December 8th, 2024 (1446جمادى الثانية7)

یوم فرقان

ابو غفران احمد

سیدنا خباب بن الارت بیان کرتے ہیں کہ میں نبی مہربان ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا جب آپؐ خانہ کعبہ کے سائے میں اپنی چادر سے ٹیک لگائے تشریف فرماتھے میں عرض کیا کہ اے اللہ کے نبیؐ اللہ کی مدد کب آئے گی یہ سن کر آپؐ کا چہرۂ انور متغیر ہوگیا رنگت سرخ ہوگئی فرمایا تم جلدی کرتے ہو تم سے پہلے لوگوں کو دین قبول کرنے کی پاداش میں گڑھے کھود کر اس میں ان کو گاڑ دیا جاتا اور پھر آری سے ان کو دوٹکڑے کردیا جاتا لیکن ان کو یہ چیز دین سے برگشتہ نہیں کرسکتی۔ اسی طرح کسی کے جسم سے گوشت کو لوہے کی کنگھی سے ہڈیوں سے الگ کردیا جاتا یہ تکلیف بھی اس کو دین سے برگشتہ نہیں کرسکتی۔ اللہ اس دین کو غالب کرکے رہے گا یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء سے حضر موت تک سفر کرے گا مگر اس کو سوائے اللہ کے کسی کا خوف نہ ہوگا مگر تم لوگ جلدی کرتے ہو۔ (مسند احمد)

ایک طرف تو یہ صورت حال کہ صحابہ مشرکین مکّہ کے تشدّد کے مارے بے حال ہورہے ہیں اور آپؐ ان کو بشارت دے رہے ہیں ایک عظیم اسلامی انقلاب کی یعنی یہ کسم پرسی اور کمزوری جس میں اہل ایمان بدترین تشدّد کا نشانہ بنائے جارہے ہیں نبی مہربانؐ نے اپنی اسی بات میں ان کو یہ خوشخبری بھی دی کہ یہ وقت گزر جانے والا ہے اور وہ وقت آنے والا ہے جب اللہ اس دین کو غالب کردے گا جس دین کی طرف آج میں انسانوں کو پکار رہا ہوں۔ اس زریں دور کی ایک جھلک آپؐ نے سیدنا خباب کو دکھائی کہ صنعاء سے حضر موت کے درمیان کا راستہ جوکہ کتنا پر خطر ہوگا جس کی مثال دی گئی ہے وہ راستہ اس دین کی برکت سے اتناہی پر امن ہوجائے گا کہ ایک سوار اس کے درمیان سفر کرے گا اس کو اپنے ربّ کے علاوہ کسی کا ڈر نہیں ہوگا۔

پھر وہ عظیم قربانیاں جو کہ مکّہ میں دی گئی ہجرت کے ٹھیک سن دو ہجری سترہ رمضان المبارک، اپنی دوسری کڑی سے جڑ گئی اور جو تشدّد صبر کے ساتھ صحابہ کرام نے جھیلیں ان کے جواب دینے کا وقت آگیا مسلمانوں کے لیے زندگی مکّے میں اتنی دشوار بنادی گئی کہ ان کو پہلے حبشہ پھر مدینے ہجرت کا حکم مل گیا۔ مدینے پہنچے ابھی دوسرا سال تھا کہ مشرکین مکّہ اس چھوٹی سی ریاست اور اس کی نفوس قدسیہ کو مٹانے کے در پہ ہوگئے اور ایک ہزار کا لشکر کیل کانٹے سے لیس اپنی طاقت کے نشے میں دھت مدینے چڑھائی کے لیے روانہ ہوا ایک طرف بے تحاشا طاقت تھی ماہر جنگ جو تھے جو اپنے زمانے کے تمام آلات حرب سے لیس تھے تو دوسری طر ف کمزور فاقہ مست اہل ایمان تھے جن کے پاس آلات حرب کی قلت کا یہ حال تھا کہ تلواریں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں اور زیادہ تر حق کے سپاہیوں کے پاس تو کھجور کی شاخیں نظر آرہی تھیں طاقت کے توازن میں غیر معمولی فرق ظاہر تھا۔ مگر یہ سب نبی صادق ؐ کی قیادت میں عجب جذبے سے سرشار دکھائی دے رہے تھے وہ جسے اقبال نے کہا کہ

دو عالم سے کرتی ہے بے گانہ دل کو
عجب چیز ہے لذّت آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

عمیر بن وہب جہمیؓ جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے ان کو جاسوسی کے لیے مسلمانوں کے لشکر کی طرف بھیجا یہ بعد میں مسلمان ہوئے اور ایک اچھے جانباز مسلمان ثابت ہوئے انہوں لشکر کے گرد ایک چکر لگایا اور مشرکین مکّہ کے لشکر میں واپس آئے اور کہا ان کی تعداد تین سو یا اس سے کچھ زیادہ ہے۔ مگر اے قریش میں نے ان کو دیکھا کہ ان کو اپنے گھروں میں واپس جانے کی کوئی تمنّا نہیں ہے اور میں سمجھتا ہوں ان میں سے کوئی اس وقت تک مارا نہ جائے گا جب تک کہ کسی ایک کو قتل نہ کردے گویا تمہار ے بھی اتنے ہی لوگ مارے جائیں گے اس لیے جنگ شروع کرنے سے پہلے سوچ لو کچھ لوگوں نے ابو جہل کو واپس چلنے کا مشورہ دیا۔ مگر ابو جہل نے ان کو بزدلی کا طعنہ دیا۔

اس جنگ کا عجیب ہی منظر تھا کہیں باپ، کہیں بھائی، کہیں ماموں، کہیں بیٹا ایک دوسرے کے مدّ مقابل تھے۔ سیدنا ابو بکر صدیقؓ کے صاحبزادے جو اس جنگ میں کفّار کے لشکر میں تھے بعد میں اسلام لائے ایک دن کہنے لگے کہ بابا جان جنگ بدر میں کئی بار آپ میری تلوار کے نیچے آئے مگر میں نے آپ کو چھوڑدیا سیدنا ابوبکرؓ نے کہا کہ بیٹا تو اگر ایک بار بھی میری تلوار کے نیچے آتا تو خدا کی قسم میں تجھے نہ چھوڑتا۔ ایسی جنگ آسمان نے کبھی دیکھی نہ تھی۔ جنگ کی ابتداء میں جب بڑے بڑے سورما قریش کے مارے گئے۔ پہلے ہی ہلّے میں مسلمانوں نے قریش کے لشکر کو تتّر بتّر کردیا۔ ابوجہل معوذ اور معاذؓ نامی نوجوانوں کے ہاتھوں بری طرح زخمی ہوا وہ سمجھے کہ ابوجہل مر گیا ہے مگر وہ زندہ تھا بعد میں اس کی گردن عبداللہ بن مسعودؓ نے کاٹی۔ تقریباً سب ہی سردار اس جنگ میں پیوند خاک ہوئے۔ اللہ اپنے پیغمبر ؐ صادق کی نصرت کے لیے فرشتے بھیج چکا تھا حق باطل پر غالب آچکا تھا۔ اب حق و باطل کے درمیان ایک خونیں لکیر کھنچ چکی تھی اس جنگ نے ہمیشہ کے لیے حق کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو نئی سمت عطا کردی۔ یہ بات سمجھادی کہ ایمان کے مقابلے میں تعداد کی کثرت وسائل کی فراوانی کچھ معنی نہیں رکھتے آج بھی اگر معنی رکھتے تو افغانستان میں فاتح امریکا اور اس کے حواری ہوتے۔ مٹھی بھر غزہ کے مجاہدین اپنے سے سو گناہ وسائل اور ہتھیار سے لیس کثیر تعداد کے حامل عالمی دہشت گردوں سے لڑنہ سکتے بلکہ چند دنوں کیا چند گھنٹوں میں ڈھیر ہوچکے ہوتے مگر آج اکتوبر سے مارچ کا مہینہ گزر رہا ہے حوصلے جواں ہورہے ہیں اس پر ماہ رمضان جو کہ ہمیں غزوہ بدر کی یاد دلاتا ہے۔ آج غزہ کی گلیوں میں جہنم واصل ہوتے ہوئے صہیونی فوجیوں کو دیکھ کر زندہ بچ جانے والے صہیونی فوجی اس طویل جنگ سے گھبرا گئے ہیں۔ یقینا موت ان کو غزہ کی گلیوں میں گھیر لائی ہے۔ اسرائیل مغویوں کی رہائی کے لیے اقوا متحدہ پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ حماس کی قید سے مغویوں کو بازیاب کروائے۔ اسرائیلی بوکھلاہٹ کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ کتنے ہی مغویوں کو خود اسرائیلی فوجیوں نے ہلاک کردیا۔ اس مہینے میں جس طرح اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی چھوٹی سی جماعت کو ایک بڑی جماعت پر غلبہ عطا کیا آج پھر حق و باطل کا معرکہ غزہ میں برپا ہے جلد ہی اہل غزہ اس آزمائش سے سرخ رو ہوکر آزادی کی منزل پر پہنچیں گے اور اسرائیل اور اس کے حواری ذلیل و رسوا ہوں گے ان شاء اللہ