October 13th, 2024 (1446ربيع الثاني9)

خوش آمدیدرمضان المبارک

امام حسن البنا شہیدؒ

رمضان المبارک کی مناسبت سے امام حسن البنا شہیدؒ نے مختلف مواقع پر مضامین تحریرکیے جوجریدۃالاخوان ،مصر میں شائع ہوئے۔خواطررمضانیۃ کے نام سے مضامین کتابی شکل میں حال ہی میں شائع ہوئے ہیں ۔مذکورہ کتاب سے چندمنتخب مضامین پیش ہیں (ادارہ) اے خیر کے طلب گارآگے بڑھ !

رمضان ایک نادر موقع ہے جو سال میں صرف ایک دفعہ میسر آتا ہے ۔اب ہمارے اور اس کے مبارک مہینے کے درمیان چند دن ہی باقی ہیں ۔ یہ مہینہ شروع ہوتے ہی آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اللہ کے نیک بندوں پر مزیدبرکتوں کا نزول شروع ہوجاتا ہے۔اس ماہ مبارک کے شب وروزمیں اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں پر خصوصی نظر کرم فرماتا ہے،ان کی دعائیں قبول فرماتاہے ،اطاعت گزاروں کے ثواب کو دگنا کرتا ہے ،اور گنہگاروں اور خطا کاروں سے درگزر فرماتا ہے۔

نبی مہربانﷺ نے فرمایاہے :جب رمضان آنے لگتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، سرکش شیطانوں کو باند ھ دیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک منادی یہ آواز لگاتا ہے: اے بدی کے طلب گار !رک جااور خیر کے طلب گار!آگے بڑھ (بخاری )

ماہ صیام ایسے حالات میں طلوع ہورہا ہے کہ جب مسلمان گوناگوں مسائل کا شکار ہیں جن کا مقابلہ کرنا اللہ کی اس تائیدو نصرت کے بغیر ممکن نہیں ہے جس کا اس نے اپنے مومن بندوں سے وعدہ فرمایا ہے:

یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے ،زکوۃدیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے ۔اور تمام معاملات کا انجام کاراللہ کے ہاتھ میں ہے۔(الحج ۲۲۴۱)

آج مسلمانوں کے سامنے وادی نیل کا مسئلہ ہے،فلسطین وجزائر عرب کا مسئلہ ہے،برعظیم میں پاکستان ، ریاست حیدرآباداور ہندوستان میں مسلم اقلیت کے مسائل ہیں ۔ ان کے علاوہ یورپ اور افریقہ میں مسلمانوں کودرپیش لاتعدادمسائل ہیں ۔ ان گمبیھر مسائل سے نکلنا تائید خداوندی کے بغیر ممکن نہیں ،اور اللہ کی نصرت ،معصیت سے نہیں بلکہ اطاعت سے حاصل کی جاسکتی ہے۔

لہٰذا اس عظیم موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے کمر بستہ ہوجایئے۔ دلوں کو آلایشوں سے صاف کیجیے، اپنے نفس کو آمادہ کیجیے ، دل وجان سے رمضان کا استقبال کیجیے،کثرت سے توبہ واستغفار کا اہتمام کیجیے اور ہمیشہ اللہ کے ساتھ جڑے رہیے تاکہ اللہ آپ کے ساتھ رہے۔ جب اللہ آپ کے ساتھ ہوگاتو وہ آپ کی نصرت فرمائے گااور اللہ کی مدد شامل حال ہوتو کوئی آپ پر غلبہ نہیں پا سکتا۔ (۲جولائی۱۹۴۸ء)

عبادت کی حکمت۔

اسلام میں جو اعمال اور عبادت فرض یا واجب کی گئی ہیں،ان میں ایک حکمت پوشیدہ ہے۔دراصل اللہ تعالیٰ نے بندوں پر خصوصی مہربانی کرتے ہوئے ان کے وہی اصول و ضوابط مقرر فرمائے ہیں جو بندوں کی کامیابی اور سعادت دارین کا موجب ہیں ۔

اللہ تعالیٰ دربار میں قبول عبادت کا سب سے اہم اوربنیادی قاعدہ ، خلوص نیت اور حضورقلبی ہے۔ اگر عبادت کا بنیادی محرک رضاے الہیٰ نہ ہو تو نہ اس عبادت کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ثواب بلکہ حدیث نبوی کے مطابق:کتنے ہی روزہ دار ہیں جنھیں ان کے روزے سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ملتا۔

دوسرااصول یہ ہے کہاسلام عبادت گزاروں کو مشقت میں نہیں ڈالتابلکہ عبادت میں آسان شرائط کے ساتھ رخصت بھی فراہم کرتا ہے ۔ چنانچہ اگر کوئی بیمار ہے توو اسے روزے نہ رکھنے کی آزادی ہے، کہ تندرستی کے بعد رکھے یا اگر تندرستی کی امید نہیں ہے تو فدیہادا کرے (یہ بھی یاد رہے کہ بلاعذرعبادات سے محرومی ابدی محرومی ہے)

تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر ان تمام عبادات کے گہرے اثرات مرتب ہونے چاہییں۔یہ فرائض محض عبادت براے عبادت نہیں ، بلکہ اخروی فلاح کے ساتھ ساتھ دنیاوی زندگی پر ان کے اثرات وفوائدبھی ملحوظ رکھے گئے ہیں ۔اسلام نے کوئی ایسا عمل فرض نہیں کیا ، جس کے نتائج انسان کی عملی زندگی میں ظاہر نہ ہوں ۔ شریعت نے اگر کسی چیز کا حکم دیا ہے تو دوسرا سر خیر ہی ہوتا ہے اور بندوں کی زندگی پر اس کا براہ راست مثبت اثر ہوتا ہے، اور اگر کسی عمل سے منع کیا ہے تو اس کے لیے کہ وہ انسانی زندگی کے لیے ضرررساں ہوتا ہے ۔ ارشاد ربانی ہے :

(پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس پیغمبر، نبی امی(ﷺ) کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے ۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے ، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے ، اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندیش کھولتا ہے ، جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔( اعراف۷: ۱۵۷)

میں اسلامی حکومتوں سے گزارش کروں گا کہ وہ دیگر ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کی طرح رمضان کے مہینے میں روزہ نہ رکھنے والوں کے لیے بھی کڑی سزا مقرر کریں تاکہ کسی کو ماہِ مقدس کی حرمت پامال کرنے کی جرائت نہ ہو۔اس ضمن میں چند سرکاری محکموں سے اپنے ذیلی اداروں کو رمضان کے احترام پر مشتمل ایسی رسمی ہدایت جاری کردینا کافی نہیں ہے جس کی نہ پیروی کی جاتی ہے نہ مخالفت کرنے پر کوئی سزا ہی دی جاتی ہے۔ حکومت اپنی ذمہداری نبھاتے ہوئے اس حوالے سے ٹھوس اقدامات اٹھائے۔(۲۶ جولائی ۱۹۴۶)

نیکیوں کا موسمِ بہار

اسلام میں عبادت کی حیثیت ٹیکس یا جرمانے کی نہیں کہ جسے ادا کرکے کوئی بوجھ اتارنامقصود ہو،بلکہ اسلامی عبادات رب اور بندے کے درمیان ایک مقدس روحانی تعلق کی ایک علامات ہوتی ہیں۔ اس سے ان کے دلوں میں ایک سرمدی نور پیدا ہوتا ہے ، جو ان کے گناہوں، وسوسوں اور بندیشوں کے خاتمے کا سبب بنتاہے۔ سب سے بڑھ یہ کہ یہ انسان کی تکریم و عزت ہے کہ خاکی ہونے کے باوجود وہ ان عبادت کے ذریعے رب ذوالجلال کے ساتھ مناجات کر سکتا ہے ۔

رمضان کا مہینہ اطاعت وعبادات کا موسم بہار ہے ،جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ بندوں کے شب وروز کو مزین فرماتا ہے اور یہی اس مہینے کے حسن وجمال کا سبب ہے۔ اطاعت گزاری تو ہر وقت ایک مطلوب صفت ہے۔لیکن رمضان میں اس کی قدروقیمت اور حسن میں کئی گناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں عبادت کا ثواب اور قدر افزائی بہت زیادہ ہے لیکن اس مہینے میں تو اجروعطابے حساب ہوجاتی ہے۔ اس مہینے کی سب سے اہم عبادت روزہ ہے ۔فقہی اعتبار سے اگر یہ روزہ توڑنے والی چیزوں سے اجتناب کا نام ہے، تو روحانی اعتبار سے یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضااور اس کا قرب حاصل کرنے کو ،اپنے نفس ،فکر ،ارادہ اور اپنی سوچ وشعورکا محوربنانے کو کہتے ہیں۔

اس مہینے میں قرآن کے ساتھ خصوصی تعلق جوڑنا چاہیے اور کثرت سے کلام پاک کی تلاوت کرنی چاہیے کیونکہ یہ قرآن کا مہینہ ہے ۔ جبریل امین ؑ خصوصی طور پر رمضان میں آکر حضور پاک ؐسے قرآن سنتے تھے ۔ زندگی کے آخری برس آپؐنے دو دفعہ جبریل ؑ کو قرآن سنایا ۔یہ یہ وہی قرآن ہے جو صحابہ کرامؓ اور ہمارے اسلاف کے پاس موجود تھا۔ہم بھی اسی طرح پڑھتے اورسنتے ہیں جس طرح وہ سنتے تھے پھر کیا وجہ ہے قرآن نے اس طرح ہماری زندگی کو نہیں بدلاجس طرح صحابہ کرامؓ کی زندگی کو بدلا تھا ؟اس سے ہمارے اخلاق ومعاملات میں وہ تبدیلی کیوں نہیں آتی جو ان کی زندگی میں آئی تھی؟

یہ اس لیے کہ انھوں نے اس کتاب کو مضبوط ایمان کے ساتھ قبول کیا ،تدبر کے ساتھ اس کو پڑھا ، اس کے احکام کو نافدکیا اور اپنے آپ کو مکمل طور پر اس کے سپرد کردیا ۔آپ اور ہم بھی ان کی طرح بن سکتے ہیں اگر اس کتاب پر ان کی طرح ایمان لے آئیں ۔ ان کی طرح اس کے مطابق چلیں ،اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام مانیں ، اس کی آیات میں غور وفکر کریں۔ اس کے احکام کو نافد کردیں اور اس کے مطابق اپنی زندگی ڈھال لیں ۔ تو کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں ؟

کثرت سے صدقہ اور غریبوں اور مساکین کی مدد کرنا بھی اس مہینے کی امتیازی اعمال میں ہے ۔ نبی پاک ؐ جو دو سغحا کے پیکر تھے لیکن اس مہینے میں آپؐکی سخاوت تیز ہوا کی مانند ہوجاتی تھی ۔

اسی طرح دعا اور کثرت سے استغفار بھی اس ماہ کی خصوصی عبادات میں شامل ہے ۔ یہ دعا ؤں کی قبولیت کامہینہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ مانگنے والوں کے لیے دروازے کھول دیتا ہے ، اور توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرماتا ہے ۔اس مہینے میں روزے داروں کی دعا رد نہیں کی جاتی ۔ لہٰذا میرے مسلمان بھائیو!کہیں اس مہینے کی مبارک راتیں اللہ کی رحمتیں سمیٹے اور اس کی رضا حاصل کیے بغیر نہ گزرجائیں ۔

اس مشینی دور میں جب ہر وقت ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے ، اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کو روح کی تسکین کا سامان بنایا ۔ اس میں دن کو روزہ رکھ کر تمام دنیاوی لذتوں اور لغوکا موں اور باتوں سے اجتناب کیا جاتا ہے اور رات کواٹھ کر اللہ کے حضور طویل قیام اور تلاوت قرآن سے اپنے دلوں کو منور کیا جاتا اور روح کو تسکین پہنچائی جاتی ہے ۔لہٰذامیرے عزیزبھائیو!اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے ہی دن سے مضبوط ارادے کے ساتھ اس مدد سیمیں داخل ہوجائیے ۔ ہر وقت اپنی توبہ کی تجدید کرتے رہیے ۔ غور وفکر کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کیجیے ۔ اپنے نفس کو روزے کے فوائد سے روشناس کیجیے ۔ جتنا ممکن ہو قیام اللیل کا اہتمام کیجیے ۔ زیادہ سے زیادہ ذکر وفکرمیں وقت گزارئیے ۔ اپنی روح کو مادیت کے فتنے سے بچائیے اور کوشش کیجیے کہ اس ماہ مبارک سے متقی بن کر نکلیں ۔ (۱۷نومبر ۱۹۳۴ء)