لیاقت بلوچ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: ’’اے ایمان والو! روزے تم پر فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ حاصل کر سکو۔‘‘
اللہ کے فضل و کرم سے ہم سب ایک بہت ہی با برکت، عظیم مہینے کا استقبال کرنے جا رہے ہیں یہ مہینہ روزہ، تراویح، تلاوت قرآن پاک، احتساب و جائزہ، مغفرت، جہنم سے چھٹکارہ اور صدقہ و احسان کا مہینہ ہے۔ جس میں جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ یہ اجر وثواب بڑھا کر دینے گناہوں کے معاف کرانے، دعاؤں کے قبول ہونے اور درجات کے بلند ہونے کا مہینہ ہے۔
رسول ؐ نے فرمایا کہ اگر بندۂ خدا کو معلوم ہوتا کہ رمضان کا مہینہ کتنی برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے تو وہ چاہتا کہ پورا سال ہی رمضان ہوتا اسی طرح آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’خوش بخت ہیں وہ لوگ جو اللہ کے لیے بھوکے اور پیاسے رہتے ہیں (یعنی روزہ رکھتے ہیں) یہ لوگ قیامت کے روز سیرو سیراب ہوں گے۔‘‘ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ اس ماہ مبارکہ کی نعمت سے ہمیں باربار استفادہ کا موقع ملاہے، لیکن جن فیوض و برکات کو حاصل کرنا چاہیے تھا وہ ہم اس طرح حاصل نہیں کر سکے۔ جس طرح نبی کریم ؐ نے ہمیں تلقین کی تھی یا صحابہ کرامؓ کا طریقہ رہا ہے۔
یہی وہ با برکت مہینہ ہے کہ جس میں انسان نیکیاں حاصل کرتے ہوئے کمال کی منزل تک پہنچ سکتا ہے اور پچاس سال سے زاید کا معنوی سفر چند ساعتوں میں حاصل کر سکتا ہے۔ یہ اصلاح اور نفس امارہ پر کنٹرول کی ایک فرصت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو رمضان المبارک کی صورت میں عطا کی ہے۔ بلاشبہ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں ایک مرتبہ پھر یہ ماہ مبارکہ نصیب ہو رہا ہے ورنہ تو کتنے لوگ ہیں جو گزشتہ سال ہمارے ساتھ تھے لیکن آج وہ اس دار فناء سے دار بقاء کی طرف منتقل ہو چکے ہیں۔ یہ خالصتاً ایک توفیق الٰہی ہے تاکہ انسان ان ایام میں اپنی خوش نصیبی پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اللہ کی بخشش طلب کرے۔ یہ مہینہ خود سازی کا مہینہ ہے تہذیب نفس کا مہینہ ہے اس ماہ میں ہم اپنے نفس کا بہترین تزکیہ کر سکتے ہیں۔ یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ یہ مہینہ تمام مہینوں کی مانند نہیں ہے جب یہ آتا ہے تو رحمت اور برکت لے کر آتا ہے اور جب جاتا ہے تو بخشش کے ساتھ جاتا ہے اس ماہ میں اللہ تعالیٰ ملائکہ کو حکم دیتا ہے کہ شیطان کو جکڑ دو تاکہ کوئی مومن اس کے وسوسوں کا شکار ہو کر برکتوں سے محروم نہ رہ جائے۔ یقیناًاگر کوئی مومن اس کے باوجود گناہ کرے اور اپنے نفس پر کنٹرول کرکے مغفرت نہ کرا سکے تو اس سے بڑھ کر تباہی اور بد بختی کیا ہوگی۔
یہ مہینہ جہاں انفرادی اصلاح، تزکیہ نفس اور عبادت کا تقاضا کرتا ہے وہیں خلق خدا سے محبت، ہمدردی اور خیر خواہی کا بھی متقاضی ہے اور سب سے بڑی خیر خواہی تو یہی ہے کہ انسانیت اپنے خالق کائنات کے بتائے ہوئے طریقہ زندگی کو نہ صرف خود اختیار کرے بلکہ دوسروں کو بھی بندگی رب کے راستہ پر لگایا جائے تاکہ وہ اپنے نفس کی بندگی کے بجائے ربّ کی خواہش و مرضی کے مطابق اپنی پوری زندگی گزار سکیں۔ رحمت،
مغفرت اور جہنم سے نجات کے اس با برکت مہینے کا اصل مطلوب ایمان و تقویٰ کا زادراہ حاصل ہو جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ان لاکھوں لوگوں کو جو روزے کے اصل تصور سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے بے مقصدیت کی زندگی گزار رہے ہیں، کو مقصد زندگی سے آشنا کر کے تحریک اسلامی کے دامن میں سمیٹنے اور جذب کرنے کے لیے عملی سرگرمیاں وضع کرنے کی پلاننگ کر لی جائے تاکہ اس ماہ کے ایک ایک لمحے کو قیمتی بنایا جا سکے۔ نبی ؐکا طریقہ تھا کہ آپ ؐ شعبان کے مہینہ سے ہی رمضان المبارک کی تیاری شروع کردیتے تھے اور لوگوں کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے۔ لہٰذا ارکان و کارکنان، مرد وخواتین، اجتماعی سطح پر استقبال رمضان کے پروگرامات ترتیب دیں اور عامۃ الناس کو اس ماہ مبارکہ کی اہمیت، حیثیت کا احساس دلائیں۔ اس مقصد کے لیے تحریکی زعماء کی تحریروں پر مشتمل پمفلٹ اور کتابچوں کو تقسیم کیا جائے اور انفرادی سطح پر بھی رمضان المبارک کی مکمل پلاننگ کی جائے۔ ذیل میں کچھ اہم اُمور کی جانب آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتاہوں۔
2۔ مطالعہ قرآن پاک
رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں قرآن عظیم الشان نازل ہوا۔ جہاں یہ مہینہ برکتوں، رحمتوں اور سعادتوں کا سنگم ہے وہاں اس ماہ رمضان کا رابطہ و تعلق نزول قرآن سے بھی ہے۔ قرآن شب قدر ہی کو لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اتارا گیا یہی وجہ ہے کہ نبی کریمؐ رمضان المبارک میں قرآن کی تلاوت کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔ سیدنا جبرائیل ہر سال ماہ رمضان میں آتے اور آپ کو قرآن کا دور کراتے۔ یہ قرآن کی تلاوت کے ساتھ ساتھ قرآن کو ازبر کرنے کا بھی مہینہ ہے۔
رسول اللہ ؐ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ روزہ اور قرآن بندے کے لیے قیامت کے دن سفارش کریں گے۔ روزہ اللہ سے کہے گا کہ اے میرے ربّ! میں نے اس کو کھانے پینے اور جنسی خواہش کی تکمیل سے روک دیا تھا لہٰذا تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما۔ اسی طرح قرآن مجید کہے گا کہ میں نے تیرے اس بندے کو رات سونے سے روک دیا تھا لہٰذا تو اس کے لیے میری سفارش قبول فرما اور ان دونوں کی سفارش قبول کی جائے گی۔
کوشش کریں کہ قرآن کو اس طرح پڑھا جائے کہ نہ صرف ہمارے اندر جذب ہوجائے بلکہ اس کے ساتھ قلب و روح کا تعلق گہرا ہوجائے اور دل و دماغ و جسم سب تلاوت کے کام میں شریک ہوجائیں۔ قرآن کے پیغام کو عام کیاجائے۔ تلاوت قرآن کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ قرآن کے پڑھنے کا حق ادا کیا جائے اور قرآن کا حق یہ ہے کہ اسے سوچ سمجھ کر صحیح مخارج سے پڑھا جائے اور پھر اس پر عمل کیا جائے اور اس کا ابلاغ کیا جائے، یعنی دوسروں کو بھی پڑھنے اور عمل کی ترغیب دی جائے۔
اسی طرح رمضان المبارک کی برکت سے قلوب اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، تعلق باللہ کی اس کیفیت سے استفادہ کرتے ہوئے مقامی سطح پر فہم قرآن کلاس کا اہتمام کیاجائے جب کہ دورہ تفسیر کے پروگرامات کے انعقاد اور ان میں شرکت کے اہتمام سے بھی روزہ کا اصل مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے۔
3۔ نماز با جماعت
انسانی زندگی میں اجتماعیت کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے، اسلام کے بنیادی مقاصد میں سے بھی ایک مقصد تمام بنی نوع انسان کو ملتِ واحدہ بنانا ہے۔
اسی لیے نبی مہربان ؐ کو ساری انسانیت کے لیے اور قرآن کریم کو تمام بنی نوع انسان کے لیے نازل کیا ہے۔ قومی وحدت اور اجتماعیت کو قائم کرنے کے لیے نماز با جماعت کا حکم دے کر ایک عملی تصویر قائم کی گئی ہے۔ نبی کریم ؐ نے اپنے عمل سے مسجد میں آکر نماز با جماعت ادا کرکے ہمارے لیے نمونہ چھوڑا ہے۔ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ؐ ہمارے درمیان موجود ہوتے مگر جب اذان ہو جاتی تو ایسے لگتا تھا کہ جیسے ہمیں پہنچانتے ہی نہیں۔ اپنی بیماری کے ایام میں بھی صحابہؓ کے کندھوں کے سہارے مسجد میں تشریف لے جا کر کے نماز با جماعت ادا کرتے۔ اپنے مرض الوصال کے آخری ایام میں امت کے نام اپنے پیغام میں فرمایا کہ میرے بعد اپنی نمازوں اور اپنے ماتحتوں کے حقوق کا خیال رکھنا اسی طرح نماز کو اپنے وقت پر ادا کرنے کی نصیحت بھی آپ ؐ نے اُمت کو فرمائی ہے۔ نماز با جماعت قائم کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ نماز کے تمام حقوق ادا کیے جائیں۔ نماز کے حقوق کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ اذان کے ساتھ ہی سب کام چھوڑ کر مسجد پہنچیں اور تکبیر تحریمہ کے ساتھ پہلی صف میں نماز ادا کرنے کی کوشش کریں۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کا فرمان ہے کہ: ’’جس شخص کو یہ بات پسند ہوکہ وہ مطیع و فرمانبردار بندے کی حیثیت سے روزِ قیامت اللہ سے ملے، تو اس کو پانچوں نمازوں کی دیکھ بھال کرنی چاہیے اور انہیں مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کرنی چاہیے۔ باقاعدگی کے ساتھ نمازِ تراویح کا اہتمام کریں۔ رات کے آخری تہائی حصے میں پڑھی جانے والی نماز تہجد بھی تقویٰ کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے، اس کا بھی التزام کرنے کی کوشش کریں۔ سحر سے ذرا قبل اُٹھ کر آپ بآسانی پورا ماہ صلوٰۃ اللیل کا اجر حاصل کرسکتے ہیں۔
4۔ عفو و درگزر
اللہ تعالیٰ کی یہ صفت ہے کہ وہ معاف کرنے والا اور زبردست درگزر کرنے والا ہے۔ اسی طرح نبی کریم ؐ کی ذات گرامی بھی صبر کرنے والوں میں سب سے افضل اور معاف کرنے والوں میں سب سے بہتر تھی۔ شہرٌ رمضان عفوودرگزر، بخشش و رحمت اور جہنم سے آزادی کا مہینہ ہے۔ جس طرح ہم خود اللہ سے معافی کے طلب گار ہوتے ہیں اسی طرح لازم ہے کہ ہم ستانے والوں کو معاف کردیں کیوں کہ ارشاد ربانی ہے کہ: ’’جس نے معاف کیا اور اپنی اصلاح کرلی اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ بلاشبہ وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ اسی طرح سورۃ النساء میں فرمایا گیا ہے کہ: ’’تم نیکی اعلانیہ کرو یا چھپ کر تم کسی کی زیادتی کو معاف کرو، بے شک اللہ معاف کرنے والا اور بدلہ لینے پر قادر ہے۔ بلاشبہ آپ کے ساتھ زیادتی کرنے والے کے لیے آپ کی معافی آپ کو اللہ کے قریب لے جائے گی اور اس کے بدلے بہترین اجر ملے گا۔ اس لیے اپنے دلوں کو صاف کیجیے اور ساتھیوں اور قرابت داروں کی فروگزاشتوں کو معاف کرکے قلبی تعلق پیدا کیجیے۔ کیوں کہ بے شک صبر اور معافی عظیم کاموں میں سے ہیں۔‘‘
5۔ افطار
رمضان المبارک میں افطار کا عمل جہاں حصول برکت کا ذریعہ ہے وہیں رابطہ عوام کاموقع بھی میسر آتا ہے۔ افطار کے پروگرام میں درس قرآن، درس حدیث، لیکچر وغیرہ کا اہتمام کریں۔ افطاری سے پہلے دعا سنت ہے اس لیے اس کا اہتمام کریں۔ فطار پارٹیوں کو کھانے پینے کی نمائش کے بجائے دعوتی عمل کو مہمیز دینے کا ذریعہ بنائیں۔ غرباء و مساکین کو افطار پارٹیوں میں ضرور دعوت دیں۔ پہلے افطار، پھر نماز اور آخر میں طعام کی ترتیب کو روا ج دیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ افطار سے قبل اجتماعی دعا ہو، نمازِ مغرب کے بعد درس /خطاب اور اس کے بعد کھانے کا اہتمام کیا جائے۔
6۔ اہم ایام
اسلام کے کئی اہم مراحل کو رمضان سے نسبت حاصل ہے۔ اہل ایمان دعوت کے ابلاغ کے لیے ان ایام کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنائیں۔
۱۰رمضان المبارک (یوم باب الاسلام ) ۱۷ رمضان المبارک (یوم غزوۂ بدر) ۲۷ رمضان المبار ک (یوم نزول قرآن) ۲۷ رمضان المبار ک ( یوم آزادی پاکستان)۔
۷۔ اعتکاف
رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف آپ ؐ کا معمول تھا۔ ایک سال بوجوہ ناغہ ہوا تو آپؐ نے اگلے سال بیس دن اعتکاف کیا۔
۔۔۔ رمضان المبارک مومن کی تیاری کا مہینہ ہے تاکہ بقیہ گیارہ مہینے شیطانی قوتوں سے لڑنے کی قوت فراہم ہو جائے۔ اعتکاف اس تیاری کا اہم جزو ہے۔
۔۔۔ اجتماعی اعتکاف اور شب بیداری کا پروگرام بنائیں اور ارکان، اُمیدواران رکنیت، زیر تربیت افراد اور کارکنان کو شوق دلا کر ایک مقام پر جمع کریں۔ مگر اس میں زیادہ فوکس فرد کی تیاری، آمادگی، شوق اور رضا کارانہ اسپرٹ کا ہونا چاہیے۔ اگر اس سرگرمی کو اچھی تیاری اور ترجیح کے ساتھ منظم کرلیا جائے تو یہ عین ممکن ہے کہ سال بھر کی افراد سازی اور تربیتی نصاب کے مطالعہ کے اہداف کو حاصل کرلیا جائے۔
8۔ انفاق فی سبیل اللہ
انفاق فی سبیل اللہ کو اس ماہ مبارکہ سے خاصی نسبت ہے۔ نماز کے بعد سب سے بڑی عبادت اللہ کی راہ میں خرچ کرناہے۔ نبی کریم ؐ سارے انسانوں سے بڑھ کر سخی تھے۔ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ: ’’آپ ؐ بارش لانے والی تیز ہواؤں سے بھی زیادہ سخاوت کرتے تھے۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ: سخی اللہ تعالیٰ سے قریب، لوگوں سے قریب، جنت سے قریب اور جہنم سے دور جب کہ کنجوس اللہ تعالیٰ سے دور، لوگوں سے دور، جنت سے دور اور جہنم سے قریب ہوتا ہے۔ اسی طرح جاہل سخی اللہ تعالیٰ کو کنجوس عبادت گزار سے زیادہ محبوب ہوتا ہے۔ سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے صدقہ فطر کو فرض قرار دیا ہے تاکہ روزے فضول، لغو اور بے ہودہ باتوں سے پاک ہوجائیں اور مسکینوں کو کھانے پینے کا سامان میسر آئے۔ صدقہ فطر عید کی آمد سے پہلے ہی ادا کرنے کی کوشش کریں تاکہ غرباء ومساکین بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں۔