نام: اصلی نام برہ تھا حضور ﷺکے نکاح میں آنے کے بعد میمونہ رکھا تھا۔
نسبت: میمونہؓ حارث بن حزن بن بجیربن ہزم بن رویہ بن عبداللہ بن ہلال آپؓ کی والدہ کا نام ہند تھا۔ وہ ہند بنت عوف بن زہیر بن حارث ہیں جو قبیلہ حمیر سے تعلق رکھتی تھیں۔
پہلا نکاح: آپؓ کا پہلا نکاح مسعود بن عمر و بن عمیر ثقفی سے ہوا مگر انہوں نے کسی وجہ سے طلاق دے دی۔
دوسرا نکاح: آپؓ کا دوسرا نکاح ابور ہم بن عبدالعزیٰ سے ہوا مگر۷ھ میں انہوں نے وفات پائی اور حضرت میمونہؓ بیوہ ہو گئیں۔
تیسرا نکاح: آپؓ کا تیسرا نکاح حضور ﷺ سے ۷ھ میں ہوا ۔آپﷺ عمرۃ القضا کے لیے تشریف لا ئے ہیں۔ حضورﷺ کے عم محترم حضرت عباسؓ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور ایک مشورہ پیش کرتے ہیں۔
’’آپﷺ کی چچی اور میری اہلیہ ام الفضلؓ کی حقیقی بہن میمونہؓ جو بیوہ ہو چکی ہیں اور بے سہارا ہیں‘ آپﷺ ان سے نکاح کرلیں تا کہ ان کی پریشانیاں دور ہوں۔
اپنے محترم چچا کی اس تحریک پر آپﷺ نے حضرت میمونہؓ سے حالت احرام میں ہی شوال ۷ھ میں پانچ سو درہم مہر پر نکاح کر لیا۔ لیکن حضرت میمونہؓ اپنے ہی گھر میں رہیں۔ معاہدہ حدیبیہ کی رو سے جب تین دن پورے ہو گئے اور چوتھے دن کا آغاز ہوا تو قریش کے دو معتبرآدمی سہیل بن عمرو اور حویطب بن العزیٰ حضور ﷺ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے جب کہ آپﷺ انصار کے درمیان تشریف فرما تھے۔سہیل نے آتے ہی کہا: ’’یامحمد ﷺ معاہدے کے مطابق تین دن پورے ہوچکے ہیں۔ اس لیے اب میری زمین سے نکل جاؤ ۔ حضرت سعدؓ بن عبادہ کے لیے یہ انداز تخاطب سخت ناگوار تھا اس لیے طیش میں آکر بولے ’’یہ زمین نہ تیری ہے نہ تیرے باپ کی‘ ہم ہرگز نہیں نکلیں گے ۔‘‘
حضور ﷺ نے جب فضا کو یوں مکدر ہو تے دیکھا تو سہیل سے مخاطب ہو کر بڑے پر لطف انداز میں فرمایا :’’دیکھو یہاں ہم نے نکاح کیا ہے، اگر یہاں کھانا پک جائے تو کیا حرج ہے۔ ہم بھی کھائیں اور تم بھی اس میں شریک ہو جاؤ لیکن سہیل اپنی بات پر اڑ گیا اور بڑی ترش روئی سے بولا ’’ہمیں تمہارے کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس تم لوگ فوراََ یہاں سے چلے جاؤ‘‘۔
حضورﷺ نے ان لوگوں سے زیادہ گفتگو کرنا مناسب خیال نہ کرتے ہوئے اپنے صحابہؓ کو فوری کوچ کا حکم صادر فرمایا اور مکہ سے مدینہ کی طرف دس میل سفر کرنے کے بعد سرف کے مقام پر پڑاؤ کیا اور اس وقت تک قیام فرمایا جب آپﷺ کے غلام ابو را فعؓ مکہ سے حضرت میمونہؓ کو ساتھ لے کر اسی جگہ پہنچ گئے چنانچہ رسم عروسی بمقام سرف ادا ہوئی۔
یہ حضورﷺ کا آخری نکاح تھا اور حضرت میمونہؓ نبی اکرم ﷺ کی آخری زوجہ محترمہ تھیں۔ کیونکہ اس کے بعد حضورﷺ نے اپنی وفات تک کوئی دوسرا نکاح نہیں کیا۔
اخلاق و فضائل:
۱۔ ابن سعد کی روایت ہے کہ آپؓ کثرت سے مسواک کرنے والی تھیں۔
۲۔ حضورﷺ نے فرمایا ’’تینوں بہنیں میمونہؓ ، ام الفضلؓ اور اسماءؓ مومنہ ہیں‘‘۔
۳۔ آپؓ سے ۷۶ اور بعض روایات کے مطابق ۴۶ حدیثیں مروی ہیں۔
۴۔ آپؓ بہت خدا ترس اور پرہیزگار تھیں۔
۵۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: میمونہؓ ہم سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والی اور صلہ رحمی کا خیال رکھنے والی تھیں۔
۶۔ آپؓ کو غلام آزاد کرنے کا بہت شوق تھا ۔ایک دفعہ ایک لونڈی کو آزاد کیا تو حضور ﷺ نے فرمایا ’’اللہ تم کو اس کا اجر دے‘‘۔
۷۔ آپؓ کبھی کبھی قرض لیتی تھیں کیونکہ آپؓ فیاض تھیں اور کثرت سے خیرات کرتی تھیں۔ ایک بار زیادہ رقم قرض لی تو کسی نے کہا آپ اس کو کس طرح ادا کریں گی‘ فرما یا ’’حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص ادا کرنے کی نیت رکھتا ہے، خدا خود اس کا قرض ادا کردیتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ قرض ادا کرنے کے اسباب مہیا کردیتا ہے۔
۸۔ ایک دفعہ آپؓ کا کوئی رشتہ دار آپؓ کے گھر میں اس حالت میں داخل ہوا کہ اس کے منہ سے شراب کی بو آرہی تھی۔ آپؓ سخت غصے میں آگئیں اور فرمایا ’’آئندہ کبھی میرے گھر میں قدم نہ رکھنا ۔‘‘
۹۔ ایک عورت بیمار ہو گئی جب حالت زیادہ خراب ہوئی تو اس نے منت مانی کہ اگر شفایاب ہوگئی تو بیت المقدس میں جا کر نماز پڑھوں گی۔ خدا کی شان وہ تندرست ہوگئی اور بیت المقدس جانے کی تیاری کرنے لگی۔ جب آپؓ کو اس کی خبر ملی اور وہ آپؓ سے ملنے کے لیے آئی تو آپؓ نے اسے سمجھایا کہ تم یہیں رہو اور مسجد نبویﷺ میں نماز پڑھ لو کیونکہ یہاں نماز پڑھنے کا ثواب دوسری مسجدوں میں پڑھنے کے ثواب سے ہزار گنا زیا دہ ہے۔ اور اللہ کو بیت المقدس سے مسجد نبوی ﷺ زیادہ محبوب ہے۔
۱۰۔ ایک دن حضرت عبداللہ عباس جو آپؓ کے بھانجے تھے آپؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے لیکن ان کے سر کے بال پر اگندہ تھے۔ آپؓ نے ان سے پوچھا بیٹے یہ کیا حال ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میری بیوی ایام کی حالت میں ہے وہی میرے سر پر گنگھا کرتی تھی لیکن اب ان سے کام لینا مناسب نہیں سمجھتا۔ آپؓ نے فرمایا ’’بیٹا حضورﷺ ہماری گود میں سر رکھ کرلیٹتے تھے۔ اور قرآن پڑھتے تھے۔اور ہم اسی حالت میں ہوتی تھیں۔ اس طرح چٹائی اٹھا کر مسجد میں رکھ آتے تھے۔ پھر سمجھایا کہ عورتیں اس حالت میں ہوں تو ان کے چھونے سے کوئی چیز نا پاک نہیں ہو جاتی۔
۱۱۔ ایک دفعہ آپؓ کی کنیز حضرت عبداللہ ابن عباسی کے گھر گئی تو دیکھا کہ میاں بیوی کے بچھونے دور دور بچھے ہوئے ہیں۔ خیال ہوا کہ شاید کچھ رنجش ہوگئی ہے۔لیکن دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ابن عباسؓ اپنی بیوی کے ایام کے زمانہ میں اپنا بستر ان سے الگ کر لیتے ہیں۔ اس نے آکر حضرت میمونہؓ کو یہ بات بتائی تو فرمایا ’’ان سے جا کر کہو رسول اللہﷺکے طریقے سے کیوں اعتراض (کنارہ کشی) کرتے ہو کیونکہ آپ ﷺ برابر ہم لوگوں کے بچھونے پر آرام فرماتے تھے ۔‘‘
وفات: یہ عجیب اتفاق ہے کہ آپؓ کی رسم عروسی بھی ۷ھ میں مکہ سے دس میل مدینہ کی راہ میں سرف کے مقام پر ہوئی تھی اور وفات بھی ۵۱ھ میں اسی جگہ ہوئی اور یہیں آپؓ کو دفن کیاگیا۔ جب جنازہ اٹھایا گیا تو حضرت عبداللہ ابن عباسیؓ نے فرمایا’’جنازہ کو زیادہ حرکت نہ دو یہ رسول ﷺکی زوجہ محترمہ ہیں اس لیے با ادب آہستہ آہستہ لے کر چلو۔
حضرت عبداللہ ابن عباسؓ نے آپؓ کی نماز جنازہ پڑھائی اور قبر میں اتارا۔
منازل عمر:
۱۔ آپؓ کا نکاح حضورﷺ سے ۷ھ میں ہوا ۔
۲۔ آپؓ سے نکاح کے وقت حضورﷺ کی عمر ۵۹ سال تھی۔
۳۔ حضورﷺ سے نکاح کے وقت آپؓ کی عمر ۳۶ سال تھی۔
۴۔ حضورﷺ سے آپؓ کی رفاقت کا زمانہ سوا تین سال ہے۔
۵۔ وفا ت کے وقت آپؓ کی عمر ۸۰ سال تھی۔
۶۔ آپؓ کی وفا ت ۵۱ھ میں ہوئی ۔
۷۔ آپؓ کی قبر مقام سرف پر ہے۔
آپؓ پر لاکھوں سلام ہوں۔