امت مسلمہ کو اپنی تاریخ میں تین بڑے چیلنج درپیش رہے ہیں۔ پہلا چیلنج یونانی فکرکا تھا جس نے یونانی فلسفے کو مسلم فکر اور مزاج کا حصہ بناکر مسلمانوں کے بنیادی عقائد کے لیے بقا و سلامتی کا مسئلہ پیدا کردیا تھا۔ یونانی فلسفہ ایک سطح پر اعلان کررہا تھا کہ عقل وحی پر فوقیت رکھتی ہے۔ فلسفہ دوسری سطح پر واشگاف الفاظ میں دعویٰ کررہا تھا کہ یہ کائنات یا یہ عالم قدیم ہے۔ یہ صریح کفر تھا، اس لیے کہ قدیم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ یہ صریح گمراہی تھی اور اس میں ابن رشد اور ابن سینا جیسے بڑے بڑے لوگ مبتلا تھی، اور اندیشہ یہ تھا کہ اگر یونانی فلسفہ سکہ رائج الوقت بن گیا تو حق و باطل کا فیصلہ کرنے والی قوت وحی نہیں انسانی عقل یا عقلِ جزوی ہوگی۔ امام غزالیؒ کو اس فتنے کا شعور تھا، وہ تن تنہا اس گمراہی کے سامنے کھڑے ہوگئے اور انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے یونانی فکر کے زور کو توڑ کر قیامت تک آنے والے ہر مسلمان کو گمراہی میں مبتلا ہونے سے بچالیا۔ غزالیؒ کا یہ کارنامہ عظیم الشان ہے اور وہ پوری امت کے محسن ہیں۔ لیکن غزالیؒ کے عہد کا چیلنج صرف فکری تھا۔ مسلمانوں کی تاریخ کا دوسرا بڑا چیلنج یہ تھا کہ تاتاریوں نے مسلمانوں کے سیاسی مرکز بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجاکر ایک جانب مسلمانوں کو سیاسی مرکز سے محروم کردیا اور دوسری طرف عالم اسلام کے ایک بڑے حصے کو اپنا غلام بنالیا۔ اس کے نتیجے میں عالمِ اسلام فکری اور عملی انتشار کا شکار ہوا۔ مسلمان خوداعتمادی سے محروم ہوگئی، ان کا اجتماعی علمی تشخص بری طرح مجروح ہوا۔ لیکن تاتاریوں کا چیلنج صرف عملی چیلنج تھا۔ تاتاری کوئی فکری یا تہذیبی قوت نہیں تھے۔ یہی وجہ تھی کہ بغداد پر قبضہ کرنے والے تاتاریوں کی دوسری نسل اسلام سے متاثر ہوگئی اور اسلام نے فاتحین کو فتح کرلیا اور مسلمانوں کو نومسلم تاتاریوں کی صورت میں نیا خون فراہم ہوگیا۔ اس صورت ِحال کو اقبالؒ نے بڑے والہانہ پن سے بیان کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سی پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سی مسلمانوںکی تاریخ کا تیسرا چیلنج عالم اسلام پر مغربی اقدار کا غلبہ اور اس غلبے سے شروع ہونے والا نوآبادیاتی دور تھا۔ ابتداءمیں یہ چیلنج صرف ”عملی“ تھا۔ اس لیے کہ مغربی دنیا کی فتح ابتداءمیں صرف ”عسکری فتح“ تھی۔ لیکن اس فتح کے کچھ ہی عرصے بعد مغربی اقوام کے غلبے نے مسلمانوں کے لیے فکری اور تہذیبی چیلنج پیش کرنے شروع کردیے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مغربی اقوام صرف عسکری قوت نہیں تھیں بلکہ وہ ایک تہذیبی قوت بھی تھیں۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کے علوم کے مقابلے پر اپنے علوم اور مسلمانوں کے فنون کے مقابلے پر اپنے فنون لاکر کھڑے کر یے۔ نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے اپنی تہذیب کو اسلامی تہذیب کا ”متبادل“ بناکر کھڑا کردیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مغربی طاقتوں کا چیلنج یونانی فکر اور تاتاریوں کے مجموعی چیلنج سے بڑا تھا۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ غزالیؒ کے زمانے کا فکری چیلنج صرف عالموں، مفکروں اور دانش وروں کو متاثر کررہا تھا اور عوام اس کے اثر سے محدود وقت کے لیے ہی سہی، محفوظ تھے۔ مگر مغربی فکر نے ایک جانب بالائی طبقات کو متاثر کیا اور دوسری جانب عوام بالخصوص متوسط طبقے کو متاثر کیا۔ اس صورتِ حال نے مسلمانوں کے ایک بڑے حصے کو شخصیت کی دونیمی کے عذاب یا Split Personality Phenomina میں مبتلا کردیا۔ یعنی مسلمانوں کی شخصیتیں دو ٹکڑوں میں بٹ گئیں۔ ایک حصہ عقائد، عبادات اور اخلاقیات پر مشتمل تھا۔ دوسرا حصہ تہذیبی، سیاسی اور معاشی زندگی سے عبارت تھا۔ مسلمانوں کی شخصیت کا اول الذکر حصہ مذہب کے زیراثر اور مو_¿خر الذکر حصہ مغربی فکر کے زیراثر تھا۔ اس طرح کروڑوں مسلمان شخصیت کی اس اجتماعی اکائی سے محروم ہوگئے جو اسلام کے زیراثر صدیوں میں پیدا ہوئی تھی۔ مغربی فکر اور مغرب کے عسکری اور سیاسی غلبے نے سرسید کو پیدا کیا، جن کا مرض شخصیت کی دونیمی سے بڑھا ہوا تھا۔ اس مرض کا لب لباب یہ تھا کہ سرسید دل سے اس بات کے قائل ہوگئے تھے کہ مغرب کی تہذیب اپنے اجمال اور اپنی تفصیل میں اسلامی تہذیب سے برتر ہے اور ہمیں اس کے فکری اور عملی اصولوں کو دل و جان سے اور کامل سمجھ کر قبول کرلینا چاہیے۔ اس ذہنیت نے سرسید سے مسلمانوں کے پورے تفسیری سرمائے کا انکار کرایا، انہیں منکرِ حدیث بنایا۔ سرسید نے صاف لکھا کہ مسلمانوں پر انگریزوں کا تسلط اللہ تعالیٰ کی مسلمانوں پر مہربانی ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کو دل و جان سے ”برٹش حکومت“ کا وفادار ہونا چاہیے۔ لیکن سرسید کی فکر اور شخصیت مغربی فکر اور مغربی اقوام کے فکری و عملی غلبے کی محض دوسری منزل تھی۔ اس غلبے نے سرسید کی فکر کے زیراثر اپنی گمراہی کا تیسرا تحفہ بھی پیش کرڈالا۔ یہ مرزا غلام احمد قادیانی کا ”اعلانِ نبوت“ تھا۔ یہ مغربی فکر کے زیراثر سامنے آنے والی ضلالت اور گمراہی کی بدترین صورت تھی۔ یہ تھا وہ منظرنامہ جس میں مولانا مودودیؒ ہمہ گیر چیلنج کا ہمہ گیر جواب بن کر ابھرے۔ اس منظرنامے میں بڑے بڑے روایتی علماءموجود تھے مگر ان علماءپر مولانا کو کئی بڑی فوقیتیں حاصل ہیں۔ دین کی فکری تاریخ کی روایت میں لفظ اور معنی کے رشتے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ہر معنی کے لیے ایک لفظ متعین ہے اور اس معنی کو اس لفظ کے وسیلے سے بیان کیا جاسکتاہے۔ لفظ اور معنی کے تعلق کی دوسری صورت یہ ہے کہ انسان کو معنی مستحضر یا یاد ہوں تو انسان ان معنی کو مختلف الفاظ میں بیان کرسکتا ہے۔ مولانا مودودیؒ کے زمانے کے علماءکا مسئلہ یہ تھا کہ انہیں دین کے معنی مخصوص الفاظ اور مخصوص اصطلاحوں میں یاد یا مستحضر تھے اور وہ انہی الفاظ اور اصطلاحوں میں ان معنوںکو بیان کرسکتے تھے۔ الفاظ اور اصطلاحوں کے ایک مخصوص نظام سے باہر ان کی تفہیم اور ان کا بیان چار قدم بھی نہیں چل پاتا تھا۔ مولانا مودودیؒ کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے دین کے معنی کو مروج الفاظ اور اصطلاحوں کے نظام کے دائرے کے باہر دریافت کیا، سمجھا اور بیان کیا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مولانا کو دین کے معنی کس درجے مستحضر تھے اور وہ ان معنی کو معنی بدلے بغیر مختلف الفاظ اور اصطلاحوں میں بیان کرنے کی کیسی قدرت رکھتے تھے۔ روایتی علماءکا ایک مسئلہ یہ تھا کہ ان کی تفہیم دین کے کسی نہ کسی مسلک، مکتبہ_¿ فکر یا طبقے سے متعلق تھی۔ یعنی اس میں ”مقامیت“ بہت تھی۔ مولانا کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے دین کے معنی کو مسلک، مکتبہ_¿ فکر یا کسی طبقے کے بجائے ”عصر“ کی سطح پر سمجھا اور بیان کیا، اور مذہبی بیان یا Religious Discourse میں ایک آفاقیت اور عالمگیریت پیدا کی۔ یہ بیان جغرافیی، نسل، مزاج اور زبانوں کی حد بندیوں کو پھلانگنے کی ایسی غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے کہ اس کی عصری تاریخ میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ مولانا کی کتابیں 75 سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہوئیں۔ ترجمہ لفظ اور معنی کی گہرائی اور جلال و جمال کو بہت حد تک نگل لیتا ہی، لیکن مولانا کے مذہبی بیان میں ایک ایسی بات ہے جو ترجمے کے بعد بھی نہ صرف یہ کہ یاد رہتی ہے بلکہ مو_¿ثر بھی رہتی ہے۔ مولانا مودودیؒ کے اس فکری کارنامے نے پوری امتِ مسلمہ کو فکری اور عملی سطح پر جس طرح ایک لڑی میں پرویا ہے اس کا کوئی ثانی نہیں۔ روایتی علماءپر مولانا مودودیؒ کی ایک فوقیت یہ ہے کہ روایتی علماءکے یہاں ”حق“ کی تفہیم تو تھی مگر عصر پر غلبہ رکھنے والے باطل کی تفہیم نہیں تھی۔ مولانا کے علم کلام کی شان یہ ہے کہ اس نے امت ِمسلمہ میں حق کا شعور بھی پیدا کیا اور حق کی روشنی میں عصر پر غلبہ رکھنے والے باطل کا شعور پیدا کیا۔ انہوں نے مغربی فکر کی تنقید بھی لکھی اور سوشلزم کی تنقید کا حق بھی ادا کیا۔ اس طرح مولانا کے علم کلام میں ایک ایسی ”جامعیت“ پیدا ہوگئی جس کی کوئی نظیر روایتی علماءمیں موجود نہیں تھی۔ غلامی کے ہولناک اثرات میں سے ایک اثر یہ تھا کہ عوام کیا علماءتک نے دین اور دنیا کی دوئی کے تصور کو قبول کرلیا تھا۔ اس کی صورت یہ تھی کہ دین صرف عقائد و عبادات اور اخلاقیات تک محدود ہی، اور ریاست و سیاست اور معیشت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ مولانا مودودیؒ نے دوئی کے اس تصور کو چیلنج کیا اور اسلام کو ایک مکمل ضابطہ_¿ حیات کے طور پر پیش کیا۔ انہوں نے عقیدہ_¿ توحید اور عقیدہ_¿ رسالت کی جو تشریحات کیں ان کا لب لباب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی صرف روزی، نماز ہی میں نہیں، ریاست و سیاست میں بھی ظاہر ہونی چاہیی، اور معیشت اور علوم و فنون میں بھی اس کا جلوہ نظر آنا چاہیے۔ مسلمانوں میں غلامی نے ایک ایسی روحانی اور نفسیاتی کیفیت پیدا کردی تھی جس میں وہ اس خیال کو محال سمجھتے تھے کہ اسلام کو امتِ مسلمہ کی اجتماعی زندگی کے ہر شعبے میں غلبہ حاصل ہوسکتا ہے۔ انہیں محسوس ہوتا تھا کہ اسلام مغلوب ہوگیا ہے اور یہ صورت حال معاذ اللہ دائمی ہے۔ اس فضا میں مولانا نے اسلام کے غلبے کا تصور شدت کے ساتھ پیش کیا۔ انہوں نے مسلمانوںکو یقین دلایا کہ سرمایہ داری اور کمیونزم انسانی ساختہ نظام ہیں اور یہ اپنے تضادات کا شکار ہوکر فنا ہوجائیں گے۔ چنانچہ مستقبل صرف اسلام کا ہے۔ مولانا سے پہلے یہ بات اقبال کہہ چکے تھے لیکن مولانا نے دعویٰ کیا اور اس کے دلائل بھی فراہم کیے۔ انہوں نے سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونزم کی تنقید کے ذریعے ان کا کمزور ہونا ثابت کیا۔ مولانا کی اور باتوں کی طرح ان دو باتوں کو بھی عالمگیر پذیرائی میسر آئی اور کروڑوں مسلمانوںکا اسلام پر اعتماد اور فخر بحال ہوا اور باطل نظاموں کے لیے ان کے دل و دماغ میں کوئی کشش باقی نہ رہی۔ روایتی علماءمیں سے کوئی عالم مولانا مودودیؒ کے اس کارنامے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ روایتی علماءنے مولانا مودودیؒ کی فکر اور شخصیت کے سلسلے میں جو طرزعمل اختیار کیا اس کی کیا وجہ ہی؟ مذکورہ حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کی تین بنیادی وجوہ تھیں: (1) مولانا کا علم کلام متعین الفاظ اور متعین اصطلاحوں کے دائرے سے باہر تھا اور روایتی علماءکی اکثریت مولانا کی بات کو پوری طرح سمجھ ہی نہ سکی۔ (2) مولانا کا علمی ذوق جدید و قدیم پہ محیط تھا اور روایتی علماءکے ذوق میں یہ وسعت نہیں تھی۔ علماءکے ذوق کے محدودات نے انہیں مولانا کی تردید پر مائل کیا۔ (3) مولانا کی بات میں اللہ تعالیٰ نے بے پناہ برکت دی اور مولانا کی بات بہت تیزی کے ساتھ عام ہوئی۔ اس صورت حال نے بہت سے علماءکو حسد میں مبتلا کیا اور حسد نے انہیں مولانا کی تکذیب پر اکسایا۔ مولانا مودودیؒ کے فکری و عملی کارنامے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ مولانا کو اپنے عصر کے کسی بھی شخص سے زیادہ یہ بات معلوم تھی کہ حقائق اور اعداد و شمار یعنی Facts and Figures کی تعبیر انہیں دو دھاری تلوار بنادیتی ہے اور یہ تلوار خود اپنے مالک کو بھی زخمی کرسکتی ہے۔ اس تفہیم کے زیراثر مولانا نے مغرب سے حاصل ہونے والی معلومات اور علم کے بڑے ذخیرے کو خود مغرب کی تردید کے لیے بڑے پیمانے پر نہایت کامیابی کے ساتھ استعمال کیا۔ مولانا کی معرکہ آراءتصانیف ”پردہ“، ”اسلام اور ضبطِ ولادت“ اور ”مسئلہ قومیت“ وغیرہ اس کی بہت اچھی مثالیں ہیں۔ مولانا کے سوا یہ کام صرف امام غزالیؒ نے کیا ہے اور بلاشبہ غزالیؒ عالموں کے عالم تھے اور ان کا یہ کام مولانا سے زیادہ وقعت اور عظمت کا حامل ہے۔ لیکن غزالیؒ کے بعد گزشتہ بارہ سو سال میں یہ کام کرنے والے مولانا واحد شخص ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ مولانا کے بعد ان کا یہ علمی کارنامہ ایک ”علمی طرز“ اور ایک علمی اسلوب بن گیا۔ مولانا مودودیؒ کے عہد ساز فکری و عملی کارنامے کا ایک بنیادی پہلو مولانا کا غیر معمولی علمِ کلام اور اس کا اسلوب ہے۔ اس علمِ کلام اور اس کے اسلوب کے چار پہلو اساسی ہیں: (1) وجدان (2) تفہیم (3) جذبہ (4) دلیل مولانا مودودیؒ کا علمِ کلام اور اس کا اسلوب چار چیزوں کا مجموعہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان چیزوں کا مفہوم کیا ہی؟ مولانا مودودیؒ کے علم، علمِ کلام اور اس کے اسلوب کا بنیادی پہلو یہ ہے کہ یہ اکتسابی یا کتابی کم اور وجدانی زیادہ ہے۔ وجدان کی موجودگی کی ایک شناخت یہ ہے کہ انسان کم معلومات یا کم علم سے زیادہ سیکھتا اور سکھاتا اور زیادہ بڑے نتائج برآمد کرتا ہے۔ مولانا کے یہاں علم کم ظاہر ہوتا ہے لیکن اس کی تشریح اور تعبیر میں وسعت اور گہرائی بہت ہوتی ہے۔ دنیا میں بہت کم لکھنے والے ایسے ہوتے ہیں جو اپنے علم کے بجائے اپنی تفہیم کو لکھتے ہیں۔ مولانا ایسے ہی لوگوں میں سے ایک ہیں۔ علم مرعوب بہت کرتا ہے لیکن محبت کم پیدا کرتا ہے۔ اس کے برعکس تفہیم مرعوب کم کرتی ہی، علم اور صاحب ِعلم کی محبت زیادہ پیدا کرتی ہے۔ مولانا مودودیؒ کے علمِ کلام اور ان کے اسلوب میں طلوع صبح کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ یہ چیز صداقت کے ساتھ ساتھ جذبے سے پیدا ہوتی ہے۔ مولانا کے بارے میں یہ بات بالکل درست ہے کہ ان کے یہاں جذباتیت نہیں پائی جاتی اور نہ ہی وہ اپنے قاری میں جذباتیت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن جذبے کے بغیر مولانا نے ایک لفظ بھی تحریر نہیں کیا۔ جذبہ پورے وجود کے تعلق سے پیدا ہوتا ہے اور جذباتیت وجود کے کسی ایک گوشے کا ”ردعمل“ ہوتی ہے۔ جذبہ تفہیم کا ایک ذریعہ ہے اور جذباتیت اپنی نہاد میں عدم تفہیم کی ایک صورت۔ یعنی ایسی صورت جس میں تفہیم کم ہوتی ہے اور عدم تفہیم زیادہ ہوتی ہے۔ مولانا مودودیؒ کے علم کلام اور ان کے اسلوب کی ایک بڑی قوت مولانا کی دلیل سازی ہے۔ دلیل بنیادی طور پر ذہن کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ دلیل کے ذریعے کسی بات کو ذہن کے لیے قابلِ اطمینان بنادیا گیا ہے۔ اس کے مقابلے پر وجدان کا معاملہ ہے۔ وجدان ذہن کو بھی متاثر کرتا ہی، لیکن اس کا زیادہ گہرا اثر انسانی روح، انسانی قلب اور انسانی نفس پر ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان سب باتوں کا مطلب کیا ہی؟ ان باتوں کا مطلب یہ ہے کہ مولانا کا علم کلام اور مولانا کا اسلوب روح سے ذہن تک ہر چیز کی تسکین کا سامان اپنے اندر رکھتا ہے اور عصر حاضر میں یہ ایک نایاب خوبی ہے۔ سلیم احمد نے مولانا مودودیؒ کے بارے میں ایک بنیادی بات کہی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ مولانا مودودیؒ کو پڑھتے ہوئے ہمارے اندر مولانا مودودیؒ کی حمایت کے بجائے اسلام کی حمایت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ صورت حال مولانا مودودیؒ کے ”اخلاص“ کی شہادت اور اس کا ثبوت ہی، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ مولانا نے اسلام کی بالادستی اور غلبے کی جدوجہد اپنی شخصیت سے بے نیاز ہوکر صرف اللہ کے لیے کی ہے۔ یہ بات مولانا مودودیؒ کو اپنے بڑے بڑے معاصرین سے ممتاز کرتی ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا علم مولانا سے زیادہ محسوس ہوتا ہے مگر ان کا اسلوب ان کی شخصیت کا پرتو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد کو غیر معمولی علم اور غیر معمولی ذہانت کے باوجود صرف برصغیر میں بھی قبولیتِ عامہ حاصل نہیں ہوئی۔ مولانا مودودیؒ نے اپنی زندگی کے کسی دور میں اپنی شخصیت کو اپنے کام پر اثرانداز نہیں ہونے دیا۔ یہ اپنی جگہ ایک بہت بڑی روحانی واردات اور ”نفسِ ذکیہ“ کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کا قیام مولانا مودودیؒ کے بڑے عملی کارناموں میں سے ایک کارنامہ ہے۔ مولانا نے جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کی صورت میں اپنی صداقت، اپنے تقوی، اپنے علم اور اپنے تصورِ خدمت کو ”انسانی پیکر“ عطا کیا۔ لیکن مسئلہ صرف اسی قدر نہیں ہے۔ جماعت سازی انبیاءو مرسلین کی سنت ہے اور مسلمانوں کی گزشتہ دو سو سال کی تاریخ کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ہمارے علماءنے امت ِمسلمہ کو درپیش چیلنجوں کے اعتبار سے جماعت سازی کی کوشش نہیں کی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے تصورات معاشرے میں نظری علم اور نظری بحثیں پیدا کرکے رہ گئے۔ لیکن مولانا نے جماعت سازی کے ذریعے اپنے قول کو عمل سے ملاکر جدوجہد کا مکمل دائرہ تخلیق کیا اور مولانا مودودیؒ کے اس دائرے نے عملی زندگی میں بڑے بڑے نتائج پیدا کیے ہیں اور مزید بڑے بڑے نتائج پیدا کرسکتا ہے۔ احمد جاوید صاحب نے مولانا مودودیؒ کی شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ مولانا کا کمال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک لاکھ گز سفید کپڑا فراہم کیا اور مولانا نے اس ایک لاکھ گز کپڑے پر ایک بھی دھبا نہیں لگنے دیا۔ اس بات پر صرف اتنا اضافہ کیا جاسکتا ہے کہ مولانا کی زندگی کے پچاس سال سیاست میں گزری، اور سیاست ”کوئلے کی کان“ ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مولانا نے پچاس سال تک کوئلے کی کان میں زندگی گزارکر بھی ایک لاکھ گز سفید کپڑے کو دھبے سے محفوظ رکھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مولانا مجسم ”دعوت ِحق“ تھے۔ ان کی شخصیت کا یہ پہلو مولانا کے چہرے پر کیا ان کے چہرے کی مُردہ نقل یعنی ان کی بعض تصاویر تک میں آگیا ہے۔ ان تصاویر سے مولانا کی صداقت جھلکتی ہے۔ ان تصاویر سے مولانا کا تقویٰ ظاہر ہوتا ہے۔ ان تصاویر سے مولانا کا علم مترشح ہوتا ہے۔ ان تصاویر سے مولانا کا حلم آواز دیتا ہے۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ مولانا کی تحریریں اور جدوجہد ہی نہیں ان کی تصاویر تک دین کی تبلیغ کا ذریعہ بن گئی ہیں۔ بلاشبہ یہ سعادت اور یہ عظمت اللہ تعالیٰ ہی کی عطا ہے۔