نام و نسب:
آپ کا نام ’’رملہ‘‘ اور ام حبیبہ کنیت تھی، ابو سفیان بن حرب اموی قریش کے مشہور سردار کی بیٹی تھین، رملہ بنت ابی سفیان صخر بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف۔
والدہ کا نام صفیہ بنت ابی العاص بن امیہ تھا۔صفیہ سیدیا عنان ذوالنورینؓ کی پھوپھی تھیں۔
حضرت ام حبیبہؓ رسول اللہﷺ کی بعثت سے ۱۷ سال پہلے پیدا ہوئیں۔
اسلام:
سیدہ ام حبیبہؓ کا پہلا نکاح عبید اللہ بن حجش سے ہوا جو حرب بن امیہ کے حلیف تھے اور ان ہی کے ساتھ مشرف بہ اسلام ہوئیں اور اپنے شوہر کے ہمراہ حبش کو ہجرت کی،حبش جانے کے بعد عبید اللہ نے عیسائی مذہب اختیار کرلیا۔ ام حبیبہؓ سے بھی مذہب تبدیل کرنے کو کہا لیکن وہ اسلام پر قائم رہیں۔
حبشہ میں ان کے ہاں ایک لڑکی پیدا ہوئی، جس کا نام حبیبہ رکھا اور اسی کے نام پر ’’ام حبیبہ‘‘ رکنیت رکھی گئی اور پھر اسی کنیت سے مشہور ہوئیں بعض کے نزدیک حبیبہ کی ولادت مکہ مکرمہ میں ہوئی تھی۔ بعد میں حبیبہ کا نکاح داود بن عمر و بن مسعود ثقفی سے ہوا تھا۔
حریم نبوت میں آمد:
ام المومنین سیدہ ام حبیبہؓ بیان کرتی ہیں عبید اللہ بن حجش کے انتقال کے بعد میں نے خواب میں دیکھا کہ کئی شخص ’’یا ام المومنین‘‘ کہہ کر پکار رہا ہے۔جس سے میں چونک گئی پھر یکایک اس کی تعبیر دل میں آئی کہ رسول اللہﷺ کے حرم میں آنے کا اشارہ ہے،سیدہ ام حبیبہؓ کہتی ہیں جب میری عدت ختم ہوئی تو حضور انورﷺ کا پیغام پہنچا۔
ادھر جب حضورانورﷺ کو اس مہاجرت کے عالم میں سیدہ ام حبیبہؓ کے بیوہ ہونے کی اطلاع ملی توآپﷺ نے ان کے عدت کے دن پورے ہونے پر عمر و بن امیہ ضمری کو نجاشی شاہ حبشہ کے پاس اس غرض سے بھیجا کہ وہ حضور اکرمﷺ کی طرف سے سیدہ ام حبیبہؓ کو نکاح کا پیغام دے۔
ابو سفیان کا اعتراف شکست:
ام المومنین سیدہ ام حبیبہؓ جب حریم نبوت میں داخل ہوئیں تو اس زمانہ میں ان کے والد ابو سفیان حالت شرک میں تھے اور رحمت عالمﷺ سے برسر پیکار تھے ان کو بیٹی کے نکاح کی خبر پہنچی تو اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار ان الفاظ میں کیا:
’’وہ جواں مرد ہیں، ان کی ناک نہیں کاٹی جا سکتی‘‘۔
یعنی محمدﷺ بلند نام والے عزت دار ہیں ہم ان کو ذلیل نہیں کرسکتے۔
ادھر ہم ان سے لڑ رہے ہیں اور ادھر ہماری بیٹی ان کے نکاح میں چلی گئی گویا اپنی شکست تسلیم کرلی۔
فضائل و مناقب:
ام المومنین سیدہ ام حبیبہؓ حضور انورﷺ کے فرمودات پر بڑی پابندی سے عمل کرتی تھیں ایک مرتبی رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص دن رات میں بارہ رکعات نماز پڑھ لے تو اللہ جل شانہ اس کے لئے جنت میں محل عطا فرمائے گا اس ارشاد پر بھی اس طرح عمل کہ کبھی بھی بارہ رکعت نوافل چھوٹنے نہیں پائے۔
ترمذی شریف کی روایت کے مطابق ان بارہ رکعات کی تفصیل اس طرح ہے:
چار سنت ظہر سے پہلے، دو اس کے بعد، دو سنت مغرب کے بعد، دو نماز عشاء کے بعد اور دو رکعت نماز فجر سے پہلے۔
سانحہ ارتحال:
علامہ ابن عبدالبرا لمتوفی ۴۶۳ھ لکھتے ہیں:
سیدہ ام حبیبہ کا انتقال ۴۴ھ میں ہوا۔ علامہ ابن سعد نے بھی ۴۴ھ ہی بیان کیا ہے اور مزید تصریح یہ کی ہے کہ اپنے بھائی معاویہؓ کے عہدِ خلافت میں انتقال ہوا ہے۔یہی قول علامہ ابن کثیر کا ہے۔
البتہ ابو بکر بن ابی خمیشہ کہتے ہیں کہ سیدہ کا انتقال اپنے بھائی معاویہؓ سے ایک سال قبل ہوا جب کہ معاویہؓ کا ۶۰ھ میں انتقال ہوا تھا۔
ام المومنین سیدہ ام حبیبہؓ کاانتقال مدینہ منورہ میں ہوا اور جنت البقیع میں آسودہ خواب ہوئیں۔
اولاد:
پہلے شوہر عبید اللہ بن حجش سے دو اولادیں ہوئیں، بیٹا عبد اللہ اور بیٹی کانام حبیبہ تھا۔حبیبہؓ سے آغوش نبوت میں تربیت پائی اور عروہ بن مسعود ثقفی قبیلہ ثقیف کے رئیس اعظم کے بیٹے داؤد سے منسوب ہوئیں۔