November 21st, 2024 (1446جمادى الأولى19)

گھیرا توڑنے کی کوشش؟

عارف بہار

مشرق وسطیٰ کی صورت حال خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔ عرب سمندر میں گھرا ہو ا جزیرہ اسرائیل اس خطے کے واحد مستحکم ملک کے طور پر باقی رہ گیا ہے ۔اس ’’مضبوط ومستحکم‘‘ ملک کے دائیں بائیں موجود مسلمان ملک خانہ جنگی ،جارحیت اور مسلح شورش کے باعث بدحالی اور بے چینی کی علامت بن کر رہ گئے ہیں۔ ان میں سے اکثر کے سول اسٹرکچر اور سماجی تانے بانے اُدھڑ چکے ہیں۔ ان کی سیال دولت پانی کی طرح بہہ کر بے وقعت ہو رہی ہے اور ان کی مضبوط معیشتیں طوفان میں پھنسی کسی ناؤ کی طرح ہچکولے کھا رہی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اس ناگفتہ بہ صورت حال کا شکار ہونے کے لیے مسلمان ممالک ایک قطار میں کھڑے ہو کر اپنی اپنی باری کا انتظار کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک کے بعد دوسرے ملک کا استحکام عدم استحکام میں بدلتا ہے اور دیکھتے دیکھتے اس کا حلیہ ہی بگڑ جاتا ہے۔
ایک عشرہ قبل تک اسرائیل خود کش دھماکوں کی زد میں تھا۔ اس کے قحبہ خانے، پبلک مقامات، شاپنگ مال حتیٰ کہ سرحدات تک محفوظ نہیں تھیں کیوں کہ فلسطینی نوجوان اسرائیل کو ایک قابض اور غاصب طاقت کے طور پر دیکھتے تھے۔ وہ اپنی سرزمین کو اسرائیل سے خالی کرانے یا سر اُٹھاکر چلنے کا حق مانگ رہے تھے۔ جس کے بعد منظر یوں بدلا کہ اسرائیل عافیت اور امن کا جزیرہ بن گیا اور اس کے ہمسائے عبرت کی تصویر بن کر رہ گئے۔ عراق کے ایٹمی پروگرام کی تباہی سے شروع ہونے والا کھیل اب بڑی حد تک آخری مرحلے میں پہنچ ہے۔ چند دن پہلے دنیا بھر میں یہودیوں نے اعلان بالفور کی صد سالہ تقریبات منائیں۔ یہ دنیا کو کنٹرول کرنے کے لیے یہودی اکابرین کا اعلامیہ تھا جو آج بڑی حد تک عملی شکل اختیا رکرچکا ہے۔
عراق، لیبیا، یمن، مصر، قطر، لبنان اور اب سعودی عرب عدم استحکام کی طرف لڑھکائے جا رہے ہیں۔ سعودی عرب میں طاقت کی کش مکش کو تیز کیا جا رہا ہے۔ ترکی میں فوجی بغاوت کے ذریعے حکومت اور نظام حکومت کی تبدیلی کی کوشش کی گئی تھی جو ناکام رہی۔ پاکستان میں بھی ترک اسٹائل میں طاقت اور دباؤ سے ریاست کا کنٹرول سنبھالنے کی کوشش میموگیٹ کے ذریعے کی گئی تھی۔ جب سویلین حکومت نے امریکا سے اپنی ہی فوج کو کنٹرول کرنے کے لیے مدد طلب کرنے کا ایک پھسپھسا منصوبہ بنایا تھا۔ امریکا ایران کا گھیراؤ کرنے کی تیاری کر رہا ہے کیوں کہ اس کا خیال ہے یہ ملک اب علاقے میں اسرائیل کی بالادستی کو چیلنج کرنے والا واحد ملک ہے۔ ایسے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایران کے ایک اہم دورے پر ہیں۔ انہوں نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای، صدر حسن روحانی، دفاع اور خارجہ وزرا اورپاسداران انقلاب کے سربراہ سمیت اہم شخصیات سے ملاقاتیں کی ہیں۔ دونوں ملکوں نے ایک دوسری کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دینے کے عہد وپیمان کیے ہیں۔ ان ملاقاتوں میں بارڈر مینجمنٹ اور سیکورٹی تعاون بڑھانے سمیت کئی امور پر اتفاق کیا گیا۔ ایسے میں جب مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کا آتش فشاں پھٹ پڑا اور ایک نئی صف بندی جاری ہے آرمی چیف کا دورہ ایران اہمیت کا حامل ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کچھ عرصے قبل کشمیر کے حوالے سے دوٹوک بیان دے کر دونوں ملکوں کے تعلقات پر برسوں کی پڑی برف پگھلانے کی ابتدا کی تھی۔ اب تعلقات کا گلیشیرپوری طرف پگھلاؤ کا شکار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نئی عالمی اور علاقائی صف بندی میں ایران اور پاکستان ایک دوسرے کے فطری حلیف ہیں۔ دونوں ملکوں سے امریکا کے دو تزویراتی شراکت دار اسرائیل اور بھارت خوف کھاتے ہیں۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اور ایران کا میزائل پروگرام خار بن کر کھٹک رہے ہیں۔ امریکا نے کسی ملک کے لیے اس نئی صورت حال میں ’’غیر جانبداری‘‘ کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔ گویا کہ ایک اور سرد جنگ کا ماحول پوری طرح تیار ہے۔ ایسے میں پاکستان اور ایران کا قریب آنااس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ جو صورت حال ایران کو مشرق وسطیٰ میں درپیش ہے اسی کا سامنا پاکستان کو جنوبی ایشیا میں ہے جہاں بھارت کے ذریعے پاکستان کا گھیراؤ کیا جا رہا ہے۔ افغانستان میں امریکی اور بھارتی اثر رسوخ اس کھیل کا اہم حصہ ہے۔ ایران اور چین دو سرحدیں اس اسکیم کو ناکام بنا سکتی ہیں۔ جس طرح ایران پاکستان کے مکمل گھیراؤ کی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے اہم ہے اسی طرح پاکستان ایران کے گرد پھندا کسنے کی کوشش کو ناکام بنا نے میں اہم کردار کا حامل ہے۔ یہ بھی طے ہے کہ دونوں اپنی اپنی باریوں کے لیے مسلمان ملکوں کی طویل قطار میں کھڑے کر دیے گئے ہیں۔ یوں دونوں کا تعلق بقائے باہمی کے لیے ناگزیر ہے۔ پاکستان کے گھیراؤ کی اسکیم میں بھارت تنہا نہیں رہا بلکہ اسرائیل پوری طرح کھل کر اس کی فوجی مدد کو آرہا ہے۔ جس کا ثبوت اسرائیلی کی گراؤنڈ فورسز کے سربراہ میجر جنرل یعقوو بیرک کا جموں میں بھارتی فوج کی شمالی کمان کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ ہے۔ جہاں اسرائیلی جنرل نے بھارتی فوجیوں کو فلسطین میں عوامی مزاحمت سے نمٹنے کے لیے اُٹھائے جانے والے اقدامات اور طریقوں کے بارے میں بریفنگ دی۔ بھارتی فوج کے ترجمان کرنل این این جوشی نے بتایا کہ میجر جنرل بیرک کے ساتھ اسرائیلی فوج کے کئی سینئر افسر بھی تھے جنہوں نے اودھم پور میں بھارتی فوج کی شمالی کمان کے ہیڈکوارٹر کا دورہ کیا۔ اسرائیلی جنرل نے لیفٹیننٹ جنرل دیوراج انیو سے باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔
یہ بات اب پوری طرح کھل چکی ہے کہ اس وقت اسرائیل اور بھارت کی باہمی دلچسپی کیا ہے؟۔ اسرائیل کو فلسطین کی عوامی مزاحمت نے بے چین اور پریشان حال بنا رکھا ہے تو بھارت کو کشمیری عوام کی جائز اور عالمی طور پر مسلمہ تحریک نے تگنی کا ناچ نچا رکھا ہے۔ اسرائیل اور بھارت اس بات پر متفق ہوچکے ہیں کہ دونوں کو ایک ہی ذہنیت اور ایک ہی سوچ اور فکر کا سامنا ہے ۔دونوں کی مشکل اس وجہ سے ہے کہ مسلمان آبادیاں ان کی غلامی کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور اس راہ میں اپنی جانوں کی پروا نہیں کررہیں۔ دونوں بظاہر اسے مسلمانوں میں در آنے والی انتہا پسندی کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں مگر فی الحقیقت دونوں مسلمانوں کے وجود سے الرجک ہیں۔ دونوں نے جب یہ طے کر لیا کہ فلسطین اور کشمیر میں انہیں ایک ذہن اور ایک جیسے حالات کا سامنا ہے تو دونوں نے اس کے مشترکہ مقابلے، معلومات اور حکمت عملی کے تبادلے اور تعاون کا فیصلہ کیا۔ اس دوران یہ ہوا کہ امریکا نے اسرائیل کی طرح بھارت کو اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر بنالیا۔ اس سے پہلے امریکا نے دنیا میں یہ حیثیت صرف اسرائیل کو دی تھی جس کی سلامتی اور تحفظ کا بیڑہ امریکا نے خود اُٹھا رکھا تھا۔ اب اس جھُولے میں بھارت کو بھی بٹھا لیا گیا اور یوں امریکا کی چھتری تلے اسرائیل اور بھارت کیا منصوبے بنا رہے ہیں؟ اور امن عالم پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔ بھارت نے کشمیریوں کی تحریک کو بے رحمی سے کچلنے کے تمام طریقے اور گُر اسرائیل سے سیکھے ہیں۔ کنٹرول لائن پر باڑھ سے پیلٹ گن تک تمام سیاہ کاریوں میں اسرائیل بھارت کا اُستاد ہے۔ یہی وجہ ہے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں پاکستان کی مستقل مندوب نے جب پیلٹ گن سے زخمی چہرے کی ایک تصویر فضاء میں لہرائی تو وہ کشمیر کی نہیں بلکہ فلسطینی لڑکی تھی۔ اب اسرائیلی جنرل کا ایک متنازع علاقے کا دورہ اور فوجی منصوبوں میں شرکت خطرے کی نئی گھنٹی ہے۔