مختار احمد جامعی
میں جب بھی کسی سلجھے ہوئے خوشحال نوجوانوں کو دیکھتا ہوں تو یقین ہوجاتا ہے کہ ضرور اس کا باپ صالح اور نیک آدمی ہوگا۔ فرمان الہی وََکانَ ابْوھْمَا صَالِحًا کی صداقت ہونے لگتی ہے۔ باپ اگر نیک ہو تو اس کا فائدہ دنیا ہی میں اس کی اولاد کو ہونے لگتا ہے۔ ڈاکٹر نبیل عوضہ کہتے ہیں کہ ’’مجھے جب نوافل کی ادائیگی میں سستی اور کاہلی ہونے لگتی ہے تو مجھے میرے بیٹے اور دنیا کی پریشانیاں یادآتی ہیں‘‘ کہیں نوافل کی ادائیگی میں میری سستی اور کاہلی میری اولاد کی پریشانیوں کا سبب نہ بن جائے۔ اپنی اولاد کو خوشحال زندگی اور دنیا کی پریشانیوں سے نجات دلانے کا ایک اہم ذریعہ ہماری صالحیت اور نیک بختی پر منحصر ہے۔ ہر شخص کی تمنا ہوتی ہے کہ اس کی اولاد نیک اور فرمانبردار ہو لیکن صرف خواہش سے کچھ نہیں ہوتا اس کے لیے اپنے آپ کو بھی نیک اور صالح بننے کی ضرورت ہے۔
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ جب رات میں نوافل کی ادائیگی کر رہے ہوتے سامنے اپنے چھوٹے بچے کو سویا ہوا دیکھ کر کہاکرتے تھے ’’من اجلک یا بنی‘‘ یہ تیرے روشن مستبقل کے لیے ہے اور روتے ہوئے وَکَانَ اَبْوھْمَا صَالِحًا کی تلاوت کرتے۔
سورہ کہف کے طویل واقعے سے بھی اس کی صداقت ہوتی ہے کہ باپ اگر نیک ہو تو اس کا فائدہ اس کی اولاد کو بھی ہوتا ہے۔
ڈاکٹر نبیل عوضہ کہتے ہیں کہ میرا ایک دوست ہے جو کویت میں ایک حکومتی ادارے میں اچھے منصب پر فائز ہے لیکن روزانہ چند گھنٹے فلاحی کاموں میں لگاتا ہے۔ میں نے کہا کہ تم اپنے کام میں زیادہ دلچسپی لو تو شاید تمہارا منصب اور مقام اور زیادہ ہوجائے گا۔ کہنے لگا: ’’جناب تم جانتے ہو کہ میں چھ بچوں کا باپ ہوں جن میں سے اکثریت میرے بیٹوں کی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ بے راہ روی کے شکار نہ ہوجائیں۔ جب سے میں نے ’کان ابوہما صالحا‘ کی تفسیر پڑھی ہے اپنی زندگی کا ایک حصہ فلاحی کاموں کے لیے وقف کردیا ہے اور میں اس کے بہترین اثرات میرے بیٹوں میں دیکھ رہا ہوں۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی اولاد نیک صالح اور فرمانبردار ہو؟ آپ اپنے آپ کو صالح اور نیک بنائیے اور اپنی زندگی کا ایک حصہ فلاحی کاموں میں لگائیے، اس لیے کہ اللہ بھی اس بندے کی مدد میں رہتا ہے جب تک کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے