November 23rd, 2024 (1446جمادى الأولى21)

ام المومنین حضرت ام سلمہؓ

نام: ہندؓ

کنیت: ام سلمہؓ

نسب: ہند بنت ابی امیہ بن مغیرہ بن عبد اللہ بن عمر بن عمر بن مخزوم

آپؓ کی والدہ کا نام عاتکہ بنت عامر تھا۔ آپؓ کے والد بہت سخی اور دولت مند تھے سفر میں جاتے تو تمام اہل قافلہ کی کفالت اپنے ذمے لے لیتے اسی لیے زادالرکب کے لقب سے مشہور تھے۔ بیسیوں آدمی ان کی فیاضی کی بدولت پرورش پاتے تھے خود قریش میں بڑی قدر و منزلت اور اثرورسوخ والے تھے ۔ حضرت ام سلمہؓ نے اپنے امیر کبیر اور سخی باپ کے گھر بڑے ناز و نعم سے پرورش پائی تھی۔

پہلانکاح: آپؓ کا پہلا نکاح حضرت ابو سلمہؓ سے ہوا جو آپؓ کے چچازاد بھائی اور حضورکے رضاعی بھائی تھے۔ ابو سلمہؓ بن عبدالاسد۔ آپؓ کے شوہر بہت شریف اورسلیم الطبع تھے۔ انہوں نے آغاز اسلام میں ہی اسلام قبول کرلیا تھا۔ حالانکہ ان کا قبلیہ اسلام کا سخت دشمن تھا لیکن انہوں نے اس کی ذرہ بھر پروہ نہ کی، ام سلمہؓ بھی اپنے شوہر کے ساتھ ہی اسلام میں داخل ہو گئیں، اس طرح دونوں میاں بیوی قدیم الاسلام تھے۔    

ہجرت حبشہ: آپؓ نے اپنے شوہر کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی اور کچھ عرصہ وہاں قیام کر کے دونوں واپس مکہ میں آگئے۔

ہجرت مدینہ: ہجرت میں آپ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اہل سیر کے نزدیک وہ پہلی عورت ہیں جو ہجرت کر کے مدینے میں آئی۔

مکہ سے مدینہ جانے والی شاہراہ پر شہر سے چند فرلانگ کے فاصلہ پر ایک شتر سوار کو چند آدمیوں نے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ جن کے ہاتھوں میں نیزے اور تلواریں ہیں سوار کے پحیچھے اسکی بیوی اورچھوٹا بچہ ہے بیچارہ بے بس اور بے کس دکھائی دیتا ہے۔ شور سا برپا ہوگیا ہے۔ بچہ چیخ رہا ہے۔ عورت کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ کبھی کبھی کہنا چاہتی ہے۔ مگر آواز حلق میں اٹک جاتی ہے۔ لب تھر تھرا کر رہ جاتے ہیں۔ آدمی بار بار کہہ رہا ہے۔

’’کم بختو۔ میں نے اپنا گھر بار چھوڑ دیا ہے سارا ترک اس میں پڑا ہے صرف اپنی بیوی اور بچے کو لے جارہا ہوں۔ تمہارے ظلم وستم سے تنگ آکر جارہا ہوں۔ اب اور کیا جاتے ہو۔‘‘

’’کچھ نہیں‘‘ ایک آدمی درشتی سے کہتا ہے۔

تم خود تو ہمارے قابو سے باہر ہوگئے ہو جہاں تمہارا جی چاہے چلے جاؤ مگر ہم اپنی اس لڑکی کو تہمارے ساتھ جگہ جگہ ماری ماری پھرنے کے لئے کیسے چھوڑ دیں۔‘‘

شتر سوار ’’یہ میری بیوی ہے اس کا نکاح تم لوگوں نے برضاور غبت میرے ساتھ کیا تھا۔ اب تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اسے مجھ سے جدا کرو‘‘۔

لوگ یہ سن کر مشتعل ہو جاتے ہیں اور اسے اونٹ سے اترنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ کچھ لوگ اس کی طرف نیزے بھی اٹھاتے ہیں ۔ مگر شترسوار اکیلا ہونے کی وجہ سے خاموش ہوجاتا ہے۔ یہ لوگ اسکی بیوی کو زبردستی چھین کر لے جاتے ہیں عورت زار زار روتی چلی جاتی ہے۔ شتر سوارکی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگتے ہیں اور بے حس وحرکت کھٹرا اپنے بیوی اور بچوں کو ظالموں کے نرغے میں جاتے ہوئے دیکھتا رہتا ہے۔ اس کی بیوی پیچھے مڑمڑ کر اس کی طرف دیکھتی ہے مگر کچھ نہیں کرسکتی۔

یہ حضرت ابو سلمہؓ ہیں جنہیں قبول اسلام کے بعد طرح طرح کے دکھ دیے گئے ہیں اور اب تو انہیں شہر چھوڑ دینے کی پاداش میں بیوی اور بچوں سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔

ابو سلمہؓ حیران کھڑے ہیں۔ آگے جانا مشکل ہو گیا ہے اور واپس لوٹنا انہیں گوارا نہیں ہے۔ اپنے بیوی بچے کے بغیر آخر کس طرح چلے  جائیں اور واپس لوٹ کر اس جہنم میں کیسے ٹھہر جائیں۔

حضرت ام سلمہؓ بنی مغیرہ کی بیٹی ہیں۔ انہیں اس جوڑے کے مسلمان ہو جانے کا بہت قلق ہے اور اس کا بدلہ یوں لے رہے ہیں کہ اپنی مسلمان لڑکی کو اس کے مسلمان شوہر کے ساتھ جانے سےروک لیا ہے۔ اگرچہ یہ نظارہ ابوسلمہؓ کے خاندان بنی عبدالاسد کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ لکین ان کی سوچ کا دھارا بھی بنی مغیرہ کی طرح غلط سمت کی طرف بہہ رہا ہے۔ انہوں نے ابو سلمہؓ کی حمایت میں تکرار کرنے کی بجائے آگے بڑھ کر کہا ’’تم جب ہمارے آدمی سے اپنی لڑکی چھین کرلے جا رہے ہو تو ہم اپنے لڑکے مسلمہؓ کو اس کے پاس کیوں چھوڑ دیں‘‘۔ اور ساتھ ہی بچے کو ام سلمہؓ سے زبردستی چھین لیا ایک مظلوم عورت سے کفار کا یہ سلوک تھا۔

ماں سے اس کا بچہ چھینا جارہا ہے، آنکھوں سے نور جدا کیا جارہا ہے۔ دل سے سرور کو الگ کیا جارہا ہے، باپ کھڑا رورہا ہے ماں چیخ وپکار کررہی ہے لکین رسم ورواج کے بندے اور جاہلی تعصب کے غلام چھینا جھپٹی میں مصروف ہیں۔ بچے کا ہاتھ اترگیا ہے لیکن بنی عبدالاسد اسے لے کر چل دیئے ہیں ان پر بچے کا رونا بےاثر ہے۔

بنی مغیرہ نے اپنی بیٹی ام سلمہ کو مکان میں بند کر دیا ہے۔ ام سلمہؓ مدینے چلے گئے ہیں ننھا سلمہ بنی عبدالاسد کی تحویل میں ہے اور یوں ابو سلمہؓ کا چھوٹا سا خاندان ایک مرکز سے بکھر کر مثلث میں تبدیل ہوگیا ہے۔ تینوں اپنی اپنی جگہ بے چین ہیں پھر ایک مرکز پر جمع ہونے کے لئے بے قرار ہیں لیکن اسکی کوئی صورت نظر نہیں آتی شوہر اور بچے سے جدا ہوئے ام سلمہ کو ایک سال کا عرصہ گزرگیا ہے۔ وہ روزانہ گھر سے نکل کر شہر سے دور مقام البطح میں جا بیٹھتی ہیں اور کافی دن گئے تک اپنے شوہر اور بچے کی یاد میں روتی رہتی ہیں۔ بنی مغیرہ نے ان پر سختیاں بھی کی ہیں، لالچ بھی دیئے ہیں لیکن ابو سلمہؓ کی محبت سب پر غالب آتی رہی ہے۔

آج بھی ام سلمہؓ حسب معمول البطح بیھٹی اپنے شوہر اور بچے کی یاد میں محو گر یہ ہیں اتنے میں بنی مغیرہ میں ان کا چچازاد رشتہ دار ادھر آ نکلتا ہے۔ وہ انہیں ہر روز یہاں روتے ہوئے دیکھا کرتا تھا۔آج بھی انہیں یہیں روتے ہوئے پایا ہے۔ دل پہ ایک تیرسا لگ گیا ہے۔’’آہ اس بیچاری پر اتنا ظلم‘‘۔

آخر اسے کیوں روکا گیا ہے۔

اس نے ام سلمہؓ سے کچھ نہیں کہا لیکن دلی ہمدردی کا ایک طوفان اسے ام سلمہؓ کے وارثوں کے پاس لے گیا اور اس نے بڑے درد مندانہ لہجہ میں کہا۔

’’اس مظلوم کو کیوں نہیں جانے دیتے۔ تم نے اسے اس کے شوہر سے بھی جدا کردیا اور بچے سے بھی۔

اس کے لہجے میں اس قدر درد تھا کہ ام سلمہؓ کے وارث بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور انہوں نے کہا ام سلمہؓ اگر تو اپنے شوہر کے پاس جانا چاہتی ہے تو چلی جا‘‘۔

ام سلمہؓ کی امیدوں کے چراغ جل اٹھے۔ اجڑے ہوئے باغ میں بہار آگئی۔ انہیں ایک نئی زندگی کی بشارت مل گئی لیکن اس کے باوجود ان کے دل کی کلی نہ کھل سکی۔ ان کا لاڈلہ مسلمہ ’’ابھی ان سے دور ہے‘‘ وہ کب آغوش میں آئے گا۔ اس خیال سے تلملا اٹھتی ہیں’’مجھے میرا بچہ واپس دلاؤ‘‘ یہ ان کی دردمند دانہ التجا تھی۔

بنی مغیرہ نے جب بنی عبدالاسد کو یہ بتایا کہ ہم نے ام سلمہؓ کو اپنے شوہر کے پاس جانے کی اجازت دے دی تو انہوں نے بھی سلمہؓ ام سلمہؓ کے آنکھوں کے تارے ابو سلمہؓ کے دل کی ٹھنڈک کو ان کے حوالے کر دیا۔ اب سلمہؓ کے لئے مکہ میں ایک لحمے کے لئے بھی ٹھہرنا مشکل ہوگیا ہے۔ انہوں نے کسی کا سہارا ڈھونڈنے کی بجائے اللہ کی حفاظت کا دامن تھام لیا اوراپنے بچوں کو لیے ہوئے اکیلی ہی اونٹ پر سوار ہوکرمدینے کی طرف روانہ ہوگئیں۔

تنعیم کے قریب بنی عبدالدار عثمان بن ابی طلحہ نے ایک عورت کو یکہ وتہنا چھوٹے بچے کو گود میں لئے ہوئے اونٹ پر سوار آتے دیکھا تو ٹھٹک کر رہ گئے۔ بغور دیکھا تو جانی پہچانی سی صورت معلوم ہوئی۔ قریب پہنچی تو پوچھا:’’ابو امیہ کی بیٹی کدھر جارہی ہو؟‘‘ ام سلمہؓ نے جواب دیا’’میں اپنے شوہر کے پاس مدینہ جارہی ہوں‘‘۔

عثمان ’’ تمہارے ساتھ کوئی ہے ؟‘‘

ام سلمہؓ میں اللہ کی حفاظت میں نکلی ہوں۔ بس میرے بچے اور اس کے سوا کوئی دوسرا میرے ساتھ نہیں ہے ۔‘‘

عثمان( ایک عورت کا یہ جذبہ دیکھ کر) خدا کی قسم میں تمہیں اکیلا نہیں جانے دوں گا۔

اللہ کی مدد پہنچ گئی ہے بے سہارا کو سہارا مل گیا ہے اورعثمان جو مسلمانوں کے سخت دشمن ہیں۔ اب ایک مسلمان عورت کے اونٹ کی نکیل تھامے آگے آگے چلے جارہے ہیں۔

اللہ کی مدد اس طرح اس کے چاہنے والوں کو ملا کرتی ہے صرف یقین محکم کی ضرورت ہے۔ ام سلمہؓ فرماتی ہیں۔

واللہ میں نے ان (عثمان ) سے زیادہ شریف آدمی نہیں دیکھا۔ جب وہ کسی منزل پر پہنچتے تو میرے اونٹ کو بٹھا کر الگ ہٹ جاتے۔ میں بچے کو لے کر جب اتر جاتی تو وہ اونٹ کو کسی درخت سے باندھ دیتے اور مجھ سے دور کسی درخت کے نیچے جا بیٹھتے۔ پھر جب چلنے کا وقت آتا تو وہ اونٹ کو لا کر بٹھاتے اور الگ ہٹ کر کھٹرے ہوجاتے اور مجھ سے کہتے سوار ہوجاؤ۔ میرے سوار ہونے کے بعد وہ اونٹ کی نکیل تھام کر روانہ ہوجاتے۔ مدینہ تک سارا راستہ انہوں نے اسی طرح طے کیا اور جب قبا میں بنی عوف کی بستی نظر آئی تو مجھ سے کہا:

’’تمہارے شوہر وہاں ہیں ان کے پاس جلی جاؤ اللہ تمہں برکت دے‘‘۔

اس کے بعد جس طرح پیدل آئے تھے اسی طرح پیدل مکہ واپس چلے گئے۔

قبا پہنچیں تو لوگ ان کا حال پوچھتے تھے اور جب یہ اپنے باپ کا نام بتاتیں تو لوگوں کو یقین نہیں آتا تھا۔( یہ جرات ان کے تنہا سفر کرنے پر تھی شرفاء کی عورتیں اس طرح  باہر نکلنے کی جرات نہیں کرتی تھیں) اور حضرت ام سلمہؓ مجبوراََ خاموش ہوتی تھیں۔ لیکن جب کچھ لوگ حج کے ارادے سے مکہ روانہ ہوئے اور انہوں نے اپنے گھر رقعہ بھجوایا تو اس وقت لوگوں کو یقین ہوا کہ وہ واقعی ابو امیہ چونکہ قریش کے نہایت مشہور اور معزز شخص تھے۔ اس لیے حضرت ام سلمہؓ بڑی وقعت کی نگاہ سے دیکھی گئیں۔

بیوگی: حضرت ابوسلمہ ؓ بڑے شجاع اور جنگجو تھے۔ وہ بدر میں اپنی شجاعت کے جوہر دکھا چکے تھے۔ جنگ احد میں بھی شامل ہوئے اور بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے۔ سخت زخمی ہوئے۔ یہ زخم جمادی الثانی ۴ھؔ میں پھٹ گیا اوراسی صدمہ سے فوت ہوگئے۔

نکاح ثانی۔

جب حضور حضرت سلمہؓ کی تعزیت کے لیے حضرت ام سلمہؓ کے پاس تشریف لے گئے توآپؓ نے انہیں تلقین کی کہ ’’اے ام سلمہؓ ابوسلمہ ؓ کے حق میں دعا خیر مانگو اور اللہ سے دعا کرو کہ وہ تمہیں ابو سلمہ ؓ سے بہتر جانشین دے۔‘‘

حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ جب ابو سلمہؓ نے وفات پائی تو میں نے وہ حدیث یاد کی جس کو وہ مجھ سے بیان کیا کرتے تھے اور میں نے دعا شروع کی تو جب میں یہ کہنا چاہتی کہ خداوند مجھے ابوسلمہ ؓسے بہتر جانشین دے تو دل کہتا کہ ابو سلمہ ؓ سے بہتر کون مل سکتا ہے لیکن میں نے دعا کو پڑھنا شروع کیا تو ابو سلمہؓ کے جانشین آنحضرت ہوئے۔

 آپ کی فراست:

ایک دفعہ حضور سے عرض کیا ’’یا رسول اللہ اس کی کیا وجہ ہے کہ ہمارا ذکر قرآن میں نہیں ہے۔ حضور آپؓ کی  یہ بات سن کر منبر پرتشریف لے گئے اور یہ آیت پڑھی:

ان المسلمین والمسلمات والمومنین والمومنات:

وفات:

آپؓ نے ۴۳ھؔ میں وفات پائی اس وقت آپؓ کی عمر اسّی سال تھی۔ نماز جنازہ حضرت ابوہریرہؓ نے پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔ امہات المومنین میں آپؓ سب سے آخر میں فوت ہوئیں۔

اخلاق و فضائل:

ایک دفعہ آپؓ نے ایک ایسا ہار پہن لیا جس میں کچھ سونا بھی شامل تھا۔ لیکن حضور نے اسے دیکھ کر ناپسند فریایا تو آپ ؓ  نے اسے فوراََ اتار دیا اور بعض روایات کے مطابق توڑ ڈالا۔

مسند احمد بن حنب ؒ میں روایات ہے کہ ۶۱ھؔ  میں جس دن امام حسین ؓ نے کربلا میں شہادت پائی حضرت ام سلمہ ؓ نے خوا ب میں دیکھا کہ حضور تشریف لائے ہیں۔ سر اور ریش مبارک غبار آلود ہے اور بہت مغموم ہیں۔ حضرت ام سلمہؓ نے پوچھا ’’یا رسول اللہ کیا حال ہے؟ فرمایا ’’حسینؓ کے مقتل سے آرہا ہوں‘‘۔

حضرت ام سلمہؓ کی آنکھ کھل گئی بے اختیار رونے لگیں اور بلند آواز سے فرمایا ’’عراقیوں نے حسینؓ کو قتل کردیا خدا انہیں قتل کرے انہوں نے حسین ؓ سے دعا کی خدا ان پر لعنت کرے‘‘۔

اللہ نے آپؓ کو ظاہری اور باطنی جمال سے نوازا تھا۔ علم، ذہانت اور پختہ رائے کی نعمتیں ارزاں فرمائی تھیں۔

منازل عمر:

۱۔ آپؓ کا نکاح حضورسے۴ھ میں ہوا۔

۲۔ آپؓ سے نکاح کے وقت حضور کی عمر ۵۶ سال تھی۔

۳۔ حضورسے نکاح کے وقت آپؓ کی عمر  ۲۶سال تھی۔

۴۔ حضور سے آپؓ کی رفاقت ۷ سال رہی ۔

۵۔ وفات کے وقت آپؓ کی عمر۸۴ھ؎ سال تھی۔

۶۔ آپؓ کی وفات ۶۳ھ؎ سال تھی۔

۷۔ آپؓ کی قبرمدینہ شریف میں جنت البقیع میں ہیں۔

آپؓ پر لاکھوں سلام ہوں !!