April 26th, 2024 (1445شوال17)

غزوۂ احد (ماہِ شوال کا اہم غزوہ)

ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی

اسلام کی تاریخ کواہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں کو اپنے دفاع میں جنگ کرنا پڑی انہوں نے ہمیشہ ظلم وزیا دتی ‘ تشدد اور چنگیزت سے اجتناب برتا ۔ اسلام میں پہلی جنگ ۲ ہجری میں بدر کے مقام پر لڑی گئی اور اس جنگ میں کفار قریش کے ۴۱ بڑے سردار مارے گئے تھے ۔ مکہ میں انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی ۔ کفار کو معرکہ بدر میں مسلمانو ں کی قوت کا اندازہ ہو گیا تھا اس لیے انہوں نے بدر کا انتقام لینے کے لیے اس کے روان تجارت کے زار منافع کو جنگ کے انتقام پر صرف کرنے کی رضا مندی دے دی ۔ اس مرتبہ مدینہ کے مسلمانوں کے خلاف کفار قریش کے ساتھ وہ جنگجو قبائل بھی شامل ہو گئے جو بدر میں شامل نہ ہو سکے تھے ۔ یہ جنگجو قبائل کنانہ’ خزیمہ ‘خزاعہ تھے ۔جو قریش کے حلیف تھے ۔یہ اس جنگ کی تیاری تھی جو شوال کے مہینے میں ۳ ہجری کو احد کے مقا م پر لڑی گئی۔اس جنگ میں عرب کے شعلہ بیان خطیبوں کو قریش نے انتقام کی آگ بڑکانے کے لیے بھیجا ۔ وہ عورتیں جن کے باپ بھائی شوہر جنگ بدر میں قتل ہوئے تھے وہ بھی اس جنگ میں شریک ہو ئیں ۔

وقریش کی فوج میں ۳ ہزار جنگجو شامل تھے اس مین سات سو سپاہی زرہ پوش اور دو سو مسلح دستے بھی شامل تھے ۔آنحضرت نے مدافعت کی تیاری شروع کر دی ۔ آپ اور بعض تجربہ کار صحابہ کرام کی رائے تھی کہ مدینے میں رہ کر ہی مدافعت کی جائے ۔ آپ نے شہر پر حملے کے اندیشے سے ہر طرف کلیدی مقامات پر پہرے بٹھادیے تھے ۔ مہاجر اور انصار نیپ کو رائے دی کہ عورتیں باہر قلعوں میں بھیج دی جائیں اور شہر میں رہ کر ہی مقابلہ کیا جائے ۔ عبد اللہ بن ابی نے بھی یہی مشورہ دیا ۔ لیکن ان نو جوان صحابہ نے جو جنگِ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے ۔ اس بات پر اصرار کیا کہ شہر سے باہر نکل کر میدان میں مقابلہ کیا جائے۔آپ نے یہی منظور فرمالیا اور رضا کاروں کی بھرتی کا حکم فرما یا ۔اس سلسلے میں ہر قسم کی جانچ پڑتال کی گئی ۔ کچھ خواتین کو پانی پلانے اور زخمیوں کے مرہم پٹی کے لیے ساتھ لیا گیا ۔ آپ نے تین نیزے منگوائے ایک پر مہاجر سپاہ کا علم باندہ اور وہ حضرت سعدؓ کو عطا فرمایا ۔ دوسرے دو انصار قبائل اور خزرج کو عطا دفرمائے۔

سنیچر ۱۱ شوال ۳ ہجری کو علی الصباح تقریباّ تین میل چل کر سب محلوں سے بھرتی شدہ رضا کار لے کر ایک ہزار فوج کے ساتھ آپ جیل احد کی طرف بڑ ھے اور مغرب میں پھیلا ہوا ہے ’یہاں پر ‘‘ مقامشوط ‘‘پر پہنچ کر عبداللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو س اتھ الک ہو گیا اور یہ مؤ قف اختیار کیا کہ محمد نے میری رائے نہیں مانی اس لیے میں اپنے آدمیوں کو بے فائدہ مروانا نہیں چاہتا ۔ ‘‘ جبل عنمین کے دو رہا ئشی قبائل بنو سلمہ اور بنو حارثہ کے لوگ تو ایسے دل شکستہ ہوئے کہ انہوں نے بھی عبد اللہ بن ابی کی طرف پلٹ جانے کا ارادہ کرلیا مگر اواالعزم صحابہؓ کی کوششوں سے اورآپ کی تسلی کہ‘‘کیا بات ہے تمھارے لیے کافی نہیں کہ اللہ تین ہزار فرشتے اتار کر تمھاری مددکرے ۔ نے ان کا اضطراب دور کر دیا ۔ آپ سات سو آدمیوں کے ساتھ آگے بڑھے اور احد کی پہاڑی کے دامن میں اپنی فوج کواس طرح صف آراہ کیا کہ پہاڑ پشت پر تھا اور قریش کا لشکر سامنے پہلو میں دبائیں اور پیچھے جبل عینمین جواب جبل رماۃ کہلاتا ہے‘ اس د و گنہدی پہاڑی پر آپ نے پچاس ہزار متعین فرمائے کہ تاکہ اگر دشمن کا دستہ وادی قناۃ کے راستے سے حملہ آور ہونا چاہیے تو اسے تیروں کی بوچھاڑ سے روکا جا سکے ۔یہ مقام قدرتی جغرافیائی لحاظ سے بہت اہم تھا ۔ شمالی مغربی ڈھلوان اور جنوبی مشرقی ڈھلوان اور نخکستانوں کے درمیان وادی قتاۃ ایک تنک وادی تھی جس کے راستے سارے سے دشمن خطرہ ممکن تھا ۔ اسی وادی کے سر ے پر جب عینن واقع ہے لہذا اس غیر محفوظ اور اہم مورچے کی حفاظت بہت ضروری تھی ۔ جہاں سے دشمن کے حملہ کا امکان تھا ۔آپ نے عبداللہ بن جبیر کی قیادت میں پچاس تیر انداز اس درّے پر متعین فرمائے اور سختی سے ہدایت فرمائی ۔ ’’ گھائی بہت سخت ہے لہذا یہاں پہار کی طرف ڈٹ جاؤ مجھے دشمنوں کے ان سواروں سے اندیشہ ہے جو غفلت دیکھ کر اس طرف سے مسلمانوں پر حملہ آور نہ ہوجائیں اس لیے جنگ میں فتح ہو یا شکست تم اپنی جکہ پر ڈٹے رہنا ۔ صورت حال کچھ بھی ہو یہاں تک کہ تم دیکھوہماری بوٹیاں گِدھ نوچ کرلے جارہے ہوں اور تم یہ سمجھوکہ تمھاری مدد کی ہمیں ضرورت ہے تب بھی اس جگہ سے نہ ہٹنا تم پر صرف عقب سے آنے والوں کہ نگرانی فرض ہے‘‘ ۔ آپ نے باقی ساڑھے چھ سو سپائیوں کو اس طرح سے ترتیب دیا کہ :

(۱) مقدمہ الجیش پر حضرت سعدؓ بن ابی وقاص اور ابو عبید ہ بن الجراح کو مقرر کیاجو تیر اندازی اور تیر سازی دونوں کے ماہر تھے ۔

(۲) میمنہ پر عکا شہؓ بن محض اسدی کو رکھا ۔ عکاشہ نے غزوہ میں انتہائی مہارت سے شمشیر ز نی کی تھی اور اس جوش سے لڑے تھے کہ آپؓ کی شمشیر کے ٹکڑے اُڑگئے تھے ۔ رسول اکرم نے آپ کو ایک کجھور کی ایک چھڑی دی جس سے آپ نے تلوار کا کام لیا ۔

(۳) میسر ہ پرا بو اسلمہ بنؓ الااسد کو رکھا جو حضور اکرم کے پھوپھی زاد بھائی تھے ۔

(۴) قلب میں حضرت علیؓ اور حضرت زبیرؓ کو رکھا ۔ دونوں کے وسط میں غیر زرہ پوش مجاہد وں مو حضرت حمزہؓ کی کمان میں دے دیا

(۵)ساقد پر حضرت مقداد بن عمر و کو رکھا جو نیزہ بازی ‘ تیر اندزی اور شہ سوار ی میں یکتا تھے ۔

(۶) تیر اندازوں کو مناسب موقعوں پر رکھا ۔

(۷) حضرت مصعبؓ بن عمیر کو علم عنایت فرمایا یہ بڑے جید عالم اور مبلغ ھے

(۸) ان سب کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیقؓ حضرت عمر ‘ حضرت عبدالرحمن بن عوف ‘ابو دجانہؓ طلحہ بن عبید اللہ حضور اکرم کے محاذتھے ۔

(۹) مسلمان خواتین چشموں سے پانی بھر بھر کر سپاہیوں کو پلاتی تھیں ۔ اور وقتِ ضرورت ان کی مرہم پٹی بھی کرتی تھیں ۔ اس کے علاوہ زخمیوں کو مدینہ پہنچانے میں مدد بھی کرتی تھیں ۔

(۱۰) اسلامی فوج کی پشت پر احد کی مستحکم دیوار تھی۔

بدر میں نا کامی کے تلخ تجربے کی وجہ سے قریش نے بھی نہایت ترتیب سے صف آرائی کی تھی ۔

(۱) میمنہ پر خالد بن ولید کا دستہ سو مسلح سواروں پر مشتمل تھا ۔

(۲) میسرہ پر عکرمہ بن ابی جہل کا دستہ تھا یہ بھی سو مسلح سواروں پر مشتمل تھا ۔

(۳) ان دونوں کے درمیان خود ابو سفیان سپہ سالار کی حیثیت سے موجود تھا ۔

(۴) علم بردار طلحہ اس کے بعد اس کا بھائی عثمان پھر ابو شیبہ پھر صواب اور اس کے بعد عمرہ بن علقمہ مقرر تھے ۔

(۵) ابو سفیان نے اپنے پاس ہی ابو عامرراہب کو رکھا جس کے ہمرہ ڈیڑھ سو آدمی تھے ۔

(۶) پیدل فوج میں بڑے علم کے علاوہ تین اور جھنڈے تھے ۔

(۷) تیر ااندازوں کے دستے عبداللہ بن ابی رابعیہ کی کمان میں دیے گئے تھے ان سب کے پیچھے ڈیڑھ ہزار اونٹ سامان رسد کی حفاظت کے لیے پاسبانی غلام موجود تھے ۔

قریشی فوج پوری طرح مسلح تھی ۔ ۔ان کے پاس جنگِ بدر کے سارے ہتھیار تھے ۔جنگ شروع ہوئی تو مکی فوج نے مبارزت کے لیے مدنی لشکر کو للکارا ۔ طلحہ اس فوج کا عکمبر دار تھا ۔ آپ نے حضرت زبیرؓ کو اس کے مقابلہ کے لیے منتخب فرمایا ۔زبیرؓ نے پہلی ہی وار میں طلحہ کا سر قلم کر دیا ۔ طلحہ کے بھائی کو حضرت حمزہؓ نے قتل کیا ۔اب مکی فوج کے علم ابو سعد بن ابو طلحہ کے ہاتھ آیا ۔سعدؓ بن وقاص نے نیزے کے وار سے ختم کردیا ۔ ابو سفیان نے آٹھ علم بردار یکے بعد دیگر ے قتل ہوتے دیکھے یو بوکھلا کر عام حملے کا حکم دے دیا ۔ مدنی فوج نے اپنی شجاعت اور بہادری سے سے مکی فوج کو بھاگنے پر مجبور کردیا ۔ خالد بن ولید بائیں جانب مکی دستے کے کما ندار تھے جو نہی مکی فوج میں بھکدڑ مچی جبل رماۃ پر متعین تیر اندازوں نے مکی فوج کو بھاکتے دیکھا تو مالِ غنیمت جمع کرنے کے خیال سے اپنے مقام سے ہٹ گئے ۔ صرف نو دس افراد اپنے مقام پر جمے رہے۔

جنگ میں متعین مقام کو چھوڑ نے کی سزا موت بجا

طور پر مقرر کی گئی ہے کیونکہ حکم عدولی اور بے ضا بطگی میدانِ جنگ میں شکست کا باعث ہو تی ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول کی حکم عدولی کی سزا بھی بہت سخت ملی ۔ جب مکی دستہ شکست کھا کر بھاک رہا تھا اور جبل رماۃ کے تیرانداز مالِ غنیمت لوٹنے میں مصروف تھے اس وقت خالد بن ولید نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور اپنے گھوڑے کی باگ موڑی ۔ جبل رماۃ پر جو لوگ رہ گئے تھے ان کو اپنے گھوڑے کے سموں سے کچلتے ہوئے مدنی فوج پر پیچھے سے حملہ کردیا ۔ وہ مکی فوج جو بد حواس ہو کر بھاک رہی تھی واپس پلٹ آئی اور آنا فانا جنگ کا نقشہ پلٹ گیا ۔ مدنی فوج اپنی ترتیب کھوبیٹھی ۔ فاتح منتوح اور منتوح بن گئے ۔ آپ 249نے فوج پر دونوں طرف سے حملہ ہوتے دیکھا تو اپنی سپا ہ کو دوبارہ منظم کیا ۔ آپ نے بلند آواز میں اپنی فوج کو پکار کر اپنے گرد ہونے کا حکم دیا ۔آپ کے ۴۱ محاظ جن میں سات مہاجر اور سات انصار تھے ۔ ہر وقت آپ کی ذات مبارکہ کی طرف تھا ۔پ زخمی تھے اور دودندانِ مبارک بھی شہید ہو چکے تھے ۔ خود کی کڑیاں گوشت بھی پیوست تھیں ۔ اسی اثنا ء میں مسلمانوں کے عکمبر دار حضرت معصبؓ جو آپ کے ہم شکل تھے قریش فوج نے ان کو شہید کردیا اور یہ خبر اڑادی کہ حضور اکرم شہید ہو گئے ۔ اس افواہ سے مسلمانوں میں بدحواسی اور مایوسی پھیل گئی ۔

جبیر بن مطعم کے حبشی نے حضرت حمزہ کو شہید کردیا ۔ حضرت حمزہؓ کی شہادت نے آپ کو بہت دل گرفتہ کردیا کیونکہ کہ حضرت حمزہؓ آُ پ کے حقیقی چچا تھے اور رضاعی بھائی بھی تھے ۔ آپ کو ان سے بہت محبت تھی دشمن اپنا پورا زدر صرف کر رہا تھا کہ کسی طرح حضور اکرم تک پہنچ جائے ۔ مگر جانثار صحابہ نے اپنی جانوں پر کھیل کر آپ کی حفاظت کی ۔ آپ کو بچاتے ہوئے ابو طلحہؓ کی تمام انگلیا ں شہید ہوگئیں ۔ مگر کسی دشمن کو آپ نے قریب نے آنے دیا ۔ ابو سفیان نے یہ تصدیق کرنے کے لیے رسول اکرم زندہ ہے یا نہیں پہاڑ پر چڑھ کر آواز دی کہ محمد ! ابوبکرؓ ! عمرؓ! کوئی زندہ ہیں ؟ سب نے جواب دیا کہ وہ حیات ہیں ۔آپ کی حیات کی خبر سے مسلمانوں میں تازہ جوش وخروش پیدا ہوگیا۔ ابو سفیان کو راہِ فرار اختیار کرنا پڑی ۔

جنگ احد میں مسلمانوں کو جو شکست ہوئی اس میں اگر چہ منافقین کی تدبیروں کاایک بڑا حصہ تھا ۔ لیکن اس کے ساتھ مسلمانوں کی اپنی کمزوریوں کا بھی حصہ کچھ کم نہ تھا اور یہ ایک قدرتی بات تھی کہ ایک طرز فکر اور نظام اخلاق پر جو جماعت ابھی تازہ تا زہ ہی بنی تھی ۔ جس کی اخلاق تربیت ابھی مکمل نہ ہو سکی تھی اور جو اپنے عقیدے اور مسلک کی حمایت میں لڑنے کا یہ دوسرا ہی موقع تھا اس کے کام میں بعض کمزوریوں کا ظہور بھی ہوتا ۔ غزوہ احد ایک نا تمام جنگ رہبی مگر مسلمانوں کے لیے یہ المناک جنگ تھی جس میں جانی نقصان کسی طور پر فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ جبل رماۃ کے تیر اندازوں کے حکم عدولی کی وجہ سے مسلمانوں کے ستر صحابہ شہید ہوئے ۔ حضرت حمزہؓ حضرت مصعب بن عمیر جیسے صحابہ شہید ہوئے مگر ان سب کے با وجود صحابہ کرامؓ کی بہادری ‘ شجاعت کے اعلیٰ نمونے اور حضور اکرم کی قیادت میں دوبارہ استقبال واستعقانت نے جنگ کا نقشہ پلٹ دیا ۔ ابو سفیان کے دلپر بھی خوف طاری ہو گیا اور عارضی غلبہ کی صورت کو غنیمت جان کر اپنی فوج معرکہ کا رزار سے ہٹالی ۔اس موقع پر ایک معمہ ہے کہ جو حل نہیں ہو سکا کہ وہ کیا چیز تھی جس نے کفار مکہ کو خود بخود مکہ واپس جانے پر مجبور کردیا ۔ مسلمان اس قدر پر اگندہ ہو چکے تھے کہ ان کا پھر مجمّع ہو کر باقاعدہ ھؤجنگ کرنا مشکل نظررہا تھا ۔ اگر کفار اپنی فتح کمال تک پہنچانے پر اصرار کرتے تو ان کی مکمل کامیابی بعید نہ تھی مگر وہ خوفزدہ ہو کر آی ہی آپ میدان چھوڑ کرواپس چلے گئے ۔

اس غزوہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مومن اور منافق کی پہچان واضع کردی ۔ جنگ تازہ جماعت مسلمانوں ترتیب کی پیش خیمہ بنی بلکہ ایک انوکھی عمل تجربہ گاہ بھی ثابت ہوئی اس غزوے کے عارضی نقصانات نہ یہ بات بھی واضح کردی کہ اسلامی تحریک کی بقاکا دار ومدار اس کے خالص اصول پر ہیں کسی کی شخصیت پر نہیں ۔ سپہ سالار کی حکم عدولی ہمیشہ جنگ میں شکست کا باعث بنتی ہے ۔ یوں مسلمانوں کو ان کی نا فرمانی کی سزا دے کر ان کی طبعی کمزوریوں کو واضح کردیا او ر اس بات کو سورۃ آل عمران میں واضح کردیا کہ سپہ سالار کی نا فرمانیا ں جنگ میں نا قابل فراموش نقصانات کا باعث ہوتی ہے ۔