April 20th, 2024 (1445شوال11)

حاتم طائی 

پرانے وقتوں کی بات ہے کہ یمن میں ’’طے‘‘ نامی ایک قبیلہ آباد تھا۔ اس قبیلے کے سردار کا نام حاتم طائی تھا۔ حاتم طائی اپنی سخاوت اور خدمت خلق کی وجہ سے مشہور تھا۔ اس کی سخاوت کے چرچے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ اس زمانے میں عرب کا حکمراں نوفل تھا۔ نوفل نے جب دیکھا کہ ہر طرف حاتم کے ہی چرچے ہیں، ہر کوئی اس کی نیکی اور اچھائی کے گن گاتا ہے، ہر ضرورت مند مدد کے لیے حاتم کے ہی پاس جاتا ہے تو وہ حاتم کا دشمن بن گیا۔ دشمنی کی وجہ صرف یہ تھی کہ بادشاہ کے بجائے ہر کوئی حاتم کی تعریف کرتا تھا۔ حاتم کی سخاوت کے قصے بیان کرتا تھا۔ وہ حاتم سے جلتا تھا کہ بادشاہ ہوتے ہوئے بھی حاتم کی شہرت اس سے زیادہ ہے۔ بادشاہ نے حسد کا شکار ہو کر حاتم کو ختم کرنے کا پروگرام بنایا اور اس نے اپنی فوج کے ساتھ حاتم کے علاقے پر حملہ کردیا۔
حاتم کو یہ جان کر دکھ ہوا کہ بادشاہ نے ایک بہت بڑی فوج کے ساتھ اس کے علاقے پر حملہ کردیا ہے۔ حاتم نے یہ سوچ کر کہ اس کی وجہ سے خون خرابا ہوگا، بے گناہ لوگ مارے جائیں گے، اس نے اپنا شہر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ حاتم اپنا شہر چھوڑ کر پہاڑوں میں جا کرچھپ گیا۔ بادشاہ اپنی فوج کے ساتھ جب شہر میں داخل ہوا تو کسی نے اس کی فوج کا مقابلہ نہ کیا، کیوں کہ حاتم طائی شہر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ بادشاہ نے حاتم کا تمام مال و اسباب لوٹ لیا۔ اس کے ساتھ ہی بادشاہ نے یہ اعلان کروا دیا کہ جو شخص حاتم کو ڈھونڈ کر لائے گا، اس کو بہت بڑا انعام دیا جائے گا۔ 
حاتم نے پہاڑ کے ایک کھوہ میں پناہ لے رکھی تھی، ایک روز اسی کھوہ کے قریب ایک بوڑھا لکڑ ہارا اور اس کی بیوی لکڑیاں کاٹ رہے تھے، وہ بہت غریب تھے اور مشکل سے زندگی بسر کررہے تھے۔ روز روز کی محنت و مشقت سے تنگ آئی ہوئی لکڑ ہارے کی بیوی حسرت سے بولی۔ کاش حاتم طائی ہمارے ہاتھ لگ جاتا تو ہم اسے بادشاہ کے حوالے کر کے انعام پا لیتے اور ہمیں روز روز کی اس مصیبت سے نجات مل جاتی۔
لکڑ ہارا بولا: فضول بات مت سوچ ، ہماری ایسی قسمت کہاں کہ حاتم ہمارے ہاتھ لگ جائے اور ہم انعام کر کے آرام سے زندگی بسر کرسکیں۔ ہمارے نصیب میں تو یہی لکھا ہے کہ ہم جنگل سے لکڑیاں کاٹیں، سر پر رکھ کر شہر لے جائیں اور ان کو فروخت کر کے اپنا پیٹ بھر لیں۔
حاتم طائی کھوہ کے اندر بیٹھا یہ باتیں سن رہا تھا۔ یہ سوچ کر حاتم دل میں خوش ہوا کہ چلو، اس بے سر و سامانی کی حالت میں بھی کسی کے کام آسکتا ہوں۔ چنانچہ وہ کھول سے باہر آیا اور بوڑھے میاں بیوی سے بولا، میں ہی حاتم ہوں، مجھے بادشاہ کے پاس لے چلو اور اس کے حوالے کر کے انعام حاصل کرلو، جلدی کرو، اگر کسی اور نے مجھے دیکھ لیا تو پھر تم ہاتھ ملتے رہ جاؤ گے۔
حاتم کی باتیں سن کر لکڑ ہارا بولا: بھائی، تمہارا بہت شکریہ، بے شک ہم غربت کے ستائے ہوئے ہیں، مگر ہم اتنے ظالم نہیں کہ تمہیں بادشاہ کے حوالے کر کے انعام حاصل کریں، ہم اسی طرح محنت مزدوری کر کے زندگی کے دن کاٹ لیں گے، اپنے آرام کی خاطر ہم یہ ظلم نہیں کریں گے۔
حاتم نے کہا، ارے بھائی، یہ ظلم نہیں، تم مجھے زبردستی پکڑ کر تو نہیں لے جارہے ہو، میں تو اپنی خوشی سے تمہارے ساتھ جانے کو تیار ہوں، میرے اوپر تمہارا یہ احسان ہوگا کہ تم مجھے نیکی اور خدمت کا موقع دو گے۔ حاتم نے ان کو آمادہ کرنے کی بہت کوشش کی، لیکن لکڑ ہارا کسی صورت تیار نہ ہوا تو حاتم نے اس سے کہا، اگر تم میری بات نہیں مانتے تو میں خود بادشاہ کے پاس جاتا ہوں اور اسے بتاتا ہوں کہ اس بوڑھے نے مجھے چھپایا ہواتھا، پھر بادشاہ تمہیں سزا دے گا۔ 
لکڑا ہارا اور حاتم اس بحث میں مصروف تھے کہ کچھ اور لوگ حاتم کو تلاش کرتے ہوئے ادھر آ نکلے، انہوں نے حاتم کو پہچان لیا اور اسے پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے گئے، بوڑھا اور اس کی بیوی بھی ان لوگوں کے پیچھے چل پڑے، بادشاہ کے دربار میں پہنچ کر ہر شخص یہ دعویٰ کر رہا تھا کہ حاتم کو اس نے پکڑا ہے، وہی انعام کا مستحق ہے، بہت سارے دعویداروں کی وجہ سے بادشاہ کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا تھا کہ حاتم کو پکڑنے والا کون ہے۔ 
آخر بادشاہ نے حاتم سے کہا: حاتم ، تم ہی بتاؤ کہ تمہیں پکڑ کر لانے والا بوڑھا لکڑ ہارا ہے، جو چپ چاپ پیچھے کھڑا یہ تماشا دیکھ رہا ہے، باقی لوگ انعام کے لالچ میں جھوٹ بول رہے ہیں۔
لکڑہارا بولا: حضور والا، سچ تو یہ ہے کہ میں بھی حاتم کو پکڑ کر نہیں لایا، بلکہ یہ خود آیا ہے، پھر لکڑ ہارے نے بادشاہ سلامت کو تفصیل سے بتایا کہ کس طرح لکڑیاں کاٹتے وقت اس کی بیوی نے کہہ دیا تھا کہ اگر حاتم ان کو مل جائے تو وہ اسے بادشاہ کے حوالے کر کے انعام پائیں اور مصیبت کی زندگی سے نجات پائیں، حاتم ہماری باتیں سن کر پہاڑ کی کھوہ سے نکل آیا اور اصرار کرنے لگا کہ ہم اسے بادشاہ کے پاس لے جائیں اور انعام پائیں۔ ہم جب حاتم کو کسی طرح بھی لانے پر تیار نہ ہوئے تو وہ خود ہی آپ پاس آنے کے لیے چل پڑا۔ دوسرے لوگ تو ویسے ہی چل پڑے تھے، اب یہ سب انعام کی خاطر جھوٹ بول رہے ہیں۔
بادشاہ کو جب حقیقت معلوم ہوئی تو اس نے حاتم سے کہا: حاتم، میں تمہاری شہرت سے تمہارا دشمن بن گیا تھا، مجھے اپنے کیے کا افسوس ہے، تم واقعی عظیم انسان ہو، جو ہر حال میں دوسروں کی مدد اور خدمت کے لیے تیار رہتے ہو، میں تم سے اپنے کیے کی معافی مانگتا ہوں۔
اس کے بعد بادشاہ نے لکڑ ہارے کو انعام دیا اور جھوٹے دعویداروں کو سزا دی اور حاتم کا سارا علاقہ اسے واپس کرنے کا اعلان کیا۔

بشکریہ ماہ نامہ پیغام