سلیم منصور خالد
معاشرہ کوئی جامد چیز نہیں ہے۔ زندگی اور موت، تعمیر اور تخریب کا معاشرتی زندگی سے گہرا تعلق ہے۔ تاہم جب موت کے سایے گہرے اور تخریب کے حوالے بڑھ جائیں تو معاشرہ بیماری کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس صورت حال میں زندگی اور تعمیر کی قوتوں کے لیے ناگزیر ہوجاتا ہے کہ وہ اپنا بھرپور اورمثبت کردار ادا کرکے معاشرے کو زندگی اور تعمیر کا نمونہ بنائیں۔
پاکستانی معاشرہ بھی اسی طرح کی کشمکش سے دوچار ہے۔ یہاں ایک طرف اگر تعمیر کا نشان بلند ہوتا ہے تو ساتھ ہی تخریب کی موجیں اسے زیرآب لے جانے کے لیے اُمڈ آتی ہیں۔ پاکستان کی نئی نسل کے لیے آج کے حالات کی شدت بے مثال ہے، لیکن انھیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ: ’ہم لائے ہیں طوفاں سے کشتی نکال کے‘ بھی ایک حقیقت ہے۔ ہمارا معاشرہ آج اچانک کسی عفریت کے جبڑوں میں نہیں جکڑا گیا، بلکہ یہ کام بہت پہلے شروع ہوا، اور یہ عفریت اپنی کینچلی اور رنگ بدل بدل کر اس معاشرے کی کمرتوڑنے کے درپے رہا ہے۔ یہ سب کچھ یکایک رُونما نہیں ہوگیا بلکہ اس میں درجہ بدرجہ بہت سی قوتوں نے حصہ ڈالا ہے، بالخصوص طاقت ور منفی طبقوں نے!
یہاں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ (۲۵ستمبر ۱۹۰۳ء۔۲۲ستمبر ۱۹۷۹ء)کی چند تحریروں اور بیانات کی روشنی میں پاکستانی تاریخ کے اوراق اُلٹے ہیں کہ اس موسمِ خزاں نے گلستانِ وطن کو کس کس طرح اُجاڑا ہے۔
پاکستان میں دستور سازی کا عمل ابتدائی منازل طے کررہا تھا، مگر طاقت کے حریص طبقے، ملک و قوم کے مستقبل سے بے پروا ہوکر باہم جنگ و جدل میں مصروف تھے۔ مغربی پاکستان سے جاگیردارانہ پس منظر کے حامل سیاست دان، کھلے عام اعلیٰ سول افسروں سے مل کر اور پس پردہ اعلیٰ فوجی افسروں سے سازباز کرکے، زیر تشکیل دستور میں نقب لگا رہے تھے۔ وہ اس امر سے بے پروا تھے کہ اس کا نتیجہ مشرقی پاکستان میں کیا نکلے گا اور خود یہاں مغربی پاکستان میں کیا عذاب آئے گا۔ جدید تعلیم یافتہ اور انگریزی طور طریقوں کا رسیا یہ حاکم طبقہ اپنی دُھن میں ہرچیز کو تہس نہس کر رہا تھا۔ ۱۴؍اکتوبر ۱۹۵۰ء کو مولانا مودودی نے قوم کو متنبہ کرتے ہوئے لاہور میں خطاب کے دوران کہا تھا:
کسی زندہ قوم کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اپنی قسمت کا فیصلہ چند آدمیوں کے ہاتھ میں دے کر خاموش بیٹھ جائے، اور ان کی مرضی پر چھوڑ دے کہ وہ جس طرح چاہیں ملک کے نظام کو ڈھال دیں۔(سیّد مودودی: دستوری سفارشات پر تنقید و تبصرہ،ص ۴۱)
دراصل وہ خبردار کر رہے تھے کہ قومی معاملات کو چند ہاتھوں میں دے دینے کا نتیجہ محلاتی سازشوں اور ان کے نتیجے میں تباہی کے سوا کچھ نہیں نکلے گا۔ ظاہر ہے کہ ملک میں لاقانونیت اور غیردستوری کلچر کے فروغ سے ظلم کے علاوہ کون سی فصل برگ و بار لاسکتی ہے؟ اور جب مسئلہ ملک کے دفاع کا ہو تو حسِ انصاف کو بیدار رکھنا اور بھی ضروری ہوجاتا ہے، بجاے اس کے کہ جنگی صورتِ حال میں عدل کو بھی گولی کا نشانہ بنادیا جائے۔ یہاں مولانا مودودی کی ایک طویل تقریر سے اقتباس دیا جا رہا ہے۔ یہ تقریر انھوں نے ۲۲جولائی ۱۹۵۱ء کو لاہور میں کی تھی۔ تب بھارتی افواج، پاکستان پر حملے کے لیے تیار کھڑی تھیں اور ملک سخت ہیجانی کیفیت میں مبتلا تھا۔ مولانا نے بنیادی اخلاقی اصولوں کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے فرمایا تھا:
یہ بات ہرجگہ ذہن نشین کرانے کی کوشش کریں کہ [قومی] مورال کے بحال رکھنے کے لیے جھوٹ کے بجاے سچ کا ہتھیار استعمال کیا جائے۔ خالی خولی پُرجوش باتوں سے مورال اگر بحال ہو بھی جائے تو یہ مستقل نہیں، عارضی ہوتا ہے۔
ایک اور چیز جسے دفاع کے معاملے میں خاص اہمیت حاصل ہے، وہ یہ ہے کہ ملک کے اندر ظلم و ستم اور بے انصافیوں اور حق تلفیوں کو قطعی طور پر بند ہونا چاہیے۔ ظلم سے بڑھ کر قومی دفاع کو کمزور کرنے والی کوئی چیز نہیں ہے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سرزمین [پاکستان] ہمارا نہیں بلکہ اسلام کا گھر ہے۔ ہمارے لیے یہ سب سے بڑی نعمت ہے، اور ہم ہرقیمت پر اس کی حفاظت کے لیے تیار ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے ہرمسلمان میں اس نعمت کی قدر کا جذبہ پیدا کریں، اور اس کے قلب و روح میں یہ خیال جاگزیں کردیں کہ اس نعمت کی حفاظت میں کوئی قربانی بھی گراں نہیں ہے۔*(اخبار سہ روزہ کوثر، لاہور، ۲۸جولائی ۱۹۵۱ء)
*۱۴؍ستمبر ۱۹۶۵ء کو ریڈیو پاکستان سے قوم کے نام خطاب میں مولانا مودودی نے کہا تھا:’’پاکستان برعظیم ہند میں اسلام کا ایک قلعہ ہے۔ اس کی پوری سرزمین ہمارے لیے ایک مسجد کا حکم رکھتی ہے‘‘۔ (روزنامہ امروز، نواے وقت، لاہور، ۱۵؍ستمبر ۱۹۶۵ء)
اس تقریر میں مولانا مودودی نے جنگی صورتِ حال میں جھوٹے پروپیگنڈے کی اشاعت اور ’نظریۂ ضرورت‘ کے تحت محض جوشیلے طرزِ بیان کی نفی کی ہے۔ ساتھ ہی یہ بتایا ہے کہ بھلے لوگو، جب ملک جنگی صورتِ حال سے دوچارہو تو اپنے معاشرے میں اور زیادہ عدل و انصاف کی دولت لٹاؤ، نہ کہ عدل و انصاف کو صدمہ پہنچاؤ، اور یہ بھی کہ اسلام کے گھر کے مانند پاکستان کی حفاظت کرنے کے لیے ہر آن تیار بھی رہو۔
اس تقریر کو اڑھائی ماہ اور پاکستان کو قائم ہوئے ابھی چار برس گزرے تھے کہ اوّلین وزیراعظم لیاقت علی خاں کے قتل (۱۶؍اکتوبر ۱۹۵۱ء) نے پاکستان کو خونیں دلدل میں دھکیل دیا۔ تلوار اور تشدد کے اس پہلو کو مولانا مودودی نے ’قاضیِ شمشیر‘ کی اصطلاح سے منسوب کیا، اور جماعتِ اسلامی کے کُل پاکستان اجتماع منعقدہ کراچی میں خطاب کے دوران فرمایا:
کسی ملک کے لیے اس سے بڑھ کر اور کوئی بدقسمتی نہیں ہوسکتی کہ اس میں فیصلے کا آخری اختیار عقل، شعور، دلیل اور راے عام سے چھین کر ’قاضیِ شمشیر‘ کے سپرد کردیا جائے۔ یہ قاضی کوئی عادل اور صاحبِ فکر قاضی نہیں ہے۔ یہ اندھا، بہرا اور گونگا قاضی ہے۔ اس سے جب کبھی فیصلہ چاہا گیا ہے ، اس نے حق اور انصاف دیکھ کر نہیں، بلکہ خون کی رشوت لے کر فیصلہ کیا ہے، اور جس نے بھی زیادہ خون چٹا دیا، اسی کے حق میں اس نے فیصلہ دیا ہے، خواہ وہ حق پر ہو یا ناحق پر، خواہ وہ نیک ہو یا نہ ہو۔
کوئی قوم جو خود اپنی دشمن نہ ہو، اور جس کی عقل کا دیوالیہ نہ نکل چکا ہو، ایسی بے وقوف نہیں ہوسکتی کہ اپنے معاملات کا فیصلہ: شعور و استدلال کے بجاے تلوار کے اندھے قاضی کے سپرد کردے۔ اگر ہم اپنا مستقبل تاریک نہیں کرنا چاہتے تو ہمیں پوری قوت کے ساتھ اپنے ملک کے حالات کو اس خطرناک رُخ پر جانے سے روکنا چاہیے۔(۱۰نومبر ۱۹۵۱ء، رُوداد جماعت اسلامی،ششم: ص ۵۴)
مولانا مودودی کی جانب سے ’قاضیِ شمشیر‘ کا یہ اشارہ ہر اس اندھی بہری قوت کی طرف ہے، جو عدل کے نام پر عدل کوقتل کرے یا تشدد کے لیے خودساختہ اُصولوں کی بنیادپر دوسروں کی جان لینے کے بہانے گھڑے اور وسیلے تراشے۔ یہ فعل کسی کے بھی ہاتھوں رُونما ہوسکتا ہے: سیاسی لبادے میں ایم کیو ایم جیسے طائفے ہوں یا ’محرومی‘ کے نام پر قوم پرستوں کی پُرتشدد خفیہ تنظیمیں، یا مذہب کے نام کو استعمال کرنے والے خونیں گروہ، یا پھر عدل و انصاف کے مسلّمہ اصولوں سے بالاتر ادارے۔ انسانی جان لینے کے کھیل میں یہ سب ’قاضیِ شمشیر‘ بن جاتے ہیں۔
جب وزیراعظم لیاقت علی خاں کا قتل ہوا تو اُس وقت ملک میں دستورسازی اور اختیارات کی تقسیم کا معاملہ زیربحث تھا۔ زیر بحث کہنا درست نہیں، درست بات یہ ہے کہ دستورسازی کے موقعے پر مختلف طاقت ور گروہ زیادہ سے زیادہ اختیارات چھیننے کی دوڑ میں باہم معرکہ آرا تھے۔ ان حالات میں ۳۰جنوری ۱۹۵۳ء کو لاہور کے جلسۂ عام میں مولانا مودودی نے زیربحث بہت سی دستوری سفارشات کے بعض پہلوؤں پر مفصل تبصرہ کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کے بارے میں چنداصولی نکات ارشاد فرمائے۔ یاد رہے کہ اُن کی تقریر کا یہ حصہ عام (سویلین) شہریوں کے حوالے سے نہیں بلکہ خود فوجیوں کے بارے میں اور فوجی عدالتوں کے حوالے سے تھا۔ انھوں نے دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے فرمایا تھا:
’دستوری سفارشات کی رپورٹ‘ میں فوجی عدالتوں کے مقدمات کے خلاف سماعت کرنے سے سپریم کورٹ کو روک دیا گیا ے۔ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیںآتی، حالانکہ خود انگلستان میں، سپریم کورٹ میں ہرعدالت کے [فیصلے کے] خلاف اپیل کی جاسکتی ہے، حتیٰ کہ فوجی عدالت کے خلاف بھی، اور پھر یہ بات کسی طرح ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر ہمارے سپاہی کس پاداش میں انصاف سے محروم رکھے جائیں؟ جس طرح سے ایک عام آدمی کے لیے ملک کی آخری عدالت سے انصاف حاصل کرنے کا امکان ہے، اسی طرح سے ہمارے فوجیوں کے لیے بھی انصاف کے حصول کا دروازہ کھلا رہنا چاہیے۔ کوئی شخص کہتا ہے کہ اس طرح فوج میں ڈسپلن قائم نہیں رہتا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ فوج میں بے انصافی سے ڈسپلن کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری فوج کے بھی ہرسپاہی کو پوری طرح سے یہ اطمینان حاصل ہونا چاہیے کہ اس کے ساتھ بے انصافی کبھی نہیں ہوسکے گی، اور یہ ایسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ وہ کورٹ مارشل کے مقابلے میں سپریم کورٹ سے اپیل کرسکے۔ دستور میں کورٹ مارشل کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی گنجایش نہ رکھنا قطعی طور پر اسلامی اصولِ عدل کے خلاف ہے۔ (ماہ نامہ چراغِ راہ، کراچی، مدیر: نعیم صدیقی، خصوصی ضمیمہ، جولائی ۱۹۵۳ء)
یاد رہے یہ اُس وقت کی بات ہے جب پاکستان کا نظامِ حکومت ۱۹۳۵ء کے برطانوی ترمیم شدہ ایکٹ کے تحت چل رہا تھا اور ابھی تک دستورسازی مکمل نہیں ہوئی تھی۔ اب، جب کہ دستور بن چکا ہے اور ۶۰برس کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد دستوری روایات اور عدالتی عمل اپنی گہری بنیادیں استوار کرچکے ہیں، تو فوج کے داخلی نظام میں فوجی عدالتوں کا معاملہ اور ان کا اختیارِ سماعت کہیں زیادہ واضح انداز میں طے ہوچکا ہے۔
اس دستور ی بحث کے دوران ۱۹۵۳ء کے ابتدائی مہینوں میں صوبہ پنجاب ’فتنۂ قادیانیت‘ کے مسئلے پر ہنگاموں میں گِھر گیا (ان ہنگاموں کی صورت گری کرنے والے چہروں سے کب کا نقاب اُترچکا، مگر ہمارا مقبوضہ میڈیا ان کے نام لینے سے شرماتا ہے)۔ پنجاب کے حاکم آگے بڑھے، سول اور فوجی اعلیٰ افسروں سے مل کر لاہور میں ۶مارچ کو مارشل لا لگادیا۔ اس اقدام سے ’قاضیِ شمشیر‘ نے اقتدار کا ذائقہ چکھا اور اپنی قوت کا اندازہ بھی لگایا۔ فوجی عدالت لگی، سرسری سماعت ہوئی اور ۱۱مئی ۱۹۵۳ء کے روز مولانا مودودی کو سزاے موت سنانے کا فیصلہ صادر ہوا۔ ازاں بعد شدید عوامی اور بین الاقوامی ردّعمل اور احتجاج کے نتیجے میں یہ سزا عمرقید میں تبدیل ہوگئی۔ وہ مولانا مودودی جو صرف ساڑھے چار ماہ قبل فوجیوں کے لیے انصاف اور اپیل کا حق مانگ رہے تھے، چند ہی ماہ بعد خود اُنھیں فوجی عدالت میں دھر لیا گیا اور اعلیٰ سول عدالت میں اپیل کے حق کا تو کوئی سوال ہی نہ تھا۔
انھی ہنگاموں کی تحقیقات کے لیے جسٹس محمد منیر (م: ۱۹۷۹ء) اور جسٹس ایم آر کیانی (م:۱۹۶۲ء) پر مشتمل ایک ’تحقیقاتی عدالت‘ ۱۹جون ۱۹۵۳ء کو قائم کی گئی۔ اس خصوصی عدالت میں ۱۳فروری ۱۹۵۴ء کو مولانا مودودی نے اپنا تیسرا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے فرمایا:
ایک جمہوری نظام میں یہ بات نہیں مانی جاسکتی کہ قوم خود اپنے مفاد کی دشمن ہے، اور اس کے مفاد کو [فقط] چند افسرزیادہ جانتے ہیں۔
دراصل یہ نشان دہی تھی اس خطرے کی، کہ ملک کے کاروبارِ حکومت اور فیصلہ سازی کے عمل کو چند (سول یا فوجی) افسروں کے ہاتھ میں دے دینے کا نتیجہ جمہوری بساط کے لپٹنے کی صورت میں سامنے آئے گا۔ پہلے مارشل لا کی فوجی عدالتوں نے سول شہریوں کو سزائیں سنائیں، پھر تحقیقات کے نام پر انڈین سول سروس کے تیار کردہ عدالتی افسروں نے مذکورہ بالا تحقیقاتی عدالت کی ایک رپورٹ مرتب اور ۱۰؍اپریل ۱۹۵۴ء کو جاری کی گئی، جس میں دینی اصولوں اور علما کا مذاق اُڑایا گیا تھا اور بہت سی غیرمتعلقہ بحثیں بھی ٹھونس دی گئیں۔ حیرت کی بات ہے کہ پاکستان کی یہ واحد تحقیقاتی رپورٹ ہے جو سرکاری طور پر بیک وقت انگریزی، اُردو اور بنگلہ زبان میں بڑے پیمانے پر شائع کی گئی (اور اب بھی لاہور کے فٹ پاتھوں سے دستیاب ہوجاتی ہے)۔ یہ رپورٹ دراصل تحقیقات سے زیادہ سیکولرزم کے جواز کا مقدمہ پیش کرنے کی دستاویز تھی، جسے سیاسی مقتدرہ اور اعلیٰ افسرشاہی نے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔
رپورٹ کی بے سروپا اور حددرجہ متنازع باتوں کا مولانا مودودی نے جیل ہی میں بیٹھ کر جواب لکھا، جو ۱۹۵۵ء میں تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر تبصرہ کے نام سے شائع ہوا۔ مولانا مودودی نے برطانیہ میں اصولِ قانون کے مایہ ناز پروفیسر البرٹ وین ڈائسی (Dicey: ۱۸۳۵ء۔۱۹۲۲ء) کی معروف کتاب The Law of Constitution (طبع نہم) کے حوالے سے لکھا:
مارشل لا کا مفہوم یہ ہے کہ ایک ملک کی یا اس کے کسی حصے کی حکومت عارضی طور پر فوجی عدالتوں کے ذریعے چلائی جائے۔۔۔ سپاہی ایک فساد کو اسی طرح دباسکتے ہیں جس طرح وہ ایک بیرونی حملے کو دفع کرسکتے ہیں۔ وہ باغیوں سے اسی طرح جنگ کرسکتے ہیں، جس طرح وہ غیرملکی دشمنوں سے کرسکتے ہیں۔ مگر وہ [یعنی فوجی] ازروے قانون اس کا کوئی حق نہیں رکھتے کہ فساد یا بدامنی کی سزا لوگوں کودیں۔ امن قائم کرنے کی کوشش کے دوران میں لڑتے باغیوں کو قتل کیا جاسکتا ہے، اور قیدیوں کو اگر وہ بھاگ نکلنے کی کوشش کررہے ہوں گولی سے ماراجاسکتا ہے، مگر کوئی ایسی سزاے موت، جو ایک کورٹ مارشل کی طرف سے دی جائے، غیرقانونی ہے بلکہ اصولاً ایک مجرمانہ قتل ہے۔(ایضاً،ص ۲۹۳).... جب باقاعدہ عدالتیں کھلی ہوں اور مجرموں کو ان کے حوالے کیا جاسکتا ہو، تاکہ وہ عام قانون کے مطابق ان کے بارے میں کارروائی کرسکیں، تو تاج [ریاست]کو دوسرا کوئی طریق کارروائی اختیار کرنے کا حق نہیں ہے۔ (ایضاً، ص ۱۹۸)
مولانا مودودی کسی بھی درجے میں ریاست یا ریاستی اداروں کوعدل اور انصاف کے مسلّمہ اصولوں سے ہٹ کر چلنے سے روکتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ریاست اور حکومت ایک مہذب حوالہ ہیں، جنھیں قانون شکن اور عدل کے قاتل باغیوں کے برعکس راستہ اختیار کرنا چاہیے ۔ اسی لیے وہ مذکورہ تبصرے میں ڈبلیو فورسائیتھ کی کتاب Cases and Opinions on Constitutional Law کے حوالے سے لکھتے ہیں:
۱۸۶۶ء میں جمیکا کی بغاوت کو کچلنے کے لیے جو مارشل لا لگایا گیا تھا، اس پر انگلستان کے دو ممتازماہرین قانون بحث میں لکھتے ہیں: بغاوتوں کو فوجی طاقت سے دبانا بلاشبہہ قانونی فعل ہے، مگر غیرقانونی [یعنی فوجی] عدالتوں کے ذریعے سے جرائم کے مرتکبین کو سزا دینا ایسی کارروائی ہے جو ’دستاویز حقوق‘ (Petition of Rights) کے ذریعے ممنوع ہے۔ فوجی حکام کا یہ فرض تھا کہ قیدیوں کو دیوانی اقتدار کے سپرد کردیتے۔۔۔ اگر مسٹرگورڈن نے فی الواقع غداری کی بھی تھی تو وہ [یعنی فوجی حکام] اس کو سزا دینے کا کوئی حق نہ رکھتے تھے۔ ان کا دائرۂ اختیار صرف طاقت کے ذریعے دبا دینے تک محدود تھا، نہ کہ وہ جرائم کی سزا بھی دینے لگیں۔
قانون کے سب ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جہاں عام ملکی عدالتیں کھلی ہوئی ہوں، یا کھل سکتی ہوں، وہاں فوجی عدالتیں قائم کر کے لوگوں کو سزائیں دینا بالکل ناجائز ہے۔(تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر تبصرہ، ص ۶۰)
آگے بڑھنے سے پیش تر تاریخ کا یہ باب دیکھنا مفید ہوگا۔وزیراعظم محمدعلی بوگرہ [م:۱۹۶۳ء] قوم کو یہ خوش خبری سناچکے تھے کہ: ’’۲۵دسمبر ۱۹۵۴ء کے روز قوم کو دستور کا تحفہ دیں گے‘‘۔ مگر منفی قوتوں کی شرانگیزی متحرک ہوئی، جسے یہاں پر ڈاکٹر صفدرمحمود کی کتاب مسلم لیگ کا دورِ حکومت سے نقل کیا جارہا ہے۔ یہ نثرپارہ بلا تبصرہ بہت کچھ بیان کرتا ہے۔ یاد رہے ۲۸؍اکتوبر کو اسمبلی کا اجلاس منعقد کرنے کا اعلان ہوچکا تھا کہ:
گورنر جنرل [ملک] غلام محمد نے ۲۴؍اکتوبر ۱۹۵۴ء کو [پاکستان کی] مرکزی وزارت کو برطرف کر دیا، دستور ساز اسمبلی کوتوڑ دیا۔ یہ اقدامات فوج کے سربراہ [جنرل محمد ایوب خان] اور بیوروکریسی کی مکمل حمایت سے کیے گئے۔ امریکا میں خفیہ مواد کے سامنے آنے سے پتا چلا ہے کہ دستور سازاسمبلی کو واشنگٹن کی آشیرباد اور منظوری کے بعد توڑا گیا تھا۔ عملی اقدام سے پہلے اسکندر مرزا اور واجد علی (امریکا میں پاکستانی سفیر امجدعلی کے بھائی) نے امریکی سفیر [متعینہ پاکستان] کو اپنے ارادوں، منصوبوں اور سخت اقدامات سے آگاہ کیا، اور اسے بتایا کہ: ’’اس اقدام کا مقصد پاکستان کو مُلّاازم سے بچانا ہے‘‘ (ص ۲۳۵)۔ جب غلام محمد نے، جو عوام کے منتخب نمایندے نہیں تھے، نے دستورساز اسمبلی کو منسوخ کردیا تو۔۔۔ اسے [مسلح افواج پاکستان کے]کمانڈر انچیف محمدایوب خان کی بھی حمایت حاصل رہی (مسلم لیگ کا دورِ حکومت، ناشر: جنگ پبلشرز، لاہور، مارچ ۱۹۹۳ء، ص ۲۳۶)
اسی واقعے کی کچھ تفصیلات پروفیسر وارث میرمرحوم نے اس طرح بیان کی ہیں:
[ملک] غلام محمد کبھی کبھی اپنے فیصلوں پر ریوالور کی رہنمائی میں بھی عمل کرایا کرتے تھے۔ [سابق وزیراعظم] چودھری محمد علی (مسلم لیگ کا دورِ حکومت) اور اسکندر مرزا (غیرمطبوعہ سوانح عمری) دونوں راوی ہیں، امریکا سے واپسی پر [وزیراعظم] محمدعلی بوگرہ کو[گورنر جنرل ملک] غلام محمد کے سامنے پیش کیا گیا، تو غلام محمد نے تکیہ کے نیچے سے ریوالور نکال لیا اور جب تک بوگرہ نے [دستور ساز اسمبلی توڑنے کی] تجویز سے اتفاق نہ کرلیا غلام محمد انھیں قتل کی دھمکیاں دیتے رہے۔ اس کارروائی کے دوران [جنرل محمد] ایوب خان ریوالور ہاتھ میں پکڑے پس پردہ کھڑے رہے۔ ( خوشامدی ادب اور سیاست، القمر انٹرپرائزز، لاہور،۱۹۹۴ء، ص ۲۷)
اس دعوے کی تردید کبھی سامنے نہیں آئی۔ اس میں سے ریوالور کی بات کو نظرانداز کر بھی دیں تو ’طاقت ور‘ کے قلم اور چھڑی میں بہرحال ریوالور سے زیادہ طاقت ہوتی ہے۔
اس دستور ساز اسمبلی کے توڑنے کے واقعے پر تڑپ کر میاں طفیل محمد (سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان) کراچی پہنچے اور جماعت اسلامی کراچی کے امیر چودھری غلام محمد کے ہمراہ تمیزالدین (م: ۱۹۶۳ء) اسپیکردستور ساز اسمبلی کو بڑی مشکل سے آمادہ کیا کہ وہ اس آمرانہ اور ملکی سالمیت کے لیے تباہ کن اقدام کو عدالت میں چیلنج کریں۔ میاں طفیل محمد اپنی کتاب مشاہدات (نومبر۲۰۰۰ء) میں تفصیل (ص ۲۳۲۔۲۴۴) سے بیان کرتے ہیں کہ اس مقصد کے لیے وکلا کی فیس تک کے لیے مالی وسائل جماعت اسلامی نے فراہم کیے اور سندھ ہائی کورٹ میں اس اقدام کو کس طرح چیلنج کیا گیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے گورنر جنرل غلام محمد کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا، مگر سپریم کورٹ نے پاکستانی سیکولر لابی کے نظریہ ساز رہنما چیف جسٹس محمدمنیر کی سربراہی میں گورنر جنرل کے فیصلے کو ایک کے مقابلے میں چار کی اکثریت سے سندِ جواز عطا کی ۔ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کی تائید اور جسٹس منیر کے فیصلے سے اختلاف کرنے والے وہ واحد رکن جسٹس اے آر کارنیلیس تھے۔
قیامِ پاکستان کے بعد ۱۹۵۳ء میں لاہور میں نافذ ہونے والا مارشل لا عملی سطح پر سیاست دانوں کی ناکامی کا اعلان اور فوجی اقتدار کی ریہرسل تھا۔ چنانچہ اس کامیاب ریہرسل کے بعد، صدر اسکندر مرزا (م: ۱۹۶۹ء) نے ۷؍اکتوبر ۱۹۵۸ء کو اسمبلیاں توڑ کر اور سول حکومتیں برطرف کر کے پورے پاکستان میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ مسلح افواج کے کمانڈرانچیف جنرل محمد ایوب خان کو وزیراعظم اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا۔ (یاد رہے کہ ’قائد عوام‘ ذوالفقار علی بھٹونے اس مارشل لائی کابینہ میں وفاقی وزیر کا عہدہ حاصل کیا تھا)۔ ۲۰روز بعد ۲۷؍اکتوبر ۱۹۵۸ء کو جنرل ایوب خان، صدر اسکندرمرزا کو برطرف کر کے کرسیِ صدارت پر بھی متمکن ہوگئے۔ یاد رہے اس مارشل لا کے نفاذ سے قبل یہ اعلان ہوچکا تھا کہ فروری ۱۹۵۹ء میں عام انتخابات ہوں گے۔اس مارشل لا سے صرف دوماہ قبل سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی زیرادارت ماہ نامہ ترجمان القرآن، لاہور (اگست ۱۹۵۸ء) میں جو اداریہ (اشارات) شائع ہوا، اس کے انتباہ کو ملاحظہ کیجیے کہ کس قدر دُوراندیشی سے آنے والے خطرات سے قوم کو خبردار کیا گیا تھا، کس اندازسے سیاست دانوں کو جھنجھوڑا گیا تھا اور کن الفاظ میں اعلیٰ فوجی قیادت کو عقل و خرد کی بات سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی۔ لکھا تھا:
اسے مسلمان ممالک کی بدقسمتی کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ دنیا نے آج تک اجتماعی زندگی کے بارے میں جتنے مفید سبق سیکھے ہیں، نہ صرف ان سب کو بھلا دیا جاتا ہے بلکہ اُن غلطیوں کو باربار دُہرایا بھی جاتا ہے۔ مثال کے طور پر فوج کے غلط استعمال کو ہی لیجیے۔ ہرمعمولی عقل و خرد رکھنے والاآدمی بھی اس حقیقت سے واقف ہے کہ فوج اپنے ملک پر حکومت کرنے کے لیے نہیں بلکہ ملک کو بیرونی دشمنوں سے بچانے کے لیے منظم کی جاتی ہے۔ اس وجہ سے دنیا کے تمام عقل مند لوگ ملکی معاملات میں فوج کی دخل اندازیوں کو پسند نہیں کرتے، مگر ہماری شومیِ قسمت کہ جو لوگ ہمارے ہاں اقتدار پر قابض ہیں، وہ چونکہ عوامی تائید کی قوت سے محروم ہیں، اس لیے وہ اس کمی کو فوج کی طاقت اور پشت پناہی سے پورا کرتے ہیں۔ جہاں کسی حلقے میں اضطراب یا عدم اطمینان دکھائی دیا، اُسے فوراً فوج کی مدد سے دبا دیا۔ بظاہر یہ نسخہ بڑا سستا اور آسان ہے، لیکن اس کے نتائج ملک، قوم، اصحابِ اقتدار اور خود فوج کے حق میں نہایت مہلک ہوتے ہیں۔ اس کا پہلااثر یہ پڑتا ہے کہ ملک کے باشندے خود اپنی فوج سے بوجوہ متنفر ہوجاتے ہیں اور ملک کی حفاظت کے لیے فوج اور قوم کا تعاون ممکن نہیں رہتا۔ یہ صورتِ حالات ’سامراجی من چلوں‘ کے لیے بڑی ہی حوصلہ افزا ثابت ہوتی ہے اور اس سے بسااوقات ملک کی آزادی پر آبنتی ہے۔
فوجی افسروں کے منہ کو جب ایک دفعہ اقتدار کا [ذائقہ] لگ جاتا ہے، تو پھر پوری فوج کا نظم تہ و بالا ہوجاتا ہے۔ ملک کے یہ پاسبان ہمیشہ اس تاک میں رہتے ہیں کہ باہر چاہے انھیں کچھ فتح کا موقع ملے یا نہ ملے، مگرانھیں گھر کو ضرور فتح کرڈالنا چاہیے۔ اگر اخلاقی حیثیت سے اس معاملے کو دیکھا جائے تو یہ بے حد افسوس ناک ہے۔ اس سے بڑی غداری اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک فوج جن لوگوں کے روپے سے منظم اور مسلح ہوتی ہے، وہ طاقت پاکر خود اپنی قوم کی گردن پر ہی سوار ہوجائے اور سنگین کی نوک پر ملک میں اپنا حکم منوانا شروع کردے۔
معاملہ صرف ایک انقلاب تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ فوجی انقلاب ایک ایسا شیطانی چکر ہے کہ کوئی ملک بدقسمتی سے اس میں ایک دفعہ گرفتار ہوجائے تو اس سے بچ نکلنے کی کوئی اُمید باقی نہیں رہتی۔ ایسا ملک پیہم انقلاب اور ناگہانی تغیرات کی آماج گاہ بن جاتا ہے، اور کش مکش اور چھین جھپٹ کی بیماری سیاسی پارٹیوں سے نکل کر فوج کے مختلف طبقوں میں سرایت کرنا شروع کردیتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے جو معاملات بساطِ سیاست پر سیاسی جوڑتوڑ سے طے کیے جاتے تھے، اب ان کے فیصلے کے لیے ’قاضیِ شمشیر ‘کی طرف رجوع کرنا بالکل ناگزیر ہوجاتا ہے، اور یہ قاضی اپنے مزاج کے اعتبار سے اس قسم کا بے حس واقع ہوا ہے کہ اسے اگر ایک مرتبہ عدالت کی کرسی پر متمکن کردیا جائے تو پھر یہ اُس وقت تک چین نہیں لیتا، جب تک کہ سارا ملک تاخت و تاراج نہ کردیا جائے۔
اس کے علاوہ فوجی انقلاب کے وقت خواہ نعرے کتنے ہی خوش کُن اور احساسات و جذبات خواہ کتنے پاکیزہ ہوں، لیکن یہ انقلاب اپنی کامیابی اور بقا کے لیے اس بات پر مجبور ہے کہ کسی ایسے جابرانہ نظام کو جنم دے، جس میں نہ صرف لوگوں کے جسم گرفتار ہوں بلکہ ان کی روح بھی پابہ زنجیر رہے۔ اور لوگ دم بخود ہوکر ان فوجی آمروں کے افعال و اعمال دیکھتے چلے جائیں۔ پوری قوم بھیڑ بکریوں کا ایک بے زبان گلہ بن کر رہے جسے یہ ’مصلحین قوم‘ میکانکی طور پر جس طرف چاہیں ہانک کرلے جائیں۔
اس صورتِ حال کو برقرار رکھنے کے لیے سب سے پہلے فوجی آمر کے کارناموں کو بڑے ہی مصنوعی اندازسے بڑھاچڑھا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ یہ آمر ایک عام انسان کے بجاے فوق البشر دکھائی دے اور قوم اُسے اپنا واحد نجات دہندہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو۔ چنانچہ دیکھیے، ان فوجی آمروں کی کارگزاریوں کو کس مبالغہ آمیزی کے ساتھ مختلف طریقوں سے نشر کیا جاتا ہے اور قوم کے ذہن میں یہ خیال راسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان لوگوں کے کارنامے بالکل غیرمعمولی ہیں۔ دوسرے قوم کی ذہنی تربیت کے لیے ایک ایسا پروگرام طے کیا جاتا ہے، جس سے وہ ہرمعاملے کو فہم و فراست کی معتدل میزان پر تولنے کے بجاے اُسے جذبات کی شعلہ فشانیوں سے حل کرتی ہے اور اندھی پیروی کی اتنی خوگر بنادی جاتی ہے کہ تباہ کن حوادث میں مبتلا ہونے کے بعد بھی اُس کی آنکھیں کھلنے نہیں پاتیں۔
اس قسم کی تلاطم خیز ذہنی کیفیت پیدا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جذبات کے سمندر میں طوفان اُٹھائے جائیں۔ یہ کام معمولی طریقوں سے تو سرانجام نہیں پاسکتا، اس کے لیے بڑے ہی غیرمعمولی حربے استعمال کیے جاتے ہیں، مثلاً سب سے پہلے پوری قوم کو ٹھوس حقائق کی دنیا سے نکال کر سپنوں کی ایسی فضا میں آباد کیا جاتا ہے، جہاں وہ صرف آرزوؤں اور تمناؤں پر مرنا سیکھتی ہے ۔جہاں وہ عقل کی بات بتانے والوں کو دشمن اور خوش کن باتیں بنانے والوں کودوست سمجھنے لگتی ہے۔ جہاں صرف خواب و خیال کی پرستش ہوتی ہے اور جہاں رہبرانِ قوم کے اخلاقی اور ذہنی اوصاف نہیں دیکھے جاتے بلکہ صرف اس بات کا اندازہ کیا جاتا ہے کہ وہ لاف گزاف میں کس قدر مشّاق اور زبان کے استعمال میں کس حد تک مطلق العنان ہیں۔
پھر اس قوم کے بارے میں اس بات کا بھی التزام کیا جاتا ہے کہ اُس کے دل و دماغ پر مستقل خوف کی کیفیت طاری رہے تاکہ وہ اپنے بچاؤ اور حفاظت کے لیے ایک فوجی آمر کی آمریت بخوشی قبول کرلے۔ اس صورتِ حال کے نتائج دیکھ کر ہر حساس مسلمان تڑپ اُٹھتا ہے۔ آئے دن کے تغیرات نے بحیثیت مجموعی مسلمانوں کے وقار کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ آخر مسلمانوں کو وہ کیا بیماری لاحق ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی آزادی کا صحیح استعمال نہیں کرسکتے اور اپنی قومی طاقت کو آپس کی کش مکش میں تباہ کردیتے ہیں۔
یہ وہ وقت ہے، جب کہ ہمارے فرماں رواؤں کو اپنی آنکھیں کھولنی چاہییں۔ اپنے محلات میں بیٹھ کر وہ یہ نہ سمجھیں کہ آج سے ہزار سال پہلے کی فضا، جیسی کہ اُن کے محلوں کے اندر ہے، ویسی باہر بھی موجود ہے۔ زمانہ قیامت کی چال چل گیا ہے، باہر انقلاب کی بڑی بڑی موجیں اُٹھ رہی ہیں، وہ ان کے دروازوں پر دستک دے رہی ہیں۔ ان سے صرفِ نظر کرکے چلنا کوئی دانش مندانہ فعل نہیں۔ ملکی اقتدار یا قیادت، خواہ وہ کسی نوعیت کی ہو، اُس کے بچاؤ کی صورت صرف یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس جمہوری دور کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کر کے عوام کو اُن کے پورے پورے جمہوری حقوق بہم پہنچانے میں قطعاً بخل سے کام نہ لے۔ نیز عوام کے حقیقی مسائل کو سمجھے اور اپنی عیاشیوں میں مست رہنے کے بجاے اُن کی ضروریات کو پورا کرنے کا انتظام کرے۔۔۔ ہر شخص اور ہرملّت کے صبر کا ایک پیمانہ ہوتا ہے۔ اس میں خواہ کتنی ہی وسعت ہو، مگر ایک حد ایسی ضرور آتی ہے جہاں پہنچ کر وہ اپنی ساری وسعتوں کے باوجود چھلک پڑتا ہے۔ یہ حد بڑی ہی خطرناک اور ہلاکت خیز ہوتی ہے۔ اس سے ہمارے اصحابِ اقتدار کو بچنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہیے۔ اگر یہ حضرات وقت کے اس مطالبے کو پورا نہیں کریں گے تو زمانے کی کروٹ انھیں اس مطالبے کی تعمیل پر مجبور کرے گی اور یہ تعمیل اکثروبیش تر بہ نوکِ شمشیر ہی ہوا کرتی ہے۔(ماہنامہ ترجمان القرآن، لاہور، اگست ۱۹۵۸ء)
حاکم طبقوں نے اس پکار کو سنجیدگی سے نہ لیا، اور ملک میں پہلا سخت گیر مارشل لا نافذ کردیا، جس نے ملک کی بنیادوں کو ہلا دیا۔ اس حکومت کو ملک توڑنے کی بھارتی اور عوامی لیگی ’اگرتلہ سازش‘ کا سچا مقدمہ چلانے کی ہمت نہ ہوسکی اور جب وہ بوڑھا مارشل لا گیا، تو اس کے ضمیمے کے طور پر دوسرا تازہ دم مارشل لا ۲۵مارچ ۱۹۶۹ء کو نافذ کردیا گیا۔ اس کے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے پاکستان کے دونوں حصوں میں قائم شدہ برابری (Parity) کااصول روند ڈالا۔ مغربی پاکستان میں چار صوبے بنانے اور ۱۹۷۰ء میں دستورساز اسمبلی کے انتخابات کرانے کا اعلان کردیا۔ حالانکہ ۱۹۵۶ء کے متفقہ دستور کو بحال کر کے، قومی اسمبلی ضروری ترامیم کرکے ملک کا نظام چلا سکتی تھی۔ مگر اس کے بجاے صدر چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان نے دستور ساز اسمبلی ہی کے انتخاب کا راستہ چُنا۔ مولانا مودودی نے اس فیصلے کے بعد نہیں، بلکہ فیصلے کااعلان ہونے سے پہلے متنبہ کرتے ہوئے صاف لفظوں میں بتا دیا تھا:
* اگر نئی آئین ساز اسمبلی بنی تو مجھے توقع نہیں کہ دستور کے دیباچے پر بھی اتفاق ہوسکے گا، چہ جائیکہ دستورِ پاکستان کا ڈھانچہ مرتب کیا جاسکے۔ (روزنامہ نواے وقت، ۷؍اکتوبر ۱۹۶۹ء)
* اگر اس ملک کو تباہ کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہو تو ضرور ایک آئین ساز اسمبلی بنالی جائے، ملک [پاکستان] کو تباہ کرنے کا یہ ایک مجرب نسخہ ہوگا۔ (جماعت اسلامی کے کارکنوں سے خطاب، ۹نومبر ۱۹۶۹ء)
اور پھر یہی ہوا کہ ملک میں ایسے مادرپدر آزاد انتخابات ہوئے، کہ جن میں مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن اور ان کی عوامی لیگ کو کھلی چھٹی دی گئی۔ مارشل لا حکومت کے زیرسایہ یہ فسطائیت خوب تروتازہ ہوئی، اور دھاندلی و غنڈا گردی کے زور پر پورا انتخاب ہی لُوٹ کر لے گئی۔ پھر نہ اُس ’دستورساز اسمبلی‘ کا اجلاس ہوا اور نہ آئین بنا، البتہ پاکستان ضرور ٹوٹ گیا۔
گذشتہ برس پاکستان کی وفاقی حکومت کی ہٹ دھرمی اور اس کے جواب میں دھرنا کریسی نے عملاً ریاست اور جمہوریت کو کمزور کیا ہے۔ حاکموں اور حاکموں سے لڑنے والوں کی کم فہمی کا یہ نتیجہ ہے یا پس پردہ قوتوں کی جادوگری کہ سیاست دانوں کو نااہل ثابت کردیا جائے، جیسا سوال یہاں زیربحث نہیں لا رہے، مگر نتیجہ تو یہی نکلا ہے۔ اس کھیل کے لیے کس نے کس کا کندھا استعمال کیا، یا کس نے اپنا کندھا پیش کیا، عملی سطح پر طاقت کے سرچشمے اپنی جگہ سے سرک کر وہاں جاپہنچے ہیں، کہ جہاں سے انھیں درست جگہ پر لانے کے لیے بڑی قربانیاں دی گئی تھیں۔
ہمہ وقتی وزیرخارجہ کو مقرر نہ کرنا، وزارتِ دفاع کا قلم دان ایسی شخصیت کو تھمانا کہ جن سے دفاعی ادارے ویسے ہی مغائرت محسوس کرتے ہیں، پالیسیوں کو عارضی (ایڈہاک) بنیادوں پر چلانا، بھارت سے تجارتی تعلقات کے لیے شوق و ذوق کا مظاہرہ کرنا اور فیصلہ سازی کو گنتی کی چند رکنی ٹیم کا کھیل بنانا، بہرحال کسی سازش کا نتیجہ نہیں، البتہ کم فہمی کا ثمرہ ہے۔ حماقت ایسی بلا ہے کہ جو بہت سی بلاؤں کو جنم دیتی ہے۔ پھر وطن عزیز ایک جانب حالتِ جنگ میں ہے تو دوسری جانب میڈیا گروپ ۲۴گھنٹے سنگ زنی میں مشغول ہیں، دلیل اور دلیل سے عاری گوناگوں میزائلوں سے لیس ہیں۔ اس عالم میں بے چاری جمہوریت کی کمزور سی عمارت کہاں تک ان حملوں کا مقابلہ کرتی۔ پھر طویل عدالتی جنگ کے نتیجے میں عدل کے ایوانوں کی کسی حد تک جو آزادی بحال ہوئی تھی، اسے ریاست و حکومت کی جانب سے اعانت کی ضرورت تھی، لیکن شاہانہ اندازِ حکومت نے بھی گویا ایک ایک کرکے اختیار کے سارے پتے بکھیر دینے کی ٹھان رکھی تھی۔ اور دکھائی یہ دیتا ہے کہ ریاستی اختیار و اقتدار کے قلم دان عملاً دوسری جگہ منتقل ہوچکے ہیں۔ آج اخبارات اور ٹیلی ویژن پروگراموں میں کہیں دبے الفاظ میں اور کہیں کھلے الفاظ میں کہا جا رہا ہے کہ: ’’سیاست دان نااہل، کرپٹ اور نالائق ہیں، یہ ملک نہیں چلاسکتے‘‘۔
ان جملوں میں پیغام صاف ظاہر ہے۔ اس طرح نہ صرف معاملات کوخاص جانب دھکیلا جارہا ہے، بلکہ ایک ایک کرکے حد توڑی جارہی ہے، اور ہر کام خود سیاست دانوں سے کرایا جا رہا ہے۔ ماضی میں اسی قسم کے شوروغوغے پر مولانا مودودی نے سبھی کو متنبہ کیا اور ۲۹؍اگست ۱۹۶۲ء کو چوک یادگار پشاور میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا:
* ملک میں حکومت کرنا اس ملک کے باشندوں کے نمایندوں کا کام ہے۔ سرکاری، سول یا فوجی ملازموں کا کام ان کی اطاعت کرنا ہے، حکمرانی کرنا نہیں۔ ہرطبقے کے سرکاری ملازموں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب ان کے ہاتھ میں طاقت دی جاتی ہے تو یہ اُن پر قوم کا اعتماد ہوتا ہے۔ اس لیے قوم کو کسی حالت میں دھوکا نہیں دینا چاہیے۔ (روزنامہ انجام، پشاور، ۲ستمبر ۱۹۶۲ء، سید مودودی سرحد میں، ص ۱۳۱)
* قوم کے ملازموں کا خود آقا بن جانا اور قوم کو اپنا غلام بنا لینا فی الواقع ایک ’مکمل انقلاب‘ ہے، البتہ اس انقلاب پر زندہ باد کا نعرہ لگانا کسی ذی شعور آدمی کے بس میں نہیں ہے‘‘۔ (خط بنام عارف دہلوی، ملتان، ۱۸؍اکتوبر ۱۹۶۲ء، مکاتیب اوّل، ص ۳۶،۳۷)
جب انتقام کے جذبے سے مغلوب قوم پرست بھگوڑے اور ان کے ہم نوا بھتّاخور ایک کمزور جمہوری حکومت کا مذاق اُڑاتے ہوئے کھلے عام فوج کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت دیتے ہیں تو انھیں مولانا مودودی کا یہ انتباہ یاد رکھنا چاہیے:
یہ کہنا کہ ملکی اقتدار کی آخری ذمہ داری فوج پر ہے، ایک غلط پالیسی ہے۔ فوج کی ذمے داری ملک کوبیرونی حملہ آوروں سے بچانے کی ہے، نہ کہ ملک چلانے کی۔ ملک فوج کا نہیں بلکہ اپنے باشندوں کا ہے۔ اور یہ باشندوں کا اپنا ہی کام ہے کہ وہ اپنے گھر کے معاملات کو چلائیں بھی اور بگڑ رہا ہو تو اسے درست بھی کریں۔ ملازمین خواہ فوج کے ہوں یا سول، ان کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ ملک کا نظامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیں۔(تحریکِ جمہوریت: اسباب اور مقاصد، ۱۹۶۷ء،ص ۹)
یہ عاقبت نااندیش عناصر صرف دعوتِ اقتدار ہی نہیں دیتے بلکہ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ فوج کھلے عام فوجی آپریشن کرے۔ ظاہر ہے کہ کچھ آپریشن تو ہوچکے اور کچھ آپریشن ہو بھی رہے ہیں، مگر معاملات سلجھنے کے بجاے اُلجھ رہے ہیں۔ اسی قسم کے خطرات کو بھانپتے ہوئے مولانا مودودی نے فرمایا تھا:
اس سے زیادہ غلط کام کوئی نہ ہوگا، اور اس ملک کا کوئی بدخواہ ہی ایسا کام کرسکتا ہے کہ ملک کی فوج کو ملک کے عوام سے لڑا دے۔ اگر فوج سے ہم وطنوں پر گولیاں چلانے کا کام لیا گیا تو اس سے فوج اور قوم دونوں کو نقصان پہنچے گا۔ بڑا ظالم ہوگا وہ حاکم، جو ملک کی فوج کو اپنے عوام کے سامنے لاکھڑا کرے۔ (۵۔اے، ذیلدار پارک، اوّل: مرتبہ: مظفر بیگ،ص ۲۴۳)
درحقیقت جو عناصر قومی افواج کو سول آبادی میں آپریشن اور اقتدار سنبھالنے پر اُبھارتے ہیں، و ہ بظاہر دوست بن کر، لیکن عملاً دشمن کا سا کردار ادا کرتے ہیں۔ ۳۵برس تک فوج ملک کے سیاہ و سفید کی مالک رہ چکی ہے، مگر اس دوران میں معاملات کی کوئی کل سیدھی نہ ہوسکی، بلکہ ایسے ایسے اُلجھاؤ پیدا ہوئے کہ عشرے گزر جانے کے باوجود تار سلجھائے نہیں جاسکے۔
پاکستان میں ۲۱ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں جو فوجی عدالتیں قائم ہوئی ہیں ، ان کے بارے میں روزنامہ The Newsنے اپنی رپورٹ ۴جنوری ۲۰۱۵ء میں لکھا ہے:
دہشت گردی کے ملزموں پر پاکستان آرمی ایکٹ (PAA) کے تحت مقدمے چلائے جائیں گے، جنھیں کسی بھی سول عدالت میں اپیل کا کوئی حق حاصل نہیں ہوگا۔ سینیروکیل کرنل (ریٹائرڈ) انعام الرحمن کے بقول دہشت گردوں کو فوج گرفتار کرے گی، تفتیش کرے گی اور بند کمرے میں مقدمے کی سماعت کرے گی۔ پاکستان آرمی ایکٹ کے مطابق کورٹ مارشل کے فیصلوں کے خلاف کوئی دادرسی نہ ہوسکے گی۔ تاہم دفعہ ۱۴۳کے تحت چیف آف آرمی اسٹاف ہی سزامیں کمی یا معافی کا اختیار رکھتے ہیں۔
یقیناً بہت سوچ بچار کے بعد یہ اصول وضع کیے گئے ہوں گے، مگر یوں انصاف اور صفائی کے اصولوں کی کس حد تک پاس داری ممکن ہوگی؟ ایک نازک سوال ہے۔ اور کیا اس کے نتیجے میں واقعی معاملات سلجھ جائیں گے یا پھر عجلت میں سخت فیصلے، کسی اور بڑے ردعمل کی فصل بوئیں گے؟
جن تشدد پسندوں اور دہشت گردوں نے ملک کے امن کو تباہ کیا ہے، ان کی سرکوبی پر قوم میں اتفاق پایا جاتا ہے۔ ان عناصر کی ہمدردی یا اعانت کے لیے کوئی قابلِ ذکر آواز پاکستانی معاشرے میں سنائی نہیں دیتی۔ لیکن کیا انصاف کے طے شدہ ضابطوں کے برعکس اس بیماری کا علاج صرف گولی ہے؟ اس ضمن میں مولانا مودودی بڑی وضاحت کے ساتھ اسلام کا اصول بیان کرتے ہیں:
شریعتِ الٰہی کسی بُرائی کو محض حرام کردینے یا اسے جرم قرار دے کر اس کی سزا مقرر کردینے پراکتفا نہیں کرتی، بلکہ وہ ان اسباب کا بھی خاتمہ کردینے کی فکر کرتی ہے جو کسی شخص کو اس بُرائی میں مبتلا ہونے پر اُکساتے ہوں، یا اُس کے لیے مواقع بہم پہنچاتے ہوں یا اس پر مجبور کردیتے ہوں۔
نیز شریعت، جرم کے ساتھ اسبابِ جرم، محرکاتِ جرم اور رسائل و ذرائع جرم پر بھی پابندیاں لگاتی ہے، تا کہ آدمی کو اصل جرم کی عین سرحد پر پہنچنے سے پہلے کافی فاصلے ہی پر روک دیا جائے۔ وہ اسے پسند نہیں کرتی کہ لوگ ہر وقت جرم کی سرحدوں پر ٹہلتے رہیں اور روز پکڑے جائیں اور سزائیں پایا کریں۔
وہ [شریعتِ الٰہی] صرف محتسب (prosecutor) ہی نہیں ہے، بلکہ ہمدرد، مصلح اور مددگار بھی ہے۔ اس لیے تمام تعلیمی، اخلاقی اورمعاشرتی تدابیر اس غرض کے لیے استعمال کرتی ہے کہ لوگوں کو بُرائیوں سے بچنے میں مدد دی جائے۔(تفہیم القرآن، سوم، سورۃ النور، حاشیہ ۲۳،ص ۳۷۲)
اندریں حالات معاشرے کی تمام مقتدر اور ذمہ دار قوتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ باہم تصادم کے بجائے اس خطرناک صورتِ حال سے نکلنے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کریں، ٹھنڈے دل و دماغ سے کوششیں کریں، اور جو عناصر ان کے درمیان غلط فہمی پیدا کرنے یا گہری دلدل میں دھکیلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، ان کی شرانگیزی سمجھنے کی بصیرت حاصل کریں۔
اس تمام صورتِ حال کو پیش نظر رکھیں تو پاکستان کی تاریخ کے تناظر میں یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ’شمشیر‘ اور ’قاضیِ شمشیر‘ کے ہاتھوں یہ مسائل حل ہونے مشکل ہیں، بلکہ اس مقصد کے لیے قانون کی عمل داری اور جمہوری راستے کے سوا ہر راستہ سواے خرابی کے کچھ بھی نتیجہ نہ دے سکے گا۔ مولانا مودودی نے جماعت اسلامی کے کارکنوں کے سامنے لائحہ عمل پیش کرتے ہوئے ۱۹۵۷ء میں واضح طور پر یہ فرمایا تھا:
تین حقیقتیں واضح طور پر آپ کی نگاہ میں رہنی چاہییں:
* پہلی یہ کہ آپ اس ملک میں اسلامی نظامِ زندگی عملاً قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے قیادت کی تبدیلی ناگزیر ہے۔
* دوسری یہ کہ آپ جس ملک میں کام کر رہے ہیں وہاں ایک آئینی و جمہوری نظام قائم ہے اور اس نظام میں قیادت کی تبدیلی کا ایک ہی آئینی راستہ ہے: انتخابات۔
* تیسری یہ کہ ایک آئینی و جمہوری نظام میں رہتے ہوئے تبدیلیِ قیادت کے لیے کوئی غیر آئینی راستہ اختیار کرنا شرعاً آپ کے لیے جائز نہیں ہے اور اسی بنا پر آپ کی جماعت کے دستور نے آپ کو اس امر کا پابند کیا ہے کہ آپ اپنے پیش نظر اصلاح و انقلاب کے لیے آئین و جمہوری طریقوں ہی سے کام کریں۔
(تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل، ۱۹۵۷ء، ص ۱۳۸)