April 18th, 2024 (1445شوال9)

شوال کے روزوں کی فضیلت


سید مہر الدین افضل

حضرت ابوایوب انصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے فرمایا :

جس نے رمضان المبارک کے ر وزے رکھنے کے بعدشوال کے چھ روزے رکھے تو یہ ایسا ہے جیسے پورے سال کے روزے ہوں ۔‘‘

نبی مکرم نے اس کی شرح اور تفسیر اس طرح بیان فرمائی ہے :’’کیونکہ جو کوئی نیکی کرتا ہے اسے اس کا اجر دس گناہ بڑھ کر ملتا ہے ۔ ‘‘

اور ایک رویت میں ہے کہ :

اللہ تعالیٰ ایک نیکی کے بدلے دس نیکیاں عطا کرتا ہے ۔ لہذا رمضان المبارک کا مہینہ دس مہینوں کے برابر ہوا ۔ اور چھ دنوں کے روزے سال کو پورا کرتے ہیں ۔

ایک اور روایت میں ہے کہ :

’’رمضان المبارک کے روزے دس گنا اور شوال کے روزے دو ماہِ کے برابر ہیں ، تو اس طرح یہ پورے سال کے روزے ہوئے ۔‘‘ فقہائے کرام نے وضاحت کی ہے کہ :

رمضان المبارک کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنا پورے ایک سال کے فرض روزوں کے برابر ہے ۔ویسے عمومی طور پر نفلی روزوں کا اجر وثواب بھی زیادہ ہونا ثابت ہے ، کیونکہ ایک نیکی دس کے برابر ہے ۔پھر شوال کے چھ روزے رکھنے کے اہم فواہد میں یہ بھی ہے کہ یہ روزے رمضان المبارک کے روزوں کی کمی اور نقص کو پورا کرتے ہیں ۔ کیونکہ روزے دار سے حالتِ روزے میں کمی ، کوتاہی ہو جاتی ہے اور گنا ہ بھی سرز ہو جاتے ہیں جوکہ روزے کے ثواب میں کمی کا باعث بنتے ہیں ۔ اب اس کمی کو پورا کرنے لکے لیے رسول اللہ نے ہماری رہنمائی فرمادی کہ شوال کے چھ روزے سے فرض روزوں میں ہونے والی کمی پوری ہوجاتی ہے ۔ اس طرح بندے کو چھ نفلی روزے کا ثواب بھی مل جاتاہے ۔ اور رمضان کے فرض روزوں کی کمی ، کمزوری اور کوتاہی کا بھی ازالہ ممکن ہو سکتا ہے ۔ روزے قیامت فرائض میں پیدا شدہ کمی کو کوتاہی کو نوافل سے پورا کیا جا ئے گا ۔ جیسا کہ نبی ا نے فرمایا:روزے قیامت میں بندے کے اعمال میں سب سے پہلے نماز کا حساب ہو گا۔ نبی نے فرما یا : ہمارا رب عزوجل اپنے فرشتوں سے فرما ئے گا ( حالانکہ وہ زیادہ علم رکھنے والا ہے ) میرے بندے کی نمازوں کو دیکھوکہ اس نے پوری کی ہیں یاٍ اس میں نقص ہے ۔اگر مکمل ہو گی تو مکمل لکھی جائیں گی ، اگر اس میں کچھ کمی ہوئی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا دیکھومیرے بندے کے نوافل ہیں ؟ اگر اس کے نوافل ہو ں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے بندے کے فرائض اس کے نوافل سے پورے کرو ۔پھر باقی اعمال بھی اسی طرح لیے جائیں گے ۔

ضروری نہیں کہ یہ روزے دو شوال ہی سے شروع کیے جائیں، اور یہ بھی ضروری نہیں کہ مسلسل رکھے جائیں ۔ آپ ماہِ شوال میں جب چاہیں یہ روزے شروع کر سکتے ہیں اور درمیان میں وقفے بھی دے سکتے ہیں ۔ پیر اور جمعرات کو بھی رکھ سکتے ہیں اور ایام بیض کے ساتھ بھی رکھ سکتے ہیں ۔

روزے کے بارے میں فرمایا گیا :

’’ اے لوگوجو ایمان لائے ہو تم پر روزے فرض کردیے گئے ، جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیروں پر فرض کیے گئے تھے ۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیداہو گی‘‘( سورۃالبقرہ آیت نمبر ۱۸۳ )

یہ جو فرمایا گیا کہ ’’توقع ہے تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو گی ‘‘اس پر ہم نے کہا تھا کہ جتنی اچھی اور زیادہ کوشش ہو گی ، تقوی ٰ بھی اتنا ہی حاصل ہو گا ۔ اب ہم اپنے رب سے امید کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں تقویٰ کی صفت سے ضرور متصف کیا ہے کیوں کہ بادشاہ جب کہتے ہیں کہ شاید تمہیں یہ انعام دیا جائے تب سننے والا یہی سمجھتا ہے کہ میں نے یہ کام کیا تو انعام تو لازماّ ملے گا ۔ اور قرآن بادشاہِ عالم ، فرماں روائے کائنات کا کلام ہے ۔ ہم نے تقوی ٰ کی صفت پالی ، اب دیکھنا یہ ہے کہ تقویٰ کی صفت پا لینے کے بعد کیا تقاضے ہیں ۔ اس کے لیے ہم نے سورۃ آل عمران کی آیت ۱۰۲ تا ۱۰۳ کا انتخاب کیا ہے ۔ ارشادباری تعالیٰ ہے :

’’اے لوگوجو ایمان لائے ہو ، اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو ۔ سب مل کر اللہ کی رسیّ کو مضبوطی سے پکڑلو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ ا للہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے ۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے ، اس نے تمہارے دل جور دیے اور اس کے فضل وکرم سے تم بھائی بھائی بن گئے ۔ تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے ، اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا ۔ اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے سامنے روشن کرتا ہے شاید کہ ان علامتوں سے تمھیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آجائے ۔‘‘

بہت ہی سادہ اور عام فہم انداز میں بتایا گیا ہے کہ تقویٰ کا حق ایسے ادا ہو گا کہ مرتے دم تک اسلام یعنی اللہ کی اطاعت ، فرماں برداری اور وفاداری پر قائم رہو .............اور یہ کام اکیلے نہیں ہو گا بلکہ سب کو مل کر کرنا ہو گا ۔ اس لیے سب مل کر اللہ کی رسیّ کو مضبوطی سے تھام لو ۔ اللہ کی رسیّ کیا ہے ..........اللہ کی رسیّ قرآن ہے ۔ اللہ کی رسیّ رسول اکرم کی سنت ہے اور ان دونوں کا مجموعہ اس کا دین ہے ۔ مولانا سید ابو الاعلی ٰ مودودیؓ نے تفہیم القرآن میں لکھا ہے :

’’ یہاں اللہ کی رسیّ سے مراد اس کا دین ہے اور اس کو رسیّ سے اس لیے قائم کیا گیا ہے کہ یہ وہ رشتہ ہے ایک جو ایک طرف اہل ایمان کا تعلق اللہ سے قائم کرتا ہے اور دوسری طرف ایمان لانے والوں کو باہم ملا کر ایک جماعت بناتا ہے ۔ اس رسیّ کو مضبوط پکڑ نے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی نگاہ میں اصل اہمیت دین کی ہو ، اسی سے ان کو دلچسپی ہو ، اسی کی اقامت میں وہ کوشاں رہیں اور اس کی خدمت کے لیے آپس میں تعاون کرتے رہیں ۔ جہاں دین کی اساسی تعلیمات اور اس کی اقامت کے نصب العین سے مسلمان ہٹے اور ان لکی تو جہات اور دلچسپیاں جزئیات وفروعات کی طرف منعطف ہوئیں ،ان میں لازماّ وہی تفرقہ اور اختلاف رونما ہو جا ئے گا اس سے پہلے انبیاء علیہم السلام کی امتوں کو ان کے اصل مقصدِ حیات سے منحرف کرکے دنیا اورآخرت کی رسوائیوں میں مبتلا کر چکا ہے ۔

یہ جو فرما یا کہ ’’ اس کے فضل وکرم سے تم بھائی بھائی بن گئے ‘‘.......تو یہ اشارہ اس حالت کی طرف تو ہے ہی، جس میں اسلام سے پہلے اہل عرب مبتلا تھے ، اس کے علاوہ آج بھی جو چیز پنجابی ، پٹھان ، پلوچ ، سندھی ، فرنچ ، برٹش ، جرمن اور افریقی کو جوڑتی ہے اور تمام انسانوں کو ایک رشتہ محبت میں جوڑ سکتی ہے ۔ وہ اسلام کی نعمت ہے ۔ افسوس ہے کہ ہم مسلمان ہی اس کی قدر نہیں کرتے تو غیر مسلموں کو کیسے اس کی قدر وقیمت سے آگا ہ کریں گے .......! لیکن یہاں ہم سے کہا جا رہا ہے کہ ’’ اللہ کے احسان کو یا د رکھو‘‘.......یاد رکھنے میں اسے قائم رکھنا ، بڑھنا اور اس کا ہر جگہ اعتراف واعلان کرنا بھی شامل ہے آج ملکوں اور قوموں کی باہمی عداوتیں ، سرد وگرم جنگیں اورشب وروزکی دہشت گردی جس کی ہدایت انسانیت تبا ہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے ۔ اس آگ میں جلنے سے اگر کوئی چیز بچا سکتی ہے تو وہ یہ نعمتِ اسلام ہے ۔ یہ آیت جس وقت نازل ہوئیں اس سے تین چار سال پہلے ہی مدینے کے لوگ مسلمان ہوئے تھے اور اسلام کی یہ جیتی جاگتی نعمت سب دیکھ رہے تھے کہ اوس اور خزرج کے وہ قبیلے جو سال ہا سال سے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ۔ باہم مل کر شیر وشکر ہو چکے تھے ، اور یہ دونوں قبیلے مکہ سے آنے والے مہاجر ین کے ساتھ ایسے بے نظیر ایثار ومحبت کا برتاؤ کررہے تھے جو ایک خاندان کے لوگ بھی آپس میں نہیں کرتے ۔

امید ہے کہ آپ رمضان کے بعد کے درس قرآن میں ان آیت کو موضوع بنائیں گے اور لوگوں کر غوروفکر کی دعوت دیں گے ، کہ آج ہماری فلاح اس دین کو مضبوط تھامنے میں ہے ،اور یہی تقویٰ کا حق ہے ۔ جبکہ ہمارے اصلی خیر خواہ اللہ اور اس کے رسول ہیں اور اس کا دین ہے ۔ یہ یہودوہنود اور مشرک اور منافق تم کو اسی حالت کی طرف پلٹالے جانے کی کوشش کررہے ہیں جس میں تم اسلام اور پیغمبر اسلام سے پہلے تھے ۔