ڈاکٹر رخسانہ جبیں
جنت سال بھر سے سجائی جارہی ہے۔کچھ بہت ہی معزز مہمانوں کے استقبال کی تیاریاں ہورہی ہیں۔یہ کون سا موقع ہے کہ جنت کے سارے دروازے کھول ہیے گئے ہیں اور فرشتے آواز لگا رہے ہیں :’’اے خیر کے طالب آگے بڑھ اور برائی کے طالب رک جا‘‘۔(ترمذی۔ابن ماجہ)
یہ کون سے دن ہیں کہ رحمت ،مغفر ت اور جنت کی سیل لگی ہے،آوازیں دے دے کر بلا یا جا رہا ہے کہ آؤ اپنے گناہ معاف کرالو۔
آؤ !کہ رب مہربان ہے اس سے جو کچھ مانگو گے عطا کرے گا۔رحمت کی موسلادھار بارش برسنے کو ہے اپنے اپنے دامن پھیلا لو جتنی رحمتیں اور برکتیں سمیٹ سکتے ہو سمیٹ لو!
آؤ کہ شیاطین باندھ دیے گئے ہیں۔’’دوزخ کے سارے دروازے بند کر دیے ہیں‘‘۔(متفق علیہ)
رب تمہارے قریب آنے کو بے تاب ہے تمھیں اپنا بنا نے کو تیار ہے ۔آگے بڑھو اس کے دامن رحمت ومحبت کو تھام لو ۔اس سے مانگ کر تو دیکھو ۔اس کے آگے جھک کر تو دیکھو۔یہ جھکنے کے دن ہیں یہ توبہ وانابت کے دن ہیں یہ رمضان المبارک کے دن ہیں ۔یہ برکت و رحمت کی راتیں ہیں۔
رمضان المبارک آیا ہی چاہتا ہے ۔آئیے کچھ سوچیں،کچھ طے کرلیں کہ رحمت و برکت کے اس بہتے دریا سے ہم کس طرح زیادہ سے زیادہ جھولیاں بھر سکتے ہیں کیسے زیادہ نیکیاں سمیٹ سکتے ہیں اور تیس دن کی اس مشق سے ہم کس طرح دھوکرپاک صاف کردار کی تعمیر کر سکتے ہیں۔
آئیے سوچیں ! مالک نے اپنے بندوں پر یہ روزے کیوں اور کس مقصد سے فرض کیے ہیں؟ہم وہ مقصد کس طرح سے حاصل کر سکتے ہیں؟
یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کون بد نصیب ہوتے ہیں جو ماہرمضان المبارک پاتے ہیں لیکن نہ رحمتیں سمیٹھتے ہیں نہ کردار کی تعمیر کر پاتے ہیں۔نہ رب کو راضی کرتے ہیں اور ہلاکت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ہر وہ کام جو حسنِ نیت سوچ بچار اور منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جاتا ہے اعلیٰ طریقے سے پایۂ تکمیل کو پہنچتا اور بہترین نتائج کا حامل ہوتا ہے آئیے !اس سال ہم بھی ایک منصوبہ بنائیں:
*استقبال رمضان کیسے کریں؟
*دوران رمضان خیر اور بھلائی کیسے سمیٹیں گے؟اپنے اندر سے ایک نیا انسان کیسے دریافت کریں گے؟
*بعد رمضان خود کو کیسے پر کھیں گے ؟کہ رب نے جو بنانا چاہاتھا ہم وہ بن پائے کہ نہیں؟
اور ایسا ہر سال تا عمر کریں گے یہاں تک کہ رب کے پاس پہنچیں تو وہ جنت کے سارے دروازے کھول کر فرشتوں کے جلو میں ہمارا منتظر ہو۔اللھم جعلنا منھم۔۔۔۔۔آمین۔جو نہی رمضان المبارک کا چاند نظر آئے رب کے آگے ہاتھ پھیلادیں۔ صلوٰۃ حاجت ادا کریں۔اس لیے کہ اس کی توفیق کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔
(’’اور تمھارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اللہ رب العالمین نہ چاہے)(سورۃ الکویر ۲۹)
رب سے رمضان کی ساعتوں میں برکت کی دعامانگیں۔صحت اور عافیت مانگیں تاکہ کوئی گھڑی لمحہ یا دن کسی وجہ سے ضائع نہ ہو۔وقت کے ضحیح استعمال کی توفیق مانگیں گناہوں سے مکمل طور پر بچننے کی کوشش میں اس سے مدد مانگیں،زیادہ عبادات ،زیادہ انفاق اور دیگر نیکیوں میں آگے بڑھ جانے کا جذبہ مانگیں۔
ا ستغفار کرنے والا دل اور ذکر کرنے والی زبان مانگیں ۔ تدبر قرآن اور مہمِ قرآن کی توفیق مانگیں۔
اور سب سے بڑھ کر اﷲ سے یہ دعا مانگیں کہ اے ہمارے رب !تونے روزے جس مقصد سے ہم پر فرض کیے ہیں اس مقصد پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرما اور ہمیں بہترین تقوی عطا فرما ۔اور وہ تمام دعائیں جو ماہِ مقدس کے حوالے سے دل میں ہوں ،مانگیں کہ رب مہربان ہے اور دینے کو بے تاب ہے۔
رمضان خیرو برکت کا مہینہ:
جب ہمارے رب کی رحمت پورے جوش میں ہوتی ہے ۔وہ رب جو ہر حال میں رحمان و رحیم ہے۔
جس کی رحمت ہر وقت دنیا میں پر چھائی ہوئی ہے۔لیکن اس خاص ماہ میں خاص رحمتوں کا نزول ہوتا ہے وہ رمضان کی ہر صبح اور ہر رات فرشتوں کو مقرر کر دیتا ہے جو آواز لگاتے ہیں:
’’اے خیر کی تلاش کرنے والے متوجہ ہو اور آگے بڑھ ،اے برائی کے طالب رک جا۔اس کے بعد فرشتہ کہتا ہے:ہے کوئی اس کی مغفرت چاہنے والا کہ اس کی مغفرت کی جائے ،ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ اس کی توبہ قبول کی جائے ،ہے کوئی دعا کرنے والا کہ اس کی دعا قبول کی جائے ،ہے کوئی سائل کہ اس کا سوال پورا کیا جائے‘‘۔
تصور کریں ،کوئی بہت بڑا بادشاہ ،بڑا سخی،بڑا مہربان منادی کر رہا ہے،بہت کچھ دینے کو بے تاب ہے، محل ودربار سجا کربیٹھا ،جنت مغفرت ہر چیز سستی کر دی ہے ۔رحمت اورمحبت سے منتظر ہے کہ اس کے غلام اس کے بندے ،عبادالرحمٰن اس کی طرف رخ کریں،ادھر متوجہ ہوں ۔ہیرے ،جواہرات ،تخت پوش ،اطلس ودیبا کے لباس ،سونے چاندی کے مکانات ،پھولوں سے لد ے باغات دودھ اور شہد کی نہریں ہیں اور حوریں اور غلمان ،طرح طرح کے کھانے ،خون سجائے،ساغوجام تھامے ،قطاروں میں استقبال کے لیے کھڑے ہیں۔ہے کوئی جو اس پکار پر کان دھرے ؟
’’رمضان میں اﷲ متوجہ ہوتا ہے اپنی رحمت خاص نازل فرماتا ہے ،خطاؤں کو معاف فرماتا ہے دعاؤں کو قبول فرماتا ہے ۔تمہارے تنافس کو دیکھتا ہے اور فرشتوں پر فخر کرتا ہے پس اﷲکو اپنی نیکی دکھاؤ،بدنصیب ہے وہ شخض جو اس مہینے میں اﷲکی رحمت سے محروم رہ جائے‘‘(طبرانی)
یعنی وہ مالک ارض والسموات عطاکر نے کو بے تاب ہے فرشتوں سے بھی یہ کہتا ہے کہ دیکھو میرے بندوں کا تنافس ،یعنی میرے بندے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔وہ میرے قرب کے لیے بے تاب ہیں۔وہ میرے بدامن سے چمٹ جانے کے لییایک دوسرے سے مسابقت کررہے ہیں ۔اور ایسا ہوتا ہے کہ
*کوئی زیادہ قرآن پڑھ لیتا ہے۔
*کوئی زیادہ دعا کر لیتا ہے۔
*کوئی انفاق میں آگے بڑھ جاتا ہے۔
*کوئی دوسروں کو دین سکھانے میں رات دن لگا دیتا ہے۔
*جنت کے سارے دروازے کھلے ہیں۔ہر دروازے کی طرف مومنین کی ڈور لگی ہے اور اپنے بندوں سے بے انتہا محبت کرنے والااﷲپیار،محبت ،شوقسے بے حدو حساب نعمتیں اور انعامات کی طرف آتا ہے!بھلاکوئی اس سے بدنصیب بھی ہوگا جومنہ دوسری طرف پھیر کر کھڑا ہو۔ جو دنیا کی چند روزہ زندگی کی طرف مگن ہواور اس کے کان اس کی پکار سے بہرے ہوں ،اس کے دل سوتے بند ہوں اس کی آنکھیں اس محدود زندگی سے آگے نہ دیکھ سکتی ہوں نہ رمضان کی حقیقت سمجھے ،نہ قدر کرے ،نہ محنت کرے ۔دنیا میں اس بد نصیب بچے سے زیادہ کون ہوتا ہے جس کی ماں اس کے لیے بانہیں پھیلا کر بیٹھی ہومگر اسے صرف کھلونے مطلوب ہوں اور ماں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے۔۔۔۔۔ بہت کوشش کے بعد ماں کہے گی :دفع ہو جا اب میری طرف نہ آنا ،دکھی ہوجائے گی،ناراض ہو جائے گی ۔
لیکن اﷲ تو بار بار بلاتا ہے ۔ہر سال بلاتا ہے۔طرح طرح سے ترغیبات دیتا ہے شاید بندوں کے دل میں کوئی بات اتر جائے۔اجر اتنا بڑا دیاکہ’’نفل کا اجر فرض کے برابر اور فرض کا اجر ستر فرضوں کے برابر۔(متفق علیہ)
آج کی دنیا میں لوگ’سیل‘کے لفظ سے اچھی طرح واقف ہیں جہاں دکاندار مال کی قیمتیں کم کر دیتے ہیں ۔بہت بڑی سیل ہو تو ایک کی قیمت میں دو اشیاء دے کر کہتے ہیں ’’لوٹ سیل‘‘
کسی نے سوچا ایک کے بدلے ستر ؟کوئی تصور کر سکتا ہے ؟
ایک ہزار کا صدقہ دو،ستر ہزار کا اجر لو ۔
ایک نیکی کرو،ستر کا بدلہ پاؤ۔
چار رکعت فرض نماز ادا کرو ،280نمازوں کا اجر پاؤ
ایک تسبیح (۱۰۰)کلمہ طیبہ کی کرو7000 کا اجر پاؤ،
اور خود روزہ۔۔۔۔اس کے اجر کی تو کوئی حد ہی نہیں۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا:’’ابنِ آدم کا ہر عمل اس کے لیے کئی گناہ بڑھا یا جاتاہے ،یہاں تک کہ ایک نیکی دس سے سات سو گناہ تک بڑھائی جاتی ہے،لیکن اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزے کا معاملہ اس سے جدا ہے،کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا ‘‘(متفق علیہ)
اس سے مراد یہ ہے کہ روزے کے اجر کی کوئی حد مقرر نہیں ہے ،اور اللہ جس قدر چاہے گاروزہ دار کو اس کا اجر دے گا ۔مراد یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ روزے کی بے حد وحساب جزا دے گا ۔ جتنے گہرے جزبے اور اخلاق کے ساتھ روزہ رکھیں گے اللہ تعالیٰ کا جتنا تقوی اختیار کریں گے روزے سے جتنے کچھ روحانی ودینی فوائد حاصل کریں گے اور پھر بعد کے دنوں میں بھی ان کے فوائد کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے ،اﷲ تعالیٰ کے ہاں اس کی جزا بڑھتی چلی جائے گی۔(کتاب الصوم :ص ۳۳)
اے اللہ کے بندو!اللہ نے ساری چیزوں کی سیل لگا دی ہے۔رمضان میں مفت میں مل رہی ہیں۔رحمت ،مغفرت او آتشِ دوزخ سے رہائی کا مہینہ بنادیا ہے۔پہلے ہی نیک تو پہلے دس دن میں ہی اس کی رحمتوں کے دریا سے سیراب ہو جائیں گے۔کچھ گناہ نامہ ء عمال میں ہیں تو دس دنوں کی عبادات اگلے عشرے میں اس کی مغفرت کا حقدار بنادے گے۔زیادہ گناہ گار ہیں تو بیس دن کی محنت وریاضت اور عبادت تو ضرور ہی آتش دوزخ سے رہائی پانے والے گروہ میں داخل کردے گی۔اور آخری دس دن گزرنے تک جنت کا کوئی دراوزہ پکار رہا ہوگا انشاء اللہ۔
آئیے اس رمضان میں ایک نیا اپنا آپ دریافت کریں:
ہمارے مالک اور پروردگار نے ہمارے لیے رمضان کو دنیا میں تعمیر سیرت کرنے اور ڈھیروں خیر وبرکت سمیٹنے کا ذریعہ بنایا ہے ۔آخرت میں لنت روزہ دوروں کی ضیافت کے لیے سال بھر سے سجائی جاتی ہے(جتنے اہم مہمان ہوں اتنے دن قبل تیاری شروع ہوتی ہے)
آئیے اس رمضان کو کچھ اس طرح گزرنے کی منصوبہ بندی کریں کہ اپنے اندر کی چھپی ہوئی صالحیت کو دریافت کریں۔اس کو قرآن کے ذریعے پروان چڑھائیں اور نیا صالح،پاکیزہ اللہ کا پیارا انسان بن کر دکھائیں۔
’’میں نے کبھی یہ نہیں سیکھا کہ حضور ﷺ نے کسی پورے مہینے کے روزے رکھے ہوں ،سوائے رمضان کے ۔اور میں نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ شعبان سے زیادہ کسی مہینے کے روزے رکھے ہوں‘‘(مروی حضرت عائیشہؓ متفق علیہ )
سحر سے لے کر افطار تک اور افطار سے لے کر اگلی رات سحری تک کے نظام الاوقات طے کریں۔نوافل ،تلاوت اذکار، دیگر کاموں میں کس وقت کون سا کام کرنا ہے اور کون سا ترک کرنا ہے اور رمضان کے معمولات میں سے نکال دینا ہے تاکہ کوئی گھڑی ضائع نہ ہو۔
رمضان سے مقصودتقویٰ پیدا کرنا ہے ۔آئیے ایک فہرست بنائیں کہ کون سے کام تقویٰ کے خلاف ہیں،کون سی عادات ہیں جنہیں ترک کرنا ہے ،ان پر خصوصی توجہ دیں۔اور کون کون سے اعمالِ صالحہ کر کے ر مضان میں نیکیوں کو پروان چڑھانا ہے۔
رمضان کے شب وروز:
رمضان کا مبارک دن ،بالکل فطرتِانسانی کے مطابق علی الصبحشروع ہو جاتا ہے،جیسے ہم سحری کا وقت کہتے ہیں ،جو اﷲ کے بندوں کا محبوب ہوتا ہے ۔رمضان کے علاوہ اس وقت میں اٹھنے والے اﷲکے خاص بندے ہوتے ہیں جنہیں یہ تو فیق ملتی ہے ۔لیکن رمضان میں یہ ہر مسلمان کی دستر س میں ہوتا ہے۔ سحری ک کھانے کو پیارے نبیﷺ نے مبارک کھانا کہا۔
’’حضرت عریا ض بن ساریہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رمضان میں رسولﷺ نے مجھے اپنے ساتھ سحری کھانے کے لیے بلایا اور فرمایا کہ آؤ مبارک ناشتے کے لیے‘‘۔(ابوداؤد،نسائی)
سحری کے لیے اٹھنا باعثِبرکت ۔۔۔۔لیکن کیا اسی پر بس؟ نہیں اس خیر و برکت اور ثواب کو بڑھانے کی منصوبہ بندی کریں ۔ جب اٹھنا ہی ہے تو کچھ دیر پہلے اٹھ جائیں اور ان لوگوں میں شامل ہونے کی کوشش کریں جو بغیر حساب کتاب جنت میں داخل ہوں گے ۔وہ کون خوش نصیب ہوتے ہیں؟ جو راتوں کو اٹھ کر تہجد پڑھتے ہیں ’’مستغفرین بالا سحار‘‘ ہیں۔سحری کے وقت اٹھ کر استغفار کرنے والے ہیں۔’’وہ عبادالرحمٰن ہیں (اﷲ انہیں اپنے بندے کہتا ہے۔بندے تو سبھی اس کے ہیں ،لیکن وہ اپنا کس کو بناتا ہے اور دورکن کو پھینکتا ہے ،یہ ہے فدویت اور محبوبیت کی بات )جن کی تعریف وہ کرتا ہے کہ وہ ولذین یبیتون لربھم سجداوقیاما(سورۃ فرقان 64 )’’ جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں روتیں گزارتے ہیں‘‘۔رمضان کے مہینے میں تو ہم کوشش کر سکتے ہیں کہ ہمارا شمار بھی ان خوش نصیبوں میں ہو جائے ۔کھانے سے قبل کچھ رکعت جتنی نصیب میں ہوں ،جتنا ممکن ہو ادا کریں اور سحری کی برکت میں اضافہ کریں اور جی بھر کر اﷲ سے دعائیں مانگیں کہ اس وقت اﷲ آسمان دنیا پر آیا ہوتا ہے اور آواز لگاتا ہے ۔رسولﷺ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ ہر رات کو جس وقت آخری تہائی رات باقی رہ جاتی ہے آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے :میں بادشاہ ہوں ،میں بادشاہ ہوں ،کون ہے جو مجھ سے دعا کرے اوراس کی دعا قبول کروں،کون ہے جو مجھ سے مانگے ،میں اس کو عطا کروں ،کون ہے جو مجھ سے مغفرت اور بخشش چاہے ،میں اس کو بخشش دوں۔یہاں تک کہ فجر روشن ہوجاتی ہے‘‘(بخاری ومسلم)۔اللہ کی اس آواز کو دل کے کانوں سے سنیں ،وہ دینے کو بے تاب ہے !ہمارے اندر کچھ لینے کی تڑپ ہے کہ نہیں ۔۔۔؟ہمارے دل زندہ ہیں یا نہیں؟ محض پیٹ پوجا ہی مقسود نہ بنائیں ۔روح کی پکار بھی سنیں ،اس کی صحت کی فکر بھی کریں،اس کی غذا کا اہتمام بھی کریں ۔اس کی غذا رجوو الی اللہ ہے،اللہ کا ذکر ہے،اللہ کے آگے رکوع وسجود ہیں!رمضان روح کی پرورش کا مہینہ ہے ،اس کو کہیں نظر انداز کریں۔
بعد سحری تا افطاری:
ایک معمول ،ایک چارٹ اپنی اپنی مصروفیات اور ذمہ داریوں کے حوالے سے بنالیں ۔ ملازمت پیشہ افراد ،تاجر حضرات ،مزدور حضرات ،خواتینِ خانہ ،ملازمت پیشہ خواتین۔۔۔سب اپنے اپنے اوقاتِ کار کے لحاظ سے اپنے اذکاروعبادت کا چارٹ بنائیں۔
جن کے پاس اوقات کی جتنی گنجائش ہو اس کے مطابق تلاوتِ کلام پاک ۔اذکار ،نوافل کے نظام الاوقات طے کیے جاسکتے ہیں،جو اشراق ،چاشت پڑھنے کی گنجائش پائیں رمضان میں اس سے محروم نہ رہیں ۔اس لیے کہ ایک ایک نفل کا اجر فرض کے برابر ہے،اور فرض کا ستر فرضوں کے برابر ۔جیسا کہ ہم نے اس سے قبل دیکھا ،کوشش یہ ہو کہ رمضان کاکوئی لمحہ ضائع نہ ہو، غفلت میں نہ گزرے۔بس سارا دن یہ ذہن میں رہے کہ مجھے حصولِ ثواب میں دوسرو ں سے آگے نکلنا ہے۔کہ اللہ تو تنا فس کو دیکھ رہا ہے،باہمی مقابلہ دیکھ رہا ہے ،باہمی مقابلہ دیکھ رہا ہے۔
ثواب کیسے بڑھنا ہے:
عبادات کو ان کی روحکے ساتھ ادا کریں خواہ نماز ہو ،ذکر ہو ،تلاوتِ کلام پاک ہو ،کوئی چیز جسمانی حکات،زبان اور حلق تک نہ رہ جائے وہ قلب میں اترے وہ عمل میں نظرآئے وہ میزان میں بھاری ہوجائے۔
جتنا اخلاص ہوگا ،جتنی قلب کی لگن ہوگی ،جتنی دل کی تڑپ ہوگی ،جتنی اللہ کی محبت اور رضا بنیاد میں ہو گی ،عبادت اتنی ہی بھاری اور باعثِ اجر ہوگی ورنہ نماز محض جسمانی ورزش بن کر رہ جائے گی اور روزہ بھوک پیاس بن کر۔معاملہ جس رب کے ساتھ ہے وہ ’’علیم بذات الصدور ‘‘ہے۔’’رتوف بالعباد ‘‘ بھی ہے۔ اپنے بندوں سے بے انتہا محبت کرنے والا ہے ۔فرماتا ہے:
’’اللہ تمہارے س ایمان کو ہر گز ضائع نہ کرے گا،یقین جانو وہ لوگوں کے حق میں نہایت شفیق و رحیم ہے۔‘‘(البقرہ :143 )
اس روح اس جذبے سے رمضان کی عبادت کریں ،ذکر سے زبان تر رکھیں ،دل کو حاضر رکھیں ،بکثرت استغفار کریں ۔اس فرمانِ نبوی کو یاد رکھیں:
’’چار چیزوں کی رمضان میں کثرت رکھو جن میں سے دو چیزیں ایسی ہیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو :وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے ۔اور دوسری چیز یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور آگ سے پناہ مانگو‘‘۔(فضائل رمضان)
ذکر میں خاص طور پر کلمہ طیبہ کا ورد کرنے کا حکم دیا۔۔۔احادیث میں کلمہ طیبہ کو افضل الذکر قرار دیا ۔کلمہ طیبہ اور استغفار دونوں پر غور کریں۔ایک جانب اللہ جل شانہ کی وحدانیت اور کبریائی کا اقرار اور دوسری جانب اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کا اعتراف ۔۔۔دونوں احساسات مل کر تقویٰ کی کیسی کیفیت پیدا کرتے ہو نگے،ایک مومن کی کود سپردگی ،عبدیت اور تعلق بااللہ کی کیفیت کتنی پروان چڑھتی ہوگی اس کا اندازہ وہی کر سکتے ہیں جنہوں نے اس روح کے ساتھ یہ اعمال کیے ہوں۔دل اللہ کی طرف متوجہ ہے،اپنے گناہوں اور کوتاہیوں پر شرندہ ہے زبان اس کی توحید مسلسل بیان کر رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اللہ سے مغفرت اور جنت کی دعا مانگی جارہی ہے اور اس کے عذاب اور دوزخ سے پناہ مانگی جارہی ہے،اور یہ عمل مسلسل جاریرہتا ہے۔۔۔چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے کام کرتے گھر کے اندر ہیں یہ گھر کے باہر ،جس حال میں ہیں قلب منیب ،قطب نما کی طرح اللہ کے ساتھ اٹکا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ روزہ ڈھال بنا ہوا ہے ہر طرح کے لغویات اور گناہوں سے انسان کو روکے ہوئے ہے سچ بتائیے ،کیا شان ہوگی ایسے عبد الرحٰمن کی اور اللہ کتنا اس کی طرف متوجہ ہوگا اور جنت کے کتنے دروازے اس کے لیے کھلیں گے ۔اللھم جعلنا منھم۔۔۔۔
عملی ذکر کی بہترین صورت نماز ہے ’’اقمالصلوۃ لذکری ‘‘ نماز ذکر بھی ہے رجوع الی اللہ کی بہترین مثال بھی ہے اور اللہ کے قریب کا بہترین ذریعہ بھی ۔فرض نمازیں اہتمام سے ادا کریں ،شوق سے ادا کریں ،ایسا نہ ہو روزے کی بھوک پیاس نمازوں کو کھاجائے ۔اللہ جو شوق و التفات بندوں کے ساتھ رکھتا ہے،رمضان میں اس کو نگاہ میں رکھ کر نمازیں ادا کریں اور اس سے نمازوں کا لطف اٹھائیں ۔اپنے درجات بڑھائیں ،کتنے؟جتنے بڑھاسکتے ہیں۔۔۔!رمضان میں اوپر جانے کی کوئی حد نہیں ہے یہ تو بندے اور اللہ کا معاملہ ہے۔
دوسری اہم بات اس ضمن میں یہ ہے کہ عبادت کا اصل مفہوم اور روح ہمارے سامنے واضح ہو تو ہر ہر عمل عبادت بن جاتا ہے۔اسلام میں عبادت ہی عبادت ہے ،اگر وہ مصلے سے اتر کر اور مسجد سے نکل کر بھی اسی خالق ومالک کی اطاعت کرتا ہے اور زندگی کے تمام میدانوں میں اسی کے بتائے ہوئے قوانین پر چلتا ہے۔
رمضان کے مہینے میں کلمہ طیبہ اور ذکر کے بعد دوسری جو چیز لازم پکڑنے کا حکم نبیﷺ نے دیا ہے وہ استغفار ہے۔استغفار کیا ہے؟ محض استغفر اللہ کی تسبیح کرنے کا نام نہیں ،یہ تو ندامت و توبہ کی قلبی کیفیت ہے جس کا اظہار انسان زبان سے اللہ سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگ کر کرتا ہے،ا ستغفار کا مقصد یہ ہے کہ جو گناہ ہو چکے ہیں ان کو یاد کر کے اللہ کے حضور گریہ وزاری کریں۔اس سے معافی مانگیں تاکہ وہ ہم سے راضی ہوجائے اور ہمیں ان گناہوں پر نہ پکڑے۔
فرمانِ نبویﷺ ہے : ’’خطا کار تو سبھی ہوتے ہیں لیکن بہترین خطاکار وہ ہیں جو بہت زیادہ توبہ کرنے والے ہیں ‘‘(ترمذی)
اور ہمارے حضور ﷺ تو خطاؤں سے پاک تھے پھر بھی دن میں ستر مرتبہ استغفار کرتے تھے۔رمضان تو ہے ہی توبہ استغفار کا مہینہ۔اس ماہ میں اللہ کی رحمت اور مغفرت اس کی دیگر تمام صفات پر حاوی ہوجاتی ہے۔اگرچہ استغفار ہماری ضرورت ہے پوری قوم کی ضرورت ہے،امت مسلمہ کی ضرورت ہے ۔امتِ مسلمہ کئی سو سال سے معتوب اور مغلوب ہے۔اللہ بندوں پر ظلم نہیں کرتا ،یہ ہمارے گناہوں پر ہی اللہ کی طرف سے پکڑ ہے۔ہم نے رخ اللہ کی طرف سے پھیر لیا اور دوسری اقوام کے پیچھے دوڑنا شروع کر دیا،اور اللہ نے ہمیں طرح طرح کی آزمائشوں میں ڈال دیا،ہم خسارے میں پڑ گئے۔لیکن اللہ تو بار بار یاد دلاتا ہے:آجاؤ میری طرف،پلٹ آؤ مجھ سے اسفغفار کرو۔
بطور امت،مسلمہ بھی ہمارا عہد لاالہ الا اﷲمحمد الرسول اﷲ۔اور قیام پاکستان کے وقت بھی ہم نے یہی نعرہ لگا کر الگ ملک حاصل کیا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اﷲ۔اورآزاد ملک حاصل کرنے کے بعد ہم نے اسے امریکہ کے پاس گروی رکھ دیا اور اس کی چاکری کرنے لگے اور اﷲاوررسولﷺکو چھوڑ کر اس کے احکامات کی پیروی کرنے لگے۔
’’اے لوگو!جو ایمان لائے ہو ،اگر تم ان لوگوں کے اشاروں پر چلو گے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے تو وہ تم کو الٹا پھیر لے جائیں گے اور تم نامراد ہو جاؤگے‘‘(سورۃآ ل عمران:149)
ہم نے کتنا خسارہ اٹھایا ۔۔۔!کاش ہم اس کا حساب لگا سکیں۔ہماری نسلیں یہودی و نصاریٰ اور ہندوؤں کے رنگ میں رنگ گئیں،برکتیں اٹھ گئیں ،گربت بٹھ گئی،دشمنوں نے غلبہ پالیا آتش وآہن کی بارش دن رات جاری ہے اور دریاؤں کے سوتے خشک ہوگئے ہیں ،ٖڈیم سوکھ رہے ہیں ،ظالم و جا بر حکمران مسلط ہوگئے ہیں ۔ہم نے اللہ کی طرف سے منہ موڑا تو اﷲ نے بھی بارشیں روک دیں ۔اپنی رحمتیں روک دیں ۔ہم آٹے اور دوسری ضروریات زندگی کو ترس رہے ہیں ! کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ یہ قوم انفرادی اوراجتماعی طور پر اللہ سے اسفغفار کریں۔اپنے 64 سالہ گناہوں کی معافی مانگیں ۔قومِ یونس ؑ کی طرح مانگیں تو چاروں طرف منڈلاتے ہوئے اﷲکے عذاب ٹل جائیں گے اﷲکی رحمتیں نازل ہوں گی،بارشیں برسیں گی اور رزق میں برکت ہوگی ۔جان لو کہ رزق اور برکات آئی ایم ایف ،ورلڈبینک اور مغربی اقوام کے پاس نہیں ہیں ۔زمین اور آسمان کے خزانوں کا مالک اﷲہے۔جن مسائل میں ہم اس وقت گھر چکے ہیں ان کا حل اﷲکی طرف پلٹنے اور استغفار میں پوشیدہ ہے۔رمضان میں قرآن میں ان حصوں کا خصوصی مطالعہ کرنا چاہیے جن میں جنت اور دوزخ کاذکر ہے تاکہ جنت کا شوق پیدا ہو اور اس کے لیے دعا مانگی جائے اور دوزخ کا خوف پیدا ہو اوراﷲ سے ہناہ مانگی جائے۔آج وقت ہے کہ ہم دوزخ کے عذاب سے بچنے کی محنت کریں۔
آئیے قرآن کی فہرست بنائیں کہ دوزخ میں جانے والوں کے کیا اعمال ہوتے ہیں اوررمضان میں ان سے پرہیز کرنے کی مشق اور عہد کریں اور بار بار اﷲسے دعا مانگیں۔’’اللھم اجرنی من النار‘‘ اور ’’رب اغفروارحم وانت خیر راحمین‘‘ اور جتنی دعائیں اس ضمن میں یاد ہیں بکثرت پڑھیں۔یاد نہیں تو زبان میں دعائیں مانگیں اور مسنون دعائیں یاد کرنے کی محنت کریں اور رمضان میں ضرور ہی آتشِ دوزخ سے رہائی حاصل کریں اور جنت میں داخل ہونے والوں میں شامل ہوجائیں۔آمین