November 7th, 2024 (1446جمادى الأولى5)

شام میں تباہی اور سفاکیت کے نئے ریکارڈ

شہر،’’حلب‘‘جسے خلافتِ عثمانیہ کا سب سے خُوب صورت شہر کہا جاتا تھا، بربادی، تباہی، اور بہیمیت کی علامت بن چکا ہے۔ اس شہر پر شامی اور روسی افواج کی کئی ماہ تک جاری رہنے والی وحشیانہ بم باری اور کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے نتیجے میں بشار الاسد یہاں کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔  شامی صدر کی اس فتح کے چند روز بعد ہی ترکی کے دارالحکومت، انقرہ میں ایک ترک پولیس اہل کار نے روسی سفیر، آندرے کارلوف کو قتل کردیا۔

 

عبدالغفارعزیز

2016ء رخصت نہیں ہوا بلکہ صفحۂ تاریخ پر ثبت ہوگیا۔ یہ سال زخموں سے چُور بھی رہا اور امیدوں کے نئے چراغ بھی جلاتا رہا۔اپنے حبیب سے اللہ کے وعدے کے مطابق، اُمّتِ مسلمہ پر اس کا  دشمن ہمیشہ کے لیے غالب نہیں آسکے گا، لیکن باہمی قتل وغارت کی آزمائش میں ناکامی ہوتی رہے گی اور2016ء اس ناکامی کا ایک اور گواہ بن کر رخصت ہوا۔ عراق، شام، یمن، بنگلادیش، مصر، لیبیا، نائیجیریا، صومالیہ اور تاجکستان مسلمانوں کے باہمی قتل وغارت کا خوف ناک عنوان بنے رہے۔

مشرقی وسطیٰ کی نئی تقسیم :

شام، عراق، یمن اورلبنان میں جاری کِشت و خوں بنیادی طور پر مشرق وسطٰی کو ازسرِ نو تقسیم کرنے کی تیاری ہے۔ عالمی منصوبہ سازوں نے ایک سو برس قبل کی جانے والی تقسیم کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کئی عشرے قبل جو نیا مشرق وسطیٰ تجویز کیا تھا، وہ اب اپنی تمام تر تفصیلات کے ساتھ  زمین پردکھائی دینے لگا ہے۔ عراق کو تین حصّوں (شیعہ، سنّی اور کُرد)میں تقسیم کرنے کی بات کی تھی اور وہ تین ٹکڑوں میں بٹ چکا ہے۔ اس مقصد کے لیے شیعہ، سُنّی، سُنّی، سُنّی، شیعہ، شیعہ، کُرد، عرب اور عرب،عرب مڈبھیڑ کے جیتنے بھی مراحل تجویز کیے گئے تھے، اس وقت ان ہی پر عمل درآمد ہورہا ہے۔  بہ ظاہر انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی جارہی ہے، لیکن عملاََ اسے مکمل کمک اور ہمہ پہلو سرپرستی فراہم کی جارہی ہے۔  اس کی سب سے واضح مثال عراق کے قبلِ مسیح کی تاریخ رکھنے والے صوبے، نینویٰ کے دارالحکومت، موصل میں دیکھی جاسکتی ہے۔  اکتوبر میں وہاں ایک بڑی جنگ شروع ہوئی جو درحقیقت ایک عالمی جنگ ہے۔ ایک طرف عراق کی فوج ہے، جس کا ساتھ ایران، رُوس اور لبنان کی فوج اور ملیشیا زدے رہی ہیں۔ دوسری طرف امریکا اوراس کی حلیف افواج ہیں۔ تیسری طرف کُردستان کی ’’بیش مرگا‘‘افواج اورچوتھی جانب تُرک افواج کا دستہ ہے۔ تُرکی کو یہاں موجود کُرد باغیوں اور داعش کی جانب سے مسلسل دہشتگردی کا سامنا ہے، جب کہ پانچویں جانب ’’داعش‘‘ نامی معمہ ہے۔ اصل چیستاں یہ ہے کہ لڑائی سے پہلے داعش موصل اور گردونواح میں ایک جابر حکم راں کی حیثیت سے دہشت پھیلائے ہوئے تھی۔  لڑائی شروع ہوئی، تو پھر نہ تو داعش کا کوئی بڑا نقصان ہوا اور نہ ہی ان کا اقتدار باقی بچا۔  کچھ نہ کچھ جھڑپیں اب بھی جاری ہیں اور جاری رکھی جائیں گی، لیکن وہ آئے روز سیکڑوں افراد کو میدانوں میں لا کر ذبح کردینے والی داعش کہیں نظر نہیں آرہی۔  کہا جارہا ہے کہ داعش کے جنگ جُو شام منتقل ہوگئے ہیں۔  یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر داعش اتنا ہی خوف ناک دہشت گرد گروہ ہے، جس سے لڑنے کے لیے 550 ارب ڈالرز کا بجٹ رکھا گیا، تو اسے موصل سے شام جانے کا موقع کس نے اور کیوں دیا؟ وا گزاری کی طرح 2014ء میں موصل پر داعش کا قبضہ بھی ہنوز ایک معمہ ہے۔ اگست 2015ء میں جاری کی گئی سرکاری تحقیقاتی رپورٹ میں سابق عراق وزیرِاعظم، نوری المالکی (جنہیں اب کرپشن کے بڑے خوفناک الزامات کا سامنا ہے) کو ذمّے دار ٹھراتے ہوئے کہا گیا تھا کہ انہوں نے عراقی افواج کو اپنا اسلحہ چھوڑ کر داعش کے مقابلے میں پسپائی اختیار کرنے اور فرار کے احکامات دیے تھے۔

2016ء میں بنگلادیش اورافغانستان سمیت کئی ممالک میں داعش کی خوں ریز کاروائیوں کی بازگشت سنائی دیتی رہی۔ بنگلادیشی خفیہ ایجنسیز کی تحقیقات کے مطابق، وہاں یکم جولائی کو داعش کے نام پر ہونے والی خوفناک کاروائیوں میں استعمال ہونے والا اسلحہ بھارتی فیکٹریز کا تیارشدہ تھا۔ افغانستان میں بھی داعش کا ظہور اور پھیلاؤ کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے وہاں داعش کی تقریباََ تمام تر کاروائیاں طالبان کے خلاف ہوئیں۔  یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب اگر افغان طالبان کا ایک نُکاتی ایجنڈا افغانستان میں موجود امریکی اور اس کے حلیف افواج کا مقابلہ کرنا ہے، تو پھر اس کے خلاف لڑنے والی داعش کا اصل ہدف کیا ہے؟

شام،خون آشام:

2016ء میں شام حسبِ سابق خاک و خون میں ڈوبا رہا۔  گزشتہ برس یہاں تباہی اور سفاکیت کے نئے ریکارڈز قائم ہوئے۔ آج شان دار تاریخ و ثقافت کا حامل شہر،’’حلب‘‘جسے خلافتِ عثمانیہ کا سب سے خُوب صورت شہر کہا جاتا تھا، بربادی، تباہی، اور بہیمیت کی علامت بن چکا ہے۔ اس شہر پر شامی اور روسی افواج کی کئی ماہ تک جاری رہنے والی وحشیانہ بم باری اور کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے نتیجے میں بشار الاسد یہاں کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔  شامی صدر کی اس فتح کے چند روز بعد ہی ترکی کے دارالحکومت، انقرہ میں ایک ترک پولیس اہل کار نے روسی سفیر، آندرے کارلوف کو قتل کردیا۔  گزشتہ پانچ برسوں کے دوران شام میں تقریباََ چار لاکھ بے گناہ شہری شہید ہوچکے ہیں اور اس وقت ڈیڑھ کروڑ سے زائد شامی مہاجرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جب کہ اس برس بھی مختلف شامی مہاجر کیمپوں سے فرار ہونے کی کوشش میں سیکڑوں بچے اور خواتین سمندری لہروں کی نذر ہوگئے۔ 2015ء میں دورانِ ہجرت سمندر کی لہروں کی زدمیں آنے والے ننھے شامی ایلان کُردی کی لاش خانہ جنگی کا ایک استعارہ بنی تھی اور 2016ء میں بم باری کے بعد ایک عمارت کے ملبے سے نکالا جانے والا معصوم بچہ عُمران نیا استعارہ بن گیا۔ پانچ سالہ عُمران لہولہان تھا، لیکن مٹی، خون اور زخموں سے اٹے چہرے والے اس معصوم کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ سب کچھ اُس کے معمول کا حصہ تھا۔ ہر قسم کے جذبات سے عاری چہرہ لیے ایمبولینس میں گُم صُم بیٹھے اس بچّے کو دیکھنے والا ہر شخص پکار اٹھتا ہے کہ ’’خون سے تر یہ بچّہ رو کیوں نہیں رہا ؟‘‘ حتیٰ کہ اس موقع پر سی سی این این پر عُمران کو سامنے لانے والی نیوز کاسٹر بھی اس منظر کی تاب نہ لاتے ہوئے خود رونے لگتی ہے۔

آتشِ یمن:

جنگِ یمن صرف اہلِ یمن ہی کے لیے نہیں، بلکہ ارد گرد کے تمام ممالک کے لیے بھی سوہانِ رُوح بنی ہوئی ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں باغی حوثی قبائل اور ان کا سر پرست سابق ڈکٹیٹر، علی عبد اللہ صالح (جو33 برس تک ملک کے سیاہ و سفید کا مالک رہا) ہی نہیں، بلکہ ایران اور سعودی عرب سمیت اطراف کے کئی ممالک بھاری قیمت چُکا رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلحے کے عالمی سوداگر طویل عرصے تک اس جنگ کی آگ کو بُجھنے نہیں دیں گے۔ 2016ء میں یہ تان بھی بار بار اُٹھائی گئی کہ یمن کو ایک بار پھر دو متحارب ممالک میں تقسیم کردیا جائے۔

سعودی عرب، ایران اور مصر:

جنگِ یمن کا ایک متنازع ترین لمحہ اس وقت سامنے آیا کہ جب حوثی قبائل نے سعودی عرب پر میزائل داغتے ہوئے ایک کا رُخ مکّہ مکرّمہ کی جانب کردیا۔ سعودی حکومت کے سرکاری اعلان کے مطابق، یہ اسکڈ میزائل مکّہ مکرّمہ سے صرف65 کلومیٹر کے فاصلے پر فضا میں تباہ کردیا کردیا گیا۔ گرچہ حوثی قبائل نے مکّہ مکرّمہ کو نشانہ بنانے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ’’ہم مکّہ نہیں ،جدّہ کو نشانہ بنارہے تھے،‘‘لیکن اصحاب الفیل اور ابرہہ کا حوالہ دیتے ہوئے اس واقعے کی باز گشت پورے عالمِ اسلام میں سنائی دی۔ باغی حوث قبائل کے میزائل حملوں کے علاوہ عرب کو2016ء میں دہشت گردی کی درجنوں کاروائیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران مسجد اور امام بارگاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ پولیس اور فوجی چوکیوں پر حملے ہوئے اور کئی افراد کو داعش سے تعلق رکھنے والے ان کے انتہائی قریبی عزیزوں نے شہید کردیا۔ امّت کے لیے رنج والم کا سنگین لمحہ وہ تھا کہ جب رمضان المبارک میں عین افطار کے وقت حرمِ تاج دارِ مدینہ کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس واقعے میں زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا، لیکن اپنے تیئں عبادت کے زعم میں مبتلا دہشت گردوں نے پوری اُمّت کے دِل زخمی کردیے۔

جنوری2016ء میں سعودی عرب میں دہشت گردی کے الزام میں 47 افراد کو پھانسی دے دی گئی۔ ان میں سے اکثر کا تعلق القاعدہ سے تھا۔  لیکن ان میں سے ایک شیعہ عالمِ دین، نمرالنّمر بھی شامل تھے۔ ان کی پھانسی پر ایران میں شدید ردِ عمل سامنے آیا۔ مشتعل ایرانی شہریوں نے مشہد میں واقع سعودی قونصل خانے کو نذرِ آتش اور تہران میں واقع سعودی سفارت خانے پر حملہ کردیا، جس پر احتجاج کرتے ہوئے سعودی عرب نے ایران سے سفارتی تعلقات منقطع کرلیے۔ بعد ازاں، تلخی یہاں تک پہنچ گئی کہ ایرانی باشندوں کا حج اور عُمرے کا سفر بھی منقطع ہوگی۔ اس ضمن میں مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے، جو سعودی عرب کے بہ قول، دورانِ حج مظاہرے کی اجازت نہ دینے پر اور ایران کے بہ قول ، مطلوبہ کوٹا اور ضروری یقین دہانیاں نہ ملنے پر ناکام رہے۔ اس وقت دونوں ممالک کے مابین سفارتی ہی نہیں، بلکہ سیاسی، عسکری اور مذہبی اختلافات بھی مزید خطرات کا باعث بن رہے ہیں۔  سعودی عرب میں یمن شام اور ایران کے بعد اب مصر کی جانب سے بھی گرم ہوائیں آنے لگی ہیں۔ خلیجی ریاستوں کی جانب سے جنرل السّیسی کو 40 چالیس ارب ڈالرز کی مالی مدد  فراہم کی گئی تھی اور جیسے ہی اس مدد(جنرل السّیسی کے بہ قول چاول)میں کمی آئی، تو وہ کھلم کھلا دھمکیاں دینے لگے۔ السّیسی حکومت کی لوٹ مار ملاحظہ ہوکہ 40 ارب ڈالرز کی مالی امداد کے باوجود  قومی خزانے میں تقریباََ 13 ارب ڈالرز کے ذخائر رہ گئے ہیں، جب کہ السّیسی نے حکومت سنبھالی تھی، تواس وقت 33 ارب ڈالرذ موجود تھے۔ تب ایک ڈالر 8 مصری پاؤنڈز کا تھا اور اب19 پاؤنڈز کا ہوگیا ہے۔

2016ء میں امریکی کانگریس نےJASTA نامی قانون منظورکیا۔  جس کی تحت نائن الیون کے مقتولین کے ورثاء کو امریکی بینکس میں موجود غیر ملکی مالی ذخائرسے ادائیگی کی جاسکے گی۔ اس کا سب سے بڑا ہدف سعودی عرب کو بنایا جاسکتا ہے۔ ٹرمپ کی جیت نے ان خدشات میں اضافہ کردیا ہے، کیوں کہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران سعودی عرب کوتنقید کا خصوصی نشانہ بنایاتھا۔

خوش حال تُرکی، ناکام  بغاوت:

15 جولائی 2016ء ترک تاریخ کا ایک اہم ترین دن بن گیا۔ اس روز تُرک فوج کے ہزاروں اہل کار منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ ٹینکوں، ایف 16 جہازوں اور دیگر مُہلک ہتھیاروں سے عوام پر بم باری کی گئی، جس کے نتیجے میں 240 شہری شہید اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔ باغیوں نے فوج کے سربراہ جنرل آکار خلوصی کو بھی گرفتار کرلیا، لیکن تُرک صدر، رجب طیب اردوان کے فیس ٹائم ‘‘ کے ذریعے دیے گئے 12سیکنڈز کے براہِ راست انٹرویو نے پورا نقشہ بدل دیا۔ اس انٹرویو کے بعد ساری قوم جمہوریت کے حق میں دیوانہ وار سڑکوں پر نکل آئی اور سینہ تان کر ٹینکوں کے سامنے ڈٹ گئی۔ بالآخر ٹینک اور توپیں ہار گئیں اور عوام اور ان کا جذبہ جیت گیا۔ اس ناکام بغاوت کے بعد اب آئندہ تُرکی میں ایسی کوئی بھی مہم جوئی کرنے والوں کوایسا کرنے سے پہلے ہزار نہیں، بلکہ لاکھ بار سوچنا پڑے گا۔

تُرک حکومت نے اس بغاوت کا الزام 1998ء سے امریکی ریاست، پینسلوینیا میں خود ساختہ جِلاوطنی کی زندگی بسر کرنے والے تُرک رہنما، فتح اللہ گولن اور ان کی تنظیم پر عائد کیا۔ باغیوں نے دورانِ بغاوت فوج کے سربراہ کو یہ پیشکش کی تھی کہ وہ گولن کا فون سن کر ان کا ساتھ دینے کا اعلان کردیں۔  تو انہیں مُلک کی سربراہی سونپ دی جائے گی۔ بغاوت ناکام ہونے کے بعد مُلک پھر میں گولن تحریک سے وابستہ افراد کو بڑی تعداد میں گرفتار اور ملازمتوں سے فارغ کردیا گیا اور اس کے ساتھ ہی فوری سماعت کے چیمبرز قائم کردیے گئے، جن کے ذریعے بغاوت سے وابستگی ثابت نہ ہونے پر رہائی اور ملازمتوں پر بحال کا عمل بھی جاری ہے۔

اسی ضمن میں تُرک حکومت نے دنیا بھر میں قائم گولن تحریک کے تعلیمی اداروں کی انتظامیہ تبدیل کرنے کا عمل بھی شروع کردیا۔ حکومت کے مطابق،’’ باغیوں سے ملنے والی دستاویزات پتا چلتا ہے کہ گولن دنیا بھر کے اہم مقامات پراپنا نفوذ قائم کرنا چاہتے ہیں،اس لیے ان تعلیمی اداروں کی انتظامیہ تبدیل کرنا خود ان دوست ممالک سے خیر خواہی ہے۔‘‘دنیا بھر میں صدر اردوان کے مخالفین نے بغاوت کی خبر ملتے ہی فتح کا جشن منانا شروع کردیا اور انقرہ میں امریکی سفارت خانے نے اپنی ویب سائٹ پر اسے ’’ تُرک بیداری Turkish Uprising کا نام دیا اور اب وہی مخالفین ان تُرک تعلیمی اداروں کے خلاف کاروائی کو سخت تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ تاہم، تمام تر بحرانوں کے باوجود ترکی میں ترقی کا سفر جاری رہا۔

بنگلادیش:

2016ء میں حسینہ واجد کی حکومت نے اپنے سیاسی مخالفین کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کی کوششیں جاری رکھیں اور 1971ء میں پاکستان دولخت کرنے کی مخالفت کو بنیاد بنا کر مزید بے گناہوں کو پھانسی چڑھا دیا گیا۔ صدر سے رحم کی اپیل سے انکار کرتے ہوئے تختۂ دار چومنے والے نمایاں ترین افراد میں امیر جماعت اسلامی بنگلادیش، مطیع الرحمٰن نظامی اور معروف صحافی و دانشور، سیّد میر قاسم علی شامل ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان سمیت عالمِ اسلام کی کسی بھی حکومت نے اس پر مؤثر احتجاج نہیں کیا۔ صرف تُرک صدر، طیّب اردوان نے بنگلادیش نے اپنا سفیر واپس بلایا۔ بعدازاں، پاکستان نے بھی احتجاج ریکارڈ کروادیا۔ البتہ بھارتی حکومت نے ان سزاؤں پر سب سے زیادہ مسّرت کا اظہار کیا۔

جمہوری سفر:

2016ء کے دوران مراکش اور کویت میں پُرامن عام انتخابات منعقد ہوئے۔ مراکش میں وہاں کی دینی سیاسی جماعتوں نے سب سے زیادہ نشتیں حاصل کیں اور حسبِ سابق ان کی حکومت قائم ہوئی۔ تیونس کی تحریک نہضت نے اپنی وسیع ترسیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا اور حکمراں جماعت کے کئی ارکان کے استعفوں کے بعد پارلیمنٹ میں سب سے بڑی جماعت بن گئی، لیکن اس نے حکومت کی سربراہی سنبھالنے سے معذرت کرلی۔ البتہ مخلوظ حکومت میں شامل ہے۔ کویت کے انتخابات گزشتہ      10برسوں کے دوران ساتویں انتخاب تھے۔ 50ارکان کے ایوان میں26ارکان حکو مت کے حمایت یافتہ ہیں اور 24اپوزیشن کے۔

2016ء میں افغان حکومت اور افغان رہنما، انجینئر گلبدین حکمت یار کے مابین ہونے والا معاہدہ اور آخر الذّ کرکی طرف سے افغانستان واپس آ کر عملی افغان سیاست و انتخاب میں براہِ راست حصہ لینے کا اعلان وہاں جمہوری عمل کے استحکام میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ افغانستان میں استحکام صرف اس برادر مُلک ہی کے لیے نہیں، بلکہ خطّے کے تمام ممالک کے لیے خیر و برکت کی نوید لائے گا۔ ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والا معاہدہ TAPI اس کا ایک چھوٹا سا مظہر ہے۔ گوادر بندر گاہ کا باقاعدہ افتتاح اور CPEC منصوبے کی تیزی سے تکمیل بھی صرف پاکستان اور چین ہی کے لیے نہیں، بلکہ ایران، افغانستان، وسطی ایشیا اور خلیجی ریاستوں کے لیے تعاون کی بہت سی راہیں کھولے گی۔