اسلامی نظام کے راستے کی رکاوٹیں
پاکستان میں اسلامی نظام کا مطالبہ اور وہ بھی مسلمان حکمرانوں سے اگرچہ تعجب کی بات تھی لیکن وہ بھی سید مودودی کو مہم بنا کر اٹھانا پڑا چونکہ حکمران اس پر آمادہ نظر نہ آتے تھے۔ یوں تو مسلمان اسلام کا شیدائی ہوتا ہے لیکن سید مودودی نے جب اسلامی نظام کا مطالبہ پاکستان میں کیا تو اس کے بجائے کہ پاکستان کی حکومت اس کام کو فوراً کرتی اور سید مودودی کاتعاون حاصل کرتی اس نے اسلام کے لیے حاصل کیے ہوئے پاکستان میں اسلامی نظام کا مطالبہ کرنے کی یہ سزا سید مودودیؒ کو دی کہ انہیں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیاگیا۔ یہ بڑی زیادتی تھی جب تک قائد اعظم زندہ رہے انگریز کے تربیت یافتہ افسر اور لیڈر سید مودودی کے خلاف کچھ نہ کر سکے مگر جب قائد اعظم فوت ہوگئے تو ان کی وفات کے چند دن بعد ہی سید مودودی اور ان کے ساتھیوں کواکتوبر1948ء میں اسلامی نظام کا مطالبہ کرنے کے جرم میں گرفتار کرلیاگیا۔ گرفتاری سے ایک ڈیڑھ ماہ پہلے ان کی جماعت کے اخبارات"کوثر"جہان نو اور روزنامہ "تسنیم"بھی بند کردیے گئے تاکہ کوئی آوازِاحتجاج بلند نہ ہو۔
زندگی کی پہلی جیل
اسلامی نظام کا مطالبہ اٹھانے کے جرم میں سید مودودی کو گرفتار کیاگیا لیکن الزام یہ دھرا گیا کہ وہ جہادِ کشمیر کے مخالف تھے۔ اس جیل جانے کی روداد انہوں نے خود ہی ایک مجلس میں بیان کی جو انہیں کے الفاظ میں درج کی جاتی ہے۔
"دراصل میرے اسلامی نظام کے مطالبے کو دبانے کےلیےہی میرے خلاف مختلف کارگزاریاں کی جاتی رہی ہیں۔ کبھی میری کردار کشی کی گئی اور کبھی مجھ پر سیاسی بہتان لگائے گئے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ایسی کوئی چیز کبھی بھی مجھے میرے مؤقف سے نہیں ہٹا سکی۔ جب قرار داد مقاصد پاس ہوئی تواس کا متن مجھے ملتان جیل میں پہلے دکھایا گیا تھا لیکن میرے مطالبات کو تسلیم کرلینے کے باوجود حکومت میری نظر بندی میں بار بار چھ چھ ماہ کی مسلسل توسیع کرتی رہی۔ میری نظربندی میں چوتھی بار توسیع ہوچکی تھی جب بائیں بازو کے ایک دانشور کی درخواست پر عدالت نے یہ فیصلہ سنایا کہ کسی کی نظر بندی کو تین بار سے زیادہ توسیع نہیں دی جاسکتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ درخواست میری طرف سے کی جاتی تو فیصلہ شاید وہ نہ ہوتا جو اب ہوا تھا۔ بہر حال بائیں بازو کے ایک نظربند کے صدقےپاکستان کو یہ نعمت نصیب ہوئی کہ اٹھارہ ماہ سے زیادہ کسی کو نظر بند نہیں رکھا جاسکتااور اس طرح میں بیس ماہ کے بعد1950ء میں رہاہوا"
اپنی پہلی قید و بند کے بارے میں اپنے تجربے کا ذکر کرتے ہوئے سید صاحب نے فرمایا:۔
"میں نے اپنی پہلی نظر بندی میں لکھنے پڑھنے کاخاصا کام کیا۔ مسئلہ ملکیت زمین مرتب کی،تفہیم کامقدمہ لکھا، حدیث کی کتاب ابوداوٗد کا انڈکس تیارکیا، کتاب "سود" اور اسلام اور جدید معاشی نظریات بھی وہیں مکمل کیں۔ خدا کا شکر ہے کہ میرا وہاں ایک دن بھی ضائع نہ ہوا"
سید مودودی کی گرفتاری رنگ لائی اور مارچ49ء میں قرار داد مقاصد پاس ہوگئی۔ اس طرح یہ بات مان لی گئی کہ پاکستان میں اسلامی قوانین کا ہی نفاذ ہوگا۔
قادیانی سازش
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اشتراکی سازش کے بعد 1953 ء میں ملک میں پہلی قادیانی سازش ہوئی. مسلمانوں کا مطالبہ تھا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیاجائے لیکن حکومت کے مخصوص عناصراور قادیانیوں نے ملک میں مارشل لا نافذ کردیا تاکہ ایسا مطالبہ اٹھانے والوں سے انتقام لیا جاسکے۔ اسلامی نظام کا راستہ روکنےکا یہ حکومت کادوسرا حربہ تھا۔
اس موقع پر سید مودودی نے "قادیانی مسئلہ"کے نام سے ایک چھوٹی سی کتاب لکھ کراصل مسئلے کو واضح کردیا اور ساتھ ہی اپیل کی کہ یہ ایک دستوری مسئلہ ہے اس پر فساد اور خون خرابے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے دستور کے ذریعے حل کیاجائےلیکن حکومت تو خود فساد کرنے پرتُلی ہوئی تھی چنانچہ اس نے بڑے پیمانے پر فسادات کرائے۔ ہزاروں مسلمانوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں بند کیا اور اس طرح مسلمانوں کو بتا دیا کہ ان کے لیے دین کی بنیاد پرکوئی مطالبہ اٹھانا اور حکومت سے منوانا ممکن نہیں ہے۔ جولوگ ملک میں دین کانام لیں گےانہیں سزا ملے گی۔
دارو رسن کی آزمائش
حکومت کے بے دین افسروں نے قادیانی مسئلے پر فسادات سے خوب فائدہ اٹھایا. حکومت اور اس کے افسر تو سید مودودی سے پہلے ہی ناراض تھےانہوں نے سید مودودی کو بھی قادیانی مسئلہ نامی کتابچہ لکھنے کے جرم میں گرفتار کرلیا اور پھرفوجی عدالت کے ذریعے انہیں یہ کتابچہ(جو ہر جگہ فروخت ہورہا تھااور اب تک فروخت ہورہاہے اور کبھی خلافِ قانون نہیں ہوا) لکھنے کے جرم میں سزائے موت کا حکم سنادیا۔ یہ حکومت کابدترین جرم تھا وہ تمام لوگ جواسلام اور پاکستان کے مخالف تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست بن جائے حکومت کی اس کارروائی سے بہت خوش ہوئے کہ پاکستان میں اسلام کے سب سے بڑے سپاہی کو ختم کیاجارہاتھا۔ مگر عام مسلمان تو صدق دل سے اسلام کو پسند کرتے تھے اور اس کارروائی کو جرم کہتے تھے۔ سید مودودی کی سزا کی خبر سن کر انہیں بہت افسوس اور دُکھ ہوا۔ پورے ملک میں حکومت کے اس فیصلے پر ناراضگی کی زبردست لہر دوڑ گئی۔ بڑے بڑے شہروں اور چھوٹے چھوٹے قصبوں تک میں ہرجگہ ہڑتالیں ہوئیں، جلوس نکلے،جلسےہوئے۔ حکومت کوتار اورخطوط بھیجے گئے۔ پاکستانی اخبارات اور رسائل کے ایڈیٹروں نے ایک مشترکہ بیان میں اس فیصلے پر حکومت سے سخت احتجاج کیا۔ پاکستان کے وکیلوں،طالب علموں،اساتذہ اور دوسرے مختلف طبقوں کی انجمنوں اور مجلسوں نے بھی سید مودودی کو سزائے موت کا حکم سنائے جانے پر حکومت کے خلاف سخت ناراضگی اور غم وغصے کا اظہار کیا اور ان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ ملک کے اندر اور باہر عالم اسلام کی بے شمار شخصیتوں اور اخبارات نے نام نہاد فوجی عدالت کے حکم کو جو کہ ایک سیاسی انتقام تھا غلط قراردیا اور اس سزا کو منسوخ کرنے کا مسلسل مطالبہ کیا۔ ساری دنیا کے مسلمانوں نے حکومت پاکستان کو احتجاجی تار دیے۔ غرض اتنا زبردست احتجاج کیا گیا کہ ہند و پاکستان کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ پاکستان کے علاوہ دوسرے ملکوں سے بھی بڑے بڑے علماء اور مسلم لیڈروں نے حکومت پاکستان پر اس سزا کی وجہ سے سخت ناراضگی کا اظہار کیا اوراس سزا کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ سزا حیرت ناک اور غیر متوقع تھی اور خالص سیاسی وجوہ کی بنا پر دی گئی تھی، جو سراسر ظلم پر مبنی تھی۔
مولانا مودودی کی سزائے موت پر عالم اسلام کا احتجاج و اضطراب
سید مودودی کو موت کی سزا کا حکم کوئی معمولی بات نہ تھی اس پر ہرانسان تڑپ اٹھا، ہر مسلمان چیخ اٹھا، لوگ دھاڑیں مارمار کر رونے لگے۔ سارے عالم اسلام میں اضطراب پھیل گیا،ہرشخص سراپا احتجاج بن گیا۔
مصر کی سب سے بڑی اسلامی جماعت الاخوان المسلموں کے رہنما اور ایک بہت بڑے قانون دان علامہ حسن الہضیبی نے حکومت پاکستان کو ایک تار روانہ کیا جس میں لکھا تھا"سیدابو الاعلٰی مودودیؒ کی سزا کا حکم دراصل تحریک اسلامی کو سزا دینے کے برابر ہے۔ یہ ایک بہت بڑا جرم ہے. اقصائے عالم کے سارے مسلمان اس حکم کو نفرت و بیزاری کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کی تنسیخ کا مطالبہ کرتے ہیں کیونکہ پاکستان کے ساتھ مسلمانان عالم کی ہمدردیاں اور روابط اسلام کی اساس پر قائم ہیں۔ عالم اسلام کے ایک اور ممتاز عالم حضرت علامہ نور المشائخ المجددی نے بھی کابل سے ایک تار بھیجا جس میں لکھا تھا:
"سید مودودی کا شمار جلیل القدر علمائے دین میں ہوتا ہے۔ علمائے حق میں سے ایک دینی شخصیت کی سزا درحقیقت سزا کے روپ میں دین کی توہین وسزاہے"
لجزائر کے علماء نے سید مودودی کی سزائے موت پرایک بیان میں کہا :
" سید مودودی کو سزائے موت کا حکم محض ایک فرد بشر کی موت کافیصلہ نہیں ہے بلکہ اسلام کی تلواروں میں سے ایک تلوار کو توڑ دینا ہے۔ اسلام کی آوازوں میں سے ایک آواز کو خاموش کردینا ہے اور اسلام کے وقار و اعزاز کو مٹادینا ہے۔ ہم جمعیۃ العلماء الجزائرکی جانب سے اور مغرب اقصٰی کے تین کروڑ مسلمانوں کی طرف سے مولانا مودودی کی سزائے موت اورسزائےقید کے احکام فی الفور واپس لینے کی درخواست کرتے ہیں"
انڈونیشیا کی ساٹھ مسلم جماعتوں نے اپنے بیان میں کہا :
"مولانا مودودی صاحب کی اگر پاکستان کو ضرورت نہیں تو دنیا ئے اسلام کو ان کی زبردست ضرورت ہے. ہم انڈونیشیا کے مسلمان ان کے ساتھ ہیں اور ان کے خیالات کی آج مسلم دنیا کو اشد ضرورت ہے۔ مولانامودودی دنیائے اسلام کی قیمتی امانت ہیں"
فلسطین کے مفتی اعظم الحاج محمد الحسینی نے پاکستان کے گورنر جنرل اور وزیر اعظم کے نام ایک تار بھیجا جس میں درج تھا:
"الاستاذ سیدابوالاعلٰی امیر جماعت اسلامی پاکستان کے متعلق سزا کی خبر نےان تمام مسلمانوں کو جنہیں پاکستان سے محبت ہے اور جو پاکستان سے اچھی توقعات رکھتے ہیں، شدید صدمہ پہنچایا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت پاکستان دانشمندی سے کام لے گی اور استاذ مودودی کی سزا کو فوراً منسوخ کردے گی"
افغانستان کے مشہور عالم نور المشائخ ملا شور بازارنے تار میں کہا:۔
"مولانا مودودی کی سزا کا حکم شریعت اسلام سے علانیہ بغاوت ہے اور ان باطل پرستوں کی ہمت افزائی ہےجو اسلام کے خلاف نبردآزما ہیں"
شیعانِ عراق کے مجتہد اعظم حضرت الامام محمد الخاص اور عراق کے اہل سنت والجماعت کے پیشوائے اعظم علامہ الزہادی نے عراق،سعودی عرب،مصراور ایران کے حکمرانوں کوایک تار بھیجا جس میں ان سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ مولانا مودودی کی سزا منسوخ کرانے کی کوشش کریں۔
دمشق(شام)میں پاکستانی سفارت خانے کے سامنے شامیوں نے سید مودودی کی سزا کے خلاف مظاہرے کیے۔ ماریشیس کے مسلمانوں نے بھی تاروں اور خطوط کے ذریعے حکومت پاکستان سے زبردست احتجاج کیا۔
سید مودودی کی جیل میں استقامت و پامردی
سید مودودی کی سزا کے خلاف دنیا بھر میں تو اس قدر احتجاج ہو رہا تھامگر سید مودودی کو فوجی عدالت کے اس فیصلے پر ذرہ برابر بھی گھبراہٹ نہیں تھی . جب ان کے ساتھیوں نے جیل میں ان سے پوچھا کہ کیا حکومت کے فیصلے کے خلاف آپ کی طرف سے رحم کی اپیل دائر کی جائے تو انہوں نے پھانسی کی کوٹھڑی میں کھڑے ہوکر فرمایا:
"نہیں،ہرگز نہیں۔ میں نہیں چاہتاکہ میری طرف سے یا میرے خاندان کے کسی فرد کی طرف سےیا خود جماعت کی طرف سےکوئی رحم کی درخواست پیش کی جائے"
اس کے بعد انہوں نے اپنے بیٹے عمرفاروق کو تسلی دیتے ہوئےفرمایا"بیٹا ذرانہ گھبرانا! اگرمیرے پروردگار نے مجھے اپنے پاس بلانا منظورکرلیا ہے تو بندہ بخوشی اپنے رب سے جاملے گا اور اگر اس کا ہی ابھی حکم نہیں آیا تو پھر چاہے یہ لوگ الٹے لٹک جائیں مجھ کو نہیں لٹکا سکتے"
چنانچہ سید مودودی نے اپنی سزا کے خلاف کوئی اپیل نہیں کی۔ انہوں نے کہا اگر میں ظالم حکمرانوں کے سامنےدب گیا،اور اپیلیں کرنے لگا تو پھر اس ملک سے انصاف کا جنازہ اٹھ جائے گا۔ بالآخر حکومت نے خود ہی سزائے موت کوچودہ سال کی قید میں تبدیل کردیا۔
سید مودودی کے ساتھی تو کچھ عرصے کے بعد جیل سے رہا کردیے گئے اور انہوں نے واپس آکر دین کے کام کو آگے بڑھایا لیکن سید مودودی کو مزید دوسال اور گیارہ ماہ تک جیل میں رکھا گیا،اور بالآخر وہ عدالتِ عالیہ کے ایک حکم کے ماتحت ہی رہا ہوئے۔
روداد زنداں
دوسری بار جیل جانے کی روداد اور اس کی وجوہ کا تذکرہ کرتے ہوئے سید مودودی نے ایک مجلس میں بتایا۔
"یہ غلط فہمی ہے کہ مجھے قادیانی مسئلےکے فسادات کے سبب گرفتار کیاگیا ، حقیقت یہ ہے کہ وہ قید بھی اسلامی دستور کی جدوجہد ہی کی ایک سزا تھی جس کے لیےپہلا بہانہ ملتے ہی فائدہ اٹھایا گیا۔ یہ سازش اس لیے کی گئی تھی کہ اس ملک میں سے اسلام اور جمہوریت دونوں کو بیک وقت رخصت کردیا جائے۔ ظاہر ہے کہ قرار داد مقاصد پاس ہونےکے بعد بھی اسلامی دستور بنانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ چنانچہ جماعت اسلامی نے باقاعدہ طور پر حکومت سے مطالبہ کیا کہ دسمبر52ء کے ختم ہونے سے پہلے پہلے ملک کو دستور دیاجائے اوراس دستور میں جماعت اسلامی کے آٹھ نکات ضرور شامل ہوں۔ وہ آٹھ نکات یہ تھے۔
1 ۔ ملک کا قانون اسلامی شریعت کے مطابق ہوگا۔
2. کوئی ایسی قانون سازی نہیں کی جائے گی جو قانونِ شریعت کے خلاف ہو.
3. تمام ایسے قوانین کو منسوخ کیاجائےگا جو شریعت کے احکام یا اصولوں سے متصادم ہوں۔
4۔ حکومت کے لیے لازم ہوگا کہ وہ ان برائیوں کو مٹائے جنہیں اسلام مٹانا چاہتا ہے اوران بھلائیوں کوفروغ دے جنہیں اسلام فروغ دینا چاہتا ہے۔
5۔ لوگوں کی شہری آزادیوں کو ان کا جرم کھلی عدالتوں میں ثابت کیے بغیر اور انہیں صفائی کا موقع دیے بغیر، سلب نہیں کیاجائے گا۔
6۔ لوگوں کو حق ہوگا کہ انتظامیہ یا مقننہ اگر اپنے حدود و اختیارات سے تجاوز کریں تو وہ ملک کی عدالتوں سے قانونی چارہ جوئی کرسکیں۔
7 ۔ عدلیہ انتظامیہ کی مداخلت سے آزاد ہوگی۔
8 ۔ حکومت اس بات کی ضامن ہوگی کہ ملک میں کوئی شخص بنیادی ضروریات زندگی یعنی غذا،لباس مکان اورعلاج سے محروم نہ رہے۔