April 30th, 2024 (1445شوال22)

حیا . . . اسلامی معاشرے کا شعار

افشاں نوید

یہ سوا گز کا کپڑا تو اسامہ بن لادن کی طرح وحشت اور خوف بن کر سوار ہوگیا ہے مغرب کے ذہن پر۔ بار بار بحثیں، نئی نئی پابندیاں۔ وہ اس کو ظلم سمجھتے ہیں، جبر سمجھتے ہیں، عورت کو قید سمجھتے ہیں، اور اس ’’لمزور‘‘ وجود کے حق میں توانا آوازیں اٹھتی رہتی ہیں۔ جب کہ یہ نہ مسلم عورت کا مسئلہ رہا ہے نہ مسلم معاشروں کا ۔ ۔ ۔ ۔ یہ مسئلہ ہے اُن لوگوں کا جو الہامی تعلیمات پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ اگر سوال محض اتنا ہو کہ اسلام میں عورت کی آزادی کی حدود کیا ہیں؟ اور اگر وہ حدود عورت کے حق میں ظلم ہیں(معاذ اللہ) تو خود مسلمان عورت احتجاج کرے؟ ایسا تاریخ میں آج تک نہیں ہوا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جزوی طور پر ایسا ردعمل ہوتا بھی ہے، چاہے وہ حدود قوانین ہوں، آدھی شہادت کا معاملہ ہو، چار شادیوں کی بحث ہو ۔ ۔ ۔ تو یہ مسئلہ ہمیشہ سیکولر دانشوروں کی طرف سے اٹھتے ہیں۔

اگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عورت چہرہ کھولے یا نہ کھولے، تو یہ فقہا کی تعبیرات کی روشنی میں کوئی اخلاقی مسئلہ ہی نہیں، کیونکہ اس حوالے سے دونوں طرح کی آراء پائی جاتی ہیں اور پردہ کرنا یا نہ کرنا، چہرہ کھولنا یا ڈھاپنا، یہ تو مسلمان عورت کا ذاتی معاملہ ہے۔ لیکن مسئلہ اتنا سادہ بھہ نہیں اور معاملہ چہرہ کھولنے اور سر ڈھاپنے سے بہت آگے ہے۔ یورپ کو تو نہ صرف’’پردہ‘‘ بلکہ ہمارا خاندانی نظام، حدود و قوانی، تصورِ حیا سب کچھ ہی برا لگتا ہے۔ اُن کے دانشور تو مسلمانوں کے ان شعائر کو اسلام کے’’عیوب‘‘ ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ بظاہر’’آزادی‘‘ حاصل کرنے کے بعد ذہنی غلامی کی، تو ہم میں بھی اب تک باقی ہے، ہم میں سے ایک گروہ اب بھی یہی سمجھتا ہے کہ مغرب کی خواتین کی طرح آرائش و زیبائش اور لباس اختیار کرکے ہم بھی ترقی کی دوڑ مین اُن کے شانہ بشانہ نہ چل سکتے ہیں۔ ’’آزادیٓ نسواں‘‘ اور ’’مساوتِ مرد وزن‘‘ کے نعرے ہمارے روشن خیالوں کو بھی بہت بھلے لگتے ہیں۔

عورتوں کی آزادی کی حدود کیا ہیں؟ وہ گھر سے باہر نکلیں یا نہ نکلیں؟ یہ اسلامی سوسائٹی کے متنازع امور ہیں ہی نہیں، کیونکہ احکامات بہت واضح ہیں۔ عورتیں’’ضرورت‘‘ کے لیے گھر سے باہر جاسکتی ہیں، ملازمت کرسکتی ہیں، مخلوط سوسائٹی سے بچتے ہوئے اپنی صلاحیتوں سے سماج کو فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔ ہم اگر مخلوط سوسائٹی سے بچنا چاہتے ہیں تو ظاہر ہے پھر خواتین کے ادارے خواتین ہی چلائیں گی۔ پھر اتنی اعلیٰ تعلیم یافتہ، تربیت یافتہ استاد، ماہرین طب، ادارتی صلاحیتوں کی حامل خواتین پیدا کرنا ہوں گی اسلام سوسائٹی کو۔ اگر سماج میں عورتوں پر تعلیم کے دروازے بند کردیئے جائیں اور ہم چاہیں کہ امراضِ نسواں کے لیے خواتین ڈاکٹر ہوں، تعلیمی اداروں میں بہترین خواتین اساتذہ ہوں تو ظاہر ہے عورت کے گھر بیٹھنے سے تو اسلامی معاشرے کے خدوخال نامکمل رہیں گے۔

عورتیں اعلیٰ تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرکے ہی ادارے سنبھالنے کی اہل ہوں گی، اور صلاحیتوں کے حساب سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے کوئی’’صنفی تخصیص‘‘ نہیں رکھی ہے۔ طب، تعلیم، تجارت کسی بھی شعبے میں اسلام نے خواتین کے عمل دخل کو ناپسند نہیں کیا ہے، بلکہ بعض اصھابِ رسول کی یہ خواہش کہ عورتیں گھروں سے نہ نکلیں، مسجدوں میں نہ آئیں، اس خوایش پر ضرب لگائی گئی اور اللہ کے رسول نے واضح طور پر فرمایا کہ ’’اللہ کی بندیوں کو اللہ کے گھروں میں آنے سے نہ روکو‘‘۔  خود ازواج مطہراتؓ نے جنگی خدمات انجام دیں اور علم سیکھا اور سکھایا۔ اب اس آزادی کو بنیاد بنا کر اگر ہم یہ دعویٰ کردیں کہ اسلام میں عورت پوری طرح آزاد ہے، اسلام تو کوئی پابندی ہی نہیں لگاتا عورت کی سرگرمیوں پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ایک مسلمان عورت اپنے نظامِ معاشرت میں گویا ان طریقوں کی پوری پیروی کرسکتی ہے جو مغربی تہذیب میں رائج ہیں ؟؟ کیوں کہ مغربی تہذیب مادی ترقی کے پردے میں عورت پر ذمہ داریوں کے دوہرے بوجھ ڈال رہی ہے اور مخلوط سوسائٹی ایک جذباتی ہیجبان بپا کیے رکھتی ہے اور عورتوں کو گھر کی’’قید‘‘ سے آزادی دلا کر اور دوسروں کے لطف و لذت کا جو سامان پیدا کیا جاتا ہے اس کی انتہا معاشرے میں بن باپ کے بچوں کی نرسریاں قائم کرنا پڑتی ہیں جن کی سرپرستی حکومتی اور ریاست کرتی ہے۔

اسلام کسی مادی ترقی کا مخالف نہیں البتہ وہ کسی ترقی کی آڑ میں پاکیزہ اور صالح تمدن کے اصولوں پر سمجھوتا نہیں کرسکتا، اسی لیے اسلام اور مغربی تہذیب کے تمدنی اصولوں اور نظام معاشرت میں اصولی اختلاف ہیں۔ اسلامی سوسائٹی میں عورت سماج کی ترقی میں اپنی صلاحیتوں کے مطابق حصہ ضرور لے گی مگر ’’صنفی کمالات‘‘ سے معاشرے میں ہیجان برپا نہیں کرسکتی۔ اسلام عورتوں کی آزادی کے معاملے میں جہاں پہنچ کر رک جاتا ہے وہاں سے ہمارے روشن خیال دانشور اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں، اور وہ اسی مخلوط تمدن کے متمنی ہیں جو یورپ کا خاصا ہے، کیوں کہ ان کا گمان ہے کہ شرم وحیا کا تعلق دل سے ہے۔ گویا یہ دلوں کے معاملے ہیں، جس کی کوئی جھلک ہمارے کردار میں نظر نہ بھی آئے پھر بھی ہم معتبر ہی ٹھریں گے۔

کون نہیں جانتا کہ انسانی تہذیب کا تو آغاز ہی شرم و حیا کے ساتھ ہوا جب حضرت آدمؑ و حواؑ جو خود کو درختوں کے پتوں سے ڈھاپنے لگے کہ یہی معراجِ آدمیت اور شرفِ انسانیت ہے۔

دنیا بھر کے کروڑوں انسان جن کا نصف شریف اور پاک دامن عورتیں ہیں، وہ مغرب کی حیا باختہ تہذیب جہاں خاندانی نظام کا شیرازہ بکھر چکا ہے، نشہ آور ادویات کا رسیا معاشرہ جہاں خودکشی اور جرائم کا تناسب دنیا میں سب سے زیادہ ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ’’گلوبل ورلڈ‘‘ اسی تہذیب کے غلبے کا جواب ہے۔

ہم خواتین کو کیوں کر پراڈکٹ بننے دیں جن سے جی این پی میں اضافے کا ریٹ ناپا جائے۔ ہمارے پاس حیا، حجاب، ستر کی حدود، غض بصر کے عظیم احکامات ہیں جو نہ صرف سماج کو فکری پاکیزگی عطا کرتے ہیں بلکہ ہر فرد کو جواب دہ بناتے ہیں۔ اسی لیے ریاست امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ دار ہیں اور اس کی اساس یہی بنیادی اقدار و روایت ہیں۔ حیا اسلامی معاشرے کی صرف پاکیزہ صفت ہی نہیں بلکہ اس کا ’’شعار‘‘ ہے، اور احکاماتِ ستر و حجاب نہ صرف نسوانیت بلکہ انسانیت کے شرف و عزت کے ضامن ہیں۔

حیا اور حجاب کا کلچر ہی مسلمان عورت کا اصل تحفاظ ہے، اور اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو حقیقی معنوں میں عالمگیر کلچر تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مغربی کلچر کے بہت نقصانات انسانیت نے بھگت لیے، اس لیے اکیسویں صدی انشاء اللہ حیا اور حجاب کی صدی ہے۔