December 21st, 2024 (1446جمادى الثانية19)

واشنگٹن ٹائمز کا دعویٰ

امریکی جرائد مسلم ممالک کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور مسلمانوں کی بد قسمتی یہ ہے کہ انہیں اپنی خبریں بھی غیروں سے ملتی ہیں۔ اب امریکی جریدے واشنگٹن ٹائمز نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل خفیہ طور پر عسکری روابط کو آگے بڑھارہے ہیں اور اس سلسلے میں ریاض حکومت کئی مہینے پہلے عسکری ماہرین پر مشتمل ایک وفد اسرائیل بھیج چکی ہے۔ امریکی جریدے نے انکشاف کیا ہے کہ سعودی حکومت نے دو اسرائیلی تنظیموں رافیل اور القا کے ساتھ القبہ الجدیدہ نامی میزائل کا معاہدہ کیا ہے۔ اس تمام بھاگ دوڑ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ریاض ایران کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے اور جب سے یمن میں حوثی باغیوں کی جانب سے ایرانی ساختہ میزائل داغے گئے ہیں اس کے بعد سے اسرائیل جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے سعودی عرب کا ناگزیر حلیف بن گیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک اسرائیلی وزیر کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ ہمارے کئی عرب ریاستوں کے ساتھ خفیہ تعلقات ہیں تاہم ان ممالک کے نام ظاہر نہیں کیے جاسکتے کیونکہ ان کی طرف سے نام پوشیدہ رکھنے کی درخواست کی گئی ہے۔ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان امر مشترک صرف یہ ہے کہ دونوں ایران کو دشمن کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن دونوں کے درمیان بڑھتی ہوئی قرابت اب اسلام دشمنی کا باعث بن رہی ہے۔ لبنان میں حزب اﷲ کی طرف سے الزام سامنے آیا ہے کہ سعودی حکومت اسرائیل کو تنظیم پر پر حملہ کرنے کے لیے اکسارہی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان القدس سے پہلے سعودی عرب کی جانب سے فلسطینی رہنما محمود عباس پر شدید دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لیے تیار ہوجائیں۔ ٹرمپ کے اعلان کے بعد دوسرے ممالک کی دیکھا دیکھی سعودی عرب نے اقوام متحدہ کی اسمبلی میں اس کی مخالفت کی تھی لیکن اس کے بعد احتجاج نہ ہونے کے برابر تھا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنرل اسمبلی میں کی جانے والی مخالفت کس قدر کھوکھلی اور بے وقعت تھی۔ عرب ممالک میں نشاۃ ثانیہ کی آواز ایک عرصے سے بلند کی جارہی ہے لیکن حالیہ واقعات کسی طرح بھی مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ہیں اور یہ سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں کہ آیا مستقبل میں مسلمانوں کی قیادت عربوں کے ہاتھ میں ہوگی یا ان کی قسمت میں اب پٹنا ہی لکھا ہے۔مسلم ممالک کے بارے میں مغربی ذرائع ابلاغ سے موصول ہونے والی اطلاعات کو بہت احتیاط سے پڑھنا اور سمجھنا چاہیے۔ ان میں شرارت ہوسکتی ہے۔