اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف قرارداد منظور کرکے بیت المقدس میں کسی بھی کارروائی یا طاقت کے استعمال کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے۔ قرارداد کے حق میں 151 ممالک نے ووٹ دیا جب کہ 6 نے مخالفت کی اور 9 نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرلیں گے‘ اس بات کا فیصلہ یا اعلان امریکا میں کسی بھی وقت متوقع ہے۔ ممکن ہے کہ وہ اس فیصلے کو چھ ماہ کے لیے موخر بھی کرلیں لیکن امریکا نے اس کا تہیہ کر رکھا ہے کہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرلیا جائے۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ علاقہ متنازع ہے اس لیے اقوام متحدہ اس کی اجازت نہیں دے گی۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف تو قرارداد منظور ہوگئی جس کے نتیجے میں وہ بیت المقدس میں کوئی بھی کارروائی کرے تو وہ غیر قانونی قرار پائے گی۔ لیکن اقوام متحدہ خود اسرائیل کے وجود کو غیر قانونی کیوں قرار نہیں دیتی؟ ویسے اسرائیل نے اقوام متحدہ یا کسی بین الاقوامی ضابطے کی کب پابندی کی ہے جو اس مرتبہ کرے گا۔ صاف نظر آرہا ہے کہ یہ امریکا‘ اسرائیل اور سازشی ممالک کی منصوبہ بندی ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے قرارداد منظور کروالی جائے تاکہ اسرائیل کے کسی بھی اقدام کی مخالفت یا کسی ردعمل کو روکا جاسکے بلکہ معاملہ چونکہ اقوام متحدہ کے پاس ہے اس لیے براہ راست احتجاج اور کسی قسم کے ہنگامے کی ضرورت نہیں جب کہ اسرائیل سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے سبب کسی اقدام سے رک جائے گا‘ محض خام خیالی ہے۔ جس روز امریکا بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرے گا اسی روز حماس اور دنیا بھر میں فلسطینی احتجاج شروع کر دیں گے۔ امریکیوں نے جن باتوں کو خدشات کی صورت میں بیان کیا ہے وہ عالمی سازشی ٹولے کے عزائم ہیں۔ امریکی خفیہ ادارے نے اس قرارداد کے ساتھ ہی رپورٹ جاری کی ہے کہ اگر امریکا نے القدس شریف کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کریا تو خطے میں تشدد کی نئی لہر اور امریکی تنصیبات پر حملے کے خدشات بڑھ جائیں گے۔ حماس نے اس فیصلے پر پوری قوت سے جواب دینے کا اعلان کیا ہے اور عرب لیگ نے متنبہ کیا ہے کہ اس فیصلے کے نتائج خطرناک ہوں گے۔ فی الحال ایسا نظر تو نہیں آرہا کہ امریکی صدر القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرلیں گے لیکن یہ کام اسرائیل امریکا گٹھ جوڑ کرے گا ضرور اور پھر کچھ احتجاج اور کچھ سازشی قسم کے حملے اور اعترافی پیغامات دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف نئی کارروائیوں کا جواز پیش کر رہے ہوں گے۔ جن ممالک نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا ہے وہ بھی اقوام متحدہ سے گزشتہ قراردادوں پر عمل درآمد کروائیں جن میں اسرائیل سے یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے‘ غزہ کا محاصرہ ختم کرنے اور فلسطینیوں پر مظالم روکنے کے مطالبات کیے گئے تھے۔ آج تک اسرائیل نے اقوام متحدہ کی کسی قرارداد کا پاس نہیں کیا۔ اسرائیل قراردادوں سے باز آنے والا ملک نہیں اس کے خلاف اسلامی ممالک اور اگر یورپ کے کچھ ممالک میں انسانیت اور بین الاقوامی قوانین کا احترام ہے تو ان کو ملا کر مشترکہ کارروائی کرنا ہوگی۔ اسرائیل کے خلاف بھی جنگی کارروائی کے بجائے اس کا معاشی مقاطعہ اس کی سفارتی ناکہ بندی اور عالمی اداروں میں اس کے بائیکاٹ سے بھی معاملات بہتری کی طرف آئیں گے اور اگر اسرائیل طاقت کا استعمال کرے گا تو اس کے جواب کے لیے 42 ملکی اسلامی اتحادی افواج کو استعمال کیا جائے۔ کم از کم اس سے یہ خدشہ تو ختم ہوگا کہ یہ فوج اپنے ہی ملکوں میں اپنے ہی لوگوں کے خلاف آپریشن کے لیے تیار کی گئی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی امتِ مسلمہ نے اتحاد کا مظاہرہ کیا اسرائیل گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگیا اور جب بھی اس میں انتشار ہوا اسرائیل شیر ہوگیا۔ یہ معاملات صرف اسرائیل کے ساتھ نہیں ہیں پاکستان کے ساتھ بھارت کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اس سے جنگ کا کوئی فائدہ نہیں ہوا لیکن اگر امتِ مسلمہ کے دباؤ کو استعمال کیا جائے تو صرف سعودی عرب‘ امارات‘ قطر‘ کویت‘ بحرین وغیرہ میں بھارتی باشندوں کی بڑی تعداد موجود ہے ان ممالک پر دباؤ ڈال کر یا ان کی جانب سے بھارت پر کشمیر میں مظالم روکنے اور پھر اس کا تصفیہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاسکتا ہے۔ بہرحال اسرائیل کے خلاف قرارداد کی منظوری اچھا اقدام ہے لیکن اس پر عمل درآمد کون کرائے گا؟