یہ الفاظ یا اس طرح کا بورڈ دیکھ کر کسی بھی انسان کی پیشانی پر افقی و عمودی لکیریں کھینچ آئیں گی۔ خود اس کی اپنی آنکھیں اس سے سوال کرنا شروع کر دیں گی۔ اگر اسرائیل کو یرو شلم میں ریلوے اسٹیشن بنانا تھا تو پہلے کیوں نہیں بنایا؟ اور دوسرا یہ کہ اس نے یہ اسٹیشن ٹرمپ کے نام سے کیوں منسوب کیا۔ پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ پہلے اس کی یہ خواہش کوئی بھی امریکی صدر پوری نہیں کرنا چاہتا تھا۔ دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ پہلے تمام امریکی صدر انتہائی طاقتور پوزیشن پر تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو آتے ہی ہزیمت اٹھانا پڑی۔ امریکی اعلیٰ عدلیہ نے ٹرمپ کے ایک عجلت میں کیے ہوئے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ ابھی ٹرمپ اس زخم کو بھرنے کی کوشش کررہا تھا کہ ایشیاء میں عجیب و غریب صورت حال پیدا ہوگئی۔ وہ پاکستان، جس کے وزرائے اعظم امریکی صدر سے ملنے کے لیے کئی کئی جتن کرتے تھے اور کچھ تو لکھی ہوئی پرچیاں بھی ساتھ لے جاتے تھے تاکہ وائٹ ہاؤس کی رعب دار فضا میں الفاظ کا رابطہ نہ ٹوٹے، اس پاکستان نے امریکا کے بمبار الفاظ ’’ڈو مور‘‘ پر آستینیں چڑھا لیں اور دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا۔ میاں بہت ہو چکا۔ امریکا ہرگز ہرگز پاکستان سے یہ توقع نہیں کر رہا تھا۔ آپ غور کرتے جائیں ہمارے جرنیل ڈنکے کی چوٹ پر کہہ رہے تھے کہ اب افغانستان کی جنگ کو پاکستان نہیں آنے دیں گے۔
وائٹ ہاؤس کی پاکستان کمیٹی اس پر خوب سیخ پا ہوئی۔ اس موقع پر ٹرمپ کا غصہ بھی دیدنی تھا۔ ابھی یہ معاملات چل رہے تھے کہ شمالی کوریا کے صدر نے دھمکی آمیز لفظی میزائل وائٹ ہاؤس کی جانب داغ دیے۔ یوں ٹرمپ نے اپنے لیے بہت سے محاذ کھول لیے۔ ٹرمپ صاحب کوئی منجھے ہوئے سیاست دان تو ہیں نہیں اور نہ ہی ٹرمپ نے باقی امریکی صدور کی طرح کوئی قابل قدر جامعات کی خاک چھانی تھی۔ یہاں یہ بات واضع کرتا جاؤں کہ بارک اوباما ہاورڈ کے گریجویٹ ہیں۔ تعلیم اور ماحول کا اثر ان کے الفاظ میں جھلکتا تھا۔ بحر حال ٹرمپ کے جلد جزبز ہو جانے کی کیفیت کو اسرائیل نے خوب کیش کرایا۔ سردست زیادہ تفصیلات سامنے نہیں آئیں کہ کن شرائط پر یروشلم والا فیصلہ عمل میں آیا، یعنی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنا دیا جائے۔ تاہم یہ بات تو طے ہے کہ اسرائیل یا یہودی ہمیشہ سے امریکا اور یورپ سے اپنی باتیں منواتے رہے ہیں۔
اگر تاریخ کی ورق گردانی کی جائے تو یہود کے بارے میں حیران کن حقائق سامنے آتے ہیں کبھی Babylonian Exile کا معاملہ آتا ہے جس میں JUDAH قبیلے کو اس خطے سے نکال باہر کیا جاتا ہے۔ JUDAH کا یہ قبیلہ ہجرت اور ترک وطن کی زندگی گزارتا رہا۔ تاہم یہ بات خاصی حیران کن ہے کہ یہ قبیلے اپنی نسلوں کو یاد دلاتے رہے کہ تمہارا اصلی گھر کہیں اور ہے اور تمہیں وہاں جانا ہے۔ حالاں کہ وہ ترک وطن کے دوران عبادت گاہ (Synagogue) بھی بنا لیتے تھے۔ کہتے ہیں کہ بادشاہ کی تبدیلی بھی ہوئی تو یہود نے یہ بات منوالی کہ انتہائی پر امن طریقے سے ان کو ران کے آبائی علاقے بھجوا دیا جائے۔ اور ایسا ہی کیا گیا۔
پچھلی صدی کے بیچ میں اسرائیل ایک نئی نظریاتی ریاست کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ یاد رہے دنیا میں دو نظریاتی ریاستیں ہیں۔ ایک اسرائیل اور دوسرا پاکستان جب اسرائیل ملک بنا تو دنیا بھر سے لاکھوں یہودی اس خطے کی جانب آئے۔ ایسے میں طاقتور ملکوں نے خوب ان کا ساتھ دیا، یہ ایک ننھا سا ملک بڑی بڑی مسلم ریاستوں کے بیچ ایک خنجر کی طرح گاڑ دیا گیا۔ اگر آپ نقشے کو غور سے دیکھیں گے تو شاید میرے الفاظ اس کی عکاسی کریں۔ بہر حال اس نو مولود ریاست نے بھی اپنی پارلیمنٹ (Knesset) بنا لی۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اس نے پارلیمنٹ کے ماتھے پر یہ تحریر آویزاں کر دی۔ ’’اے اسرائیل تیری سرحدیں نیل سے لے کر کاشغر تک پھیلی ہوئی ہیں‘‘۔ آپ مانیں یا نہ مانیں اس نے باتیں منوانے کا آغاز کر دیا ہے۔ دنیا کے نقشے پر ابھرنے کے بعد اسرائیل نے فلسطین کو کہیں بڑے علا قے کی پیشکش کی تھی۔ اب اس طرح کی پیشکش کا تصور بھی محال ہے۔ وقت گزرتا رہا یہودی انتہائی طاقتور پوزیشن پر آتے گئے۔ کہتے ہیں کہ یہودیوں نے دو شعبوں میں خاص طور پر سرمایہ کاری کی ایک تعلیم اور دوسرا کاروبار۔
کچھ اسی طرح کی صورت حال پاکستان کے ابتدائی دور کی تھی۔ ہمارے تھنک ٹینک اور ٹیکنو کریٹس پر ترقی کی دھن سوار تھی۔ امریکا کی زمین پر تین سو کمروں کا شاندار ہوٹل پی آئی اے نے خرید لیا۔ ملک بنے ابھی بیس سال بھی نہیں گزرے تھے کہ بہترین جامعات کی اٹھان نظر آئی یہاں مشرق وسطیٰ ترکی، ایران اور کئی ممالک کے لوگ پڑھنے آتے تھے۔ یہی پاکستان بھی ستر کی دہاتی میں جرمنی کو کروڑوں ڈالر کی امداد دے رہا تھا۔ عمان سے گوادر بھی خرید لیا گیا۔ ہمارے ہاں تو یہ سلسلہ رک گیا مگر اسرائیلی دنیا بھر میں اپنے کاروبار کو پھیلاتے گئے۔ اسرائیل کی دیوقامت اسٹاک ایکسچینج کی عمارت کے سامنے پورے ایشیاء کی عمارتیں شرما جائیں۔ اس ننھے سے ملک کی سیکڑوں ملٹی نیشنل کمپنیاں دنیا کے لیے ایک سوالیہ نشان ہیں۔ دنیا بھر کے امیر یہودی چاہے وہ والٹ ڈزنی کا مالک ہو یا برگر کنگ کا مالک، ہر طرح سے یہودیوں کی مدد کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
امریکا میں بڑی کساد بازاری کے تانے بانے بھی انہیں سے جا ملتے ہیں۔ موجود ہ سودی بینکاری کا سیدھا سا اصول ہے کہ بینک ایک قلیل رقم اپنے پاس رکھتے ہیں باقی سرمایہ میں لگا دیتے ہیں۔ اقتصادیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ یہودیوں کو پتا تھا کہ امریکی بینکوں میں کتنا پیسہ موجود ہے۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہودیوں نے بڑے بڑے چیک کیش کے لیے پیش کر دیے، اب اس کا نتیجہ کیا نکلا کہ بینکوں نے ڈیفالٹ کلیم کر دیا۔ یوں بہت سے بینک کیش سے خالی ہو گئے اور PLASTIC MONEY والوں کی بھی خوب شامت آئی۔ امریکی بینکاری نظام درہم برہم ہونے لگا۔ ایسے میں امریکی اسٹیٹ بینک نے کمرشل بینکوں میں ایک بڑی رقم داخل کی۔ پھر آہستہ آہستہ معاملات سدھرنے لگے۔ تاہم یہ ساری صورت حال یہ پیغام دے گئی کہ اگر ہماری بات نہیں مانوگے تو کسی بڑے نقصان کے لیے تیار رہو۔
اب وقت آ گیا ہے کہ مسلم امہ اپنی آنکھیں کھول لے اور صدقِ دل سے اتحاد پر توجہ دے ورنہ وہ دن دور نہیں جب آپ کی نظر کسی اور ریلوے اسٹیشن پٹر ے جس پر لکھا ہو ’’نیتن یا ہو ریلوے اسٹیشن۔ جدہ‘‘۔