مولانا محمد یوسف اصلاحی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ رمضان آنے سے پہلے آپؐ رمضان کے استقبال کے لیے لوگوں کے ذہن تیا ر کرتے تھے، تاکہ رمضان سے خاطرخواہ فائدہ اُٹھا سکیں۔ احادیث میں ایسے خطبوں کا تذکرہ آتا ہے جو خاص اس مقصد کے لیے، آپؐ نے رمضان کی آمد سے پہلے خطاب فرمائے ہیں۔ خاص طور پر وہ خطبہ تو بہت ہی طویل اور مشہور ہے جو شعبان کی آخری تاریخ کو آپؐ نے دیا ہے اور جس کے راوی حضرت سلمان فارسیؓ ہیں۔ فرمایا: ’’تم لوگوں پر جلد ہی ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے‘‘۔اس مہینے کی عظمت اور فضیلت کے مختلف پہلو پیش فرمائے۔ روزے کے فیوض اور برکات کا ذکر فرمایا اور اس طرح ذہنوں کو تیار کیا کہ اس سنہری موقعے سے پورا پورا فائدہ اُٹھانے کے لیے انسان پورے ذوق و شوق اور یکسوئی کے ساتھ کمربستہ ہوجائے۔
استقبالِ رمضان اور خود احتسابی
رمضان سے پوری طرح استفادے اور اس کی خیروبرکت کا واقعی مستحق ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اس کے لیے ذہن و فکر اور قلب و روح کو پوری طرح تیار کرلے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ رمضان کی پہلی رات چھانے سے پہلے انسان اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ سے بھی معاف کرائے اور اللہ کے بندوں سے بھی۔ وہ سنجیدگی سے سوچے کہ وہ خدا کے حقوق ادا کرنے میں کیا کیا کوتاہیاں کر رہا ہے، کن کن نافرمانیوں میں مبتلا رہا ہے اور اس کی زندگی کے بہترین اوقات کن خرافات میں گزرتے رہے ہیں۔ سچے دل سے توبہ کرے اور اللہ سے پختہ عہد کرے کہ: ’’پروردگار، جو کچھ ہوچکا ،سو ہوچکا۔ اب یہ تیرا بندہ تیرا وفادار رہے گا اور نافرمانیوں سے دامن پاک رکھنے کی کوشش کرے گا۔ اگر نمازیں قضا ہوئی ہیں تو رمضان کے دنوں میں ان کو ادا کرنے کی فکر کرے۔ اگر زکوٰۃ ادا کرنے میں کوتاہی ہوئی ہے تو اسی رمضان میں حساب لگاکر اداکرنے کا ارادہ کرلے۔ قدرے تکلیف اُٹھا کر جتنی ادا کرسکتا ہو ادا کرے، جو رہ جائے اللہ سے عہد کرے کہ رمضان کے بعد اہتمام کے ساتھ ادا کرے گا۔ بندوں کے حقوق کی ادایگی میں کوئی کوتاہی ہوئی ہو، کسی کو ناحق ستایا ہو، یا کسی کا دل دکھایا ہو، یا کسی کا نقصان کیا ہو تو یہ ان سب سے معافی طلب کرے اور جب تک یہ لوگ معاف نہ کریں، اطمینان کا سانس نہ لے۔ اس لیے کہ بندوں کے حقوق جب تک بندے خود معاف نہ کردیں اللہ معاف نہیں کرتا۔
اصلاحِ حال کے معاملے میں عام طورپر ایک اور کوتاہی بھی عام ہے، وہ یہ کہ جب بھی انسان پر نیکی کے جذبات چھانے اور نیکیاں کرنے کا داعیہ اُبھرتا ہے، تو ادھر نگاہ نہیں جاتی کہ وہ کن کن بڑے اور چھوٹے گناہوں میں مبتلا ہے،بلکہ اس کا ذہن کچھ نوافل و اذکار اور صدقات و خیرات کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور آدمی یہ سب کر کے اطمینان محسوس کرتا ہے کہ اس نے دین دارانہ زندگی اپنالی ہے اور فرماں بردار بندوں میں شامل ہوگیا ہے۔ حالانکہ اذکار و نوافل اور صدقات و خیرات کا اہتمام کرنے سے پہلے سوچنے اور کرنے کا کام یہ ہے، کہ وہ دیکھے کہ کن کن گناہوں میں وہ مبتلا ہے؟ کبیرہ گناہوں سے مخلصانہ توبہ کرے اور اللہ سے پختہ عہد کرے کہ آیندہ ان گناہوں کو جانتے بوجھتے کبھی نہیں دُہرائے گا۔ صغیرہ گناہوں سے بھی توبہ کرے۔ اگرچہ صغیرہ گناہ تو اللہ تعالیٰ نیکیوں کی برکت سے معاف کردیتا ہے، مگر کبیرہ گناہ وہ ہرگز معاف نہیں فرماتا۔ کبیرہ گناہ توبہ ہی کے ذریعے معاف ہوتے ہیں اور یہ توبہ ہی بندے کا وہ عمل ہے جس سے اللہ تعالیٰ انتہائی خوش ہوتا ہے۔
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ: ایک شخص ایک بے آب و گیاہ ریگستان میں سفر کر رہا تھا، اُونٹ پر اس کے کھانے پینے کا سامان لدا ہو ا تھا۔ ایک جگہ وہ سستانے کے لیے رُکا تو اتفاق سے اس کی آنکھ لگ گئی۔ آنکھ جب کھلی تو اُونٹ غائب، وہ اِدھر اُدھر دوڑا، اُونٹ کو تلاش کیا مگر اُونٹ کا کچھ پتا نہ چلا۔ اب وہ زندگی سے مایوس ہوگیا کہ اس بے آب و گیاہ ریگستان میں اس کا کھانا پیناسب کچھ اُونٹ پر لدا ہوا تھا اور اُونٹ غائب ہے۔ پھر اس کی آنکھ لگ گئی۔ اب جو آنکھ کھلتی ہے تو دیکھتا ہے کہ اُونٹ سامنے کھڑا ہے۔ اس نے اُونٹ کی لگام پکڑی اور خوشی کی انتہائی مدہوشی میں کہتا ہے: اے اللہ! تومیرا بندہ ہے اور میں تیرا رب! خوشی کی انتہا میں اُلٹا کہہ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو جب اس کا بھٹکا ہوا بندہ توبہ کے ذریعے واپس ملتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس اُونٹ والے بندے سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے۔(مسلم)
حقیقی توبہ کے تقاضے
رمضان سے واقعی فیض یاب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ بندہ رمضان آنے سے پہلے ہی توبہ کرلے، تمام گناہوں سے رُک جائے اور اللہ سے سچا معاہدہ کرے کہ اب وہ کبھی ان گناہوں کی دلدل کے قریب نہ جائے گا۔ توبہ کے سلسلے میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیےکہ انسان سارے گناہوں سے توبہ کرلے، خواہ وہ چھوٹے گناہ ہوں یا بڑے۔ یہ انداز صحیح نہیں ہے کہ کچھ گناہوں سے تو توبہ کرلے اور کچھ کے سلسلے میں اللہ سے معاملہ کرنے بیٹھ جائے کہ فلاں فلاں گناہ کچھ عرصہ اور کرتا رہوں گا یا صرف رمضان تک ان سے باز رہنے اور ان کو ملتوی رکھنے کا عہد کرتا ہوں۔ یہ آدھی پونی توبہ پسندیدہ توبہ نہیں ہے۔ اللہ بندے سے کہتا ہے کہ میں سارے گناہ معاف کردوں گا تو پھر اللہ کی معافی کو کچھ گناہوں کے حق میں اس لیے ملتوی رکھنا کہ ان سے ابھی اور لذت اندوز ہونے کی خواہش ہے۔ حقیقت میں یہ توبہ کی صحیح اسپرٹ نہیں ہے۔ سارے ہی گناہوں سے توبہ کرکے انسان کو چاہیے کہ خود کو اللہ کے حوالے کردے۔ اللہ کس پیار بھرے انداز میں اپنے بندے کو اپنے دربار میں معافی نامہ داخل کرنے کے لیے بلا تا ہے۔ قرآن میں ہے:
قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللہِ۰ۭ اِنَّ اللہَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ۵۳ (الزمر ۳۹:۵۳) (اے نبیؐ!) کہہ دیجیے اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتیاں کی ہیں، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ بے شک اللہ تمھارے گناہوں کو معاف فرما دے گا۔ وہ بڑا ہی معاف کرنے والا اور انتہائی رحم فرمانے والا ہے۔
اللہ تو کہے کہ میں سارے ہی گناہ معاف کردوں گا اور بندہ کچھ ہی گناہ معاف کرانے کا معاملہ کرے، تو یہ درحقیقت قلب کی صفائی کا وہ معاملہ نہیں ہے جو مطلوب ہے۔
توبہ کی تین شرطیں ہیں اور اگر بندے نے کسی انسان کا حق مارا ہے اور کسی کے ساتھ زیادتی کی ہے تو پھر چار شرطیں ہیں:
٭ پہلی شرط یہ ہے کہ گناہ سے پوری طرح باز آجائے۔
٭ دوسری شرط یہ ہے کہ واقعی اپنے گناہوں پر شرم سار ہو۔
٭ تیسری شرط یہ ہے کہ وہ پختہ عزم کرے کہ اب کبھی کسی گناہ کو دوبارہ نہیں کرے گا۔
٭ اور اگر بندے کا حق مارا ہے ، اس کی کوئی چیز ناحق لی ہے تو وہ اس کو واپس کرے، خواہ جس طرح کی چیز بھی ہو۔ اگر اس کو کوئی اور تکلیف پہنچائی ہے تو اس کو بدلہ لینے کا موقع دے یا یہ کہ وہ معاف کردے، اور اگر کوئی الزام لگایا ہے یا غیبت کی ہے، تو معاف کرا لے کہ بندے سے معاملہ صاف کرلینا توبہ کی لازمی شرط ہے۔
توبہ کے بعد ہی آدمی اس لائق بنتا ہے کہ وہ رمضان المبارک کاشایانِ شان استقبال کرسکے اور اس حال میں رمضان کا آغاز کرے کہ وہ فی الواقع رمضان سے فائدہ اُٹھانے کے لائق ہو۔ آپ کسی زمین میں اگر لہلہاتی کھیتی اور رنگارنگ مہکتے پھول کھلے دیکھنا چاہتے ہیں تو بیج ڈالنے سے پہلے زمین کے جھاڑ جھنکارصاف کرنا، اینٹ روڑے نکال باہر کرنا اور زمین کو پہلے نرم کرنا ضروری ہے۔ آپ سنگلاخ زمین میں یا جھاڑ جھنکار سے ڈھکی ہوئی زمین میں لہلہاتی کھیتی اور مہکتے پھول دیکھنے کی توقع پوری نہیں کرسکتے اگر واقعی یہ سنجیدہ خواہش ہے کہ دل کی سرزمین میں نیکیوں کی بہار آئے، تو دل کی سرزمین کو پہلے گناہوں اور اللہ کی نافرمانیوں سے پوری طرح صاف کیجیے۔ تب ہی توقع کیجیے کہ اس میں نیکیوں اور بھلائیوں کی بہار آئے گی اور آپ اس بہار سے فیض یاب ہوسکیں گے۔
اس پہلی شرط کو پورا کرنے کے بعد آپ اس لائق ہیں کہ اب رمضان کا استقبال کریں اور یہ آرزو کریں کہ رمضان کے فیوض و برکات سے اللہ تعالیٰ آپ کا دامن بھردے، اور پھر آپ اس تلقین، تشویق اور ترغیب کے واقعی مخاطب ہیں، جو اللہ کے سچے اور آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبوں میں رمضان کی آمد کے مواقع پر دی ہے۔ آپ ان خطبات کے مخاطب بھی ہیں اور آپ کا یہ حق بھی ہے کہ آپ رمضان کی برکتوں سے مالا مال ہونے کے لیے سعی و جہد کریں۔
شعبان سے ہی فکرمندی
ذہنی تیاری میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آپ رمضان کے سارے روزوں سے فیض یاب ہوں۔ کوئی ایک روزہ اور کسی ایک شب کی تراویح بھی آپ سے چھوٹ نہ جائے۔ اس لیے کہ رمضان کی کسی عبادت کے فیض سے محروم ہونے کے بعد اس کی تلافی ممکن نہیں ہے۔ اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے:
مَنْ اَفْطَرَ یَوْمًا مِّنْ رَمضَانَ مِنْ غَیْرِ رُخْصَۃٍ وَلَا مَرَضٍ لَمْ یَقْضَ عَنْہُ صَوْمُ الدَّھْرِ کُلِّہٖ وَ اِنْ صَامَہٗ (بخاری، ابی ہریرہ ، ترمذی، ابواب الجمعۃ، ابواب الصوم عن رسولؐ اللہ، باب ماجاء فی الافطار متعمداً، حدیث ۶۸۷) جس شخص نے رمضان کا کوئی ایک روزہ بھی کسی عُذر اور بیماری کے بغیر چھوڑ دیا، تو اس کی تلافی نہیں ہوسکتی، خواہ وہ زندگی بھر روزے رکھتا رہے۔
اسی لیے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی ہے کہ رمضان کا صحیح صحیح حساب لگانے کے لیے شعبان کی تاریخیں محفوظ رکھنے کا پورا پورا اہتمام کرو۔ آپؐ نے اُمت کو بھی یہ تاکید فرمائی اور خود بھی آپؐ کا یہی عمل مبارک تھا۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں:
قَالَ رَسُوْلُ اللہِ اَحْصُوْا ھِلَالَ شَعْبَانَ لِرَمْضَانَ (ترمذی،ابواب الصوم عن رسولؐ اللہ، باب ماجاء فی احصاء ھلال شعبان لرمضان ، حدیث ۶۵۵) فرمایا اللہ کے رسولؐ نے، شعبان کا چاند معلوم کرنے کا اہتمام رکھو، رمضان کی صحیح تاریخ معلوم کرنے کی خاطر۔
اور حضرت عائشہؓ کی شہادت ہے کہ آپؐ ایسا ہی کیا کرتے تھے:
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللہِ یَتَحَفَّظُ مَنْ شَعْبَانَ مَالَا یَتَحَفَّظُ مِنْ غَیْرِہٖ ثُمَّ یَصُوْمُ لِرُوْیَتِہٖ فَاِنْ غُمَّ عَلَیْہِ عَدَّ ثَلَاثِیْنَ یَوْمًا ثُمَّ صَامَہٗ (ابوداؤد، کتاب الصوم، باب اذا أغمی الشھر، حدیث: ۱۹۹۳) حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینے کی تاریخوں کو یاد رکھنے کا اتنا اہتمام فرماتے تھے کہ کسی اور مہینے کا اتنا اہتمام نہیں فرماتے تھے۔ پھر جب چاند نظر آجاتا تو روزہ رکھنے لگتے اوراگر بدلی چھائی رہتی تو پھر شعبان کے ۳۰دن پورے کرتے۔
روزہ اور حصولِ تقویٰ
اس ابتدائی اہتمام اور ذہنی تیاری کے بعد رمضان کی جن عبادتوں میں آپ دل کی لگن اور کامل شوق کے ساتھ لگیں گے، ان میں سب سے اہم روزہ ہے۔ روزہ فرض ہے اور اسلام کا ایک اہم رکن ہے۔ قرآن و سنت نے بھی اس کو فرض اور رکن قرار دیا ہے، اور اُمت کا بھی اس پر اجماع اور تعامل ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ (البقرہ ۲:۱۸۳) اے ایمان لانے والو! روزہ تم پر فرض کردیا گیا، جس طرح ان اُمتوں پر فرض کیا گیا تھا جو تم سے پہلے ہو گزری ہیں۔
كُتِبَ کے معنی ہیں: ’لکھ دیا گیا‘۔ یہ لفظ ’فرض کر دینے‘ کے معنی میں آتا ہے۔ یہ خطاب آپ ہی سے ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ آپ ایمان لانے والے ہیں۔ روزہ ایمان والوں پر ہی فرض کیا گیا ہے اور ان کے ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ اس فرض کا پورا پورا حق ادا کریں۔ پھر یہ روزہ صرف محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت ہی پر فرض نہیں کیا گیا، بلکہ قرآن کے فرمان کے مطابق پچھلی اُمتوں پر بھی فرض رہا ہے اور کسی اُمت کا نظام عبادت روزے سے خالی نہیں رہا ہے۔ قرآن کے اس اندازِبیان سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ انسان کی تربیت کے لیے ناگزیر ہے۔ اس لیے ہراُمت کے نظامِ عبادت میں روزہ لازماً شامل رہا ہے۔ روزے کا مقصود کیا ہے؟ اس کو بھی قرآن نے اسی آیت میں بیان کر دیا ہے:
لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ(البقرہ ۲:۱۸۳) تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔
یعنی یہ کہ روزہ تقویٰ پیدا کرنے کا ایک ناگزیر ذریعہ ہے۔ تقویٰ یہ ہے کہ انسان حرام چیزوں سے اجتناب کرے بلکہ بے زاری دکھائے اور حلال چیزوں کو نہ صرف اختیارکرے بلکہ جائز اور حلال چیزوں کا حریص ہو۔ اللہ کی عبادت، اطاعت اور فرماں برداری میں اسے لذت محسوس ہو، اور اللہ کی نافرمانی اور منکرات سے اس کا اندرون بے زار اور متنفر ہو۔ یہ کیفیت اور یہ جوہر ایمان پیدا کرنے میں روزہ اس قدر مؤثر اور کامیاب ہے کہ کوئی بھی دوسری عبادت اس کا بدل نہیں بن سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کی شہادت کے مطابق روزہ ہراُمت کے نظامِ عبادت میں لازمی جز کی حیثیت سے شامل رہا ہے۔
اب ،جب کہ ہم پر رمضان کا مبارک مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے ۔ اگر ہم اپنے روزوں سے واقعی جوہرِ تقویٰ حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں تو ہمیں چند چیزوں کا ضرور اہتمام کرنا چاہیے:
٭پہلی چیز یہ کہ ہم حلال روزی حاصل کریں۔ حرام کے قریب نہ پھٹکیں۔ سود، دھوکا، فریب اور حرام چیزوں سے قطعی اجتناب کریں۔ حرام روزی کے ساتھ کوئی بھی عبادت قبول نہیں اور کوئی بھی عمل، عمل صالح نہیں۔
٭دوسرے یہ کہ ہم اپنی زبان پر قابو رکھیں، زبان سے کسی کو تکلیف نہ پہنچائیں ۔ غیبت، چغلی، بدکلامی وغیرہ سے اپنی زبان کو محفوظ رکھیں اور اگر کوئی ہمارے ساتھ سخت کلامی کرے یا لڑنے جھگڑنے پر آمادہ ہو، تو ہم اس سے کہہ دیں کہ ہم روزے سے ہیں اور روزہ رکھ کر ہم یہ حرکات نہیں کرسکتے۔ ان حرکات سے زندگی کو پاک کرنے کے لیے ہی تو مَیں روزہ کا اہتمام کر رہا ہوں۔ مَیں روزہ رکھ کر یہ کیسے کرسکتا ہوں۔
٭تیسرے یہ کہ اگر ہمارے ذمےکسی کا کوئی مالی حق ہے یا کسی کا کوئی حق ہم نے دبا رکھا ہے، یا کسی پر کوئی زیادتی کی ہے یا کسی کا ہم پر کوئی قرضہ ہے، تو اوّلین فرصت میں صاحب ِ معاملہ کا حق ادا کردیں اور اگر ادا کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں تو اس سے مل کر معاملہ ضرور صاف کرلیں۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اپنا حق تو معاف کردیتا ہے، لیکن بندے کا حق اسی وقت معاف کرتا ہے جب بندہ خود معاف کردیتا ہے۔
قرآن سے خصوصی تعلق
رمضان المبارک کی دوسری اہم عبادت تلاوتِ قرآن ہے۔ قرآن کو رمضان سے خصوصی مناسبت بھی ہے۔ قرآن اسی مہینے میں نازل ہوا ہے:
اِنَّـآ اَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَيْلَۃِ الْقَدْرِ۱ۚۖ (القدر۹۷:۱) ہم نے اسی کو لیلۃ القدر میں نازل کیا ہے۔
اور یہ لیلۃ القدر یقینا رمضان المبارک ہی کی ایک رات ہے۔ خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی یہی ہے ۔ اس لیے کہ دوسری جگہ خود قرآن میں ارشاد ہے کہ:
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ (البقرہ ۲:۱۸۳) رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو‘‘۔ یہ ارشادات قطعی شہادت ہیں، اس حقیقت کے کہ قرآن مجید رمضان کے مہینے میں نازل ہوا۔
ایک اہم مناسبت قرآن اور رمضان میں یہ بھی ہے کہ روزہ انسان میں جوہرِ تقویٰ پیدا کرتا ہے اور یہی جوہرِ تقویٰ انسان کو اس لائق بناتا ہے کہ وہ قرآنِ پاک سے ہدایت پائے۔ ارشاد ہے:
ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ (البقرہ ۲:۲) یہ ہدایت ہے متقیوں کے لیے۔
قیامِ لیل، یعنی تراویح میں تلاوتِ قرآن، قرآن کی سماعت،قرأت اور قرآن سے شغف اور استفادے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ قرآن بغیر سمجھے پڑھنا اور سننا بھی باعث ِ اجروثواب اور قلب کو گرمانے کا وسیلہ ہے، لیکن اسی پر اکتفا کرنا ہرگز صحیح نہیں ہے۔ بہتر یہ ہے کہ آپ کسی ایسے حافظ و قاری کے پیچھے قرآن سنیں جو نمازِ تراویح کے بعد قرآن کے پڑھے ہوئے حصے کے بارے میں آپ کو کچھ بتا بھی سکے،اور خود بھی دن میں ترجمے سے قرآن پڑھنے کا اہتمام کریں۔ اگر اللہ کے فضل و کرم سے آپ عربی جانتے ہیں تو ضروری ہے کہ آپ ختم تراویح کے علاوہ بطور خود بھی تدبر اور غوروفکر کے ساتھ ایک بار قرآنِ پاک کا مطالعہ ضرور کریں۔
اعتکاف کا اہتمام
رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف بھی سنّت ہے۔ یہ سنّت مؤکدہ کفایہ ہے۔ کچھ لوگ ادا کرلیں تو سب کی طرف سے ادا ہوجاتا ہے اور اگر بستی کا کوئی آدمی بھی اعتکاف نہ کرے تو سب گناہ گا ر ہوتے ہیں۔ یہ اعتکاف پورے دس دن کا ہوتا ہے اور اگر ۲۹ کا چاند ہوجائے تو نودن کا رہ جاتا ہے۔ اعتکاف کے معنی یہ ہیں کہ رمضان کے پورے آخری عشرے میں آدمی اللہ کا ہورہے اور مسجد میں آکر پڑجائے۔ ذکروفکر، تسبیح و تہلیل، نماز و تلاوت، قرآن اور دینی کتب کا مطالعہ وغیرہ ہی اس کا مشغلہ ہو۔ اور ایک اہم عبادت صدقۂ فطر بھی ہے جو نمازِ عید سے پہلے ادا کیا جانا چاہیے۔