December 22nd, 2024 (1446جمادى الثانية20)

شام میں مسلمانوں کا قتل عام! ذمہ دار کون؟

بشریٰ ودود
آپ سب کو جب تک میری آواز پہنچے گی میں خود کو ختم کرچکی ہوں گی، اس لیے کہ اب حلب کا سقوط ہوچکا ہے اور کوئی دَم جاتا ہے کہ شامی اور روسی فوج کے بھیڑیے ہمارے گھروں تک پہنچ جائیں گے۔ ہمارے اور ان کے درمیان مجاہدین کی جو دیوار حائل تھی، وہ گر چکی ہے۔ ان پیاروں میں سے ہر ایک اپنا فرض ادا کرکے اپنے رب سے جا ملا ہے۔ حلب خون میں نہایا ہوا ہے اور اب میرے پاس اور مجھ جیسی لاکھوں لڑکیوں کے پاس اپنی عزتیں بچانے کے لیے اور کوئی راہ نہیں۔ آپ سب مجھ پر کُفر کا فتویٰ لگائیں گے، لیکن اپنی جوان بچیوں کے سروں پر ہاتھ رکھ کر بتایئے کہ کیا میں غلط کررہی ہوں۔۔۔؟‘‘
یہ شام کی ایک مجبور بیٹی کے الفاظ ہیں، جو آج بھیڑیوں میں گھری ہوئی ہے۔
آپ بھی میرے ساتھ آیئے، لمحہ بھر کو وہاں چلیے، جہاں آگ اور خون کا بازار گرم ہے۔ شامی، روسی فوجیں اور حسن نصراللہ کی حزب اللہ (اب اسے حزب اللہ کیسے کہیں، جو اللہ کے بندوں کو قتل کررہی ہو!) مسلمانوں کا قتل عام کررہی ہیں۔ مگر قتل کہاں، وہ تو انہیں حیاتِ جاوداں دے رہی ہیں۔ کل جب قیامت کے دن یہ شہدا اٹھیں گے تو اس طرح کہ ان کے جسم سے خون ٹپک رہا ہوگا اور اس کا ایک ایک قطرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چاہنے والوں، آپؐ کی ولادت کے جشن منانے والوں اور ان پر لاکھوں روپے خرچ کرنے والوں سے سوال کررہا ہوگا کہ تم کہاں تھے، جب حلب جل رہا تھا۔ ظالموں نے مسلسل شہریوں پر بم باری کرنے کے بعد گھروں کو آگ لگادی۔ کہتے ہیں ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے، اب یہ اور کتنا بڑھے گا۔۔۔ خدایا معاف کردے۔۔۔ خدایا رحم کردے۔۔۔ 200 لوگوں کو زندہ جلا دیا گیا، اب بھی ظلم باقی ہے۔
اور آگے بڑھیے۔۔۔ یہ آپ کی میری جیسی اک ماں ہے، جس کے تین بچوں کے گلے کٹے پڑے ہیں، وہ چیخ چیک کر رو رہی ہے۔ خون بہہ رہا ہے۔۔۔ آگے ایک، دو نہیں سیکڑوں زخمی کراہ رہے ہیں، سڑکوں پر گھروں میں ہر جگہ خون بہہ رہا ہے۔
ارے یہ منظر تو کبھی دیکھا نہ تھا۔ دل بند ہورہا ہے، آنکھیں رو رہی ہیں۔ یا اللہ یا اللہ۔۔۔ اللہ اکبر۔۔۔ اللہ اکبر کی صدا ہے۔۔۔ بس کہی فوجی بوٹ نظر آرہے ہیں اور اک لڑکی زندہ زمین میں گاڑ دی گئی ہے۔ یہ فوجی اس پر مٹی ڈال رہے ہیں۔ اللہ۔۔۔ اللہ کیسی صدا ہے بس۔۔۔ اب وہ اس کے منہ پر مٹی ڈال رہے ہیں۔۔۔ آواز دم توڑتی جارہی ہے۔ جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا تو کس جرم میں گاڑی گئی تو ضرور اس زندہ گاڑے جانے والے سے بھی ضرور پوچھا جائے گا کہ تو نے اسے کس جرم میں زندہ گاڑ دیا۔۔۔ اللہ اللہ۔۔۔ اردگرد سب تماشائی ہیں اور۔۔۔ اور خون بہہ رہا ہے۔
اور آگے کا منظر عجیب منظر ہے، بہت عجیب۔۔۔ اک قطار میں لوگ چلے آرہے ہیں اور ان سب کے ہاتھوں میں کفن میں لپٹے ان کے عزیزوں کے لاشے ہیں۔۔۔ سفید سفید کفن سرخ لاشے۔۔۔ ہر قطار بہت لمبی ہے۔۔۔ دور تک چلی گئی ہے، آگے اجتماعی قبریں کھودی دی گئی ہیں اور سب چلے جارہے ہیں آیئے، ہم بھی ان کے ساتھ کچھ دور چلتے ہیں، ساتھ ساتھ ہی چل لیتے ہیں شاید کہ کچھ نام ہمارا بھی ان کے ساتھ آجائے۔ وہ جو دائیں بازو والے ہیں، وہ جو مقرب لوگ ہیں۔۔۔ نور والے۔۔۔ روشنیوں والے۔۔۔ اخوان کا شہر ہے، جانے کتنوں کے دلوں میں قرآن نور بن کر جگمگاتا ہوگا۔۔۔ ہمیں بھی تو پل صراط پر چلنا ہے۔۔۔ نور کے تو ہم بھی فقیر ہیں۔۔۔ مگر مانگتے تو اللہ سے بس دنیا ہی دنیا ہیں۔
اور آگے چلیے۔۔۔ اپنے مضبوط اور مستحکم گھر سے نکلیے اور ان ٹوٹے پھوٹے گھروں میں آیئے جو ریزہ ریزہ ہیں، چھٹیں الٹی پڑی ہیں، درودیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا۔۔۔ کھانے کاسامان مٹی مٹی ہے۔۔۔ پینے کا پانی نہیں آپ کے میرے حسین کچن جیسا کوئی کچن نہیں رہا، بستر نہیں کہ زخمی بچوں کو لٹا دیں، کوئی تکیہ نہیں کہ زخم زخم شوہر کے سر کے نیچے رکھ دیں، کوئی دوا نہیں مل رہی، زخموں کے لیے۔۔۔خون بند کرنے کے لیے۔۔۔ امدادی سرگرمیوں کے لیے قائم ہسپتال کے تمام عملہ کو یرغمال بنا کر اک اک کرکے گولیوں سے اڑا دیا گیا ہے۔۔۔ ایک بچی کو گولی لگ گئی ہے، پیاروں نے اس پیاری کے جسم سے گولیاں کھرچ کھرچ کر نکال دی ہیں، بے ہوشی کی ادویہ نہیں ہیں۔ بچوں کا بڑوں۔۔۔ تکلیف کی شدت سے چیخ چیخ کر برا حال ہے۔۔۔ ہر کوئی حیران پریشان ہے۔ 40 لاکھ کی آبادی کا شہر لہو لہو ہے۔۔۔ خون بہہ رہا ہے۔۔۔ لاکھوں لوگ شہید کیے گئے ہیں، لاکھوں زخمی ہیں، ہر آدمی جو نظر آئے، جلادوں نے اسے گولی مارنے کا حکم دیا ہے ۔۔۔ آج سے بہت پہلے 1982میں بھی اسی طرح حماس کا شہر روند ڈالا گیا تھا، جب حافظ الاسد حکم راں تھا۔۔۔ 8 لاکھ آبادی کا شہر دھواں دھواں تھا۔ ہر عمارت مسمار کر دی گئی تھی، قصور اس وقت بھی یہی تھا، وہ شہر بھی اخوان کی محبتوں کا مرکز تھا۔ 1980 میں حافظ الاسد پر قاتلانہ حملے کا الزام لگاکر 5000 اخوانی گرفتار کیے گئے، ان میں عورتیں بھی شامل تھیں۔ انہیں برہنہ کرکے کھلے عام ٹرکوں پر بٹھا کر دن کی روشنی میں شہروں میں گھمایا گیا۔۔۔ پھر مردوں کو تشدد کرکے پھانسی دی گئی اور عورتوں کی بے حرمتی کرکے ان کی آنکھیں پھوڑ دی گئیں اور نابینا اور بے عزّت کرکے واپس بھیج دیا گیا۔ خون بہتا رہا۔۔۔ سب شہروں میں احتجاج ہوا تو 1982 میں 30 ہزار شامی اور روسی فوجی مل کر شہر پر ٹوٹ پڑے۔ پانی، بجلی بند کر دیا، زہریلی گیس پھینکی گئی اور مسلسل 3 ہفتوں تک بم باری کی گئی۔ سارے شہر کو کھنڈر بنادیا۔۔۔ خون بہتا رہا۔۔۔ شہیدوں کا سرخ سرخ خون۔ آج 2016 میں پھر اک شہر روند دیا گیا ہے۔۔۔ پھر ایک کاررواں لٹا۔۔۔ ہر اک صدی کے وسط میں اک کارواں لوٹ لیا جاتا ہے، بدستِ دشمناں نہیں بلکہ اپنے ہی اپنے گھروں میں نقب لگاتے ہیں، انہیں خون مسلماں کی خوشبو اچھی لگتی ہے اور ہمیں تو ایریل (Areal) واشنگ پاوڈر کی خوشبو اچھی لگتی ہے۔۔۔ ہر بات ان کی باوزن لگتی ہے۔۔۔ ہر منصوبہ ان کا قابل قبول ہے۔۔۔ ہر فرمان ان کا سر آنکھوں پر۔۔۔یہ کیسی اندھیر نگری ہے کہ سندھ اسمبلی بل پاس کرتی ہے کہ کوئی 18 سال کی عمر سے پہلے مسلمان نہیں ہوسکتا اور ہمارے سمجھ دار وزیراعظم ان مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے قائد اعظم یونیورسٹی کے سینٹر آف فزکس کا نام قادیانی ملک دشمن، اسلام دشمن عبدالسلام کے نام پر رکھ دیتے ہیں۔۔۔ کوئی اللہ کو خوش کرنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کرتا یا کرنا ہی نہیں چاہتا۔ پھر 12 ربیع الاوّل کو نبیؐ کے چاہنے والے سب جن کے حق دار بن جاتے ہیں، وہ پیارے نبیؐ ان پر لاکھوں درود و سلام بھیجتے ہیں۔۔۔ وہ جو رب کے محبوب تھے اور آج بھی ہیں اور رب انؐ کا محبوب تھا۔ ہمارے محبوبوں کی فہرست میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام تو ہے، مگر ان کے محبوب رفیق اعلیٰ کا نام نہیں، اس رب سے پیار نہیں۔۔۔ اس کے نام پر جانیں قربان کرنے والوں کا تذکرہ نہیں۔
یہ سب ہی کیوں ہے یہ کیا مجھے کچھ سوچنے دے
کوئی تیرا بھی خدا ہے مجھے کچھ سوچنے دے
ہم نے زندگی کو عجب خانوں میں بانٹ رکھا ہے، بس وہ جو من چاہے، وہ سب سے اچھا ہے، جو دنیا میں ڈوبا ہوا ہے، وہ ہمارا اپنا ہے، پھر ہم میں اور ان عرب مغرور سرداروں میں کیا فرق ہے، جنہوں نے تکبّر سے کہا کہ ہمیں یہ دین پسند نہیں، جو غریبوں کا ہے۔۔۔ بے وطن بے گھروں کا ہے، مظلوموں کا ہے، ایسے ہی مظلوموں کا، جن کا آج ہر جگہ خون بہہ رہا ہے۔۔۔جانے ان کا مقام کیا ہو؟ یہ تو وہ لوگ ہیں جو مسلمان ہیں اور مسلمانوں کے لیے بھی اجنبی ہیں۔ غور سے دیکھیے، یہ وہی تو ہیں، جنہیں ہمارے پیارے نبیؐ نے خود مبارک باد دی تھی اور کہا تھا کہ مبارک ہو ان اجنبیوں کے لیے جو میرے بہت بعد آئیں گے۔
آج ان کو کون مبارک باد دے گا؟ اس لیے تو پیارے نبیؐ انہیں مبارک دے گئے۔ وہ جن کا چلنا مبارک کہ راہِ خدا میں چل رہے ہیں، جن کا لڑنا مبارک کہ راہِ خدا میں لڑ رہے ہیں، جن کا رونا مبارک کہ اس راہ میں اپنے پیاروں کے دکھ پر رو رہے ہیں، جو اللہ کی راہ میں قربان ہوئے (آنسو تو بہہ ہی جاتے ہیں، انسان جو ہوئے) ان کے خون کا بہنا مبارک، جو اللہ کی راہ میں بہہ رہا ہے۔۔۔ وہی معطر خون، جو بہہ رہا ہے۔۔۔ آیئے، دیکھیے، کہیں اس خون کا رنگ ہمارے خون سے مختلف تو نہیں۔۔۔؟ خدارا! سوچیے، یاد کیجیے۔۔۔ نبیؐ نے کہا تھا:
’’جب اہلِ شام کو فساد گھیر لے تو تمہارے درمیان کوئی خیر باقی نہیں رہے گی۔‘‘