احاطہ کرلیتے ہیں۔ ٹی وی میں عورت کا تقدس پامال کرنے، اس کو جنس بازار بنا کر پیش کرنے سے مرد کے ذہن میں عورت لطف اندوز ہونے کی اور عورت کے ذہن میں اپنے آپ کو سجا بنا کر پیش کرنے کی چیز کا تصور راسخ ہوجاتا ہے۔ بچے کا ذہن ابتدائی عمر سے ہی ٹی وی کی سحرانگیزیوں میں اس طرح جکڑ گیا ہوتا ہے کہ اس کے لیے زندگی کا مثالی نمونہ صرف اور صرف ٹی وی میں دکھائی جانے والی زندگی ہوتی ہے۔ گانے بجانے سے رغبت، بے حیائی کے مناظر سے لطف لینا، فحش مذاق شخصیت کا حصہ بننے لگتا ہے اور سنجیدگی، متانت، غور و فکر جیسی عادتیں کبھی پروان نہیں چڑھتی ہیں۔ غوروفکر اور تدبر سے خالی اذہان کس طرح اپنے رب کی کبریائی بیان کر سکتے ہیں ؟ اسی وجہ سے ایسے بچوں کے لیے اسلام ہمیشہ ان کا احساس کمتری بنا رہتا ہے۔ کارٹونز کے نام پر عجیب الخلقت کرداروں سے مانوس کروانا، ان کو ہیرو کے طور پر پیش کرنا اور پھر غیر معمولی طاقت کا مالک دکھانا بچے کے ذہن کو اللہ کی طاقت اور واحدانیت کے تصور سے خالی کر دیتا ہے۔ بچے کی نظر میں جب کارٹونز کے یہ مناظر گزرتے ہیں کہ ایک ہیرو بے پناہ طاقت کا مالک ہے، ناقابل شکست ہے، اس کو موت نہیں آتی ہے، تو اس کے ذہن میں کیا تصویر بنے گی، اس کا اندازہ کرنا ذرا بھی مشکل نہیں۔ بچپن ہی سے روپے پیسوں کا لالچ اور مادیت پرستی کا تصور دے کر ایسے شیطانی ذہن تیار کرنا جو بعد میں دجالی قوتوں کے ہی زیر اثر رہیں آج کے میڈیا کا کام ہے۔ فلم، سنیما، سب اسی کی شاخیں ہیں، تاہم ٹی وی کی رسائی آج ہر گھر میں ہو چکی ہے اور اس کے زہر سے کوئی محفوظ نہیں، لہٰذا اس کی ہولناکی سے واقفیت خاص طور پر ضروری ہے۔ ٹی وی اسکرین کے سامنے وقت گزرنے کا ایمانی نقصان تو یہ ہے ہی کہ پوری شخصیت کی تعمیر اسی نہج پر ہوجاتی ہے جیسا شیطانی قوتوں کا مقصد ہے۔ تاہم، اس کے ضمنی اثرات میں بچے کے ذہن کا یکسوئی سے محروم ہوجانا، تعلیمی سرگرمیوں سے بددل رہنا اوردور بھاگنا، مطالعے کے شوق و ذوق کا پیدا نہ ہونا، ہروقت غیر سنجیدہ رہنا، اور hyperactivity بھی شامل ہیں۔

انٹرنیٹ: انٹرنیٹ دور حاضر کی اہم ترین ضرورت ہے۔ تعلیمی اور تحقیقی کاموں کے لیے اس کا استعمال ناگزیر ہوچکاہے، تاہم یہ ایجاد نوجوانوں کے طبقے میں بے حیائی اور فحاشی کا ذریعہ بھی ہے۔ عام طور پر گھروں میں ٹی وی تو کسی نمایاں اور کھلے مقام پر رکھا ہوتا ہے لیکن کمپیوٹر ہمیشہ گھر کے کسی کونے کھدرے اور خلوت کے ماحول میں رکھا جاتا ہے۔ یہ خلوت دراصل شیطان کا ہتھیار ثابت ہوتی ہے۔ کوشش کریں کہ کمپیوٹر گھر کے نمایاں مقام پر رکھیں جہاں ہمہ وقت کسی نہ کسی کی آمدورفت ہوتی رہے۔ بچوں کے ساتھ اعتماد کا رشتہ قائم کریں اور ان سے کمپیوٹر و انٹرنیٹ پر کی جانی والی سرگرمیوں پر تبادلہ خیال کے ذریعے ایک دوسر ے کو آگاہ کریں۔ انٹرنیٹ کے اوقات کار کو متعین کریں، ساتھ ہی ساتھ اس کے استعمال کو کسی اچھی کتاب کے مطالعے کی شرط سے بھی منسلک کر دیں تاکہ مطالعے کی عادت بہرصورت برقرار رہے۔ انٹرنیت و کمپیوٹر کی سرگرمیوں میں والدین جاسوس بننے کے بجاے دوست بن کر بچوں پر نگاہ رکھیں، تاہم جن امور پر سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہو وہاں بے جا نرمی معاملے کو بگاڑ دے گی، اس کا فوری حل بھی کیا جائے اور توجہ بھی دی جائے۔ کمپیوٹر کے کاموں سے اتنی واقفیت ضرور حاصل کر لی جائے کہ بچے آپ کو اس سے نابلد نہ سمجھیں۔ مغربی معاشرے کا ایک تصور پرائیوسی کا بھی ہے، بچوں کو اس تصور سے بچائیں، کیونکہ یہی گناہوں کی جڑ ہے۔ موبائل فون، انٹرنیٹ دونوں وہ زہریلے ہتھیار ہیں جن کو پرائیوسی کے نقطۂ نظر سے استعمال کرکے ’جو جی چاہے کرتے پھرو‘ کا اصول اپنایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ان دونوں اشیا کا انتہائی ضرورت کے تحت استعمال محدود کیا جائے اور خود بھی اس کو تفریح کا ذریعہ بنانے سے اجتناب کیا جائے۔

مخلوط محافل: مخلوط محفل سے مراد ایسی تقاریب یا مہمان داریاں ہیں جہاں مرد و عورت ایک ہی نشست میں گفت و شنید کرتے ہوں، اور ان میں آپس میں بے تکلفی اور بے پردگی کا عام مظاہرہ ہو۔ ایسی محفل بچے کو ابتدا ہی سے بے حیا بنانے میں مدد دیتی ہے۔ خاندان کے جن افراد سے پردے کا حکم قرآن و حدیث کی رو سے موجود ہے اس کا بھرپور اہتمام کرنا، محرم، نامحرم کی حدود کا قائم کرنا اورمیل ملاقات میں پردے کے اصولوں و ضوابط کا احترام کرنا ضروری ہے۔ کزنز کے نام پر بچوں کو بہن، بھائی بتا کر اس حد تک بے تکلف کردیا جا تا ہے کہ ساری اسلامی حدود پامال ہوتی ہیں۔ ایسے میں بچوں کو اسلامی اخلاقی حدود کا پاپند کرنا اور ان کو پردے کی اہمیت، غرض و غایت اور اس کے معاشرتی فوائد سے عقلی طور پر بھی قائل کرنا ضروری ہے تاکہ حجاب و ستر کے ایمانی تقاضے پورے ہوسکیں۔

موسیقی و فحش رسائل سے اجتناب: مطالعے کا شوق ذہنی نشوونما، سنجیدگی، فکروتدبر کی گہرائی کے لیے ازحد ضروری ہے۔ اس شوق کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کو ان کی ذہنی سطح کے لحاظ سے کتابیں اور رسائل کا مطالعہ کرنے کو کہا جائے۔ مطالعہ کی عادت ہوجانے کے بعد بچوں کو مطالعے کا ذوق پیدا کرنے کے لیے تربیت دی جائے اور مفید، بامقصد کتابوں کا انتخاب کرنے کو کہا جائے تاکہ مطالعے کا مقصد حاصل ہو سکے اور یہ صرف ایک ذہنی لذت نہ بن جائے۔ اکثر بچوں میں یہ رحجان پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ بغیر کسی رہنمائی کے مطالعے کا شوق اختیار تو کر لیتے ہیں، تاہم بعد ازاں یہ شوق انتہائی گھٹیا ذوق کے مظاہر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ فحش رسائل، بے مقصد کتابیں اور لایعنی قصے کہانیاں جن میں اخلاق سوز باتیں بھری ہوتی ہیں، ان سے ذہنوں کو پراگندہ کیا جارہا ہوتا ہے اور ساری شخصیت اسی گندگی کے اردگرد گھومتی رہتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دیکھی جانے والی چیز سے زیادہ اثرانگیز پڑھی جانے والی چیز ہوتی ہے یوں خیالات، تصورات اور گفتگو میں ایسی ہی شیطانیت کا اثر نمایاں نظر آتا ہے جو کہ ان کتابوں کا مقصد ہوتا ہے۔ لہٰذا بچوں کو مفید کتابوں کی طرف مائل کرنا والدین کا کا م ہے۔

اچھی صحبت: اچھے دوستوں کا انتخاب کرنا اور ان کی صحبت اختیار کرنا اپنے آپ کو درست رکھنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ دوستوں کا اثر انسان کی شخصیت پر ضرور پڑتا ہے۔ اسی لیے حدیث میں دوستوں کا انتخاب کرنے کے سلسلے میں بھی ہدایات ہیں کہ ’’انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے ‘‘۔ اچھی صحبت کی اجتماعیت ہی وہ بنیا د ہے جس کو اختیار کرنے کی دین اسلام نے تاکید کی ہے۔ بچوں کو اچھے دوست بنانے کی ترغیب دیں ان کے سامنے اچھے دوست کون سے ہوتے ہیں ، ان کا کردار کیسا ہونا چاہیئے اور وہ کیا کرتے ہیں کی تفصیل بتائیں تاکہ وہ اپنی پسند کو اسلامی معیار کے مطا بق بنائیں اور جو دوست بن چکے ہیں ان کا جائزہ بھی لیں۔ والدین اس ضمن میں بچوں کے دوستوں سے میل ملاقات ،ان کے گھروں میں آنا جانا ضرور رکھیں تاکہ دوستوں کے گھر کے ماحول اور ان کی عادت و خصلت سے واقفیت رہے۔ دوستوں کو اپنے گھر میں بھی جمع ہونے کا موقع دیں اور ان سے دوستانہ رویہ اپنائیں تاکہ دوستوں کی اخلاقی حالت بھی درست رہے اور آپ کے بچے کا بھی بھلا ہو۔ بہتر یہ ہے کہ بچوں کی کسی ایسی اجتماعیت سے منسلک کیا جائے جو کہ ابتدا ہی سے صحت مندانہ سرگرمیوں کے ذریعے بچوں کے اخلاق و کردار کو بھی سنوارنے کا کام کرتی ہو۔ فارغ اوقات کو اپنی قیمتی متاع جانتے ہوئے اگر والدین خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی اس کا مفید استعمال سکھائیں تو امت مسلمہ کا یہ گراں قدر سرمایہ باطل کے رنگ میں رنگنے سے بچ جائے گا.

مفید مشغلے اور دل چسپ سرگرمیاں: کہتے ہیں کہ فارغ دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے۔ جب کرنے کو کوئی مفید کام نہ ہو تو انسان اپنی توانائیاں بے کار کاموں میں صرف کرکے اپنی صلاحیتوں کو ضائع کرتا ہے۔ بچوں کو فارغ اوقات میں دل چسپ اور مفید سرگرمیوں کی طرف مائل کریں اور سہولیات فراہم کریں۔ باغبانی، کہانی لکھنا، مختلف مقامات کی تصاویر جمع کرکے البم تیار کرنا،اہم تاریخوں کے اخبارات کا ریکارڈ جمع کرنا، کسی خاص موضوع پر تحریریں جمع کرنا، پینٹنگ کرنا، ٹکٹ جمع کرنا ، بیت بازی کا مقابلہ کرنا، تقریریں کرنا، بچوں کا مشاعرہ منعقد کرنا، احادیث اور آیات سنانا، کہانی سنانے کا مقابلہ کروانا ، صاف ستھرے لطیفے سنانا مفید مشغلے ہیں۔ لڑکیوں کو مختلف ہنر جس میں سلائی کڑھائی، بنائی وغیرہ سکھانا تا کہ وہ ان کی اگلی زندگی میں بھی کام آئے۔ غرض یہ کہ بچوں کو بہت سی ایسی سرگرمیوں کے ذریعے وقت کا استعمال سکھایا جا سکتا ہے کہ جس سے وہ ٹی وی، کارٹون اور فلموں سے دور رہیں۔ اس طرح بچوں کی ذہنی نشوونما بھی ہوتی ہے اور ان کا ذوق بھی نکھرتا ہے۔ جسمانی سرگرمیوں کا انتخاب بھی اسی لحاظ سے موسم، جگہ اور جنس کو دیکھتے ہوئے کیا جا سکتا ہے۔ لڑکوں کو خاص طو ر پر کراٹے، تیراکی، گھڑ سواری کے مواقع ضرور دیے جائیں۔

بچوں سے حقیقی تعلق: مندرجہ بالا امور ایسے ہیں کہ اگر وہ اختیار کر لیے جائیں تو بھی اگر والدین کا اپنے بچوں کے ساتھ ربط دوستانہ نہیں ہے تو یہ ساری کوششیں رائیگاں چلی جائیں گی۔ والدین کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ تربیت کے سارے کام کوئی دوسرا سرانجام دے اور وہ بالکل فارغ ہو جائیں۔ ایسے میں اگر بچہ اللہ کی رحمت سے نیک و صالح ہوگیا تو اس کو تمغہ بھی والدین کے سینے پر ہی سج جاتا ہے، اور بدقسمتی سے معاملہ اس کے برعکس ہوگیا تو روتے رہتے ہیں کہ ہم نے تو بڑی کوششیں کی تھیں لیکن ہاے ہماری قسمت! اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کے ساتھ دوستی کی جائے ان کو اپنا صدقہ جاریہ سمجھا جائے اور ان کے لیے اپنے اوقات کار کو ترتیب دیا جائے جس میں والدین اور بچوں کا آپس میں تعلق بنے نہ کہ سارا رشتہ تعلقات کی بنیاد پر چلتا رہے۔ ارد گرد نظر دوڑائی جائے تو والدین اور بچوں کے درمیان صرف تعلقات کا رشتہ ہوتا ہے جس میں کوئی رمقِ تعلق کی نہیں ہوتی۔ بچپن میں والدین اپنی ذمہ داری یہی سمجھتے ہیں کہ اچھا کھانا، بہترین لباس، اور تعلیمی سہولیات مہیا کرکے ان کی ذمہ داریاں پوری ہو گئیں ہیں اور بڑھاپے میں یہی فصل اپنے بچوں کے ہاتھوں کاٹ کاٹ کر کھاتے ہیں جس میں بچوں کو بھی یہی تربیت ہوتی ہے کہ والدین کی خدمت اسی مادی حد تک محدود ہے۔ اپنے بچوں کی دل کی باتوں کو سننے کی عادت ڈالیں۔ ان کے روز مرہ کے کاموں کو ان کی زبانی سنیں، جس میں ان کے اسکول، کالج کا احوال ان کے دوستوں کی روداد، ان کی احمقانہ حرکتیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ غلط اور ناپسندیدہ باتوں پر فوری طور پر ردعمل ظاہر کرنے کے بجاے مناسب وقت میں اس کی اصلاح کی جائے۔ یہ وہ عوامل ہیں جن سے والدین اور بچوں میں دوستی کا رشتہ قائم ہوتا ہے۔ عمر کے نازک دور میں بچے اپنے والدین سے چھپ چھپ کر جو سرگرمیاں اختیار کر تے ہیں، اس کی آدھی سے زیادہ وجہ والدین کی اپنے بچوں سے ذہنی لحاظ سے دوری ہوتی ہے۔ بے جا سختی، ہر وقت لعن طعن، حد سے بڑھا ہوا پیار و محبت بچوں کو بگاڑنے کا سبب بنتا ہے۔ تعلق ہی رشتے کو قائم بھی رکھتا ہے اور مضبوط بھی لہٰذا اپنے بچوں سے تعلق قائم کیجیے کیوں کہ بچے آپ کی آخرت میں نجات کا باعث بھی ہیں، اور اُمت کا سرمایہ بھی.