سیّد ابو الا علیٰ مودودیؒ بیسویں صدی کے ایک عظیم مفکر، مبلّغ اور تعلیماتِ اسلام کے ایک منفرد استاد ہیں، جن کی زندگی گھر کے اندر اور گھر سے باہر یکساں تھی۔ ان کی قائم کردہ تحریکِ اسلامی کے اثرات عالمی سطح پر دنیا کے کونے کونے میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے لیکن یہ مختصر سی تحریر سیّد مودودیؒ کی خوب صورت شخصیت کی یاد تازہ کردے گی۔ یہ سطور رمضان المبارک میں سپردِ قلم کی جارہی ہیں۔ ایک دن خیال آیا کہ معلوم کیا جائے مولانا مودودیؒ رمضان کیسے گزارتے تھے۔ اس خیال کا آنا تھا کہ ان کی منجھلی صاحب زادی اسماء مودودی صاحبہ سے رابطہ کیا۔ انھوں نے نہایت شفقت سے بتایا: ابا جان روزہ کھجور سے افطار کرتے، پھر کٹورا بھر شربت پیتے اور نمازِ مغرب پڑھنے چلے جاتے۔ پانی ہمیشہ کٹورے میں پیتے جو تانبے کا تھا جس پر قلعی کرکے استعمال میں لایا جاتا۔ ہاں، دعوت وغیرہ کے موقع پر مہمانوں کے ساتھ گلاس میں پانی پی لیتے لیکن گھر کے اندر ہمیشہ کٹورا ہی استعمال کرتے۔ افطاری کے لوازمات نہیں کھاتے تھے۔ نماز کے بعد کھانا کھا کر دوائیاں وغیرہ کھاتے۔ عشاء کی نماز کے فرض خود پڑھاتے، جب کہ تراویح حافظ زاہد صاحب پڑھاتے۔ یہ بہت صاف صاف قرآن پڑھا کرتے۔ تراویح کے بعد وتر اباجان ہی پڑھاتے۔ رمضان المبارک میں عصری مجلس نہیں ہوتی تھی۔ ابا جان نمازِ عصر سے لے کر مغرب تک اپنے کمرے میں تلاوتِ قرآن پاک کیا کرتے___ اتنی خوب صورت تلاوت کیا کرتے کہ میں دروازے کے ساتھ لگ کر کافی دیر تک سنتی رہتی___ اب افسوس ہوتا ہے کہ ان کی تلاوت ریکارڈ کیوں نہ کرلی۔ ابا جان روزے کا وقت ختم ہونے سے کوئی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ سحری پہلے کھالیا کرتے۔ ہم بہن بھائی جب روزہ رکھنے اُٹھتے تو ابا جان سحری کر کے اپنے کمرے میں جاچکے ہوتے تھے۔ اس جلدی کی وجہ یہ تھی کہ ان کا ایک گردہ ہونے کے سبب ڈاکٹروں نے کوئی ۱۶،۱۷ گلاس پانی پینے کی ہدایت کررکھی تھی۔ اب اس مقدار کو پورا کرنے کے لیے وہ اختتامِ سحر تک پانی پیتے رہتے۔ آخری برسوں میں جب انھیں جوڑوں کا درد اور دوسرے عوارض بھی لاحق تھے تو ڈاکٹروں نے روزہ رکھنے سے منع کر دیا تھا۔ تب ابا جان دوپہر کا کھانا کمرے میں اس طرح کھاتے کہ کھڑکیوں پر پردے گرا دیتے۔ کہا کرتے کہ مجھے کھاتے ہوئے آسمان بھی نہ دیکھے___ سبحان اللہ! احترامِ رمضان کا ایسا خیال۔ مولانا مودودیؒ کے بارے میں حمیرا مودودی کی کتاب: میرے والدین! شجرہاے سایہ دار بھی پڑھنے کے لائق ہے۔ اس کتاب میں اپنی شادی کے بارے میں ایک دل چسپ سوال کا جواب دیتے ہوئے مولانا مودودیؒ نے کہا کہ میری شادی ۳۴سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ پھر سوال ہوا: اتنی دیر سے کیوں؟ تو فرمایا: ’’میرے معاشی حالات ٹھیک نہیں تھے۔ اس لیے میں اسے مسلسل ٹالتا رہا۔ آخر ایک روز خیال آیا کہ ۱۴سال کی عمر تھی جب والد محترم کا سایہ سر سے اُٹھ گیا تھا لیکن آج تک اللہ تعالیٰ دیے جا رہا ہے، آیندہ بھی وہی اسباب پیدا فرمائے گا۔ یہ خیال آتے ہی میں نے شادی کا فیصلہ کرلیا۔ نسبت تو پہلے سے طے تھی اور مسلسل تقاضے کے باوجود میں ہی ٹالتا چلا آرہا تھا۔ جب میں نے اپنا ارادہ والدہ محترمہ پر ظاہر کیا تو انھوں نے فوراً ہی میری شادی کا انتظام کر دیا۔ میری اہلیہ میری خالہ زاد بہن ہیں اور بڑی صاحب ِ قناعت خاتون ہیں۔ کئی برس تک ہماری یہ حالت رہی کہ دو دن سے زیادہ کے اخراجات ہمارے پاس نہیں ہوتے تھے۔ اس کے باوجود اہلیہ کے رکھ رکھائو اور سلیقہ شعاری سے کسی کو یہ احساس بھی نہ ہوتا تھا کہ ہم تنگ دستی کی حالت میں گزربسر کر رہے ہیں۔ بہرحال خدا کے فضل و کرم سے کسی کے زیربار احسان ہونے کی نوبت نہیں آئی‘‘۔ ملکی حالات سے لوگوں کے اندر پیدا ہونے والی مایوسی کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مولانا نے فرمایا: ’’میرے پاس تو مایوسی آج تک کبھی نہیں پھٹکی بلکہ یہ لفظ میری لغت ہی سے خارج ہے۔ دوسرے لوگ جو مایوس ہورہے ہیں میں ان سے بھی یہ کہتا ہوں کہ ہمیشہ اللہ سے اچھی اُمیدیں رکھتے ہوئے حق و صداقت کو سربلند کرنے کے لیے جان توڑ جدوجہد کرتے چلے جائو، اور اپنی طرف سے کوشش کا حق پوری طرح ادا کرنے کے بعد نتیجہ اللہ پر چھوڑ دو۔ ضروری نہیں ہے کہ تمھاری خدمت کے نتائج تمھارے جیتے جی برآمد ہوجائیں۔ تم اگر ایک حق پرست کی طرح اپنا فرض انجام دیتے ہوئے مر بھی جائو تو تمھاری حیثیت اس شخص کی سی ہوگی جو حج کے لیے گھر سے نکلے اور دورانِ سفر ہی اس کی زندگی کا آخری وقت آجائے۔ جس طرح وہ حج کے ثواب سے محروم نہ رہے گا اسی طرح تم بھی راہِ حق کی جدوجہد کے ثواب سے محروم نہ رہو گے‘‘___ بڑی سے بڑی اُلجھن کو کیسے چند جملوں میں حل کر کے سائل کو مطمئن کر دیا کرتے تھے سیّد مودودیؒ! آیئے! ان کے چند اقوال سے قلب و ذہن کو شادکام کریں:
۞ ہر وہ حکومت اور ہر وہ عدالت باغیانہ ہے جو خداوندعالم کی طرف سے اس کے پیغمبروں کے لائے ہوئے قانون کے بجاے کسی اور بنیاد پر قائم ہو۔
۞ مسلمان صدیوں تک قلم اور تلوار کے ساتھ فرماں روائی کرتے کرتے تھک گئے۔ ان کی روحِ جہاد سرد پڑ گئی، قوتِ اجتہاد شل ہوگئی۔ جس کتاب نے ان کو علم کی روشنی اور عمل کی قوت بخشی تھی اس کو انھوں نے محض ایک متبرک یادگار بناکر غلاف میں لپیٹ کر رکھ دیا۔
۞ شیطانِ نفس کا ایک دوسرا ایجنٹ زبان ہے۔ کتنے ہی فتنے ہیں جو زبان کے ذریعے سے پیدا ہوتے ہیں۔ مرد اور عورت بات کر رہے ہیں۔ کوئی بُرا جذبہ نمایاں نہیں ہے مگر دل کا چھپا ہُوا چور آواز کی حلاوت، لہجے میں گراوٹ پیدا کیے جا رہا ہے۔ قرآن اس چور کو پکڑلیتا ہے۔
۞ دورِ جدید کے فتنوں میں سے یہ ’ماہرین خصوصی‘ کا فتنہ بھی ایک بڑا فتنہ ہے۔ زندگی اور اس کے مسائل پر مجموعی نظر کم سے کم تر ہوتی جاتی ہے۔ انسان مختلف علوم و فنون کے یک چشمی ماہرین کے ہاتھوں کھلونا بن کر رہ گیا ہے۔
۞ دین اور اقامتِ دین کے تصور میں بھی ہمارے اور بعض دوسرے لوگوں کے درمیان اختلاف ہے۔ ہم دین کو محض پوجاپاٹ اور چند مذہبی عقائد کا مجموعہ نہیں سمجھتے، بلکہ ہمارے نزدیک یہ لفظ ’دین‘ طریقِ زندگی اور نظامِ زندگی کا ہم معنی ہے اور اس کا دائرہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔