حضرت خدیجہؓ کی ولادت عام الفیل سے پندرہ سال پہلے مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ سیدہ خدیجہؓ کے والد خویلد مکہ مکرمہ کے معروف اور امیر تاجروں میں سے تھے۔ان کی والدہ کا نام فاطمہ بنتِ زائدہ تھا۔ مکہ کے عام گھرانوں کے مقابلے میں یہ گھرانہ ہر اعتبار سے معزز اور پاکیزہ تھا۔ حضرت خدیجہؓ جس ماحول میں پیدا ہوئیں اور پلی بڑھیں وہ معاشرہ کفر و شرک سے بھرا پڑا تھا۔ یہ لوگ بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے۔ بچیوں کو زندہ درگور کردیا کرتے تھے۔ لیکن کچھ خاندان ایسے تھے جو ان برائیوں سے متنفر تھے۔ حضرت خدیجہؓ کا گھرانہ ان میں سے ایک تھا۔
حضرت خدیجہؓ ایک سمجھدار اور بہادر خاتون تھیں۔ انھیں دولت اپنے خاندان سے ورثے میں ملی تھی۔ جس کو انھوں نے کاروبار میں لگا رکھا تھا۔ خاتون ہونے کے ناطے وہ خود تو تجارتی قافلوں میں شامل نہ ہو سکتی تھیں مگر وہ بڑے بڑے تاجروں کو مضاربت کے اصولوں پر اپنا مال دیتیں تھیں۔ اس کام کے لئے وہ اچھے، ایماندار اور سمجھدار فرد کی تلاش میں رہتی تھیں جو ان کے لئے کاروبار کرے۔
مکہ میں آپﷺ اپنے حسن خلق اور نیک طبیعت کی وجہ سے صادق اور امین کے نام سے جانے جاتے تھے۔ حضرت خدیجہؓ نے جب پیارے نبیﷺ کے اوصاف کے بارے میں سنا تو آپﷺ کو پیغام بھیجا کہ آپﷺ اگر میرا مالِ تجارت لے کر شام جائیں تو وہ دوسروں کے بہ نسبت دو گنا منافع دیں گی۔ اللہ کے رسولﷺ نے حضرت خدیجہؓ کے اس پیغام کو قبول فرما لیا۔ اس تجارتی سفر میں حضرت خدیجہؓ نے نبیﷺ کے ساتھ اپنا ایک غلام بھی روانہ کر دیا۔ جس کا نام میسرہ تھا۔ یہ سیدہ خدیجہؓ کے تجارتی امور کی دیکھ بھال بھی کیا کرتا تھا۔ یہ اس سفر میں نبیﷺ کی خدمت پر مامور تھا۔ روز و شب یہ نبیﷺ کا مشاہدہ کر رہا تھا۔ جب اللہ کے رسولﷺ شام پہنچے تو ایک درخت کے نیچے آرام کر رہے تھے۔ قریب ہی ایک راہب رہتا تھا جو کم ہی اپنی خانقاہ سے نکلتا تھا۔ نبیﷺ کو دیکھ کر وہ باہر آیا اور میسرہ سے پوچھ گچھ کی میسرہ نے نبیﷺ کے جو اوصاف دیکھے تھے وہ من و عن راہب کو بتا دئیے۔ یہ سن کر راہب نے کہا یہ وہی نبی ہیں جس کی بشارت دی گئی تھی اور اس درخت کے نیچے نبی کے علاوہ کسی نے آرام نہیں کیا۔
اس تجارتی سفر میں نبیﷺ کو دوسروں کی بہ نسبت دو گنا زیادہ منافع ہوا۔ واپس آکر میسرہ نے سفر کی ساری داستان حضرت خدیجہؓ کو سنائی۔ یہ سن کر حضرت خدیجہؓ کے دل میں نبیﷺ کی عزت وعظمت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ انھوں نے نبیﷺ سے شادی کا فیصلہ کر لیا۔ اس کام کے لئے حضر ت خدیجہؓ نے اپنی ایک سہیلی نفیسہ کے ذریعے نبیﷺ کی خدمت میں نکاح کا پیغام بھیجا۔ نبیﷺ نے اس پیغام کو قبول کر لیا۔ شادی کے وقت نبیﷺ کی عمرِ مبارک ۲۵ برس تھی اور حضرت خدیجہؓ کی عمرِ مبارک ۴۰ برس تھی۔ نبیﷺ اورسیدہ خدیجہؓ کی رفاقت تقریباّ ۲۵ برس تک رہی۔ اس عرصے میں نبیﷺ نے کوئی دوسرا نکاح نہیں کیا۔
مکی معاشرے میں ایک ایسے نئے گھر کا اضافہ ہو چکا تھا جو سب سے اعلیٰ اور افضل تھا۔ مال و دولت کی کوئی کمی نہ تھی۔ اس لئے معاشرے کے غریب اور بے بس لوگوں کے لئے ان کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا۔ یتیموں، مسکینوں، بے بسوں، لاچاروں اور بیواؤں کے ساتھ حسن سلوک کیا جاتا۔ رشتہ داروں کے حقوق پورے کئے جاتے۔ غرض کوئی بھی اس در سے نامراد نہ لوٹتا۔
نبیﷺ کی سیدہ خدیجہؓ کے بطن سے چھ اولادیں ہوئیں۔ دو بیٹے قاسم اور عبداللہ جبکہ ۴ بیٹیاں حضرت رقیہؓ، حضرت ام کلثومؓ، حضرت زینبؓ اور حضرت فاطمہؓ ہوئیں۔
پیارے نبیﷺ نبوت سے پہلے مکہ سے دور ایک حرا نامی پہاڑ کے غار میں قیام فرمایا کرتے تھے۔ آپﷺ کچھ کھانے پینے کا سامان لے جاتے اور وہاں دنیا کے کاموں سے دور کائنات پر غور کیا کرتے تھے۔ آپﷺکئی کئی دن وہیں قیام کرتے اس طرح نبیﷺ نے تین سال کا عرصہ خلوت میں گزارا۔ اس دوران حضرت خدیجہؓ ان کو کھانا پہنچایا کرتیں اور گھر کی دیکھ بھال کرتیں۔ ان کا گھر مکہ کا ایک مثالی گھر تھا۔ غارِ حرا میں خلوت نشینی کا تیسرا سال تھا آپﷺ معمول کے مطابق غارِ حرا میں غور و فکر کر رہے تھے کہ حضرت جبرئیلؑ آپﷺ کے پاس پیغامِ حق لے کر آئے اور کہا ’پڑھو‘۔ نبیﷺ نے کہا میں پڑھنا نہیں جانتا۔ یہ سن کر جبرئیل امین نے نبیﷺ کو زور سے بھینچا جس سے نبیﷺ کو بڑی تکلیف ہوئی۔ فرشتے نے پھر کہا۔ پڑھو! نبیﷺ نے پھر فرمایا: میں پڑھنا نہیں جانتا۔ فرشتے نے پھر بھینچا یہاں تک کہ نبیﷺ کو سخت تھکاوٹ ہونے لگی یہ عمل فرشتے نے تین بار کیا اس کے بعد فرشتے نے کہا: ’’پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے انسان کو پیدا کیا۔ اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا۔ پڑھو کہ تمہارا رب ہی سب سے زیادہ کرم کرنے والا ہے۔ جس نے انسان کو قلم کے ذریعے علم سکھایا۔ اس نے انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہیں جانتا تھا‘‘۔
اس وحی کے بعد نبیﷺ پر بڑی گھبراہٹ طاری ہوئی اور آپﷺ گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ گھر پہنچ کر حضرت خدیجہؓ سے کہا مجھے اڑھا دو۔ آپﷺ خوف سے کانپ رہے تھے۔ حضرت خدیجہؓ نے نبیﷺ کو اڑھا دیا۔ کچھ سکون آیا تو نبی ﷺ نے کہا خدیجہ مجھے جان کا خطرہ ہے اور سارا قصّہ حضرت خدیجہؓ کو سنا دیا۔ یہ سن کر حضرت خدیجہؓ نے فرمایا۔ اللہ آپ کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ آپ ﷺ تو سچ بولتے ہیں۔ رشتے جوڑتے ہیں، ناداروں، فقیروں، مسکینوں کو کما کر دیتے ہیں اور مہمان نوازی کرتے ہیں پھر وہ مزید تسلی کے لئے نبیﷺ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ یہ حضرت خدیجہؓ کے رشتہ دار تھے۔ عیسائیت ان کا مذہب تھا وہ نابینا اور ضعیف ہو گئے تھے۔ حضرت خدیجہؓ نے سارا واقعہ ان کو سنا دیا۔ یہ سن کر ورقہ بن نوفل نے کہا۔ یہ ویہی ناموس ہے جو موسیٰؑ اور عیسیٰ ؑ پر نازل ہوا تھا۔ یہ جبرائیل امین ہیں۔ اور نبیﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ یہ قوم تمہیں جھٹلا دے گی اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو میں ضرور تمہاری مدد کروں گا۔ (لیکن کچھ عرصے بعد ہی ورقہ بن نوفل کا انتقال ہو گیا) یہ سن کر نبیﷺ کو بہت حیرانی ہوئی کہ جو قوم انہیں صادق اور امین کہتی ہے وہ انھیں کیسے جھٹلا سکتی ہے لیکن جب نبیﷺ نے کھلے عام دین کی تبلیغ شروع کی تو اہل مکہ نے نبیﷺ پر رکیک حملے شروع کر دیئے۔ آپﷺ کے راستے میں کانٹے بچھاتے اور آپ ﷺ پر پتھر برساتے۔ جب نبیﷺ گھر جاتے تو حضرت خدیجہؓ آپﷺ کے قدموں میں بیٹھ جاتیں گرد و غبار صاف کرتی، زخموں پر مرہم لگاتیں اور آپﷺ کی حوصلہ افزائی کرتیں۔
ایک مرتبہ جبرئیل امین نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے۔ حضرت خدیجہؓ سالن اور کھانا آپﷺ کی خدمت میں لے کر آرہی ہیں۔ جب وہ آجائیں تو انہیں ان کے رب کی طرف سے اور میری طرف سے سلام کہہ دیں اور انہیں جنت میں موتی کے ایک محل کی بشارت دیں جس میں کوئی شور ہوگا اور نہ کوئی تکلیف ہوگی۔ (بخاری)
جب نبیﷺ اہل مکہ کے معاشرتی بائیکاٹ کی وجہ سے شعیب ابی طالب میں محصور ہوگئے توحضرت خدیجہؓ بھی آپﷺ کے ساتھ تھیں اور تمام پریشانیوں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتی رہیں۔ یہ تین سال کا عرصہ مسلمانوں پر بہت بھاری گزرا۔ کھانے کے لئے کچھ نہ ہوتا، بچے بھوک سے بلکتے رہتے، وہ خاندان جو لوگوں کی کفالت کرتا تھا اللہ کی راہ میں تنگدستی کی ذندگی گزار رہا تھا۔ تین سال تک مسلمانوں کا سوشل بائیکاٹ کیا گیا۔ اس کے بعد جب یہ بائیکاٹ ختم ہوا تو حضرت خدیجہؓ اس دارِ فانی سے کوچ کر گئیں۔ نبی ﷺ ان کی قبرِ مبارک میں اترے اور اپنے مبارک ہاتھوں سے سپردِ خاک کیا۔ یہ غم نبیﷺ کے لئے بہت بڑا تھا۔ جس سال ان کا وصال ہوا اس سال کو نبیﷺ نے عام الحزن کا نام دیا یعنی غم کا سال۔ پیارے نبیﷺ حضرت خدیجہؓ سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ جب بھی ان کی یاد آتی تو غمگین ہو جاتے۔ اگر کوئی نئی چیز آتی یا کوئی جانور ذبح کرتے تو حضرت خدیجہؓ کی سہیلیوں کو لازمی بھیجتے اور فرمایا کرتے کہ مجھے خدیجہؓ سے بہتر بیوی نہیں ملی۔ وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا اور انھوں نے مجھ پر اپنا مال خرچ کیا۔
نبیﷺ نے فرمایا کہ مردوں میں بہت سے مرد درجہِ کمال تک پہنچے ہیں لیکن عورتوں میں صرف چار ہیں۔ حضرت مریم ؑ، حضرت آسیہ، حضرت خدیجہؓ اور حضرت فاطمہؓ۔ (مسلم)
اللہ تعالیٰ حضرت خدیجہؓ کے درجات بلند کرے۔