April 19th, 2024 (1445شوال10)

ستارۂ سحر۔ سید مودودیؒ!

قیصر شریف

سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا نام سامنے آتے ہی کئی الفاظ، خطابات، عنوانات ذہن کے افق پر ابھرتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا اسرار ہوتا ہے کہ اسے سید مودودیؒ کی شخصیت کے ساتھ جوڑا جائے، ایسی ہی صورت حال دنیا کے مختلف خطوں میں موجود انسانوں کی بھی ہے، جو ان سے کبھی ملے نہیں، انہیں دیکھا نہیں، صرف ان کے لٹریچر کے ذریعے انھیں اس مردِ حق کے ساتھ تعارف ہوا اور پھر وہ ان کے گرویدہ ہوگئے، ان کے دلوں میں عقیدت پیدا ہوئی۔ یہ مولانا کا وہ اثاثہ ہے، جو ان کی زندگی میں بھی حاصل تھا اور ان کی وفات کے بعد بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ سید صاحب نے اسلام کے ہمہ پہلو عظیم لٹریچر تیار کیا اور اسلام کے بارے میں اعتراضات کا مدلل جواب دیا اور یہ ثابت کیا کہ اسلام کو ایک نظام زندگی کے طور پر نافذ کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے مذہبی، اخلاقی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی پہلوؤں پر ایک سو بیس سے زیادہ کتب تصنیف کیں۔ وہ قرآن، حدیث و فقہ کے ساتھ ساتھ عمرانی مسائل، فلسفہ، معاشیات اور علم سیاسیات کے معتبر عالم ہیں۔ ان کے افکار کا اثر زندگی اور ادب کے ہر شعبے میں صاف محسوس ہوتا ہے، ان کی اپنی دل آویز شخصیت، دل نشین طرزِ انشا اور دل کش اسلوب تحریر نے مسلمانوں کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا ہے، اللہ تعالیٰ کے ساتھ جڑ کر عمل کی دنیا میں آگے بڑھنے کا جذبہ دیا ہے، قدموں میں استقامت پیدا کی، صرف یہی نہیں بلکہ ایک عام سے آدمی کو عمل اور انقلاب کے لیے کھڑا کردیا ہے۔

یہ مولانا کی فکر اور جستجو کا نتیجہ ہے کہ جدید انداز میں ایک منظم اور مربوط مذہبی اور سیاسی جماعت بنا کر اسے اعلیٰ نظم و ضبط اور عمدہ تربیت دی ہے کہ جس سے ایک عام مسلمان کو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی امید بندھتی ہے ۔ سید مودودیؒ ہی مسلمانوں کی سب سے بڑی آرزو یعنی تعمیر ریاست اسلامی اور اتحاد و عالم اسلامی کی علامت ہیں۔ ان کا مطمئن اور شگفتہ چہرہ مردِ مومن کے اوصاف کی عملی تفسیر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو سید مودودیؒ اور جماعت اسلامی اور اس سے بڑھ کر خدا اور رسول کے ساتھ جو فدایانہ وابستگی اور وارفتگی ہے، خال خال ہی کسی تحریک کے کارکنوں میں پائی جاتی ہے، یہاں اس مختصر تحریر میں سید مودودیؒ کے کارنامے کا ذکر تو ممکن نہیں، لیکن یہاں چند لائنوں میں ان کی شخصیت کا تذکرہ مقصود ہے، جس سے ان کی زندگی کی ہلکی سی جھلک محسوس کی جا سکتی ہے۔

سید مودودیؒ 1903 میں سابق ریاست حیدرآباد کے ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئے، جس کی پشت پر روحانی قیادت کا طویل شجرہ نسب تھا۔ ان کا آبائی تعلق سادات کے ایک ایسے خاندان سے ہے، جو ابتدا میں ہرات کے قریب چشت کے معروف مقام پر آکرآباد ہوا تھا۔ اس خاندان کے ایک مشہور بزرگ، فرد خواجہ قطب الدین مودود چشتی تھے ،جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے۔ سید مودودیؒ کا خاندان خواجہ مودود چشتی کے نامِ نامی سے منسوب ہو کر مودودیؒ کہلاتا ہے۔ آپ کے والد احمد حسن دینی اور دنیاوی دونوں ہی نظام تعلیم سے مستفید ہوئے تھے۔ وہ اعلیٰ درجے کے دین دار، عبادت گزار اور پیشے کے لحاظ سے قانون دان تھے۔

ابتدائی تعلیم آپ نے گھر میں حاصل کی، بعد ازاں اُردو، فارسی، عربی اور فقہ و حدیث کی تعلیم بھی اتالیق کے ذریعے گھر پر دی جانے لگی۔ والد صاحب سے حاصل ہونے والی سنجیدگی اور علم و تحمل، شستہ اردو زبان اسکول کی تعلیم میں ان کے بہت کام آئی۔والدین اور خاندان کا گہرا اثر تھا کہ انہوں نے قرآن مجید کواپنا واحد رہنما بنایا اور عملی طور پر سیرت رسول کی پیروی اختیار کی۔ سید مودودیؒ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز 1920میں صحافت سے کیا۔ ’’تاج‘‘ کی ادارت سنبھالی اور پھر ’’الجمیعتہ‘‘ کے مدیر بنے۔ 1937 تک اس رسالے نے آپ کی ادارت میں مسلم درست نقطۂ نظر پیش کیا، کانگرس اور اس کے ہندو نواز پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہوئے مسلم لیگ اور دوسری مسلم تنظیموں کے ساتھ تھا۔ یہ وہ دور تھا، جس میں مولانا تمام مسائل کا حل اسلام کی روشنی میں تلاش کرنے میں مصروف عمل تھے۔ ان کی ممتاز ترین تصنیف ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ جو امن و جنگ کے اسلامی قانون پر ایک شاہکار عملی کارنامہ ہے، منفرد اسلامی مفکر کی حیثیت سے ان کے تعارف کا باعث بنی اس کتاب کی علامہ اقبالؒ نے بھی بہت تحسین کی۔ اپنی فکر کی ترویج اور ایک تحریک برپا کرنے کے لیے آپ نے 1933 میں ’’ترجمان القرآن‘‘ کی ادارت سنبھالی۔ مسائل سے نمٹنے کے لیے انہوں نے قرآن پر مبنی نیا اسلوب وضع کیا۔ اسلام کے بنیادی اصولوں اور افکار و اقتدار کی وضاحت کرتے ہوئے اسلام اور مغربی افکار کے تصادم سے پیدا ہونے والے مسائل کواپنا موضوع بنایا۔ علامہ اقبالؒ سے ان کا رابطہ رہا اور ان کی دعائیں بھی مولانا کو حاصل رہیں۔ مفکر پاکستان نے مولانا کو پنجاب میں اقامت پذیر ہونے کی دعوت بھی دی۔

سید مودودیؒ نے باصلاحیت اسکالرز کی تربیت، اسلامی تصانیف کے ترجمے اور اسلامی قوانین کی تدوین جدید کے لیے ایک تحقیقی مرکز ’’دارالاسلام‘‘ قائم کیا۔ اسلامی خطوط پر اسلامی معاشرے کی تشکیل نو سے متعلق اپنے افکار و تصورات کو باقاعدہ تنظیم کی صورت دینے کے لیے صرف 75 ارکان کے ساتھ 1941میں سمن آباد لاہور میں ’’جماعت اسلامی‘‘ کی بنیاد رکھی۔ مولانا کی تحریروں اور کردار سے متاثر ہو کر بڑی تعداد میں لوگ جماعت اسلامی کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ کی تحریروں کی تازگی میں دانش وروں اور نوجوانوں کے لیے مؤثر اپیل تھی۔ ان کی عظیم خدمات میں سے ایک یہ ہے کہ انہوں نے نوجوانوں کو دہریت والحاد کا شکار ہونے سے بچایا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کی بنیاد رکھی، جو ان کا کام یاب تجربہ سمجھی جاتی ہے۔ 1947سے انہوں نے پاکستان میں حقیقی اسلامی مملکت کے قیام کی ان تھک کوشش کی۔ یہ مولاناؒ کی پیدا کردہ تحریک کا نتیجہ تھا کہ 1949میں قرار داد مقاصد منظور ہوئی۔ 1950میں بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی رپورٹ میں اسلامی شقیں شامل ہوئیں اور 1956کے آئین میں اسلامی دفعات شامل کی گئیں۔

انسان کی اصلی قدروقیمت کا اندازہ ابتلا و آزمائش کے وقت ہی ہوتا ہے، آپ چار دفعہ جیل میں ڈالے گئے، موت کی سزا سنائی گئی، جیل میں بیماری کی حالت میں بہت ساری تکلیفوں سے گزرے، لیکن وہ ہر جگہ ہر وقت اپنے کارکنان کے سامنے مثالی نمونہ کی حیثیت سے نظر آئے۔ تحریک ختم نبوت میں سید مودودیؒ کے ’’قادیانی مسئلہ‘‘ نامی پمفلٹ نے قوم میں ایک نئی روح پھونک دی اور آخر کار قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت کردار دے دیا گیا۔

1958میں ایوب خان کے مارشل لا کے بعد وہ اور ان کی جماعت اسلامی حزب اختلاف کے تمام اتحادوں میں کلیدی کردار ادا کرتے رہے۔ 1964-65کا متحدہ حزب اختلاف، 67 میں پاکستان کی تحریک جمہوریت، 1969 میں جمہوری مجلس عمل، 1977 میں پاکستان قومی اتحاد، حزب اختلاف کے یہ سارے محاذ پاکستان میں جمہوریت کو بروئے کار لانے کے لیے قائم ہوئے تھے۔ یہ بھی مولانا محترم کا اعجاز ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں جماعت اسلامی کی قیادت نئے امیر کے سپرد کی۔ ایسی مثال کسی اور سیاسی، مذہبی جماعت میں نہیں ملتی اور یہ روایت ان کے بعد کے امراء میں بھی چلی آرہی ہے۔ آپ کے بعد میاں طفیل محمد مرحوم، قاضی حسین احمد مرحوم امیر بنے، پھر سید منور حسن اور آج کل سنیٹر سراج الحق امیر جماعت اسلامی پاکستان کی ذمے داری ادا کر رہے ہیں۔ سید مودودیؒ کے لٹریچر کا ترجمہ دنیا کی قریباً 50 سے زائد زبانوں میں کیا جاچکا ہے۔

ایرانی انقلاب کو بھی ان کی تحریروں سے قوت ملی۔ امام خمینی نے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی ایک نمایاں خدمت کا انکشاف کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ مولانا شیعہ سنی اختلافات کو ختم کرانے اور اسلامی نشاۃ ثانیہ اور احیاء کی جدوجہد کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنا چاہتے تھے۔

مولانا 22 ستمبر 1979کو امریکا کی ایک ریاست سے اس دنیا سے رخصت ہوئے، ان کی میت روانگی کے بعد پانچ براعظموں سے گزری اور ہر براعظم نے ان کی نماز جنازہ ادا کی گئیں۔ یہ ایک اعجاز ہے جو مولانا کو وفات کے بعد نصیب ہوا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو ان کی نماز جنازہ میں نمائندگی ملی۔ ان کی جدوجہد پاکستان میں جماعت اسلامی کی صورت اور دنیا بھر میں مختلف اسلامی تحریکوں کی شکل میں نظر آتی ہے۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ سید مودودیؒ ایک ’’ستارۂ سحر‘‘ تھے، جنھوں نے اسلام کا ہمہ گیر پیغام پوری دنیا میں پہنچایا، اب پوری دنیا کے حالات بتا رہے ہیں کہ جس صبح انتظارتھا، وہ آنے والی ہے ۔ کیوں کہ مولانا نے کہا تھا کہ جس طرح مجھے کل مشرق سے سورج طلوع ہونے کا یقین ہے، اسی طرح اسلامی انقلاب کا یقین ہے۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے۔ (آمین)