عبدالعلیم خطیب
مسلمانوں کے لیے اللہ کی طرف سے جو بہترین نعمتیں ملی ہیں، ان میں سے ایک عظیم نعمت رمضان المبارک کا مہینہ بھی ہے۔ یہ مہینہ خیروبرکت اور اللہ کی رحمتوں کا خزانہ لیے ہوئے ہرسال ہم پر سایہ فگن ہوتا ہے اور بخشش و مغفرت کے پروانوں کو دُنیا بھر میں رحمت کا خزانہ تقسیم کرتا ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے، جو ہم سب کے لیے اسوہ، آئیڈیل اور نمونہ ہیں، عملی طور پر اس ماہِ مبارک کو جس طرح گزار کر دکھایا ہے وہی مبارک طریقہ ہم سب کے لیے مشعلِ راہ ہے اور اسی پر ان سارے فضائل کا ایک مسلمان مستحق ہوسکتا ہے، جن سے احادیث کا دامن بھرا پڑا ہے۔
آیئے! ذرا ہم بھی دیکھیں کہ رسولِ کریم ؐ اس ماہِ مبارک کو کس ذوق و شوق سے گزارتے تھے؟
۱- رمضان المبارک کی اہمیت اور تیاری
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک رمضان المبارک کی بہت زیادہ اہمیت تھی۔ آپؐ مہینوں پہلے سے اس کے لیے تیاریاں شروع کر دیتے تھے:
٭جب رجب کا مہینہ شروع ہوتا تھا تو آپؐ کا جذبۂ شوق بڑھ جاتا تھا۔ اللہ سے دُعائیں شروع کر دیتے تھے کہ: ’’اے اللہ! ہمیں رمضان المبارک تک زندہ رکھ‘‘۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ جب رجب کا مہینہ شروع ہوجاتا تو آپؐ یہ دُعا پڑھا کرتے :اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبٍ وَشَعبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمضَانَ ’’اے اللہ! رجب اور شعبان کے مہینوں میں ہمارے لیے برکت دے اور ہمیں رمضان تک پہنچا دے‘‘۔(طبرانی فی الاوسط، مجمع الزوائد، ۳/۳۴۰ :۴۷۷۴)
٭ رمضان کے چاند کی رویت میں کہیں غیریقینی پن نہ ہونے پائے، اس لیے شعبان کے چاند کے لیے ہی بڑی کوششیں اور تگ و دو کرتے تھے اور لوگوں میں بھی اعلان کردیتے تھے کہ: ’’رمضان کی خاطر شعبان کے چاند کی بھی خوب چھان بین کی جائے؟‘‘ (ترمذی: ۶۸۷)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ: اللہ کے رسولؐ شعبان کے مہینے میں (دنوں کے گننے کا) جتنا اہتمام کرتے تھے، اتنا کسی دوسرے مہینے میں نہیں کرتے تھے۔(ابوداؤد:۲۳۲۵)
٭ رسولؐ اللہ رمضان کے استقبال ، اس کی آمد پر اپنی خوشی کے اظہار اور قبل از وقت اس کی تیاری کے لیے شعبان کے مہینے میں کثرت سے روزے بھی رکھا کرتے تھے۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ: ’’(رمضان کے علاوہ) میں نے شعبان کے مہینے سے زیادہ کسی مہینے میں اللہ کے رسولؐ کو کثرت سے روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا‘‘۔(بخاری: ۱۹۶۹، مسلم:۱۱۵۶)
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ خوشی کے اس موقعے پر: ’’جب رمضان کا مہینہ شروع ہوجاتا تو آپؐ ہرقیدی کو آزاد کرتے تھے اور ہر سائل (مانگنے والے) کو اپنے جود و کرم سے نوازتے تھے‘‘۔(شعب الایمان للبیہقی: ۳۶۳۳)
٭ شعبان کے مہینے میں اور خاص طور پر اس کی آخری رات میں اور رمضان کے شروع کے دنوں میں اپنے ساتھیوں کو جمع کر کے رمضان کی اہمیت پر خطبے ارشاد فرماتے، اس کے فضائل بیان کرتے اور اس پُررحمت مہینے کی قدر کرنے پر اُبھارتے،تاکہ پہلے سے وہ اس کے انتظار میں رہیں اور پوری طرح یکسو ہوکر اس مبارک مہینے کی رحمتوں اور برکتوں سے مالا مال ہوں۔ مثال کے طور پر کبھی فرماتے: ’’جب رمضان کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور جہنّم کے دروازے بند کیے جاتے ہیں اور شیاطین قید کیے جاتے ہیں‘‘ (بخاری:۱۸۹۸)۔کبھی یہ الفاظ ارشاد فرماتے: ’’رحمت کے دروازے کھولے جاتےہیں‘‘۔(مسلم:۱۰۷۹)
ارشاد فرمایا: ’’ابن آدم کے ہرعمل میں اس کی نیکیاں دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دی جاتی ہیں، البتہ روزے کا معاملہ اس سے کچھ مختلف ہے، اس لیے کہ وہ تو (صرف) میرے لیے ہوتا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دیتا ہوں اور ایسا کیوں نہ ہو کہ بندہ اپنی شہوتوں اور کھانے پینے کی چیزوں کو صرف میرے لیے چھوڑتا ہے۔ روزے دار کے لیے دو طرح کی خوشیاں ہیں: ایک خوشی تو افطاری کے موقعے پر ہوتی ہے اور دوسری خوشی اپنے رب سے ملاقات کے موقعے پر ہوگی۔ روزہ دار کے لیے چاہیے کہ وہ بے ہودہ باتوں سے اور چیخنے چلّانے سے پرہیز کرے بلکہ اگر کوئی گالی دے یا حملہ کرے تو صاف کہہ دے کہ میں تو روزے سےہوں‘‘۔(بخاری :۱۹۰۴ ، مسلم :۱۱۵۱)
ایک خطبے میں ارشاد فرمایا: ’’ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے، اے خیر کے چاہنے والے! آگے بڑھ، اور اے بُرائی کے چاہنے والے! باز آجا، اور اللہ کے نزدیک جہنّم سے رہائی حاصل کرنے والے بہت سارے لوگ ہیں اور یہ سلسلہ ہررات چلتا رہتا ہے‘‘ (ترمذی: ۱۳۹۵)۔ ’’اور اس مہینے میں اللہ کے لیے ایک ایسی رات بھی ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے جو اس کے خیرسے محروم رہا وہ حقیقی محروم ہے‘‘۔(مسند احمد، ۲/۲۳۰ ، نسائی، ۴/۱۲۹)
ایک طویل خطبہ جو شعبان کی آخری رات میں دیا تھا، اس کے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں: ’’اے لوگو! ایک عظیم مہینہ تم پر سایہ فگن ہورہا ہے، جو بڑا بابرکت مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزوں کو فرض قرار دیا ہے اور اس کی راتوں میں نمازوں کو سنت قرا دیا ہے۔ جو شخص کسی بھی خیر کے کام کے ذریعے اس مہینے میں اللہ کی قربت حاصل کرتا ہے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی دوسرے مہینے میں اس نے کسی فرض کو انجام دے دیا ہو۔اور اس مہینے میں کسی فرض کو ادا کرنے والے کی مثال دوسرے مہینوں میں ستّر فرائض کے ادا کرنے والے کی طرح ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنّت ہے۔ یہ بھائی چارگی کا مہینہ ہے اور ایسا مہینہ ہے جس میں مومن کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے‘‘…(شعب الایمان للبیہقی:۳۶۰۸)
٭ اس مہینے کی عظمت اور اس کے احترام کے پیش نظر فرمایا: ’’اس مہینے میں جو شخص اپنے غلاموں (یا خادموں) کے بوجھ کو ہلکا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دیتا ہے اور جہنّم کی آگ سے اس کو نجات دیتا ہے‘‘۔(ایضاً)
٭ رمضان کی محبت کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ دیگر مہینوں میں تو چاند کے ثبوت کے لیے دو عادل افراد کی گواہی ضروری قرار دی گئی لیکن رمضان کے مہینے کی یہ خصوصیت ہے کہ ایک ہی شخص کی گواہی پر چاند کے ثبوت کا اعلان کر کے دوسرے دن روزہ رکھنے کا حکم دے دیا۔(ابوداؤد:۲۳۴۰ و ۲۳۴۱)
۲- اللہ کے رسولؐ کی سحری
رمضان کے مہینے میں روزے کی ابتدا آپؐ سحری سے کرتے اور اس کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے تھے: ’’سحری کیا کرو، اس لیے کہ سحری میں برکت ہوا کرتی ہے‘‘ (بخاری: ۱۹۲۳، مسلم:۱۰۹۵) ۔کبھی فرماتے: ’’سحری کے کھانے کے ذریعے دن کے روزے میں طاقت حاصل کرلیا کرو‘‘ (حاکم، ۱/۴۳۵) ۔ کبھی اس طرح ترغیب دیتے: ’’اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت بھیجتے ہیں‘‘ (صحیح ابن حبان: ۳۴۶۷)۔ سحری کے کھانے کو برکت والا کھانا قرار دیتے تھے (ابوداؤد: ۲۳۴۴)۔ اور کھجور کو سحری کے لیے بہتر سمجھتے (ابوداؤد:۲۳۴۵) ۔ خود بھی عام طور پر سحری میں کھجور اور پانی ہی پر اکتفا فرماتے اور تنہا سحری کرنے کے بجاے اپنے ساتھیوں کو بھی عام طور پر اس کھانے میں شریک فرمایا کرتے تھے (احمد:۱۳۰۶ ، ابوداؤد:۲۳۴۴)، اور سحری بالکل آخری وقت میں کرتے۔
حضرت زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں: ’’ہم نے اللہ کے رسولؐ کے ساتھ سحری کی۔ پھر مسجد چلے گئے اور فوراً جماعت کھڑی ہوگئی۔ (راوی کہتے ہیں) میں نے پوچھا: ان دونوں (سحری اور نماز) کے درمیان کتنا فاصلہ رہا ہوگا؟‘‘ فرمایا: ’’اتنی دیر کا فاصلہ جتنی دیر میں آدمی پچاس آیتوں کی تلاوت کرسکتا ہے‘‘۔(احمد: ۲۱۹۱۸)
۳- اللہ کے رسولؐ کا افطار
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم افطار کا بڑا اہتمام فرماتے تھے اور اس کی ترغیب دیا کرتے تھے کہ: ’’غروب کے بعد فوراً افطار کیا جائے اس میں تاخیر بالکل نہ کی جائے‘‘۔ فرماتے تھے: ’’لوگ جب تک افطار میں جلدی کرتے رہیں گے، خیر (اچھی حالت) پر رہیں گے (بخاری: ۱۹۵۷ ، مسلم:۱۰۹۸)۔ وقت ہونے کے بعد افطار میں مزید تاخیر کو یہود و نصاریٰ کی عادت قرار دیتے تھے (ابوداؤد:۲۳۵۳)۔ افطار میں کھجور کو پسند فرماتے اور کہتے تھے کہ اس میں برکت ہوتی ہے اور اگر کھجور نہ ہو تو پھر پانی کو ترجیح دیتے، اس لیے کہ یہ پاکیزگی کا ذریعہ ہے (ابوداؤد: ۲۳۵۵و ترمذی:۶۷۸)۔ افطار کے وقت یہ دُعا پڑھا کرتے: اَللّٰھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ (ابوداؤد:۲۳۵۸) ’’اے اللہ! میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق پر افطار کیا‘‘۔ پھر یہ دُعا بھی پڑھا کرتے: ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتْ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ اِنْ شَاءَ اللّهُ (ابوداؤد: ۲۳۵۷، نسائی :۳۳۲۹) ’’پیاس بجھ گئی اور رگیں تر ہوگئیں، اگر اللہ چاہے تو یقینا اجر ثابت ہوگا (بدلہ مل کر رہے گا)‘‘ اپنے دوستوں کے یہاں بھی کبھی افطار کیا کرتے اور اس وقت یہ دُعا پڑھتے: اَفطَرَ عِندَکُم الصَّائِمُونَ وَ اَکَلَ طَعَامَکُمُ الْاَبْرَارُ وَنَزَلَتْ عَلِیکُمُ الملائِکَۃُ (دارمی:۱۷۷۲) ’’تمھارے یہاں روزہ دار افطار کیا کریں اور نیک لوگ تمھارا کھانا کھایا کریں اور فرشتوں کا آپ پر نزول ہوا کرے‘‘۔ اور روزہ افطار کرانے کی خاص طور پر ترغیب دیتے تھے ۔ ایک مرتبہ ارشاد فرمایا: ’’جس کسی نے روزہ دار کو افطار کرایا یا کسی غازی (اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے) کے لیے وسائل مہیا کیے تو اس کو بھی اتنا ہی اجر ملتا ہے (ترمذی:۸۰۷، نسائی :۳۳۳۱، والحدیث صحیح کما قالہ الالبانی فی تخریج المشکوٰۃ، ۱/۶۲۱)۔ ایک صحابی نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! ہر آدمی کے پاس کہاں اتنا مال ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کو بھی افطار کرا سکے‘‘۔ اس پر ارشاد فرمایا: ’’یہ ثواب تو اللہ تعالیٰ ہراس شخص کو عطا فرماتا ہے، جو ایک گھونٹ دودھ یا ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی پر افطار کرائے‘‘۔(شعب الایمان للبیہقی:۳۶۰۸)
۴- دن کی مشغولیت
رمضان کے مہینے میں اور دنوں کے مقابلے میں آپؐ کی عباداتی مشغولیت بہت زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ تلاوتِ قرآن، ذکر و اذکار اور صدقہ و خیرات میں خود بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیا کرتے تھے، اور خاص بات یہ ہوتی کہ آپؐ ،حضرت جبریلؑ کے ساتھ قرآن کا دورہ بھی کیا کرتے تھے۔ حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں: اللہ کے رسولؐ خیر کے معاملے میں سب سے بڑھے ہوئے تھے اور رمضان میں آپؐ کی سخاوت اور بڑھ جاتی تھی اور رمضان کی ہر رات میں جبریل ؑ سے آپؐ کی ملاقات ہوا کرتی تھی۔ اللہ کے رسولؐ ،قرآنِ کریم انھیں سنایا کرتے تھے۔ اور جب جبریل ؑ سے ملاقات ہوتی تھی تو سخاوت کے معاملے میں آپؐ تیزچلنے والی ہوا سے بھی بڑھ جاتے تھے‘‘( مسلم: ۲۳۰۸)۔ اس کے ساتھ ساتھ روزے کی حفاظت کی بھی بڑی فکر کیا کرتے تھے۔ اس مقصد کے لیے روزہ دار اہلِ ایمان کو بے ہودہ باتوں، فحاشی، گالی گلوچ، جھوٹ اور لڑائی جھگڑے سے حتی الامکان دُور رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے فرماتے تھے: ’’جو دروغ گوئی اور اس کے مطابق عمل کرنے سے باز نہیں رہتا، تو اللہ کو اس کے کھانے پینے کے ترک کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے‘‘(بخاری:۱۹۰۳)۔ ایک موقعے پر ارشاد فرمایا:’’روزہ ڈھا ل ہے جب تک کہ اس کو توڑ نہ دیا جائے‘‘ (دارمی:۱۷۳۲)۔ اسی طرح آپؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے: ’’کتنے روزہ دار ایسے ہیں، جن کو ان کے روزے کے بدلے سواے بھوکا رہنے کے اور کوئی فائدہ نہیں، اور کتنے رات میں کھڑے ہونے والے (قیام اللیل میں) ایسے ہیں جن کو ان کے قیام کے بدلے میں سواے رات جاگنے کے اور کوئی فائدہ نہیں ہے‘‘ (الحاکم، ۱/۴۳۱)۔ اور کبھی روزہ بھاری پڑجاتا اور برداشت کی طاقت جواب دے دیتی تو سکون و آرام کے لیے سر پر پانی بھی بہا لیتے تھے (ابوداؤد:۲۳۶۵)، یعنی روزہ کی حالت میں غسل وغیرہ بھی کیا کرتے تھے۔
۵- رمضان کی راتیں
رمضان کی راتوں کو آپؐ بہت غنیمت سمجھتے تھے۔ اکثر حصہ قیام اللیل میں گزارتے اور اس کی ترغیب بھی دیا کرتے تھے۔ چنانچہ آپؐ کی مشہور روایت ہے: ’’جو شخص رمضان کی راتوں میں ایمان اور احتساب (ثواب و فضائل کے استحضار) کے ساتھ کھڑا رہا (نمازیں پڑھتا رہا) اس کے پچھلے گناہ بخش دیے گئے‘‘(ابوداؤد:۲۳۸۷)۔ جوہستی اپنے ساتھیوں کو اس طرح سے شوق دلاتی رہی ہو، خود ان کا معمول کیا رہا ہوگا؟! اور خاص طور پر اس لیے بھی کہ آپؐ کا غیر رمضان میں بھی قیام اللیل کا معمول تھا۔ پھر یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ رمضان کے ابتدائی دو عشروں (۲۰ دن) اور آخری عشرے کی راتوں کے معمولات میں بڑا فرق تھا۔ ابتدائی دو عشروں میں آرام بھی کیا کرتے تھے اور اپنے اہلِ خانہ کے جائز حقو ق بھی ادا کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ کی ایک روایت میں صراحت ہے: ’’اللہ کے رسولؐ ابتدائی بیس راتوں میں سوتے بھی تھے اور نماز بھی پڑھتے تھے، لیکن جب آخری عشرہ شروع ہوجاتا تو پھر آپؐ کی عبادت بڑھ جاتی اور کمر کَس لیتے‘‘ (بخاری:۱۹۰۱)۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: ’’اللہ کے رسولؐ! آخری عشرہ میں اتنی کوشش (عبادت) کیا کرتے تھے جتنی اور دنوں میں نہیں کیا کرتے تھے‘‘(مسلم،ص ۱۱۷۵)۔ دوسری جگہ انھی سے روایت نقل ہے:’’جب آخری عشرہ شروع ہوجاتا آپؐ کمر کس لیتے اور راتوں کو زندہ کرتے (جاگتے) اور اپنے گھر والوں کو جگاتے(بخاری: ۲۰۲۴ ، مسلم:۱۱۷۴)۔ اور آخری عشرہ میں کبھی کبھی قیام اللیل (تراویح) میں جماعت کا بھی اہتمام کیا کرتے تھے۔ البتہ اس کی پابندی نہیں کیا کرتے تھے اس ڈر سے کہ کہیں اُمت پر فرض نہ کی جائے۔ (بخاری:۷۳۱)
۶- لیلۃ القدر اور اعتکاف
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں پابندی سے اعتکاف کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ اگر کسی سال رمضان میں اعتکاف ممکن نہ ہوتا تو دوسرے سال اس کی قضا کرلیا کرتے تھے(ابوداؤد:۲۴۶۳ و ترمذی:۸۰۳)۔ اعتکاف کا اصل مقصد یہ ہوتا تھا کہ لیلۃ القدر جو ایک بابرکت رات ہے اور ہزار مہینوں سے بھی خیروبرکت میں افضل ہے، اس کو تلاش کیا جائے۔ حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں: ’’ اللہ کے رسولؐ نے رمضان کے عشرہ اولیٰ میں اعتکاف کیا۔ پھر درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا (یہ اعتکاف آپؐ نے مسجدمیں ایک) ترکی گنبد میں جو آپؐ کے لیے مسجد میں بنایا گیا تھا ، کیا تھا۔ پھر ایک دن آپؐ نے اس میں سے اپنا سر باہر نکالا اور فرمایا کہ میں نے پہلے عشرہ کا اعتکاف اس رات (لیلۃ القدر) کی تلاش میں کیا تھا۔ پھر میں نے درمیانی عشرے کا اعتکاف کیا۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ رات آخری عشرہ میں پائی جاتی ہے۔ اس لیے جن لوگوں نے بھی میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ آخری عشرہ کا بھی اعتکاف کرلیں۔ (بخاری:۲۰۱۸، مسلم :۱۱۶۷)
جب آپؐ اعتکاف کے لیے بیٹھتے تو آپؐ کے لیے مخصوص حجرہ مسجد میں بنایا جاتا، جس کا تذکرہ قبہ ترکیہ کے الفاظ کے ساتھ اُوپر والی روایت میں کیا گیا ہے تاکہ یکسو ہوکر اللہ کی طرف متوجہ رہیں، اِدھر اُدھر کی باتوں، لوگوں سے ملاقات اور دیگر مشغولیات میں وقت ضائع نہ ہونے پائے۔ جب آپؐ اعتکاف کے لیے مسجد میں داخل ہوتے تو فجر کی نماز کے بعد اپنے معتکف (مخصوص حجرے) میں داخل ہوجاتے (بخاری:۲۰۳۳، مسلم:۱۱۷۳)۔ آپؐ کا بچھونا یا پلنگ اسطوانہ توبہ کے پیچھے لگایا جاتا (ابن ماجہ:۱۷۷۴)۔ حالت ِ اعتکاف میں بغیر کسی انسانی ضرورت (کھانا، پینا اور حوائج ضروریہ سے فارغ ہونا) کے گھر میں داخل نہیں ہوتے تھے (بخاری:۲۰۲۹)۔ یعنی اعتکاف کی حالت میں آدمی عام دنوں کی طرح خارجی کاموں میں حصہ نہیں لے سکتا۔ مریض کی عیادت اور جنازے وغیرہ میں شرکت بھی نہیں کرسکتا، تو اعتکاف کی صورت میں بیٹھے بیٹھے سارے خیر کے کاموں کے اجر سے وہ نوازا جاتا ہے۔رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کی حالت میں اپنی بیویوں سے اشد ضروری اُمور پر مختصر گفتگو بھی کرلیا کرتے تھے (دارمی:۱۷۸۰) اور ضرورت پر سر کی مالش، بالوں میں کنگھی اور سر دھونے وغیرہ کی خدمت بھی لیا کرتے تھے۔(بخاری:۲۰۲۹)
اعتکاف کے زمانے میں سب سے زیادہ فکر لیلۃ القدر کی ہوا کرتی تھی۔ اسی کی تلاش میں راتوں کو جاگا کرتے تھے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگایا کرتے تھے اور اپنے ساتھیوں سے بھی اس کے سلسلے میں تاکید کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے: ’’لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کیا کرو‘‘ (بخاری:۲۰۱۷، مسلم:۱۱۶۹)۔ حضرت عائشہؓ نے ایک مرتبہ آپؐ سے دریافت کیا:’’اگر مجھے لیلۃ القدر کا علم ہوجائے تو اس میں کیا کہا کروں؟‘‘ (یعنی کون سی دُعا کا ورد کروں؟) فرمایا: ’’تم اس کا ورد کیا کرو: اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی (ترمذی: ۳۵۱۳ حدیث صحیح)، یعنی اے اللہ! تو سرتاپا عفو و درگزر والا ہے اور عفو و درگزر کوپسند فرماتا ہے ۔ میرے ساتھ بھی عفوو درگز کا معاملہ فرما ‘‘۔
۷- رمضان میں سفر اور جہاد
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینے میں سفر بھی کیا کرتے تھے اور سفر میں کبھی روزہ رکھتے اور کبھی افطار بھی کرتے۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے: ’’اللہ کے رسولؐ نے سفر میں روزہ بھی رکھا اور افطار بھی کیا‘‘ (بخاری:۱۹۴۸)۔لیکن جب روزہ رکھنے سے طبیعت میں کمزوری لاحق ہوجاتی اور اس کی وجہ سے صحت پر بُرا اثر پڑنے کا امکان ہوتا اور روزہ ناقابلِ برداشت ہوجاتا تو پھر خود بھی روزہ توڑ دیتے اور ساتھیوں کو بھی روزہ توڑنے کی ترغیب دیتے اور اگر اس سلسلے میں کوئی نافرمانی کرتا تو پوری سختی سے اس کو تنبیہ بھی فرماتے۔
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ فتح مکہ کے موقع پر رمضان کے مہینے میں نکلے تھے اور روزے کی حالت میں تھے۔ جب ’کراع الغمیم‘نامی علاقے میں پہنچے تو روزے میں پیاس کی شدت حددرجہ بڑھ گئی۔ آپؐ نے ایک پیالے میں پانی منگوایا اور اس کو اُوپر اُٹھایا تاکہ شریکِ سفر لوگ بھی اس کو دیکھیں۔ پھر اس کو نوش فرمایا۔ بعد میں آپؐ کو بتایا گیا کہ کچھ لوگ اب بھی روزے سے ہیں۔ اس پر آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’یہی لوگ نافرمان ہیں، یہی لوگ نافرمان ہیں‘‘ (مسلم:۱۱۱۴)۔عام طور پر رمضان کے مہینوں میں سفر کے سلسلے میں جو روایتیں آپؐ کے متعلق نقل کی جاتی ہیں وہ جہاد ہی سے تعلق رکھتی ہیں۔ چنانچہ حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں: ’’ہم اللہ کے رسولؐ کے ساتھ جہاد کے لیے اس وقت نکلے جب رمضان کی ۱۶راتیں گزر چکی تھیں‘‘ (مسلم:۱۱۱۶)۔ فتح مکہ کے بارے میں تو مشہور ہے کہ یہ واقعہ رمضان کےمہینے میں پیش آیا جیساکہ پیچھے روایت میں اس کی صراحت گزر چکی ہے۔ اسی طرح غزوئہ بدر کے متعلق بھی مشہور یہی ہے کہ وہ رمضان کے مہینے میں پیش آیا تھا۔ (سیرۃ ابن ہشام:۵۱۶۷)
۸- رمضان میں علاج معالجہ
صحت اور بیماری یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں،اور اس کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ہے۔ جب چاہے بیماری انسان کو بے بس اور مجبور کرسکتی ہے۔ عام مہینوں کی طرح رمضان المبارک کے بابرکت دنوں میں بھی بیماری اپنا راستہ تلاش کرسکتی ہے اور جب بیماری ہوگی تو علاج بھی ناگزیر ہے۔ یہی طریقہ ہمیں اللہ کے رسولؐ کی حیاتِ مقدس میں بھی واضح طورپر نظر آتا ہے کہ آپؐ رمضان کے مہینے میں بھی ضرورت پر علاج معالجے سے کام لیا کرتے تھے۔ حضرت ابن عباسؓ ارشاد فرماتے: ’’اللہ کے رسولؐ نے احرام کی حالت میں بھی پچھنا لگوایا اور روزے کی حالت میں بھی پچھنا لگوایا‘‘ (بخاری:۱۹۳۸، مسلم:۱۲۰۲) اور دوسروں کو بھی اس کی اجازت مرحمت فرمائی۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں: ’’ایک آدمی نے رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ میری آنکھوں میں تکلیف ہوگئی ہے۔ کیا میں روزے کی حالت میں سُرمہ لگا سکتا ہوں؟ آپؐ نے جواب میں فرمایا:ہاں‘‘۔(ترمذی: ۷۲۶)
اگرچہ آپؐ کی حیاتِ پاک میں،رمضان کے دوران زندگی گزارنے کی بے شما ر تفصیلات موجود ہیں، تاہم یہاں پر چند اُمور کا انتخاب پیش کیا ہے تاکہ ہم رمضان گزارتے وقت ، ہر ہر قدم پر یہ محسوس کریں کہ ہم کو سنت پاک پر کس طرح عمل کرنا ہے۔