October 4th, 2024 (1446ربيع الأول30)

لہو لہوحلب

زین صدیقی

دنیا کی بے حسی اور کیا ہو گی کہ اسلامی، علمی و ثقافتی اہمیت کے حامل ملک شام کے شہر حلب پر وحشیانہ بم باری ہوتی ہے، ہزاروں لوگ مار دیے جاتے ہیں، بچوں کو زندہ درگور کیا جاتا ہے، ماؤں بہنوں کی عزتوں کی جانب وحشیوں کے ہاتھ بڑھتے ہیں، آگ اور خون کا گھناؤنا کھیل کھیلا جاتا ہے لیکن ظالم کے ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں ہے، 2کروڑ آبادی والے شام کے شہرحلب سے لوگوں کو شہر چھوڑنے کا حکم دیا جاتا ہے، ان لوگوں کو جو سال ہا سال سے وہاں آباد ہیں، ظلم کے ایسے واقعات رقم کیے جاتے ہیں جنہیں سوچ کر انسانیت کانپ اٹھتی ہے، حلب میں2015سے بدترین ظلم کا بازار گرم ہے، لیکن عالمی حکمران و تنظیمیں محض تماشا دیکھنے اور مظالم پر بیان بازی تک محدود ہیں۔

شامی مسلمانوں پر ان ہی کی زمین تنگ کر دی گئی، تاریخی و اسلامی اعتبار سے انتہائی اہمیت کے حامل ملک شام کے شہر حلب کو کھنڈرات میں بدلنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی گئی، اس کی آبادی پر گولہ باری کی جاتی ہے، جدید اور طاقتور ہتھیاروں کا بے رحمانہ استعمال کیا جاتا ہے، لیکن دنیا پھر خاموش ہے، شام کے ذرائع ابلاغ نے اپنی رپورٹس میں ایرانی پاسداران انقلاب کے ایک سینئر جنرل جواد غفاری کا ایک بیان نقل کیا جس میں اس کا کہنا ہے کہ حلب میں محصور تمام افراد کو اجتماعی طور پر موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون اپنی آخری اخباری کانفرنس میں شہر حلب کو جہنم سے تشبیح دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم نے شام کے عوام کو ناکام کیا، امن تب ہی قائم ہوگا جب ہمدردی، انصاف اور مکروہ جرائم کے معاملے کا احتساب ہوگا، شام کی حکومت پر زور دیا کہ وہ انخلا کی کوشش جاری رکھے، انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ نے فریق سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انخلا کے اس عمل کو بحفاظت جاری رکھنے کے لیے تمام ضروری انتظامات کریں۔ دنیا میں اپنے آپ کو سپر پاور سمجھنے والے امریکا کے صدر بارک اوباما شام کے شہر حلب میں نہتے شہریوں کے وحشیانہ قتل عام کی شدید مذمت کرتے ہوئے قرار دیتے ہیں وحشت اور درندگی کے سنگین جرائم کی ذمے داری روس، ایران اور بشارالاسد پر عائد کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ روس شامی فوج کے جنگی جرائم کی پردہ پوشی اور دنیا کو دھوکا دینے کی کوشش کررہا ہے۔ حلب میں وحشیانہ حملوں پر پوری دنیا کا موقف ایک ہے، پورے حلب شہر کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے۔ جنگ بندی معاہدہ ہونے کے باوجود شہریوں کی ہلاکتوں کی مسلسل خبریں آ رہی ہیں۔
شامی حکومت کی طرف سے پہلے دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ ان کاروائیوں میں عسکریت پسندوں کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے لیکن جب شہری آبادیوں اور ہسپتالوں پر بمباری کے نتیجے میں قتل عام دنیا کے سامنے آیا تو اس نے پینترا بدلتے ہوئے کہہ دیا گیا کہ یہ بمباری باغیوں نے کی ہے، پوری ڈھٹائی سے عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، گزشتہ چند ماہ میں روسی جنگی طیاروں نے شامی شہر حلب کو خاص طور پر نشانہ بنایا ہے جس سے پورا شہر کسی ویران کھنڈر کا منظر پیش کر رہا ہے۔ مغربی ممالک کی طرف سے یہاں پہلے داعش کو پروان چڑھایا گیا اور اب انہیں کچلنے کے بہانے سنی العقیدہ مسلمانوں کا بے دردی سے خون بہایا جارہا ہے۔ روس اور دیگر ملکوں کی سرپرستی میں جس طرح وحشیانہ انداز میں شامی فورسز نے اپنے شہریوں کا قتل عام کیا ہے، تاریخ انسانی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں تمام فریقین سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ تشدد کی کاروائیوں میں ہسپتالوں، طبی عملے اور طبی تنصیبات کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اورایسے واقعات میں ملوث ذمے داران کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ اقوام متحدہ شام کے حالات پر غور کر رہی ہے جس کے بارے میں امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کہہ دیا کہ اقوام متحدہ محض باتیں کرنے کی جگہ ہے اور یہ ایک کلب بن چکا ہے۔ امریکی صدر کے اس بیان کے بعد اقوام متحدہ کو اپنے کردار پرنظرثانی کرنی چاہیے۔
2016 میں جنیوا مذاکرات میں امریکا اور روس نے مل کر جنگ بندی کا اعلان کیا تھا لیکن چند ہی روز بعد شام کی حکومت نے حلب پر حملے دوبارہ شروع کر دیے اور جنگ بندی کی پاسداری نہیں کی۔ حلب سے نکلنے والے بے گناہ افراد کو ترکی اور سعودی عرب میں پناہ دی گئی ہے، انہیں پناہ گزین کیمپوں میں رکھا گیا، ان کیمپوں کے مکینوں کے حلب میں آگ و خون کا جو خوف ناک کھیل دیکھنے کے باوجود ان کے حوصلے بلند ہیں اور وہ اپنے شہر جانے اور دوبارہ وہاں آباد ہونے کے لیے پر عزم ہیں۔
یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ اقوام متحدہ کی دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے پالیسی الگ ہے، مغرب اور یورپ کے لیے الگ۔ اقوام متحدہ کے عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کی مسلمانوں کیلئے کوئی پالیسی نہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ اس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے دہرا معیار اپنایا ہے اور جب کہ وہ مغرب اور یورپ کے حقوق کا مکمل پاسبان ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے جنگ بندی پر عدم عمل درآمد اس کا بین ثبوت ہے، ادھر او آئی سی بھی اپنا کردار ادا کرنے کو تیار نہیں، معاملہ شام کا ہو یا برما کا، کشمیر کا ہو یا فلسطین کا اقوام متحدہ نے معاملے کے حل کے لیے کبھی اپنا اثر و رسوخ دکھانے کی کوشش نہیں کی جب کہ او آئی سی نے کبھی اپنا کردار ادا نہیں کیا، مسلم دنیا کے حکمرانوں کو اپنے حقوق کی جنگ خود لڑنے اور دنیا کو اپنے حق کا احساس دلانے کے لیے منظم منصوبہ بندی کرنی چاہیے، مسلمانوں کے خلاف دنیا میں کہیں بھی کافر بر سر پیکار ہوں یا باطل اس کے خلاف حق کی آواز بلند کرنی چاہیے اور ظلم کو روکنا چاہیے۔