March 28th, 2024 (1445رمضان18)

ام المومنین حضرت جویریہؓ

نام: برہ، لیکن حضور نے نکاح کے بعد اسے بدل کر جویریہؓ رکھ دیا تھا۔

نسب: برہ بنت حارث بن ابی ضرار بن حبیب بن عائذ بن مالک بن جذیمہ۔

خاندان: آپؓ قبیلہ خزاعہ کے خاندان مصطلق سے تھیں۔ آپؓ کے والد حارث بنو مصطلق کے سردار تھے۔

پہلا نکاح: آپؓ کا پہلا نکاح اپنے چچازاد بھائی مسافع بن صفوان سے ہوا تھا جو غزوہ مریسمیع میں مسلمانوں سے لڑتا ہوا مارا گیا تھا۔

غلامی: مدینہ سے چھیانویں میل دور مقام فرع سے دس میل فاصلہ پر مریسمیع کے چشمہ کے پاس بنو خزاعہ کے قبیلہ بنوالمصطلق کا سردار حارث بن ابی ضرار بڑے جوش کے عالم میں ایک ہجوم سے کہہ رہا ہے۔

’’محمد ہر روز بڑھتی ہوئی طاقت کا اگر ابھی سے قلع قمع نہ کیا گیا تو وہ دن دور نہیں جب ہمارا جینا حرام ہو جائے گا۔ قریش مکہ بھی احد کی جنگ میں مسلمانوں پر بھرپور وار نہ کر سکے تھے۔ اس لیے مسلمانوں کی طاقت متواتر بڑھتی جا رہی ہے اور اب قریش نے بھی امداد کا وعدہ کیا ہے تا کہ ہم مدینہ پر یکبارگی حملہ کر کے انکا خاتمہ کر سکیں۔ یاد رکھو مسلمان ہم سب کے لیے خطرہ ہیں ۔‘‘

ہجوم میں سے کئی آوازیں آئیں ’’ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘۔حارث نے اپنا سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’ تم سب اپنے اپنے خاندانوں کے سربراہ اور بہادر ہو کیا تم پسند کر لو گے کہ مسلمان ہو جاؤ یا غلامی کی ذلت اختیار کرو‘‘۔

’’ہر گز نہیں، ہر گز نہیں‘‘ بہت سے آدمی جوش کے عالم میں اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا ’’ ہم اپنے اپنے جنگجو اور آزمودہ کار ساتھیوں کو لے کر دس دن کے اندر اندر مریسیہ پہنچ جائیں گے۔ تم مطمئن رہو۔ پھر ہم سب تمہارے جھنڈے تلے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مسلمانوں کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔

حضور کو حارث کی جنگ کی تیاریوں کا علم ہوا تو زیدؓ بن حارثہ کو مدینہ میں اپنا قائم مقام بنا کر ۲شعبا ن ۵ھ؂ کو مدینہ سے روانہ ہوئے۔ آپ کے ہمراہ اس دفعہ بہت سے منافقین بھی شامل تھے۔ انہیں یقین تھا کہ کامیاب ہو گے اور مال غنیمت بہت ملے گا۔

امہات المومنین میں سے حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سلمہؓ بھی آپؓ کے ہمراہ تھیں۔ آپ اپنے جان نثاروں کے ساتھ بڑی تیزی سے قدید کی راہ سے ہوتے ہوئے مریسیہ کے قریب پہنچ کر مجاہدین کی صف بندی فرماتے ہیں۔ اور مہاجرین کا علم حضرت ابوبکرؓ کو اور انصار کا جھنڈا حضرت سعدؓ  بن عبادہ کو عطا فرما تے ہیں اور اس کے بعد آگے بڑھ کر مشرکین پر اس قدر اچانک اور زور دار حملہ کرتے ہیں کہ انہیں سنبھلنے یا پلٹنے کا موقع ہی نہیں ملتا، اور بہت سے قبائل میدان سے بھاگ نکلتے ہیں۔ خود حارث بن ضرار بھی راہ فرار اختیار کرتا ہے جو تھوڑے بہت مسلمانوں کے مقابلے پر آئے وہ جلد ہی دس لاشیں چھوڑ کر پسپا ہوئے۔ باقی ساتھ سو آدمی گرفتار کر لیے گئے اور یوں اسلام کی راہ میں چٹان بن جانے کا عزم رکھنے والے تھوڑی سی دیر میں خش و خاشاک کی طرح بے وقعت ہو کر رہ گئے۔ ان قیدیوں میں خود حارث کی بیٹی برہ بھی شامل تھیں جن کا خاوند سافع بن صفوان اس جنگ میں قتل ہو چکا تھا۔

مکاتبت اور آزادی:

جب قیدیوں کو تقسیم کیا گیا تو برہ بنت حارث حضرت ثابت ۱ؔ بن قیس بن شماس کے حصہ میں آئیں اور انہوں نے اپنے آقا سے آزادی کے لیے ۱۹ اوقیہ سونے پرمکاتبت ۲؂ کرلی اور رقم حاصل کرنے کے لیے دوسرے ہی روز حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا:

’’یا رسول اللہ میں سردار قوم ۔۔۔۔ حا رث بن ضرار کی بیٹی ہوں۔ مجھ پر جو مصیبت آئی ہے وہ آپ سے مخفی نہیں ہے۔ میں نے اپنے آقا سے آزادی حاصل کرنے کے لیے ۱۹ اوقیہ سونے پر معاملہ طے کر لیا ہے پس میری عرض یہ ہے کہ اس رقم کو ادا کرنے میں میری مدد فرما ئیں ۔‘‘

کنیز سے ام المومنین:

حضور ان کی یہ درخواست سن کر ارشاد فرماتے ہیں:

’’اس سے بھی ایک بہتر صورت ہے اگر تم اسے قبو ل کرو ‘‘

برہ: ’’فرما ئیے‘‘۔

حضور ’’میں تمہا ری طرف سے مکاتبت کی پوری رقم ادا کردوں گا۔ اس طرح تم آزاد ہو جاؤ گی اور پھر خود تم سے نکاح کر لوں گا‘‘۔

لشکر اسلام میں جب اس کی خبر پھیلتی ہے کہ حضور نے حضرت جویریہؓ سے عقد فرمایا ہے تو ہر مسلمان اپنے اپنے لونڈی، غلام کو بغیر کسی فدیہ کے یہ کہہ کر خوشی خوشی آزاد کر دیتا ہے کہ اب بنو مصطلق تو حضور کے سسرال ہیں، انہیں کس طرح قید میں رکھا جا سکتا ہے۔ یہ دیکھ کر حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:

’’جویریہؓ کے سوا مجھے کسی ایسی خا تون کا علم نہیں ہے جس سے اس کی قوم کو اتنا فائدہ پہنچا ہو کہ ان کی وجہ سے سینکڑوں گھرانوں کو آزادی نصیب ہوئی‘‘۔

ام المومنین حضرت جویریہؓ کی عمر اس وقت بیس سال تھی۔ ان کی برکت سے بنو مصلطق کے بیشتر افراد کو اسلام قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی اور خود ان کے والد حارثؓ بن ابی ضرار بھی مسلمان ہو گئے۔

نکاح ثانی کے متعلق دوسری روایات:

ابن اثیر کا بیان ہے کہ حضرت جویریہؓ کے والد کو خبر ملی کہ ان کی بیٹی لونڈی بنا لی گئی ہے۔ تو وہ بہت سا مال و اسباب اونٹوں پر لاد کر بیٹی کی رہائی کے لیے عازم مدینہ ہوئے۔ راستہ میں دو اونٹ جو انہیں پسند تھے عقیق کے مقام پر کسی گھاٹی میں چھپا دیئے اور باقی اونٹ اور مال واسباب لے کر مدینے پہنچے۔ پھر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی:

’’آپ میری بیٹی کو قید کر لائے ہیں۔ یہ تمام مال و اسباب لے لیں اور اسے رہا کر دیں ۔‘‘

باہمی محبت:

ایک دن حضور آپؓ کے گھر تشریف لائے صبح کا وقت تھا۔ آپؓ عبادت میں مصروف تھیں جب دوپہر کو وہاں سے گزرے تو دیکھا کہ آپ ابھی تک مصلے پر بیٹھی ہوئی عبادت کر رہی تھیں۔ حضور نے دریافت فرمایا کہ اس وقت سے یہاں بیٹھی ہو۔ کیا تم اس طرح سے عبادت کرتی رہتی ہو۔ جوا ب دیا: بے شک یا رسول اللہ !

ایک مرتبہ حضرت جویریہؓ جمعہ کے دن روزے سے تھیں۔ حضور نے دریافت فرمایا تم کل بھی روزے سے تھیں۔ کیا تمھاری کل بھی روزہ رکھنے کی نیت ہے؟ کہا: نہیں۔ فرمایا: تو پھر افطار کرو۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے صرف جمعہ کے روزہ رکھنے کو پسند نہیں فرمایا۔

آپؓ بہت عابدہ اور زاہدہ تھیں۔

آپؓ سے سات حدیثیں مروی ہیں۔

وفات:

آپؓ نے ۵۰ ھ میں وفات پائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔ آپؓ کی عمر ۶۵ سال تھی۔

منازل عمر:

۱۔ آپؓ کا نکاح حضور سے ۵ ھ میں ہوا۔

۲۔ آپؓ سے نکاح کے وقت حضور کی عمر ۵۷ سال تھی۔

۳۔ حضور سے نکاح کے وقت آپؓ کی عمر ۲۰ سال تھی۔

۴۔ وفات کے وقت آپؓ کی عمر ۶۵سال تھی۔

۵۔ آپؓ کی وفات ۵۰ ہجری میں ہوئی۔

۶۔ آپؓ کی قبر مدینہ شریف میں جنت البقیع میں ہے۔

آپؓ پر لاکھوں سلام ہوں !!