April 30th, 2024 (1445شوال21)

معاشی اخلاقیات اور اسلام


سعدیہ گلزار

اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں بھیجنے کے بعد نعمتوں سے نوازا اور ساتھ ہی چند حدود کو بھی مقرر کر دیا تاکہ انسان ان حدود کو توڑ کر دوسروں کا استیصال نہ کرے۔ ان حدود ’حلال و حرام‘ کے ساتھ عمدہ اخلاق کے بھی احکام دیے۔ نبی کریمؐ کی بعثت کا مقصد ہی اخلاق کی تکمیل بیان کیا گیا ہے: ’’مجھے حْسنِ اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہے۔‘‘ (موطا) اسوۂ حسنہ سے تزکیہ اخلاق کی واضح ترغیب ملتی ہے۔ رسولؐ کا ارشاد ہے: ’’نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے۔‘‘ (مسلم) نبی کریمؐ نے کامل مومن اس شخص کو قرار دیا جس کا اخلاق بہترین ہو: ’’مومنوں میں سب سے زیادہ کامل ایمان اس کا ہے جس کے اخلاق سب سے بہتر ہیں۔‘‘ (سنن ابوداؤد)
اسلام کا نظامِ اخلاق ہماری زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہے۔ رائج الوقت معاشی نظاموں میں بداخلاقیاں اس طرح سرایت کرچکی ہیں کہ ان میں حلال و حرام کی تمیز ہی مٹ کر رہ گئی ہے۔ انسانوں کو اپنے معاشرے میں ساتھ رہتے ہوئے بھی لوگوں کے معاشی حقوق کا احساس نہیں۔ اسلام اخلاقیات کو ایمانیات کے ساتھ مربوط کرتا ہے تاکہ انسان اخلاقی ترغیبات سے دوسروں کے حقوق ادا کرے اور کسی کے حق پر دست درازی نہ کرے۔ انسان کی زندگی میں لاتعداد خواہشات ہوتی ہیں، لیکن ان کو پورا کرنے کے وسائل محدود ہیں۔ نتیجتاً انسان اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے دوسروں کے حقوق پر دست درازی شروع کردیتا ہے۔ اگر انسان اخلاقی اصولوں کو اپنائے تو مختلف خواہشات کو ایک اصولِ واحد کے تحت منظم کر کے پْرسکون زندگی بسر کرسکتا ہے۔
اسلام کی اخلاقی تعلیمات معیشت، سیاست اور نظامِ عبادت میں اسی طرح جاری و ساری ہیں جس طرح جسم میں گردش کرتا ہوا خون۔ عصری نظامِ تجارت میں معاشی بداخلاقیاں رائج ہیں۔ احتکار (ذخیرہ اندوزی) ہی کو لے لیں کہ اشیا فروخت کرنے کے لیے بازار میں نہیں لائی جارہی ہیں۔ غذائی اجناس کو ضائع کیا جا رہا ہے، ناپ تول میں کمی، بدعہدی، سود، رشوت اور ملاوٹ وغیرہ۔۔۔ ان کی وجہ سے صارفین کا استیصال ہوتا ہے۔ ارتکاز دولت کو تقویت ملتی ہے اور طبقاتی کش مکش پروان چڑھتی ہے۔ اسلام معاشی استیصال کے خاتمے کے لیے معاشی اخلاقیات کی تعلیم دیتا ہے۔
اسلام میں ناجائز ذرائع دولت کی ممانعت ہے۔ ترجمہ: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ، ماسواے تجارت جو کہ تمھاری باہمی رضامندی سے ہو۔‘‘ (النساء29)
حافظ ابن کثیرؒ اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے باطل طریقوں سے مال کھانے کی ممانعت فرمائی ہے، جیسے سودخوری، قمار بازی، اور ایسے ہی ہر طرح کے ناجائز ذرائع جن سے شریعت نے منع فرمایا ہے۔‘‘ حرام مال سے مراد صرف کھانا نہیں بلکہ مال کا ناجائز استعمال اور اپنے تصرف میں لے آنا ہے۔ باطل سے مراد ہے ہر ناجائز طریقہ جو عدل و انصاف، قانون اور سچائی کے خلاف ہو۔ اس کے تحت جھوٹ، خیانت، غضب، رشوت، سود، سٹہ، جوا، چوری اور معاملات کی وہ ساری قسمیں آتی ہیں جن کو اسلام نے ناجائز قرار دیا ہے۔
امام شافعیؒ لکھتے ہیں: تم تجارت میں باہمی رضامندی کی خریدوفروخت یا کرایہ داری کے ساتھ مال کھاؤ، لیکن ہر رضامندی تجارت میں معتبر نہیں ہوتی۔ رضامندی شرعی حدود کے اندر ہونی چاہیے۔ تجارت میں سود کا مال اور قرض حلال نہیں ہے اور نہ ایسا مال لینے اور دینے والے کے درمیان سٹہ بازی اور گروی جائز قرار پاتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر دونوں طرف سے رضامندی بھی ہو، کیونکہ ان کی رضامندی شریعت الٰہی کے برعکس ہے‘‘۔(الام،ج 3،ص 3)
نبی اکرمؐ نے افضل عمل حلال کمائی کے لیے جدوجہد کو قرار دیا ہے: ’’اعمال میں افضل حلال ذرائع سے کمانا ہے۔‘‘ (کنزالعمال) اسی طرح آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’افضل ترین کمائی وہ تجارت ہے جو خیانت اور جھوٹ سے پاک ہو، اور انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا ہے۔‘‘ (ایضاً)
عصری نظامِ تجارت کو اسلامی اصولوں سے ہم کنار کرنا ضروری ہے جس میں حلال و حرام کو واضح کیا جائے اور اخلاقی اقدار کو روشناس کروایا جائے تاکہ معیشت خوش حالی سے ہم کنار ہوسکے۔ احتکار اور اتلافِ مال کے بجاے اشیا کو مناسب قیمتوں پر فروخت کیا جائے۔ ایفاے عہد، سچائی، شرکت، مضاربت، اخوت اور عدل و احسان کو متعارف کروایا جائے، جیساکہ ناپ تول کے بارے میں آتا ہے: ’’اے تولنے والے تولو اور جھکتا ہوا تولو۔‘‘ (ابن ماجہ) ان اخلاقی اقدار ہی کے ذریعے نظامِ تجارت ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔