November 21st, 2024 (1446جمادى الأولى19)

ام المومنین حضرت سودہؓ

نام: سودہؓ
خاندان: عدی
نسب: آپؓ کے والد زمعہ بن قیس بن عبد شمس بن عبد و دبن نظر بن مالک بن حسل بن عامر بن لوّی تھے۔
آپؓ کی والدہ کا نام شموس بنت قیس ہے جو انصار کے بنو نجار خاندان سے تھیں جو حضورﷺ کا ننھیالی قبیلہ تھا۔
پہلا نکاح:
آپؓ کا پہلا نکاح سکرانؓ بن عمرو سے ہوا جو آپؓ کے چچازاد بھائی تھے۔
قبول اسلام :
آپؓ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے بہت پہلے اسلام قبول کرلیا تھا۔ آپؓ سلیم الفطرت اور نیک خاتون تھیں اور آپ کے خاوند بھی بڑے نیک تھے۔ اس لیے دونوں میاں بیوی حضور ﷺکے اعلان توحید کے بعد جلدی ہی مسلمان ہو گئے تھے۔
ہجرت:
حبشہ کی طرف ہجرت ثانیہ میں یہ دونوں میاں بیوی شامل تھے۔ وہاں کئی سال گزار کر جب آپ دونوں مکہ مکرمہ میں واپس آئے تو چند دن بعد سکرانؓ کا انتقال ہوگیا اورآپؓ بیوہ ہوگئیں۔
نکاح ثانی:
آپؓ کی بیوگی کے زمانہ میں حضور ﷺکی رفیقہ حیات حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہوگیا تھا اور آپﷺ غمگین رہا کرتے تھے۔ دراصل تبلیغی سرگرمیوں کے علاوہ ام کلثومؓ اور فاطمہؓ کی جو آپﷺ کی کمسن بیٹیاں تھیں، خبرگیری اور پرورش کا بوجھ بھی تھا کیونکہ سیدہ خدیجہؓ کے انتقال کے بعد آپﷺ کے گھر کا انتظام سنبھالنے والا کوئی نہ تھا۔ اگر آپ ﷺ باہر تشریف لے جاتے تو گھر میں بچیاں پریشان رہتیں۔ آپﷺکے لئے بیک وقت دونوں بھاری ذمہ داریاں پورا کرنا مشکل ہورہا تھا۔ آپﷺ کی اس پریشانی کو عثمان بن مظعون کی ۔۔۔۔ جو آپﷺ کے بڑے پیارے صحابی تھے ۔۔۔۔ اہلیہ خولہؓ بنت حکیم السلمیہ نے نہایت شدت سے محسوس کیا اور ایک روز آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا:
’’یا رسول اللہ ﷺ میں دیکھتی ہوں کہ آپ ﷺ بچیوں کی نگرانی کے سلسلے میں بہت پریشان اور متفکر رہتے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ آپﷺ دوسری شادی کر لیں تا کہ آپﷺ کا بوجھ ہلکا ہو جائے۔‘‘
اس پر حضورﷺ نے دریافت کیا کہ شادی کس سے کی جائے تو خولہؓ نے عرض کیا ’’یارسول اللہﷺ ایک تو بیوہ خاتون ہیں سودہؓ بنت زمعہ جو آپ پر بہت پہلے ایمان لائی تھیں اور جنہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت بھی کی تھی اور دو شیزہ عائشہؓ ہیں جن کے والد حضرت ابوبکرؓ آپﷺ کو تمام مخلوق میں زیادہ محبوب ہیں‘‘۔
حضورﷺنے فرمایا مجھے منظور ہے تم دونوں جگہ بات کرو۔ یہ منظوری حاصل کرنے کے بعد خولہؓ نے سیدہ سودہؓ سے ان کے گھر جا کر بات کی انہوں نے خاموشی سے قبول کر لیا۔ لیکن فرمایا: ’’تم میرے باپ کے پاس جاؤ وہ بہت بوڑھے آدمی ہیں ان سے اس بات کا ذکر کرو‘‘۔
حضرت سودہؓ کی رضا مندی پا کر خولہؓ ان کے والد زمعہ کے پاس پہنچیں اور تھوڑی سی  ردوکد کے بعد انہیں راضی کر لیا۔ لیکن انہوں نے اپنی بیٹی سودہؓ کو اپنے پاس بلا کر ان کی رضا مندی دریافت کی اور اثبات میں جواب پاکر خوشی کا اظہارکیا۔ چنانچہ دوسرے ہی دن ا نہوں نے رسولﷺ کو اپنے گھر بلایا اور اپنی بیٹی سیدہ سودہ ؓ  کا ان سے نکاح کر دیا۔ یہ رمضان سن ۱۰ بعثت کا واقعہ ہے۔
حضرت خدیجہؓ کے بعد آپ پہلی خاتون ہیں جنھیں حضورﷺ کی زوجہ  مطہرہ بننے کا شرف حاصل ہے۔ آپؓ کا مہر چار سو درہم مقرر ہوا تھا۔ نکاح کے وقت آپؓ کی عمر۵۰ سال تھی۔
آپؓ کے بھائی عبد اللہ بن زمعہ کو جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ جب اس نکاح کا علم ہوا تو انھوں نے جاہلیت کے دستور کے مطابق اپنے سر پر خاک ڈالی اور کہا ’’یہ کیا غضب ہوگیا ہے‘‘ لیکن اسلام قبول کرلینے کے بعد انھیں اپنی اس حماقت پر ہمیشہ افسوس رہا۔
حضور ﷺسے آپؓ کی محبت:
آپؓ کو حضورﷺسے بہت محبت تھی۔ آپ گھر کا سارا کاروبار نہایت سلقیے سے سنھبالتیں۔ بچیوں کی نگرانی، تربیت اور پرورش میں بڑی تند ہی سے کام لیتیں۔ حضور ﷺ کی خدمت کرتیں اور ان کا غم غلط کرنے کی کوشش کرتیں۔ آپؓ نے حضور ﷺ کی خوشنودی کی خاطر اپنی باری حضرت عائشہؓ کو دے دی تھی، عشق میں ایثار حضرت سودہؓ ہی کی خصوصیات میں سے ہے ورنہ کوئی عورت یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ اپنی سوکن کو اپنے پر ترجیح دے۔ چہ جائیکہ اپنی باری بھی دے دے۔ حضرت عائشہؓ کا قول ہے:
’’میں نے کسی عورت کو جذبہ رقابت سے خالی نہ دیکھا سوائے سودہؓ کے‘‘
آپؓ کے فضائل:
(۱) حضرت خدیجہؓ کے انتقال کے بعد آپؓ پہلی خاتون ہیں جن سے حضورﷺنے نکاح کیا۔
(۲) آپؓ قدیم الاسلام ہیں۔
(۳) آپؓ نے ہجرت بھی کی۔
(۴) آپؓ بہت سخی تھیں۔
سخاوت:
آپؓ بہت دریا دل خاتون تھیں اور آپؓ کی سخاوت کی وجہ سے کئی حاجت مند پرورش پاتے تھے۔ حافظ ابن حجر نے اصابہ میں لکھا ہے کہ آپؓ طائف کی کھالیں بنایا کرتی تھیں اور اس سے جو آمدن ہوتی اسے اللہ کی راہ میں خیرات کر دیا کرتی تھیں۔
ایک دفعہ حضرت عمر فاروقؓ نے آپ کی خدمت میں کھجوروں والا ایک بورا درہموں سے بھر کر بھیجا۔ آپ نے لوگوں سے پوچھا اس میں کیا ہے؟ جب بتایا گیا کہ اس میں درہم ہیں تو فرمایا ’’کھجوروں کی طرح تھیلے میں درہم بھیجے جاتے ہیں‘‘ یہ کہہ کر اسی  وقت سب درہم غریبوں،  مسکینوں میں تقسیم کردیئے۔ اس وصف میں آپؓ سوائے حضرت عائشہؓ کے سب سے ممتاز تھیں۔
اعتراف فضیلت:
آپؓ کے پاکیزہ اخلاق سے متاثر ہوکر ایک بار حضرت عائشہؓ نے فرمایا:
’’سوائے سودہؓ کے کسی عورت کو دیکھ کر میرے دل میں یہ خواہش پیدا نہ ہوئی کہ اس کے جسم میں میری روح ہوتی‘‘۔
مکہ مکرمہ سے مدینہ کی طرف روانگی:
حضورﷺ جب سن۱۳بعشت میں مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو کچھ عرصہ آپؓ نے حضرت زیدؓ بن حارثہ اور حضرت ابو رافعؓ کو مکہ بھیجا تا کہ وہاں سے حضرت فاطمہؓ ،حضرت ام کلثومؓ اور حضرت سودہؓ کو اپنے ساتھ لے آئیں۔ اس طرح آپؓ مکہ شریف سے ہجرت کر کے مدینہ شریف پہنچ گئیں۔
ظرافت:
اگرچہ آپ کے مزاج میں قدرے تیزی تھی۔ ’’غالباً‘‘ عمر کا تقاضا ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ظرافت بھی تھی۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ آپ اپنی باتوں سے اکثرحضورﷺ کو ہنسا دیا کرتی تھیں۔ ایک بار آپ ﷺ سے عرض کیا:
یا رسول اللہ ﷺ میں نے گزشتہ شب آپ ﷺکے پیچھے نماز پڑھی۔ پھر آپ نے میرے ساتھ رکوع کی حتیٰ کہ میں نے ناک سے خون ٹپکنے کے ڈرسے اپنی ناک پکڑلی‘‘۔ حضور ﷺ یہ سن کر ہنس پڑے۔
آپؓ کبھی کبھی جان بوجھ کر بے ڈھنگے پن سے چلتی تھیں اور حضور ﷺ یہ دیکھ کر بے اختیار ہنس پڑتے تھے۔
سراپا:
آپؓ بلند و بالا اور فربہ اندام تھیں۔ اسی وجہ سے تیزی کے ساتھ چل پھر نہیں سکتی تھیں۔ ۱۰ھ میں حجتہ الوادع میں مزدلفہ سے روانہ ہونے کا وقت آیا تو آپؓ نے حضور ﷺ سے اس عذر کی بنا پر سب سے پہلے روانہ ہوجانے کی اجازت مانگی جسے آپﷺ نے منظور فرمایا تا کہ آپ کو بھیڑ اور اژدھام کی وجہ سے تکلیف نہ ہو۔
حج:
ابن سعد کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر تمام ازواج مطہرات کو جو اس وقت آپﷺ کے ہمراہ تھی ۔۔۔۔۔۔ ارشاد فرمایا:’’اس حج کے بعد اپنے گھروں میں بیٹھنا۔‘‘
چنانچہ حضرت سودہؓ اور حضرت زینبؓ بنت حجش اس پر عمل کرتی رہیں جب کہ باقی امہات المومنین حج کیا کرتی تھیں۔ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں:
’’نبی ﷺکی وفات کے بعد تمام ازوج مطہرات حج کیا کرتی تھیں مگر سودہؓ اور زینبؓ حج نہیں کرتی تھیں اور کہا کرتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد ساری عمر گھر سے باہر نہ نکلیں اور حضرت سودہؓ فرمایا کرتی تھیں میں حج اور عمرہ دونوں کرچکی ہوں۔ اب خدا کے حکم کے مطابق گھر سے باہر نہ نکلوں گی ۔‘‘
پردہ کی آیت کا نزول:
پردہ کی آیت کے نازل ہونے سے پیشتر امہات المومنینؓ بھی مدینہ کے دستور کے مطابق رفع حاجت کے لیے شہر کے باہر جنگل میں جایا کرتی تھیں۔ حضرت عمر فاروقؓ کو یہ بات ناپسند تھی اور ان کا خیال تھا کہ امہات المومنینؓ کو پردہ کرنا چاہیے چنانچہ اس بناء  پر وہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں پردہ کی تحریک پیش کرتے لیکن حضور ﷺ اس کے جواب میں خاموشی فرماتے تھے کیونکہ ابھی اس کے قبول ہونے کا وقت نہیں آیا تھا۔ اسی دوران ایک رات حضرت سودہؓ قضائے حاجت کے لیے باہر نکلیں چونکہ ان کا قد نمایاں تھا، اس لیے حضرت عمرؓ نے جو راستہ میں مل گئے تھے پہچان لیا اور کہا ’’سودہؓ ہم نے تم کو پہچان لیا‘‘۔
حضرت سودہؓ کو حضرت عمرؓ کی یہ بات سخت ناگوار گزری اور انہوں نے حضور ﷺ سے شکایت کی۔ اس پر صیحح بخاری کی روایت کے مطابق پردہ کی آیت نازل ہوئی اور تمام خواتین پردہ کرنے لگیں۔
روایت حدیث:
آپؓ سے صرف پانچ حدیثیں مروی ہیں جن میں سے بخاری میں صرف ایک ہے۔
اولاد:
حضرت سکرانؓ سے آپ کا صرف ایک فرزند تھا جن کا نام عبدالرحمٰن تھا۔ انہوں نے جنگ جلولاء میں ۔۔۔۔ جو حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں ہوئی تھی شہادت حاصل کی۔
وفات:
اگرچہ آپؓ کی وفات کے متعلق مختلف روایات ملتی ہیں لیکن صحیح یہی ہے کہ آپؓ نے حضرت عمر فاروقؓ کے عہد خلافت میں ۲۳ھ میں وفات پائی جب کہ رحمتہ للعالمین کی روایت کے مطابق ۱۹ھ میں ہوئی تھی۔
منازل عمر:
(۱) آپؓ کا نکاح حضورﷺسے ۱۰ سن نبوت میں ہوا۔
(۲) حضورﷺسے نکاح کے وقت آپؓ کی عمر پچاس سال تھی۔
(۳) آپؓ سے نکاح کے وقت حضور ﷺ کی عمر پچاس سال تھی۔
(۴) حضور ﷺ سے آپ کی رفاقت چودہ سال رہی۔
(۵) وفات کے وقت آپؓ کی عمر بہتر سال تھی۔
(۶) آپؓ کی وفات ۲۳ھ میں ہوئی۔
(۷) آپؓ کی قبر مدینہ شریف کے جنت البقیع میں ہیں۔
آپ پرلاکھوں سلام ہوں!!