April 20th, 2024 (1445شوال11)

ماہ رمضان کے بعد ۔۔۔۔۔۔ کیا ؟

ترجمہ:ابولفرح ہمایوں

الحمد للہ ! ہم ماہ رمضان کی سعادتوں سے فیض یاب ہوئے۔اسکے حسین ایام اور معتر راتیں ہمیں میسر ہوئیں۔یہ مہینہ قرآن، تقوی، تحمل اور بردباری، جہاد،عفو درگزر کے ساتھ ساتھ جہنم کی آگ سے نجات کا مہینہ تھا۔

کیا ہم نے تقوی کے تمام تقاضے پورے کئے?اور کیا اس ماہ کے تمام امتحانات میں سرخرو ہو گئے?کیا خوف خدا کا ڈپلومہ ہمیں مل گیا

 کیا ہم اپنی خود غرضی اور نفسانی خواہشات کو شکست دینے میں کامیاب رہے?یا پھر ان ہی جہالتوں میں مبتلا ہو کر رہ گئے?

کیا ہم نے تمام عبادتیں بحسن و خوبی انجام دیں، عفو در گزر اور جہنم سے نجات کا ہر راستہ اختیار کیا

 ایک سچے مومن کے قلب و ذہن میں بے شمار سوالات منڈلاتے رہتے ہیں جنکا ایمانداری کے ساتھ جواب دینا بہت ضروری ہے۔

 ہم نے رمضان میں کون کون سی نیکیاں سمیٹیں?

رمضان سیکھنے اور سکھانے کا ایک مدرسہ ہے۔ یہ ایک ایسا وقفہ ہے جہاں رک کر روحانی قوت کو تقویت دی جا سکتی ہے۔تاکہ بقیہ سارا سال اسکی ہمت جواں ہرے۔

جو کام رمضان میں ادھورا رہ گیا اسکو ہم آئیندہ بہتر تریقے سے مکمل کرنے کی کوشش کریں۔

 یہ عظیم مہینہ کایا پلٹ کرنے کے لئے بہترین مدرسہ ہے۔ہم اپنے تمام افعال میں درستگی لا سکتے ہیں اور ہر کمزوری اور بری عادتوں کو رب ذولجلال کی مرضی کے مطابق ڈھال سکتے ہیں۔

یقینا اللہ تعالی اس پر مہربانی نہیں کرتا جو خود اپنی حالت بدلنے کو تیار نہیں۔"(الرعد۔11)۔

 اگر آپ ان خوش قسمت افراد میں سے ہیں جنہوں نے تقوی کے تمام تقاضے پورے کئے۔ایمانداری سے روزے رکھے،صدق دل سے عبادت کی،پوری جانفشانی سے نفس کا مقابلہ کیا۔اسکے بعد اللہ تعالی کا شکر ادا کیا اور دعا کی کہ وہ مرتے دم تک آپکو سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عظا فرمائے۔تو آپ مبارکباد کے مستحق ہیں۔

اس شخص کی طرح مت بن جایئے جو بڑی محنت اور عرق ریزی سے ایک قمیض سیتا ہے اور پھر اسے ادھیڑ کر رکھ دیتا ہے۔وہ انداز اپنائیے کہ جب وہ اپنی محنت پر نظر کرتا ہے تو اسکا دل خوشی سے معمور ہو جاتا ہے۔اسکی خوشی کا اندازہ کیجئے جو دن رات عبادت کر کے بے شمار منافع کماتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اسے مزید موقعے میسر آیئں۔

مختصرا" یہ کہ رمضان کے گزر جانے کے بعدجو کمزوریاں پیدا ہو جاتی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:

1۔رمضان میں با جماعت پانچوں نماز ادا کرتے ہیں اور تراویح میں بھی شامل رہتے ہیں، اسکے بعد لازمی نماز سے بھی کترانے لگتے ہیں۔

2۔گانے بجانے اور دیگر دل بہلانے کے مشاگل کی طرف لوٹ آتے ہین۔فلمیز دیکھتے ہیں۔خواتین اپنی نمود نمائش کی طرف راغب ہو جاتی ہیں اور مخلوط محفلوں میں شرکت کرتی ہیں۔وغیرہ وغیرہ۔

یہ نا شکری کی انتہا ہے اور یہ اس بات کا اظہار ہے کہ ہم نے خدائے تعالے کی رضامندی اور خوشنودی کے لئے کچھ نیہں کیا۔

نہ ہی ہم ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلے جو ہر دم خوف خدا سے لرزتے رہے۔ایسے نافرمان لوگوں کو عید کی خوشیاں منانے کا بھی کوئی حق نہیں۔

کیا خدا کے نزدیک تمہاری عبادت قبول ہوتی ہے?اسکی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ کیا اسکی فرماںبرداری اور عجزو انکساری میں اضافہ ہوا ہے?اللہ عزوجل فرماتے ہیں یاد رکھو!تمہارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو میں تمکو اور زیدہ نوازوں گااور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔۔(ابراہیم۔7)

چنانچہ اگر عبادت گزار بندہ مزید سعادت مندی دکھائے گا اور گناہوں سے دور رہیگا تو اےسے لوگوں کے لئے کہا گیا ہے، اور اس آخری گھڑی تک اپنے رب کی بنگدی کرتے رہو جسکا آنا یقینی ہے۔(الحجر۔99)

مسلمانوں کو ہر دم عبادت میں مصروف رہنا چاہئے اور اسے دینی احکامات کی پابندی کرنی چاہئے۔انہیں ایسے لوگوں میں شامل نہیں ہونا چھاہئے جو صرف ایک ماہ کی عبادت کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ وہ تمام مہینوں کا خالق ہے۔وہ ہر دم اور ہر جگہ انکو دیکھ رہا ہے۔

اللہ تعالی فرماتے ہیں،پس اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم اور تمہارے وہ ساتھی جو پلٹ آئے ہیں ٹھیک ٹھیک راہ راست پر ثابت قدم رہو جیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا ہے اور بندگی کی راہ سے تجاوز نہ کرو۔جو کچھ تم کرتے ہو تمہارا رب اس پر نگاہ رکھتا ہے۔(ھود۔112)          

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے، میں اللہ پر ایمان رکھتا ہوں اور اس پر صدق دل سے قائم ہوں۔

رمضان ختم ہونے کے بعد رضاکارانہ روزے رکھنا مستحسن ہے۔مثلا" شوال کے 6 روزے،پیر اور جمعرات کے دن،مہینے کے درمیان میں 3 دن،عاشورہ اور عرفات کے دن اور اسکے علاوہ بھی۔

اگر رمضان میں راتوں کا قیام مکمل ہو گیا ہے تو اسکے بعد بھی سارا سال رضاکارانہ راتیں قائم رہتی ہیں۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں، پھر وہ راتوں کو کم ہی سوتے ہیں۔(الزاریت۔17)

اگر زکوہ اور خیرات وغیرہ ادا کر چکے ہیں تب بھی زکوہ واجب دی جا چکی ہے۔ ان کے علاوہ صدقات و خیرات کے ہزاروں در کھلے ہوئے ہیں۔

قرآن کی تلاوت اور اسکی تفسیر پڑھنا صرف رمضان میں ہی فرض نہیں ہے ہی فرض ہمیشہ کے لئے لازم ہے۔غرض کہ مثبت اقدامات کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں ہے۔چنانچہ میرے بھائوں اور بہنوں!سستی اور کاہلی کو دور بھگائو اور ےاد رکھو کہ لازمی اور رضاکارانی فرائض دونوں اہم ہیں اور انکو ادا کرنے میں ذرہ بھی دیر نہیں کرنی چاہئے۔

مکروہات کی طرف مت جایئے۔برے الفاظ منہ سے مت نکالئے،گندی چیزیں کھانے سے پرہیز کریں، اس طرف مت دیکھیں اور نہ وہ باتیں سنیں اور کہیں جن سے منع فرمایا گیا ہے۔

ہر وقت سیدھے راستے پر چلیں اور ہی یاد رکھیں کہ ایک نہ ایک دن تمہیں موت کا سامنا بھی کرنا ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں اس حالت میں اٹھا لیا جائے جبکہ تم  کسی برے کام میں مصروف ہو۔

اے اللہ!ہمارے دلوں کو اپنی راہ پر چلنے کی توفیو عطا فرما۔آمین

ہم اللہ تعالی سے التجا کرتے یہں کہ ہماری دعائوں،روزوں اور نمازوں اور ہر نیک عمل کو قبول فرما۔اے اللہ!رمضام کے بعد بھی ہمیں اسی طرح ثابت قدم رکھنا۔ہماری امت کو گمراہی سے بچا کہ تو نے ہمیں بلند مقام بخشا ہے۔اے میرے رب!ہمارے رخ کو مکمل اپنی جانب موڑ دے۔آمین