معاملات میں الفاظ ہمیشہ ہی سے بہت اہم رہے ہیں۔ خاص طور پر جب یہ الفاظ کسی کاغذ پر نقش کر دیے جائیں۔ کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں، جو قوموں کی تقدیر پلٹ دیتے ہیں، انسانی المیوں کو جنم دیتے ہیں، کشت و خون کے بازار گرم کردیتے ہیں اور کئی نسلوں کو بحران در بحران میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ ماضی قریب کی اسلامی تاریخ میں بھی ایسے ہی 67 خونیں الفاظ موجود ہیں جن کے حرف حرف سے آج بھی مظلوم مسلمانوں کا لہو ٹپکتا ہے۔ جن کے نقوش تلے ہزاروں آشیانے خاکستر ہیں۔ آج بھی سوا کروڑ فلسطینی اس امید پر جی رہے ہیں کہ وہ کبھی تو اپنے آباواجداد کے وطن واپس لوٹیں گے۔ تاریخ کے ان سیاہ ترین الفاظ کو دنیا اعلان بالفور کے نام سے جانتی ہے، جسے گزشتہ روز 100 برس مکمل ہوگئے ۔ یہ اعلان ارضِ فلسطین پر قابض برطانوی سامراج کی جانب سے دنیا بھر میں معتوب و در بدر یہود کے لیے بظاہرایک وطن کی نوید تھا، لیکن حقیقت میں یہ صہیونیوں کے نام ہزاروں فلسطینیوں کے قتل اور لاکھوں کو بے گھر کرنے کا اجازت نامہ تھا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ پہلی جنگِ عظیم کے دوران 2 نومبر 1917ء کو اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور نے اپنے ایک خط میں صہیونی رہنما لارڈ والتھر روتھشیلڈ کو لکھا تھا کہ ’مجھے شاہِ برطانیہ کی طرف سے آپ کو یہ بتاتے ہوئے بے حد خوشی ہو رہی ہے کہ درج ذیل اعلان صہیونی یہود کی امیدوں کے ساتھ اظہارِ ہمدردی ہے اور اس کی توثیق ہماری کابینہ بھی کرچکی ہے‘۔ وہ اعلان کیا ہے، بالفور کے مطابق ’شاہِ معظم کی حکومت فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کی حامی ہے اور اس مقصد کو پانے کے لیے اپنی ہر ممکن صلاحیت بروئے کار لائے گی، مگر اس بات کو مدِ نظر رکھا جائے کہ فلسطین کی موجودہ غیر یہودی آبادی (یعنی مسلمان اور عیسائی )کسی کے شہری و مذہبی حقوق یا دیگر ممالک میں یہود کی سیاسی حیثیت کو نقصان نہ پہنچے۔ اگر یہ اعلان صہیونی تنظیم کے علم میں بھی لے آیا جائے، تو میں بہت ممنون ہوں گا‘۔ اس خط میں برطانوی کابینہ کی لفاظی بھی کمال ہے۔ غاصبوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ارض فلسطین پر قبضہ تو کریں، لیکن وہاں کے اصل باشندوں کو بے دخل نہ کریں۔ سوال یہ ہے کہ کیا برطانیہ نے بھی اس وقت اپنے زیرِقبضہ خطوں میں اس بات کا لحاظ رکھتا تھا، جو اس کے لے پالک صہیونی رکھتے؟ برطانوی سامراج تو خود مختلف مقبوضہ علاقوں سے مقامی باشندوں کو بحری جہازوں میں بھر بھر کے دور دراز جزیروں پر پھینکتا رہا ہے۔ دوسری جانب دنیا میں یہود کی نیک نامی کے تحفظ کی بات کی گئی ہے، جو خود ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ جس دور میں یہ خط لکھا گیا، اس وقت یورپ بھر میں سامی مخالف تحریک عروج پر تھی اور اس کا ہدف یہود تھے، جنہوں نے اپنی سازشی سوچ کے باعث ماسکو سے لندن تک پورے مغرب کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔ معلوم نہیں تاجِ برطانیہ کو یہود کی کس نیک نامی کی فکر تھی! پھر اس اعلان کے نتیجے میں بدیہی طور پر جو قتل غارت ہونی تھی، وہ قیامت تک کے لیے صہیونیوں کے ساتھ ساتھ برطانویوں کی رو سیاہی کا سبب بننی تھی اور برطانوی حکومت نا صرف یہ جانتی تھی، بلکہ یہود کی آباد کاری کے لیے خود اس نے فلسطین میں مسلمانوں کا قتل کیا۔ اس اعلان نے قاتل اسرائیل کے ناپاک وجود کو جنم دیا، جو آج بھی انسانی تہذیب کے لیے ایک بدنما داغ بنا ہوا ہے، لیکن برطانوی حکومت اس داغ کو دھونے کے بجائے 100 برس بعد بھی اسے مزین کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ جمعرات کے روز برطانیہ میں سرکاری سطح پر اعلان بالفور کا جشن منایا گیا، جس میں خصوصی شرکت کے لیے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو لندن پہنچے۔ برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے نیتن یاہو کے اعزاز میں عشائیہ بھی دیا اور ان کے دفتر سے جاری بیان میں اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کرنے پر فخر کا اظہار کیا گیا ہے۔ اسی طرح برطانیہ کے موجودہ وزیر خارجہ بورس جانسن نے بھی اسرائیل کے قیام کا دفاع کرتے ہوئے اپنے ہم منصب آرتھر بالفور کے کردار کو سراہا اور اس بات پر فخر کا اظہار کیا ہے کہ برطانیہ نے صہیونی ریاست کی تخلیق میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اخبار ٹیلی گراف میں اپنے مضمون میں جانسن نے لکھا ہے کہ مجھے اسرائیل کے قیام میں برطانیہ کے کردار پر فخر ہے۔ یہ دستاویز ایک ’عظیم قوم‘ کی تخلیق میں بڑی اہم ثابت ہوئی ۔اس مضمون کو پڑھ کر یہی معلوم ہوتا ہے کہ آج بورس جانسن سمیت تمام برطانوی اشرافیہ کے نزدیک ’عظیم قوم‘ کی تعریف وہی ہے، جو ایک صدی پہلے تک برطانیہ کے زیرِقبضہ خطوں میں حکمران قوم کے لیے رائج تھی۔ یعنی ایسی قوم جو قابض، قاتل، مکار، دھوکے باز اور ہٹ دھرم ہو۔ جس کے نزدیک اپنا مفاد مستحقین کو حقوق دینے پر مقدم ہو۔ جہاں آزادی سے جینا تو درکنار سانس لینا بھی مشکل ہو۔عالم عرب کے سینے میں اسرائیل کے نام کا خنجر اتار دینا برطانیہ کا واحد کارنامہ نہیں ہے بلکہ برعظیم پاک و ہند میں بھی تقسیم ہند کا ایجنڈا نامکمل چھوڑنا اور ریڈ کلف ایوارڈ سے انحراف بھی انگریز کی مکاری کا ثبوت ہے چنانچہ یہاں کشمیر کا تنازع پیدا کیا گیا تاکہ بھارت اور پاکستان آپس میں الجھتے رہیں۔ قابض برطانوی حکومت نے یہ طے کیا تھا کہ جن ریاستوں میں مسلم اکثریت ہے وہ یا تو پاکستان میں شامل ہو جائیں یا آزاد رہیں۔ لیکن بھارت نے کشمیر کے بڑے حصے پر اسی طرح قبضہ کرلیا جس طرح اسرائیل نے فلسطین پر قبضہ کیا۔
بشکریہ جسارت