وہ اسلامی معاشرہ، جو مدینہ منورہ میں پہلی مرتبہ وجود میں آرہا تھا، اس کے لیے کئی اجتماعی احکام سورۃ البقرہ میں بیان ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی کچھ فرض عبادات کا ذکر ہے۔ دونوں قسم کے احکام، سورت میں ایک مجموعے کی صورت میں بیان کیے گئے ہیں۔ اور دونوں ’تقویٰ اور خشیت الٰہی ‘ سے مربوط ہیں۔ اجتماعی احکام ہوں یا عبادات کی تفصیلات، دونوں کے ذکر کے بعد تقویٰ کا ذکر یکساں طور پر اور مسلسل آیا ہے۔ نیز یہ دونوں قسم کے احکام آیت ’بر‘ کے بعد، جو ایمانی فکرکے بنیادی اصولوں اور عملی رویے کے بنیادی احکام پر مشتمل ہے، بیان ہوئے ہیں۔
اسی سلسلے کی آیات ۱۷۸ تا ۱۸۸ ہیں۔ ان میں مقتولین کے قصاص اور اس کے سلسلے کے احکام کا تذکرہ ہے۔ ان میں موت کے وقت وصیت کرنے کا بیان ہے، پھر فریضۂ صوم اور دُعا اوراعتکاف جیسی عبادات کا ذکر ہے، اور آخر میں مالی مقدمات کے سلسلے کے احکام ہیں۔
ان اُمور کا مسلسل ذکر اس دین کی جس حقیقت کی طرف ہمارے ذہن کو متوجہ کرتا ہے، وہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دین ایک ناقابلِ تقسیم وحدت ہے۔ اس کے اجتماعی احکام، اس کےتشریعی اصول اور اس کی عبادات، سب کے سب اسلام کے عقیدے ہی سے پھوٹتے ہیں۔ سب اس کُلی فکر سے، جو اس عقیدے سے پیدا ہوتی ہے، نکلتے ہیں۔ اور سب اللہ سے تعلق کی ایک رسّی سے بندھے ہوئے ہیں۔ ان سب کی غایت ایک ہے اور وہ ہے واحد اللہ کی عبادت، جس نے پیدا کیا، جو رزق دیتا ہے، اور جس نے انسانوں کو اپنی اس مملکت ’زمین‘ میں اپنا ’خلیفہ‘ بنایا اور ’خلافت‘ کو اس شرط کے ساتھ مشروط کیا کہ وہ اللہ وحدہٗ لاشریک پر ایمان لائیں، اس کی عبادت بجا لاکر اسی کی طرف متوجہ ہوں، اور اپنی فکر، اپنےاجتماعی احکام اور اپنے قوانین، سب اسی سے حاصل کریں۔
تقویٰ وہ مضبوط رسّی ہے، جو انسانی نفوس کو ظلم و زیادتی سے روکے رکھتی ہے۔ ظلم و زیادتی قتل کے اقدام کی صورت میں ہو، ظلم یا قتل کا بدلہ لینے کی صورت میں۔ یہ تقویٰ کیا ہے؟ دلوں کا احساسِ ذمہ داری، اللہ کے غضب سے بچنے کی فکر اور اس کی رضا اور خوشی کی طلب ہے۔
تقویٰ کے بغیر نہ شریعت قائم ہوسکتی، نہ کوئی قانون کامیابی سے ہم کنار ہوسکتا ہے۔ پھر اجتماعی قوانین اور ادارے، جو احساسِ ذمہ داری اور خوف اور اجر کے جذبات سے عاری ہوں، فرد کی قوت سے زیادہ قوت کے حامل نہیں ہوسکتے۔
یہ ایک فطری بات ہے کہ جس اُمت پر اللہ کے نظام کو دُنیا میں قائم کرنے، اور اس کے ذریعے نوعِ انسانی کی قیادت کرنے اور انسانوں کے سامنے حق کی گواہی دینے کے لیے جہاد فی سبیل اللہ فرض کیا جائے، اس پر روزہ فرض ہو۔ روزے ہی سے انسان میں محکم ارادے اور پختہ عزم کا نشوونما ہوتا ہے۔ روزہ ہی وہ ذریعہ ہے، جہاں بندہ اپنے ربّ سے اطاعت و اختیار کے ساتھ مربوط ہوتا ہے۔ پھر روزہ ہی وہ عمل ہے جس کے ذریعے انسان تمام جسمانی تقاضوں کی طلب پر قابو پاتا اور تمام دشواریوں اور زحمتوں کو اس لیے اُٹھاتا ہے، برداشت کرنے کی قوت حاصل کرتا ہے کہ اس کا خدا اس سے راضی ہو اور خدا کے یہاں سے اجر حاصل ہو۔
حقیقت میں یہ راہ جو گھاٹیوں اور کانٹوں سے بھری ہوئی ہے، جس کے چاروں جانب مرغوبات و لذائذ بکھرے پڑے ہیں، اور جس پر چلنے والوں کو بہکانے والی ہزارہا صدائیں مسلسل اُٹھتی رہتی ہیں ___ان سے منہ موڑنے اور فطری تقاضوں میں نظم و ضبط پیدا کرنے اور نفوسِ انسانی کی تیاری کے مقصد کے لیے یہ عناصر لازمی و ناگزیر ہیں۔
روزے کے وہ فوائد اس کے علاوہ ہیں، جو تجربے اور مشاہدے سے جسمانی وظائف میں منکشف ہوتے ہیں۔ میرا ذاتی میلان یہ ہے کہ عبادت کے سلسلے میں خدائی ہدایات کو حسی و مادی فوائد سے وابستہ نہ کیا جائے۔ کیونکہ ان ہدایات میں خدا کی اصل حکمت یہ ہے کہ انسانی وجود کو زمین میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیارکیا جائے، اور اُخروی زندگی میں اس کے لیے جو کمال مقدر ہے، اس کے لیے اس کی تربیت کی جائے۔
اس کے باوجود میں اسے پسند نہیں کرتا کہ ان فرائض اور ان خدائی تعلیمات کے جو فوائد مشاہدے میں آئے ہیں ، یا جن کا انکشاف علمِ انسانی سے ہوا ہے ، ان کا انکار کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کے لیے جو فرائض متعین کرتا ہے اور جن اُمور کی وہ ہدایت دیتا ہے، ان سب میں اس انسانی وجود کے لیے خدائی تدبیر کی بہت سی مصلحتیں ہیں، اور ان میں یہ فوائد بھی ہوسکتے ہیں۔ لیکن ہم خدائی احکام کی حکمت کو انسانی علم کے ان انکشافات سے وابستہ نہیں کرسکتے۔ اس انسانی علم کا دائرہ بہرحال محدود ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ، جس کے تحت خالق انسانی وجود کی تربیت کر رہا ہے یا جس کے تحت اس کائنات کو پروان چڑھا رہا ہے ___احاطہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ روزے کے احکام کی ابتدا ’’اے ایمان والو!‘‘ کی اس ندا سے کرتا ہے جو اہلِ ایمان کو محبوب ہے۔ اس ندا سے وہ انھیں ان کی اصل حقیقت یاد دلاتا اور انھیں بتاتا ہے کہ روزہ ایک قدیمی فریضہ ہے جو ہرخدائی شریعت میں اہلِ ایمان پر فرض رہا ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۱۸۳ۙ (البقرہ ۲:۱۸۳) اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا۔ اُمید ہے کہ تم خداترس بنو گے۔
اس آیت سے روزے کی عظیم غرض و غایت سامنے آتی ہے۔ یہ تقویٰ ہے! تقویٰ دل میں زندہ و بیدار ہو تو مومن روزہ کے فریضے کو اللہ کی فرماں برداری کے جذبے کے تحت، اس کی رضاجوئی کے لیے ادا کرتا ہے۔ تقویٰ ہی دلوں کا نگہبان ہے۔ وہی معصیت سے روزے کو خراب کرنے سے انسان کو بچاتا ہے، خواہ یہ دل میں گزرنے والا خیال ہی کیوں نہ ہو۔ قرآن کے اوّلین مخاطب جانتے تھے کہ اللہ کے یہاں تقویٰ کا کیا مقام ہے اور اس کی میزان میں تقویٰ کا کیا وزن۔ یہی ان کی منزلِ مقصود تھی، جس کی طرف ان کی روحیں لپکتی تھیں۔ روزہ اس کے حصول کا ذریعہ اور اس تک پہنچانے کا راستہ ہے۔ قرآن اس تقویٰ کو منزلِ مقصود کی حیثیت سے ان کے سامنے رکھتا ہے تاکہ روزے کے ذریعے سے وہ اس منزل کا رُخ کرسکیں: لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۔
قرآن، اس کے بعد، نفسِ انسانی کو روزہ سے مانوس کرنے کے لیے، واضح کرتا ہے کہ روزے ہمیشہ کے لیے اور عمربھر نہیں رکھنے ہیں، صرف چند دن کے روزے ہیں۔ اس کے ساتھ بیماروں کو___جب تک وہ صحت یاب نہ ہوجائیں اور مسافروں کو جب تک وہ مقیم نہ ہوجائیں روزہ نہ رکھنے کی رخصت ہے، تاکہ وہ دشواری میں نہ پڑیں۔
پھر اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ترغیب دیتا ہے کہ سفر اور مرض کے علاوہ ہرحال میں روزہ رکھیں، خواہ انھیں تکلیف اور مشقت سے دوچار ہونا پڑے:
وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۱۸۴ (البقرہ ۲:۱۸۴) تم روزہ رکھو، یہی تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم علم (وفہم) رکھتے ہو۔
روزہ ہر حالت میں سرتاسر خیر ہے۔ روزہ کے سلسلے میں جو بات کھل کر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ کہ روزہ ارادے کی تربیت، قوتِ برداشت کی تقویت اور راحت و آرام کے مقابلے میں اللہ کی عبادت کو ترجیح دینے کے لیے ہے، اوریہ سب اُمور اسلامی تربیت میں مطلوب ہیں۔ غیرمریض کے لیے روزے میں صحت کے پہلو سے جو فوائد ہیں، وہ مزیدبرآں ہیں۔ اس لیے خواہ روزہ دار کو تکلیف اور مشقت محسوس ہو، روزہ ہی اس کے لیے بہتر ہے۔
اللہ تعالیٰ تندرست اور مقیم کے لیے اس فریضے کی ادائیگی کو ایک اور پہلو سے بھی مرغوب و محبوب بناتا ہے۔ وہ یہ کہ یہ رمضان کے روزے ہیں۔ اس مہینے کے روزے جس میں قرآن نازل ہوا۔ وہ قرآن جو اس اُمت کی دائمی و ابدی کتابِ ہدایت ہے، جو اسے تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لائی۔ جس نے اسے یہ وجود عطا کیا، جس نے اس کے خوف و ہراس کو امن و امان سے بدل دیا۔ جس نے اسے زمین میں غلبہ و اقتدار بخشا اور جس نے اسے وہ تمام بنیادی عناصر عطا کیے، جن سے وہ ایک اُمت بنی۔ قرآن سے پہلے وہ کچھ بھی نہ تھی اور ان بنیادی عناصر کے بغیر وہ ایک اُمت نہیں رہتی۔ نہ زمین میں اس کا کوئی مقام رہتا اور نہ آسمان میں اس کا کوئی ذکر۔ قرآن کی اس نعمت کا کم سے کم شُکر یہ ہے کہ ہم اس مہینے کے روزے رکھیں جس میں قرآن نازل ہو:
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۰ۚ فَمَنْ شَہِدَ مِنْكُمُ الشَّہْرَ فَلْيَصُمْہُ۰ۭ (البقرہ ۲:۱۸۵) رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا۔ انسانوں کے لیے سرتاسر ہدایت۔ جس میں راہِ راست کے واضح دلائل اور (حق و باطل کے درمیان) فرق و امتیاز کرنے والی تعلیمات ہیں۔ تو تم میں سے جو کوئی یہ مہینہ پائے وہ اس (مہینے) کے روزے رکھے۔
قرآن اس فریضہ کی ادائیگی کا شوق دلاتے ہوئے اس حکم کے دینے اور رخصتیں عطا کرنے، میں اللہ کی یہ رحمت بیان کرتا ہے:
يُرِيْدُ اللہُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ۰ۡ(البقرہ ۲:۱۸۵) اللہ تمھارے لیےسہولت چاہتا ہے، تمھیں دشواری میں ڈالنا نہیں چاہتا۔
اس عقیدے اور اس دین کے تمام احکام کے سلسلے کا یہ ایک عظیم قاعدہ ہے کہ یہ سب احکام آسان ہیں، ان میں کوئی دشواری نہیں۔ ہر باذوق دل یہ بخوبی محسوس کرتا ہے کہ پوری زندگی میں یہ احکام سہولت اور نرمی کے حامل ہیں۔ یہی نہیں، یہ احکام مسلمان فرد پر سہولت اور فراخی کی چھاپ لگادیتے ہیں، جس میں کوئی تکلف اور پیچیدگی نہیں ہوتی۔ نرمی اور فراخی کی اس خصوصیت کے ساتھ تمام ذمہ داریاں، تمام فرائض اورسنجیدہ زندگی کی تمام سرگرمیاں حُسن و خوبی کے ساتھ اس طرح ادا ہوتی ہیں گویا کہ پانی اپنی گزرگاہ میں آسانی کے ساتھ بہہ رہا ہے، یا ایک درخت ہے جو اُوپر کی جانب بڑھتا اور نشوونما پاتا چلا جارہا ہے۔ اور یہ سب کچھ طمانیت ، اعتماد اور اللہ کی رضا و خوشنودی کی فضا میں ہوتا ہے۔ اس میں بندے کو اللہ کی رحمت کا مسلسل شعور رہتا ہے کہ اللہ اپنے مومن بندوں کے لیے سہولت پیدا کرتا ہے، انھیں دشواری میں ڈالنا نہیں چاہتا۔
روزہ درحقیقت ایک ایسی نعمت بھی ہے جس پر خدا کی بڑائی کرنا اور اس کا شکر ادا کرنا چاہیے:
وَلِتُكَبِّرُوا اللہَ عَلٰي مَا ھَدٰىكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۱۸۵ (البقرہ ۲:۱۸۵) اور تم اللہ کی کبریائی کا اعتراف کرو اس بات پر کہ اس نے تمھیں ہدایت سے نوازا۔ اور اُمید ہے کہ تم (اس کا) شکر ادا کرو گے۔
اس لیے کہ روزہ کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ اہلِ ایمان اس ہدایت کی قدروقیمت کا احساس کریں، جو اللہ نے انھیں عطا کی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ روزے کے زمانے میں اہلِ ایمان، ہرزمانے سے زیادہ اس ہدایت کی قدر و قیمت کو اپنے نفوس میں محسوس کرتے ہیں۔ روزے کی حالت میں ان کے دل خدا کی نافرمانی سے اور ان کے اعضاء و جوارح گناہ کے ارتکاب سے رُکے ہوتے ہیں۔ انھیں خدا کی ہدایت کا اس طرح زندہ احساس ہوتا ہے گویا کہ وہ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو رہے ہوں۔ اور یہ سب اس لیے کہ وہ اس ہدایت پر اللہ کی کبریائی کا اعتراف اور اس عظیم نعمت کی عطا پر اس کا شکر ادا کریں، اور روزے کےذریعے ان کے دل خدا کی طرف رجوع ہوں۔
اس تفصیل سے واضح ہے کہ روزہ، جو بظاہر جسم اور نفسِ انسانی پر شاق ہے، اللہ کی عظیم نعمت ہے، اور اس کی غرض اور مقصد مومن کی تربیت ہے، اور اُمت مسلمہ کو اس رول کے ادا کرنے کے لیے تیار کرنا ہے، جسے ادا کرنے کے لیے وہ برپا کی گئی ہے۔ اس رول کی ادائیگی کی حفاظت تقویٰ، اللہ کے نگران و نگہبان ہونے کے شعور اور ضمیر کے احساسِ ذمہ داری سے ہوتی ہے۔
قبل اس کے کہ روزے کے اوقات، اور روزے میں مختلف چیزوں سے متمتع ہونے اور ان سے باز رہنے کے تفصیلی احکام بیان ہوں، ہم درمیان میں ایک بڑی منفرد آیت پاتے ہیں۔ یہ آیت دل کی گہرائیوں میں اُترتی چلی جاتی ہے۔ اس آیت میں ہم روزے کی مشقت کا پورا اور اللہ کی دعوت پر لبیک کہنے کا پورا اجر پاتے ہیں۔ یہ جزا کیا ہے؟ اللہ کا قرب، اور اس کا ہماری دُعائوں کو قبول فرمانا۔ اس حقیقت کی تصویرکشی ایسے صاف شفاف اور چمکتے الفاظ سے کی گئی ہے:
وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَـنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ۰ۭ اُجِيْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۰ۙ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْا بِيْ لَعَلَّہُمْ يَرْشُدُوْنَ۱۸۶ (البقرہ ۲:۱۸۶)جب میرے بندے تم سے میرے بارے میں پوچھیں تو میں قریب ہی ہوں۔ میں پکارنے والے کی پکار کا، جب وہ مجھے پکارتا ہے، جواب دیتا ہوں۔ تو انھیں چاہیے کہ وہ میری پکار پر لبیک کہیں اور مجھ پر یقین رکھیں۔ اُمید ہے وہ راہِ راست اختیار کرسکیں گے۔
’’میں قریب ہی ہوں! میں پکارنے والے کی پکار کا، جب وہ مجھے پکارتا ہے، جواب دیتا ہوں‘‘ ___کتنی نرمی، کتنی شفقت، کتنی محبت، کتنا انس اور کتنا نُور ہے، ان الفاظ میں۔ اس محبت، اس شفقت اور اس قرب کے مقابلے میں روزے کی مشقت کی کیا حیثیت ہے؟ آیت کے ایک ایک لفظ سے یہ محبوب طراوت اور ٹھنڈک ٹپکی پڑتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بندوں کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے۔ میرے بندے نے کہا اور سوال کا جواب براہِ راست خود دیا۔ یہ نہیں فرمایا: ’’ان سے کہو، میں قریب ہوں‘‘۔ اس کے بجائے اللہ کی ذات گرامی نے سوال کرنے پر اپنے بندوں کو خود ہی جواب عطا فرمایا کہ ’’میں قریب ہوں‘‘۔ اسی طرح یہ نہیں فرمایا کہ ’’میں دُعا کو سنتا ہوں‘‘۔ اس کے بجائے قبولیت ِ ِ دُعا کا اعلان کیا کہ ’’میں دُعا کرنے والے کی دُعا کو، جب وہ مجھ سے دُعا کرتا ہے، قبول کرتا ہوں‘‘۔
یہ عظیم الشان آیت مومن کے قلب میں شیریں طراوت، انس و محبت، رضا و طمانیت اور اعتماد و یقین کو انڈیل دیتی ہے، اور اس کے نتیجے میں مومن کی زندگی اطمینان و سکون اور محبت و قربت سے لبریز ہوتی اور مومن کو ایک پُرامن جائے پناہ اور پُرسکون جائے قرار نصیب کرتی ہے۔
اس محبت، اس پُرخلوص قرب اور خدا کی طرف سے قبولیت ِ ِ دُعا کی اس بشارت کے سائے میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو متوجہ فرماتا ہے کہ وہ اس کی دعوت پر لبیک کہیںاور اس پر یقین رکھیں۔ اُمید ہے کہ یہ روش ان کی ہدایت و رُشد اور خیروصلاح کا ذریعہ بنے گی۔
اللہ کی دعوت پر لبیک کہنے اور اس پر ایمان و یقین رکھنے کا آخری ثمرہ بندوں ہی کے لیے ہے۔ یہ ثمرہ ہے رُشد و ہدایت اور خیروصلاح کا۔ ورنہ اللہ تو اہلِ جہاں اور ان کی عبادت و اطاعت سے بے نیاز ہے۔
اللہ پر ایمان و یقین اور اس کی دعوت پر لبیک کہنے سے جو رُشد پیدا ہوتی ہے ، رُشد بس وہی ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ نے نوعِ انسانی کے لیے جو خدائی نظام پسند کیا ہے وہ واحدصحیح، راست اور معتدل نظام ہے۔ اس کے سوا جو کچھ ہے وہ جاہلیت و حماقت ہے، جسے نہ کوئی سمجھ دار اور راست رو انسان پسند کرسکتا ہے اور نہ وہ رُشد و ہدایت کی طرف لے جانے والا ہے۔ اور اللہ کے یہاں سے بندوں کی دُعائوں کی قبولیت کی اُمیداسی وقت کی جاسکتی ہے، جب کہ بندے اس کی دعوت پر لبیک کہیں، اور راہِ راست پر گامزن ہوں۔ بندوں کا کام یہ ہے کہ وہ اللہ سے دُعا کریں، اور اس کی قبولیت کے سلسلے میں جلدبازی نہ کریں کیونکہ دُعا اپنے وقت پر ہی قبول ہوگی، جسے اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت متعین فرماتا ہے۔
ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت سلمانؓ سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اللہ تعالیٰ کو اس بات سے شرم آتی ہے کہ بندہ اپنے دونوں ہاتھ اس کے آگے پھیلائے، اور اس سے کسی بھلی چیز کا سوال کرے، اور وہ اس کے ہاتھوں کو خالی لوٹا دے۔
ترمذی اور مسند احمد میں روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
زمین کی پشت پر رہنے والا جو مسلمان بھی اللہ عزوجل سے کوئی دُعا مانگتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی مانگی ہوئی چیز دے دیتا ہے، یا اس جیسی کسی مصیبت کو آنے سے روک دیتا ہے، جب تک کہ وہ گناہ یا قطع رحم کی دُعا نہ کرے۔
صحیح مسلم میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بندے کی دُعا قبول ہوتی ہے جب تک وہ گناہ یا قطع رحمی کی دُعا نہ کرے، جب تک وہ جلدبازی نہ کرے۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسولؐ! جلدبازی کیا ہے؟ فرمایا: دُعا کرنے والا کہے کہ میں نے دُعا کی، اور پھر کی، لیکن مجھے نظر نہیں آرہا کہ میری دُعا قبول ہوگی۔ پھر وہ تھک کر بیٹھ جاتا ہے اور دُعا کرنا چھوڑ دیتا ہے۔
اور روزہ دار کی دُعا سب سے زیادہ قبول ہوتی ہے، جیساکہ امام ابوداؤد طیالسیؒ نے اپنی مسند میں اسناد کے ساتھ روایت کیا:
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا کہ انھوں نے فرمایا: روزہ دار کے افطار کے وقت اس کی دُعا قبول ہوتی ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن عمرؓ جب روزہ افطار کرتے تو اپنے اہل و عیال کوبلاتے اور دُعا کرتے۔
اور ابن ماجہ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
روزے دار کی دُعا ، جو وہ افطار کے وقت کرے، رَد نہیں ہوتی۔
اور احمد ، ترمذی ، نسائی اور ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تین اشخاص ہیں، جن کی دُعا رد نہیں ہوتی۔ عادل فرماں روا، روزہ دار، جب کہ وہ افطار کرے، اور مظلوم کی دُعا جسے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز بادلوں سے اُوپر اُٹھائے گا۔ اس کی دُعا کے لیے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’میری عزّت و جلال کی قسم! میں تیری ضرورمدد کروں گا، خواہ کچھ مدت بعد ہو‘‘۔
اسی لیے روزے کے بیان کے درمیان میں دُعا کا ذکر آیا ہے۔
روزہ رکھنے اور روزے کے دوران کھانے پینے سے باز رہنے کے حکم کے زیرسایہ ایک اور قسم کے کھانے کی ممانعت آتی ہے۔ اور وہ ہے’’لوگوں کے مالِ ناحق طور پر کھانا‘‘۔ اس کی شکل یہ ہے کہ عدالت میں مقدمہ دائر کیا جائے، اور قرائن و حالات اور دستاویزوں کے سلسلے میں حاکم کو مغالطہ میں مبتلا کیا جائے، پھر چرب زبانی اور حجت بازی سے اسے دھوکا دیا جائے، تاکہ وہ ان حالات کے مطابق فیصلہ کردے جو اس کے سامنے آئے ہیں، حالانکہ حقیقت واقعی اس کے خلاف ہے۔ یہ ممانعت حدود اللہ کے ذکر اور اللہ سے تقویٰ کی دعوت کے بعد کی گئی، تاکہ خشیت ِ الٰہی کا، جو اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کے ارتکاب سے انسان کو روکتی ہے، سایہ اور اثر برقرار رہے:
وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِہَآ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۱۸۸ۧ (البقرہ ۲:۱۸۸)
اور تم لوگ آپس میں اپنے مال ناحق طور پر نہ کھائو، نہ انھیں حکام کے پاس لے جائو تاکہ لوگوں کے مال کا ایک حصہ حق تلفی کرکے ہڑپ کرلو، جانتے بوجھتے۔
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ابن کثیرؒ نے لکھا ہے کہ یہ آیت ایک ایسے شخص کے سلسلے میں ہے جس کے پاس کسی کا مال ہو مگر اس ضمن میں کوئی ثبوت موجود نہ ہو، پھروہ انکار کردے کہ اس کے پاس کسی کا مال ہے۔ اور وہ حکام کے پاس جاکر مقدمہ بازی کرے، حالانکہ وہ خوب جانتا ہے کہ اس پر دوسرے کا حق ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ وہ دوسرے کی حق تلفی کررہا ہے، اور حرام کھارہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں ایک انسان ہوں۔ میرے پاس کوئی شخص مقدمہ لے کر آتا ہے تو ہوسکتا ہے کہ تم میں سے وہ شخص دلیل پیش کرنے میں دوسرے سے زیادہ تیز ہو اور میں (اس کے دلائل سے متاثر ہوکر) اس کے حق میں فیصلہ کردوں۔ تو اگر میں (غلطی سے) کسی مسلمان کا حق دوسرے شخص کو دے دوں، تو یہ اس کے لیے دوزخ کی آگ کا ایک ٹکڑا ہے، خواہ وہ اسے اُٹھا کرلے جائے یا اسے چھوڑ دے‘‘۔
اس طرح وہ انھیں ان کے اس علم کے حوالے کردیتا ہے، جو وہ اپنے دعوے کی حقیقت و اصلیت کے بارے میں رکھتے ہیں، کیونکہ حاکم کے فیصلے سے نہ حرام حلال ہوتا ہے اور نہ حلال حرام۔ حاکم کے لیے تو لازم ہے کہ وہ ظاہر کے مطابق فیصلہ کرے، اور گناہ اس شخص پر ہوگا جو حیلے بہانے کرکے غلط فیصلہ کرالے۔
اس طرح مقدمہ اور مال و دولت کا معاملہ بھی اللہ کے تقویٰ سے متعلق ہوجاتا ہے، جیساکہ قصاص، وصیت اور روزہ بھی تقویٰ سے متعلق و مربوط ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب اُمور کامل خدائی نظام کے جسم کے مختلف مربوط اعضاء و اجزاء ہیں اور یہ سب ایک ہی رشتے ’تقویٰ‘ سے مربوط ہیں۔ اس طرح خدائی نظام ایک وحدت کی شکل اختیار کرلیتا ہے، جس کے اجزاء کو متفرق اور ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں سے کسی ایک جزو کو ترک کر دینا اور دوسرے جزو پر عمل کرنا، کتابِ الٰہی کے ایک حصے پر ایمان اور دوسرے حصے کے انکار کے مترادف ہے اور انجام کے لحاظ سے یہ کفر ہی ہے۔