عمران ظہور غازی
خوش آمدید، اے نیکیوں کے موسم بہار، تیرا آنا مبارک، تو پورے ایک سال بعد واپس آیا ہے اور تجھے ایک سال بعد ہی واپس آنا تھاکہ یہی نظام قدرت ہے اور جس طرح کائنات نظام قدرت کی پابند ہے تو بھی اسی طرح اس کا پابند ہے۔ اس ایک سال کے دوران میں کتنا کچھ بدل گیا ہے کتنے لوگ ہیں جو گزشتہ سال موجود تھے مگر اب موجود نہیںہیں اور کتنے ہیں جو اگلے سال نہیں ہوںگے۔یہ نظام اسی طرح چل رہا ہے اور چلتا رہے گا۔یہ ایک سال ہماری زندگی سے بھی تو کم ہو گیا۔زندگی کی ایک اور کڑی کم ہو گئی۔یہ سال اب واپس آنے کا نہیں۔جس طرح کمان سے نکلا ہوا تیر اور منہ سے نکلی ہوئی بات واپس نہیں ہو سکتی اسی طرح گزرا ہوا وقت واپس نہیں آ سکتا۔سورۃ العصر کی تشریح میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے عصر کا مفہوم واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ رحم کھائو اس برف فروش پر جس کا سرمایہ گھلا جا رہا ہے۔ہماری زندگی کا سرمایہ بھی ہر لمحہ گھُل رہا ہے۔اس سرمایہ زندگی کو گھُلنے سے روکا نہیں جا سکتا۔البتہ سرمایہ زندگی کو بہتر طور پر استعمال کرکے مفید اور کارگر بنایا جا سکتا ہے۔جتنا جتنا وقت کا یہ استعمال بہتر ہوتا جائیگا دنیا و آخرت کی زندگی فلاح و کامیابی سے ہمکنار ہوتی جائیگی ورنہ خسارہ ہی خسارہ اور نقصان ہی نقصان ہے۔
آنے والا رمضان یہی پیغام دے رہا ہے۔کہ اے انسان ! اپنے روز و شب اور سوچ و فکر کو بدل لے۔اپنے عمل کو سچی توبہ کے ذریعے خالص کر لے۔نیکیوں اور بھلائیوں کے حصول کے لئے کمربستہ ہو جا۔ جس طرح نبی مہربانﷺ رمضان المبارک میں کمرکس لیتے تھے تو بھی اسی طرح اپنی کمرکس لے ۔رمضان میں اللہ کی رحمتیں اور برکتیں اپنا دامن پھیلائے ہوئے ہیں اور رحمتوں اور برکتوں کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔کون ہے جو ان سے اپنا دامن بھر لے۔سرکش شیطان قید و بند سے دوچار ہیں۔وہ بدقسمت ہی ہوگا جو ان امکانات کو نہ سمیٹ سکے۔
اے انسان ! ایمان کا زادِراہ ، تقویٰ اور بلندی درجات کے تمام دروازے کھلے ہیں جس دروازے سے چاہوگزرکر ان کو حاصل کر لو۔ رمضان کی آمد آمد ہے گرمجوشی سے اس کا استقبال کرو، اپنے رب کے قرب کے لئے ،نبیؐ کے اسوہ پر چلنے ، اپنے عہد و پیمان پختہ کرنے اور سچی اور خالص توبہ کے ذریعے رمضان کی تمام ساعتوں میں فرائض ،نوافل، تہجد ، تراویح کی ادائیگی اور قرآن کی تلاوت سے دل کا زنگ دور کر لے۔نیکی کے ابلاغ اور برائی کے قلع قمع کے لئے مستعد ہو جا۔
نبیِ مہربان ﷺ کافرمان ہے کہ جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے۔اور حق تعالیٰ کی طرف سے ایک پکارنے والا پکارکرکہتا ہے :
اے طالب شر رُک جا اور اے طالب خیر آگے بڑھ (صحیح بخاری)۔
اسلامی عبادت محض پوجا پاٹ کا نام نہیں ہے۔ بلکہ ان میں دنیاوی کے ساتھ اخروی بھلائیاں بھی رکھی گئی ہیں اس لئے ایک مسلم معاشرہ کے رہنے والے مسلمانو ! ماہ رمضان تم پر سایہ فگن ہو چکا ۔یہ ارکان اسلام میں سے ہے۔ نہایت مخلصانہ جذبوں، سچی توبہ اور احترام و پاکیزگی کے ساتھ اس کا استقبال کرو۔اپنے روزوں کی حفاظت کرو۔ناپسندیدہ کاموں سے بچو، ذکر بجا لائو، آسمان و زمین پر دائمی غور و فکر کرو۔اور نماز تراویح و تہجد کے ذریعے انوار و تجلیات سے اپنا دامن بھر لو۔
روزوں کا مطمح نظر امتحان ہے کہ کون ہیں جواپنی خواہشات سے چمٹے رہتے ہیں اور کون ہیں جو اپنی ضروریات زندگی سے دستبردار ہوتے ہیں اور کتنے ہیں جو طبیعت ، مزاج اور سوچ و فکر میں تبدیلی کے لئے آمادہ ہیں اور تقویٰ کا راستہ اپناتے ہیں جو جتنی مشقت اٹھائے گا اجر بھی اتنا ہی پائے گا۔
رمضان میں ایسے بدقسمت بھی ملیں گے جو کسی معذوری و مجبوری کے بغیر روزہ نہیں رکھتے ۔یہ گستاخ اور گنہگار ہیں ۔اس پر ان کا محاسبہ ہونا چاہئیے ۔اسلام میں عبادات ٹیکس کے حکم میں نہیں آتیںمگر فرائض کی ادائیگی تو لازمی ہے اس کے بغیر تو اسلام کے دائرہ میں رہنا ممکن نہیں ہے ہاں اس کے ساتھ ساتھ اسلام نے رخصتیں بھی دی ہیں جو واقعۃً ان کی ادائیگی سے قاصر ہو اس کو معاف کر دیاجائے جو وضو نہیں کر سکتا تیمم کر لے۔جو اب روزے نہیں رکھ سکتا وہ بعد میں پورے کر لے۔جو قضا بھی نہ ادا کر سکے وہ مسکین کو کھانا کھلادے۔اور جو مسافر ہے وہ نمازوں کو جمع کر لے اور قصر کر لے۔اور اس کی مرضی ہے چاہے روزہ رکھے اور چاہے تو نہ رکھے۔موجودہ زمانے میں مسافرت اب وہ مسافرت نہیں رہی جو آج سے پچاس سال پہلے ہوتی تھی اب تو اے سی بسوں، گاڑیوں کے ذریعے سفر کی وہ سہولیات میسر ہیں جو اس سے قبل میسر نہ تھیں اور چودہ سو سال پہلے تو ان کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا تھا۔
نماز فرد کی تربیت کا کامل و اکمل ذریعہ اور پروگرام ہے اور روزہ نفس انسانی کو شہوات نفس سے نجات دلاتا ہے رمضان قرآن کا مہینہ ہے ۔رمضان کے آغاز میں قرآن نازل ہوا۔یہ کتاب انقلاب ہے جس کے ذریعے ۳۳سال کی مدت میں حضور نبی اکرم ؐ کی قیادت میں دنیا میں وہ انقلاب برپا ہوا جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔نبی اکرمؐ نے قران کی تلاوت سے جزیرۃ العرب کو سرنگوں کیا۔ایسے انسان تیار کیے جن کی مثال دنیا پیش کرنے سے قاصر ہے۔مولانا ظفر علی خاں کے الفاظ میں اب کہاں وہ مسلماں اگلے زمانے والے
گردنیں قیصر و کسریٰ کی جھکانے والے
بات کیا تھی کہ روما سے نہ ایران سے دبے
چند بے تربیت سے اونٹوں کے چرانے والے
جن کو کافور پہ ہوتا تھا نمک کادھوکا
بن گئے خاک کو اکسیر بنانے والے
اللہ کی یہ سچی کتاب آج بھی اپنی صحیح شکل میںہمارے پاس موجود ہے ماہ رمضان ہمیں یہ درس دیتا ہے۔کہ قرآن و سنت کے ساتھ وابستہ ہو جائو ۔اس میں تمہارے لئے فلاح و کامرانی ہے۔ یہ وقتِ عمل ہے قرآن اللہ کی مضبوط رسی ہے ۔یہ صراط مستقیم ہے۔ زبانیں اس کی تلاوت سے تھکتی نہیں ،اہل علم سیرنہیں ہوتے اس کے عجائب ختم نہیں ہوتے اور آج عالم یہ ہے کہ اس کے ماننے والے اس چراغ ہدایت سے بے بہرہ اور لاتعلق ہیں اور اغیار کے در کے بھکاری نظر آتے ہیں۔اگر اس کے ساتھ وابستگی اختیار کر لیں تو دنیا و مافیہا ان کے قدموں میں ہو۔
روحانی و جسمانی اور سماجی، روح کی صفائی اور پاکیزگی ،ارادے کی مضبوطی ۔تہذیب نفس ،عزم صمیم،صبراور برداشت روزے کے فوائد ہیں۔روزہ نہ رکھنے والے شیطانی وہم کا شکار ہو کر دھوکے میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور روزہ نہیں رکھتے۔ دور جدید کا مادیت زدہ انسان رمضان کی حکمتوں کو کیا جانے۔وہ تو وہم کا اسیر ہے ۔اس کو کوئی مرض ہے نہ معذوری، وہ یہ سمجھتا ہے کہ موسم بہت سخت ہے۔گرمی سخت ہے لُولگ جائیگی۔پیاس لگے گی۔تھکاوٹ ہوگی، کمزوری ہوگی اور بعض یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے حُسن میں فرق آ جائیگا اور وزن کم ہو جائیگا۔حالانکہ سارا وہم ہے جو اس کو لاحق ہے۔وہم کے سوا کچھ نہیں ہے روزہ روح کی بالیدگی کو عطا کرتا ہے اور جسمانی طور پر بھی صحت۔
رمضان ماہ جود و سخا ہے ۔نبیؐ مہربان اس ماہ مبارک میں اپنا مال اللہ کی راہ میں لٹاتے ۔ لوگوں کی سوچ و فکر دین سے ہٹ گئی ہے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں ۔مال موجود ہے مگر راہ خدا میں خرچ نہیں ہوتا۔بنک،بازار اور مارکیٹیں آباد ہیں مگر غربا کالونی پرسان حال نہیں ۔تمباکو نوشی ،گانوں کی CDA، کھابے، مہنگے مشروبات اور اس طرح کی فضولیات کا سلسلہ جاری ہے ۔آج کا معاشرہ سیکولر بن گیا ہے۔اگر انسان کا ضمیر بیدار ہو جائے اور دین کی تعلیمات سے آگہی ہو جائے تو انسان خود بخود اس راستہ پر آ جاتا ہے نتیجۃً گھراس کی طرف رمضان متوجہ کرتا ہے۔
رمضان المبارک رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے ۔جس میں نیکی اور بھلائی فروغ پاتی ہے اور بدی کے راستے مسدود۔ یہ شہر الصیام ہے یہ روزوں اور خصوصی عبادات کا مہینہ ہے۔یہ تقویٰ ،صبر اور قرآن کا مہینہ ہے ۔دعائوں،صدقات اور رات کو قیام کرنے کا مہینہ ہے۔
یہ ماہ مبارک آیا ہی چاہتا ہے آئیے اس کی بابرکت ساعتوں سے فیضیاب ہونے کے لئے ابھی سے کمر ہمت کس لیں۔کوئی نصاب اور شیڈول بنا لیں۔تاکہ بعد میں پچھتاوا نہ ہو۔ زندگی کا سفر تو جاری ہے اور اسے جاری رہنا ہے ۔فرض نمازوں کی ادائیگی تکبیر اولیٰ کے ساتھ ہو ،سنت و نوافل کا بھی خاص اہتمام ہو قرآن مجید کی ایک مرتبہ تو ضرور ہی تکمیل ہو۔حفظ کی طرف بھی توجہ رہے ۔پہلے سے جو حفظ ہے اس کو بھی پختہ کیا جائے ۔ذکر اذکار اورمطالعہ لٹریچر کا نصاب بھی بنایا جائے۔نماز تراویح ذوق و شوق سے ادا ہو۔سحری کے لئے تو لازماً اٹھنا ہے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تہجد کے لئے چند لمحے ضرور نکالے جائیں۔ افطاری کے اہتمام اور لیلۃ القدر کی تلاش اور اسی طرح اعتکاف بھی ہمارا منتظرہے۔دیکھیے کون کتنا فیض پاتا ہے۔ہر کوئی اپنی اپنی محنت اور جستجو کا پھل پائیگا۔جو جتنی محنت کریگا وہ اسی کے لئے ہوگی۔رمضان المبارک کا اصل تقاضا تو یہ ہے کہ اس سے نہ صرف خود جسمانی و روحانی بالیدگی حاصل کی جائے بلکہ پورے معاشرے کو رمضان کی فیوض و برکات سمیٹنے کیلئے تیار کیا جائے۔تاکہ نیکیوں کے اس موسم بہار سے پورا معاشرہ شاداب و فیض یاب ہو سکے