October 9th, 2024 (1446ربيع الثاني5)

حرفِ حق کہنے کی جرأت دے گیا

نواب زادہ نصر اﷲ خان مرحوم

سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ قیام پاکستان سے قبل مظفر گڑھ تشریف لائے تو وہاں ان سے پہلی باقاعدہ ملاقات ہوئی تھی۔ پھر 1950میں اچھرہ (لاہور) میں، میں اور آغا شورش کاشمیری ( اکتوبر 1975) اکثر ملنے جاتے تھے۔ یوں ایک وقت ایسا آیا کہ ہم نے اکٹھے مل کر ملکی سیاسی جدوجہد میں کام کیا، اکٹھے دورے کیے، اکٹھے جلسے کیے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے مارشل لا کے دوران بہت ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ میں نے انھیں ایک ہمہ جہت شخصیت پایا۔ وہ ممتاز عالم دین بھی تھے، مفکر بھی تھے اور ان کے اندر اعلیٰ درجے کی سیاسی بصیرت بھی تھی، قدرت نے انہیں بے شمار صلاحیتوں سے نواز رکھا تھا۔
برطانوی استعماری حکومت کے خلاف انہوں نے بہت جدوجہد کی۔ جب برطانوی حکومت مسلمانوں کے خلاف مختلف قسم کے اقدامات کے ذریعے ظلم وستم کر رہی تھی، تو انہوں نے مسلمانوں بالخصوص نوجوان نسل تک آزادی کا پیغام پہنچایا۔ مولانا مودودیؒ نے انتہائی مدلل انداز میں اسلامی نظام حیات پر بحث کی اور لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کیا۔ انہوں نے اپنی تصانیف میں بڑے مدلل، مدبرانہ اور ساینٹی فک انداز سے اسلام کو پیش کیا۔ ایک وقت تھا، جب نوجوان نسل الحاد، لادینی اور سیکولر تہذیب کے اثرات قبول کر رہی تھی۔ دور دور تک اس طوفان کا کوئی مدمقابل دکھائی نہ دیتا تھا۔ اس ماحول میں مولانا مودودیؒ نے بڑی جرأت، عزم، جواں مردی سے ان لادینی قوتوں کا مقابلہ کیا۔ میرے خیال میں یہ ان کا ناقابلِ فراموش حد تک تاریخی کارنامہ ہے۔
اسلام کی نشات جدید میں علامہ محمد اقبال ؒ نے بھی بڑا نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ایک دفعہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں علامہ اقبال کو دعوت دی گئی۔ علامہ اقبال بیمار تھے، اس لیے وہ اجلاس میں نہ جا سکے، تاہم انہوں نے ایک قطعہ بھیج دیا:

یقیں، مثلِ خلیل آتش نشینی
یقیں اﷲ مستی، خود گزینی
سن، اے تہذیب حاضر کے گرفتار
غلامی سے بہتر ہے بے یقینی

اور علامہ نے مولانا مودودی سے کہا کہ وہ اس اجلاس میں جائیں۔ مولانا کی زندگی کا ایک پہلو تو یہ تھا۔
دوسری طرف قیام پاکستان کے بعد سیفٹی ایکٹ اور اظہار رائے پر پابندی کے خلاف مولانا مودودی نے تاریخی جدوجہد کی اور قید وبند کے مرحلوں سے گزرے۔ انہوں نے برملا کہا کہ اظہار رائے ہر ایک شہری کا بنیادی حق ہے، جو ہر کسی کو ملنا چاہیے۔ اس کے لیے انہوں نے حکومت وقت کی مخالفت بھی مول لی اور کسی بھی چیز کی پروا تک نہ کی۔ مولانا مودودیؒ نے علما کے 22 نکات پر مشتمل دستاویز بنیادی طور پر خود مرتب کی۔ اس ضمن میں مولانا ظفراحمد انصاری مرحوم نے جو تفصیلات بتائیں، وہ مولانا مودودی کی دُوراندیشی اور دین سے محبت کی دلیل ہیں۔ ان کی یہ ایک ایسی بے مثال خدمت ہے، افسوس کہ جسے خود دینی حلقوں میں بھی محض سیاسی مخالفت کی بنیاد پر سراہا نہیں جاتا۔ اس سے قبل قرارداد مقاصد کے سلسلے میں مولانا شبیراحمد عثمانی مرحوم و مغفور کے ساتھ مل کر ملک و قوم کے لیے جو خدمت سرانجام دی، میرے نزدیک ان کے تمام کارناموں سے بڑھ کر یہ اعلیٰ ترین کارنامہ ہے۔ انہوں نے قرارداد مقاصد میں اﷲ کی اصل حاکمیت کا تصور دیا۔ عوام کو بنیادی حقوق اور عدلِ اجتماعی دلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ قرارداد مقاصد آج بھی ہمارے آئین کا حصہ ہے اور اسلامی علم سیاسیات واجتماعیات کی نہایت اہم دستاویز۔
1953 کی تحریک تحفظ ختم نبوتؐ میں انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس تحریک کے نتیجے میں انہیں پھانسی کی سزا ہوئی، لیکن ہم نے دیکھا کہ انھوں نے اپنی پھانسی کی سزا سن کر بھی جس حوصلے اور استقامت کا مظاہرہ کیا، وہ کسی اور میں نہیں پایا جاتا۔ وہ ختم نبوت صلی اﷲ علیہ و سلم کے سلسلے میں اپنی پھانسی کی سزا کو بہت کم سزا سمجھتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ انھوں نے پھانسی کی سزا کے حوالے سے کسی اپیل کو مناسب نہیں سمجھا بلکہ فرمایا کہ میری اپیل اﷲ سے ہے اور اگر اﷲ نے میری موت لکھ دی ہے تو اسے کوئی بھی نہیں ٹال سکتا۔
1962 میں آمرانہ اور شخصی آئین کے خلاف اور ایوب خان کے مارشل لا کے خلاف ہم نے جدوجہد شروع کی۔ آمرمطلق فیلڈمارشل ایوب خان کے ’’بیسک ڈیموکریسی سسٹم‘‘ اور اس کے نام نہاد ریفرنڈم کے خلاف بھی بہت کام کیا۔ اس دوران مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے سربراہ اور سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس جمہوری جدوجہد کے دوران مشرقی پاکستان میں ’’نو قائدین کا بیان‘‘ بہت مشہور ہوا۔ اس میں نو پارٹیوں کے قائدین نے مشترکہ جدوجہد کرنے کا اعلان کیا۔ یہ بڑا خوش آئند اعلان تھا۔
میں نے مولانا مودودیؒ سے ملاقات کرکے تجویز پیش کی کہ یہ تحریک مشرقی پاکستان میں علیحدہ چل رہی ہے اور مغربی پاکستان میں الگ، اگر ہم مل کر دونوں کو اکٹھا کر کے چلائیں تو حکومت پر زیادہ دباؤ پڑے گا اور ویسے بھی اتنی بڑی تحریک کو اکٹھا کرنے میں ہمیں کردار ادا کرنا چاہیے۔ چناں چہ مولانا نے مجھے مشرقی پاکستان روانہ کیا، وہاں میں ان نو قائدین سے ملا، انہیں مغربی پاکستان کے دورہ جات پر آمادہ کیا اور پیش آمدہ آئینی مسائل کے بارے میں ایک قومی سوچ سامنے لانے کے لیے مل کر جدوجہد کرنے کے فوائد اجاگر کیے۔ بہرحال، حسین شہید سہروردی جیل سے رہا ہوگئے تو وہ نورہنماؤں کو ساتھ لے کر لاہورآئے۔ یہاں بڑے بڑے جلسے کیے گئے‘ جن سے مشرقی اور مغربی پاکستان کے رہنما خطاب کرتے تھے۔ لوگوں میں جوش و خروش پیدا ہوا۔ بعد ازاں ہماری ملاقاتیں بیرسٹر محمود علی قصوری مرحوم کے گھر ہوتی رہیں۔ ان چند ملاقاتوں میں مولانا مودودیؒ بھی شریک رہے اور مکالمے میں بنیادی کردار ادا کرتے رہے۔ پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ جب ہم لوگ کراچی میں اکٹھے ہوئے۔ میں نے ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کروائی، جس پر ہمارے خلاف بغاوت کا مقدمہ کیا گیا۔ اس مقدمے میں میاں طفیل محمد، محمود علی قصوری، مولانا عبدالستار خان نیازی وغیرہ بھی تھے۔ ہمیں ملتان جیل میں بند رکھا گیا۔
مولانا مودودی نے ان معاملات میں ہماری مکمل رہنمائی کی اور فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف ملک گیر تحریک چلائی۔ مولانا مودودیؒ اور میں، ایوب خان کے مارشل لا سے قبل کشمیر کمیٹی میں مشترکہ طور پر جدوجہد کرتے رہے۔ کشمیر کے مسئلے پر مولانا کا مؤقف ہمیشہ دوٹوک اور اصولی رہا۔ مولانا مودودی ڈائیلاگ کے ذریعے اپنا مؤقف بڑے احسن انداز سے پیش کرتے تھے۔
ﷲ نے انہیں جہاں تحریری صلاحیت سے مالا مال کیا تھ، وہاں انھیں تقریری صلاحیت سے بھی نوازا تھا۔ اگر وہ لکھتے تو دلائل کے ساتھ لکھتے اور بولتے تو دلائل کے ساتھ بولتے۔ ان کی بات کو کوئی رد نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے ان کے ساتھ بڑے نازک ادوار میں مل کر اکٹھے کام کیا۔ واقعہ یہ ہے کہ میں نے جتنی سیاسی بصیرت ان کے اندر دیکھی، اپنے کسی دوسرے سیاسی حلیف میں نہیں پائی۔
میری یادداشت میں مولانا کی بے شمار یادیں ہیں۔ 1962 کے آمرانہ اور شخصی آئین کے خلاف جدوجہد میں ان کا مثالی کردار ہے۔ اس تاریخ ساز جدوجہد میں ڈیمو کریٹک فرنٹ، سی او پی (کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز) اور پی ڈی ایم (پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ) اور ڈی اے سی (ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی) کے پلیٹ فارم سے مشترکہ جدوجہد میں مجھے ان کے ساتھ کام کا موقع ملا۔ پھر ایوب خان مرحوم کی گول میز کانفرنس میں شرکت وغیرہ ایسے مواقع ہیں، جب میں نے انہیں بہت قریب سے دیکھا۔ وہ بڑے دل جگرے والے انسان، منطقی ذہن اور دُوراندیش شخصیت کے مالک تھے۔ لاریب، وہ ہمہ جہت شخصیت تھے۔ان کے علمی کارنامے اور دینی خدمات پر دو رائے نہیں ہو سکتیں۔ ان کی ہمہ پہلو زندگی میں باقی تمام خوبیوں کے ساتھ سیاسی بصیرت نے مجھے بے حد متاثر کیا۔