رمضان کے روزوں کی فضیلت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (بخاری، مسلم ،ابو داؤد)، ’’جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے‘‘۔
اس پورے ایک ماہ کی تربیت و اصلاح کو تین مراحل میں تقسیم کرتے ہوئے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ انعامات سے نوازا گیا ہے، جن سے مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں نوازا گیا: پہلا انعام یہ ہے کہ جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو (اللہ عزوجل امت محمدیؐ کو) نظرِ رحمت سے دیکھتا ہے اور جسے اللہ (نظرِ رحمت سے) دیکھتا ہے، اسے کبھی عذاب نہیں دیتا ۔دوسرا یہ کہ (روزہ دار) کی منہ کی بُو (دن بھر بھوکا رہنے سے ) جب وہ شام کرتے ہیں، اللہ کے ہاں کستوری کی مہک سے زیادہ پاکیزہ ہوتی ہے۔ تیسرا یہ کہ فرشتے ہر رات دن میں ان کے لیے دعا کرتے ہیں ۔چوتھا یہ کہ اللہ اپنی جنت کو یہ کہہ کر حکم دیتا ہے کہ میرے بندوں کے لیے آمادہ و تیار ہو جا اور زینت کر لے، وہ (روزے دار)دنیا کی تھکاوٹ سے میرے گھر اور میری عزت افزائی میں آرام کریں گے۔ پانچواں یہ کہ جب آخری رات ہوتی ہے تو اللہ ان کی مغفرت فرماتا ہے (بیہقی ، عن جابر بن عبداللہ)۔
اس نوعیت کے انعام وبرکت کا ذکر اس حدیث میں بھی آتا ہے، جو حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے ایمان و احتساب کے ساتھ تو اس کے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے جو اس سے پہلے سرزد ہوئے ہوں گے، اور جس شخص نےرمضان میں قیام کیا (رات کو کھڑے ہو کر عبادت کی) ایمان و احتساب کے ساتھ تو اس کے وہ تمام قصور جو اس سے پہلے کیے ہوں گے،معاف کر دیے جائیں گے، اور جس شخص نے لیلۃ القدر میں قیام کیا ایمان اور احتساب کے ساتھ تو معاف کر دیے جائیں گے اس کے وہ سب گناہ جو اس نے پہلے کیے ہوں گے (متفق علیہ)۔
رمضان کے روزوں کی فضیلت کو سمجھنے کے لیے اس ماہ میں روزے کی شانِ نزول کو سمجھنا ضروری ہے۔ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں جس معاشرے اور ریاست میں دین کی اقامت ہونی تھی، اس کے لیے تین عناصر لازمی تھے: ایسی سرزمین جہاں حاکمیت الٰہی کو اس کے تمام پہلوؤں کے ساتھ نافذ کیا جا سکے، ایسی افرادی قوت جو اقامت دین کرنے کی خصوصیات و کردار سے آراستہ ہو، اور ایسا پیمانہ جو افراد اور معاشرے کی صالحیت، للہیت اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سمع و طاعت کو جانچنے میں مدد کر سکے___ ان تین بنیادی ضروریات کو احسن طریقے سے پورا کرنے کے لیے ہجرت کے بعد اسلامی معاشرے کی تعمیر حاکمیت الٰہی اور اقامت دین کی صورتِ حال کا تعین کرنے کے لیے دو ایسے اقدامات تعلیم کیے گئے، جن کے بغیر یہ اہم کام ممکن نہیں ہوسکتا تھا یعنی تربیت نفس، قلب، ذہن اور جسم کے لیے ایک ماہ کا نظام تربیت اور اس نظام تربیت سے گزرنے والوں کے لیے جانچنے کا پیمانہ جہاد۔
یہ پہلا رمضان تھا، جس میں ایک جانب تزکیۂ نفس و اخلاق اور دوسری جانب تقویٰ، قرب الٰہی اور اطاعت ِرب اور اطاعت ِ رسولؐ کا پیمانہ اجتماعی جہاد کی شکل میں اہل ایمان کے لیے مقرر کیا گیا۔ ۱۷رمضان کو ہونے والے معرکۂ بدر نے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچا دی کہ اہل تقویٰ اور اللہ کی مغفرت کے مستحق مجاہدین فی سبیل اللہ ہوتے ہیں یا جان بچا کر بیٹھنے والے قائدین؟ صیامِ رمضان کی فرضیت کو اس کے ممکنہ نتیجہ(out come) یعنی حصولِ تقویٰ سے وابستہ کر دیا گیا، کیونکہ تقویٰ کے بغیر نہ فرد، نہ معاشرہ اور نہ اقامت دین کا کوئی تصور ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس تقویٰ، توکل علی اللہ اور اطاعت الٰہی اور رسول کو جاننے کا پیمانہ جہاد بھی فرض کر دیا گیا، تاکہ کسی بھی دور میں اقامت دین کی جدوجہد کے لوازمات ،مطلوبہ نظامِ تربیت اور تعمیر سیرت کے ساتھ اسے جانچنے کا پیمانہ بھی سامنے آجائے۔
رمضان کے روزے نہ صرف اہل ایمان کی سیرت و کردار میں ظلم و استحصال کے خلاف عملی جدوجہد کرنے کی استطاعت پیدا کرتے ہیں بلکہ اس روایتی نفس کشی کی اصلاح بھی کرتے ہیں، جس کا تصور بعض دیگر مذاہب میں پایا جاتا ہے۔ چنانچہ ان کے ماننے والے بھوک، پیاس، نیند اور آرام اور جنسی خواہش سے آزاد ہونے کو معرفت ِنفس سمجھتے ہیں۔اسلام انسان کی فطرت سے انحراف نہیں کرتا۔ یہ جسم ونفس کی ضروریات کی نفی نہیں کرتا بلکہ انھیں ایک مصلح قوت میں تبدیل کر دیتا ہے۔ بقول مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ:’’اسلام جس ضبط کا قائل ہے، وہ یہ ہے کہ پہلے انسان کی خودی اپنے خدا کے آگے سرِ تسلیم خم کر دے، اس کی رضا کی طلب اور اس کے قانون کی اطاعت کو اپنا شعار بنا لے، اس کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ سمجھ لے، پھر اس مسلم و مومن خودی کو اپنے جسم اور اس کی طاقتوں پر حاکمانہ اقتدار، اور اپنے نفس اور اُس کی خواہشوں پر قاہرانہ تسلط حاصل ہو، تاکہ وہ دنیا میں ایک مصلح قوت بن سکے‘‘۔( نشری تقاریر ،ص ۸۰-۸۱)
رمضان کے روزوں سے جو تربیت اور تعمیرِ سیرت و کردار مقصود تھی، اس کو بھی قرآن کریم نے مبہم نہیں چھوڑا بلکہ چند الفاظ میں وضاحت سے بیان کر دیا، یعنی اس ماہ کی فضیلت اور برکت کا سب سے اہم سبب اس ماہ میں قرآن کریم کی شکل میں انسانوں کے لیے ہدایت کا مکمل نظام نازل کرنا ہے ،جو بذات خود شان کریمی کا ایک مظہر ہے کہ وہ جو مکمل طور پر عفو و درگزر سے اوراپنے بندوں سے محبت کرنے والا ہے۔ اپنے بندوں کو ٹھوکریں کھا کر حق و صداقت تک پہنچنے سے بچانے کے لیے اس نے اپنی جانب سے اسی ماہ میں وہ کلامِ عزیز نازل کیا ، جو قیامت تک انسانیت کے لیے واحد راہِ نجات و کامیابی ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۱۸۳ (البقرہ۲:۱۸۳)اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر روزے فرض کردیے گئے جس طرح تم سے پہلے انبیاؑ کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے، اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔
اس ایک ماہ کی تربیت سے اسی وقت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جب اس مہینہ میں اس کی اصل روح اور مقصد کو سامنے رکھا جائے اور قرآن کریم سے وہ حقیقی تعلق قائم کیا جائے جو اقامت ِدین کی اولین شرط ہے:
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۰ۚ (البقرہ۲:۱۸۵)رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔
قرآن ِ کریم کی شکل میں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف سے اس ماہ میں جو رحمت اہل ایمان اور تمام انسانوں کے لیے نازل کی گئی ہے اس کااوّلین مطالبہ بلکہ حق یہ ہے کہ اسے صحیح طریقے سے تلاوت کیا جائے اورساتھ ہی اس کے مفہوم پر غور کرتے ہوئے اپنی سیرت و کردار کو اس کے رنگ میں رنگ لیا جائے۔ صبغت اللہ کو اختیار کرنے سے یہی مراد ہے کہ ایک صاحبِ ایمان شخص اور ایک صاحب ِایمان معاشرہ اپنے ہر عمل اور اقدام کو کرنے سے پہلے یہ دیکھے کہ اس کے اس عمل سے اس کا ربّ خوش ہوتا ہے یا ناراض؟ تقویٰ اسی رضائے الٰہی کے حصول اور اللہ کے غضب سے بچنے کا نام ہے۔ جب تک اس کلامِ حق کی تلاوت صحیح طور پر نہ کی جائے اور اس کے معنی ومفہوم کو سمجھ کر وظیفۂ عمل نہ بنایا جائے، اس وقت تک ہمارا یہ کہنا کہ ہم اللہ ،اس کے کلام اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حق کو مانتے ہیں صرف ایک زبانی دعویٰ ہے۔
قرآن کریم کے ذریعے اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنے کے لیے اس عظیم کلام کا دوسرا حق یہ ہے کہ اس کے فہم کو اپنے فکر و عمل میں اس طرح ڈھالا جائے جس کی زندہ مثال حیات طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی ہے۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب کسی نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق کیا تھا تو ان کا انتہائی مختصر لیکن جامع جواب یہی تھا کہ کیا تم نے قرآن کریم کا مطالعہ نہیں کیا؟ آپؐ کا ہر عمل قرآن کریم کی تفسیر و تشریح تھا۔قرآن پر جتنا تفکر و تدبر کیا جائے گا، اتنا ہی ایک صاحب ِایمان سیرتِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ ہوگا ۔اس کا سوچنا، کاروبار کرنا، فیصلے کرنا ہرمعاملہ سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں ہوگا۔ اس مرحلے سے گزرے بغیر اقامت ِدین کا فریضہ جیسا کہ اس کا حق ہے، ادا نہیں کیا جا سکتا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین زندگی بھر کے تمام معاملات میں قرآن کریم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رہنما بناتے تھے اور یہی ان کی اقامت دین کی کوششوں کی کامیابی کا سبب تھا۔
قرآن کریم کا تیسرا اہم حق یہ ہے کہ قرآن کے سائے میں تعمیر سیرت کرنے کے ساتھ دعوتِ قرآن کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے کی جہدِ مسلسل ہو۔ گویا قرآن کو سمجھنے، اس پر تفکر اور تدبر کرنے کا تقاضا ہے کہ قرآن کی دعوت کو قائم کرنے کی جدوجہد میں شامل ہوکراور اس مقدس کام میں اپنی تمام متاع ِ حیات کو لگا دیا جائے ۔یہی وہ قیمتی ترین سرمایہ کاری ہے ، جس میں نہ کبھی نقصان ہوا نہ کمی بلکہ ہر لمحہ رب کریم کی غیر محدود رحمت کے سبب اضافہ اور بڑھوتری ہی ہوتی ہے۔
قرآن کریم جس تقویٰ کو پیدا کرتا ہے وہ ایک صاحب ِایمان کو حقیقی حریت سے آشنا کرتا ہے۔ وہ جو کل تک دن میں تین چار مرتبہ زبان کی لذت اور معدہ کی پکار پر کھانے پینے کا عادی تھا، جس کا دن بھر کا مشغلہ کہیں سبز ،کبھی سیاہ چائے، کبھی کافی ، کبھی پھلوں کا رس پینا تھا۔ وہ اپنے جسم کو لذّتِ کام و دَہن کی غلامی سے آزاد کر کے صبح سے شام تک ایک گھونٹ پانی یا چائے کے بغیر نہ تھکن محسوس کرتا ہے ،نہ اس کی طبیعت میں چڑچڑاہٹ پیدا ہوتی ہے بلکہ ہر آنے والے مہمان کے ساتھ مسکرا کر اور رمضان کی مبارکباد کے ساتھ اس کا استقبال کرتا ہے۔ وہ جو کل تک آٹھ نو گھنٹے سونے کو بھی کافی نہیں سمجھتا تھا کہ اس کے نفس کا حق ادا نہیں ہوا، اب فجر سے مغرب تک روزہ رکھنے کے بعد گرم جوشی کے ساتھ عشاء کی نماز اور پھر ایک ڈیڑھ گھنٹے مزید تراویح میں شرکت میں لذت اور سکون محسوس کرتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ چاہتا ہے کہ سحری سے پہلے بھی کم از کم دو رکعت تہجد پڑھ لے اور فجر کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کر لے ۔یہ جوش اور ولولہ،یہ ایمان کی تازگی اس مبارک مہینہ کی رحمت و برکت ہی سے ہوتی ہے۔یہی وہ حریت و آزادی ہے، جس کا مطلب اپنی خودی اور نفس کو اللہ کی رضا کا تابع کرنا ہے ۔ یہ رمضان کے روزوں سے پیدا ہوتی ہے اور جس کی لذت ایک مسلمان محسوس کرتا ہے۔ اسی کا نام تقویٰ ہے۔
یہ پورا مہینہ انفرادی اور اجتماعی تربیت کے ذریعے اہلِ ایمان کو اپنی سیرت و کردار میں وہ صفات پیدا کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے،جن کے بغیر اقامت دین کا کام آسانی سے نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں سب سے پہلی صفت صبر کی ہے۔ صبر کا ایک مفہوم وہ ہے کہ جو ہر بچہ اور بڑا جانتا ہے یعنی اپنی روز مرہ زندگی میں قناعت کا رویہ اختیار کرنا۔ بغیر کسی شکایت کے جو کچھ اللہ نے دیا اس پر شکرگزار ہونا، لیکن صبر کا وہ مفہوم جو قرآن کریم نے ہمیں سمجھایاہے بہت وسیع ہے ۔ اس میں دوچیزیں بنیادی ہیں۔ اوّلاً: حق پر جمنے کے ساتھ اعتماداور توکّل، اور دوسرے جہد ِ مسلسل ۔ یہی اقامتِ دین کی روح ہے اور یہ رمضان کے روزوں سے حاصل ہونے والی ایک بنیادی صفت ہے۔ ایک روزے دار صرف اللہ کے لیے بھوک و پیاس، جسمانی آرام، جائز لذت سے نہ صرف رُکتا ہے بلکہ ان تمام مواقع سے اپنے آپ کو بچاتا ہے جو اللہ کی مقرر کردہ حدود کے خلاف کوئی رجحان پیدا کرتے ہوں۔ یہاں صبر میں سب سے زیادہ نمایاں پہلو استقامت کا نظر آتا ہے جو اقامتِ دین کے لیے ایک لازمی صفت ہے۔
اقامت دین کی جدوجہد کے لیے نہ صرف انفرادی صالحیت ، تقویٰ اور احسان ضروری ہے، بلکہ اجتماعی طور پر ایک ایسی جماعت کا وجود میں آنا ضروری ہے جو اپنے فکر و عمل میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کی فرماں بردار ہو۔ جو کسی اقتدار ،منفعت، شہرت ،منصب اور لالچ کی غلام نہ ہو بلکہ اس جماعت کا ہر فرد اور بذاتِ خود و ہ جماعت شہرت، منصب اور منفعت سے بلند ہو۔ اس کے سامنے کامیابی صرف اور صرف آخرت کی کامیابی ہو ۔اگر اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ دنیا میں اس جماعت کو اقامتِ دین میں کامیابی دے دیں تو یہ ان کا فضل و کرم ہے، لیکن اس جماعت کا اصل ہدف اور نصب العین اصلاً آخرت کی کامیابی ہو۔
اللہ کی حاکمیت اپنی ذات پر ، اپنے خاندان پر، اپنے معاشرہ میں اور اللہ کی زمین پر قائم کرنا اقامت دین کا پہلا مطالبہ ہے اور اس مقصد کے لیے فرد اور جماعت کا بے غرض ہونا پہلی شرط ہے۔للہیت کے ساتھ صرف اللہ تعالی کی بندگی و اطاعت کو اپنے گھریلو معاملات میں، معیشت میں، اخلاق میں ،سیاست میں، غرض زندگی کے تمام معاملات میں صرف اللہ کی رضا کو مقصود بنانا ہی اس کا مقصود ہو۔ جب تک فرد اور جماعت اس حوالے سے ایک سطح پر (on one page) نہیں ہوں گے اقامت دین کا کام نہیں ہو سکتا ۔کیونکہ دین کا کُلی قیام محض حصول اقتدار نہیں ہے بلکہ پوری زندگی کے معاملات میں بہ شمول افراد اور ریاست اللہ کی حاکمیتِ اعلیٰ کا قیام ہے۔ رمضان کے روزے اسی حاکمیتِ اعلیٰ کے قیام اور اقامت دین کے لیے مطلوبہ کردار اور سیرت یا تقویٰ کی تیاری کے لیے فرض کیے گئے ہیں۔
امام غزالیؒ نے روزہ کے آداب کو چھ مختصر نکات میں انتہائی مؤثر اور مدلل انداز میں بیان کیا ہے:
ان چھ آداب کا اہتمام روزہ کو نہ صرف تربیت و اصلاح اور حقیقیِ ضبط نفس کا ذریعہ بناتا ہے بلکہ اس دنیاوی زندگی میں ظلم و استحصال، کفر و طاغوت اور شرک کے خلاف جہاد کرنے کے لیے بہترین قوت، صلاحیت اور استعداد پیدا کرتا ہے۔
رمضان کے روزے ایک مسلمان کے دل و دماغ کو وہ غذا فراہم کرتے ہیں جو ان کی حقیقی تقویت کا باعث ہو۔جس طرح ایک ماہر قلب ایک شخص جس کا قلب کسی مرض کا شکار ہو، اس کو نہ صرف کوئی دوا بلکہ ساتھ ہی کچھ ورزشیں، کھانے پینے اور اوقات کار کے بارے میں ہدایات دیتا ہے ۔ایسے ہی رمضان کے روزے قلب و دماغ کی قوت کے لیے یہ آزمودہ نسخہ تجویز کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنی زندگی کو بے شمار آقاؤں کی غلامی سے نکال کر صرف ایک اللہ کی بندگی اختیار کر لے، صرف اس کا عبد اور عابد بن کر اپنے قلب و دماغ کو یکسو کر لے۔ اللہ کا بندہ بننے سے جو قوت ملتی ہے، اس کی اعلیٰ مثال مکہ کی موسم گرما میں تپتی ہوئی سنگلاخ وادی میں صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال ؓ کا طرزِ عمل ہے جو قیامت تک ایک زندہ مثال رہے گا۔ جلتی ہوئی سنگلاخ زمین پر چت لٹا کر ان کے سینے پر پتھر کی گرم سلیں رکھ دی جاتیں اور تپتی زمین پر گلے میں رسی ڈال کر گھسیٹا جاتا ہے لیکن وہ تمام غلامیوں سے آزاد ہو کر جس رب کے ہو رہے تھے اسی کا نام احد، احد کہہ کر پکارتے ہیں اور ظلم و تشدد انھیں ایک لمحے کے لیے مفاہمت پر آمادہ نہیں کرپاتا۔
اللہ سے تعلق جڑنے کے بعد حضرت بلالؓ نے عزیمت کی جو مثال قائم کی وہ ہمیشہ اہل ایمان کے لیے ایمان اور یقین کے روشن راستے کی نشان دہی کرتی چلی آرہی ہے ۔ ان کے سینے پر پر پتھر کی گرم سلیں رکھ کر کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا رب مان لو تو ان کا جواب صرف یہی ہوتا ہے کہ نہیں میں تو صرف اس ربّ کا بندہ ہوں جو احد ہے ،جس کا کوئی مثل نہیں، جویکتا ہے، جو تمام کائنات کا مالک ہے۔ یہ وہ قوت ہے جو قلب اور دماغ کو یکسو کر دیتی ہے اور ایک مسلمان اِس قوت کی بنا پر ظلم و استحصال کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔
یہی قوتِ ایمانی ہے کہ چار ماہ سے زیادہ عرصہ گزرنے پر بھی غزہ اور فلسطین کے مظلوم مسلمان اپنے سے دس گنا زیادہ بڑی آبادی اور دنیا کی چوتھی عسکری طاقت کے سامنے سینہ سپر ہو کر کھڑے ہیں اور انھوں نے نہ عربوں پر بھروسا کیا نہ ترکوں اور پاکستانیوں پر، بلکہ وہ صرف اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ پر ایمان رکھتے ہیں ۔یہی تقویٰ اور ایمان کا پیمانہ ہے ،یہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ یہی اقامت دین کے لیے اپنے آپ کو منظم کرنا ہے۔ گویا قوت ایمانی جو رمضان کے روزہ سے حاصل ہوتی ہے اگر اسے صحیح طریقے سے دل و دماغ میں جاگز یں کر لیا جائے، تو پھر میدان بدر ہو یا حنین، جو ایک مرتبہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر اس پر استقامت اختیار کر لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آسمان سے فرشتے بھیج کر ان کی امداد فرماتے ہیں ۔
اہم اورقابلِ غور پہلو صرف یہ ہے کہ کیا واقعی جو لوگ اقامت دین کی جدوجہد کے لیے نکلے ہیں کیا ان کا اللہ پر ایمان و توکّل اور طرزِ عمل اس معیار کا ہے، جس کی بنا پر رب کریم فرشتے بھیجتے ہیں، یا ابھی ان کی استقامت اور اللہ کی حاکمیت کو اپنی سیرت اور اپنی معاشرت میں مکمل طور پر نافذ کرنے میں کوئی کمی ہے؟ مدینہ کا معاشرہ اور ریاست اسی وقت وجود میں آئی جب تحریک اسلامی کے کارکن اور قیادت آزمایشوں کی بھٹی سے گزر کراور ہر تکلیف دہ مرحلہ سے کامیاب ہو کر مکہ کی سنگلاخ چٹانوں سے مدینہ کی زرخیز زمین میں پہنچے، تو اس کے پاس وہ افراد کار تھے جو آزمائشوں میں ثابت قدم اور ہر لمحہ تقویٰ اور ایمان اور احسان میں ترقی کی طرف گامزن تھے۔
رمضان کے روزے انفرادی اور اجتماعی اصلاح اور فلاح کی ضمانت ہمیں صرف اس وقت دیتے ہیں جب قرآن کریم کے ساتھ ہمارا تعلق کتاب کو محض پڑھنے کی جگہ کتاب پر عمل کرنے والا ہو اور اس کتاب کے ذریعے تزکیۂ نفس ،تزکیۂ مال، تزکیۂ اوقات اور تزکیۂ معاشرتی رسومات کرنے والا ہو۔ رمضان کا حق ایک صاحب ایمان پر یہ ہے کہ اس کا استقبال محض مسجد کے میناروں پر چراغاں کر کے نہ کیا جائے بلکہ دل کی ویران بستی کو اس کے نور سے منور کیا جائے۔اس کی دعوت انقلاب کواپنے ذاتی معاملات اور معاشرہ میں اللہ کی حاکمیت کے قیام اور اللہ کے دین کو اپنی مجموعی شکل میں اللہ کی زمین پر قائم کرنے کی جدوجہد کا کام تیز سے تیز تر کیا جائے۔ اپنے گھروں میں اس ہدایت اور فرقان کی روشنی میں تعمیر سیرت و کردارکی جائے۔ اس ابدی ہدایت کی سربلندی کے لیے معاشرہ سے استحصال، جہالت، جاہلانہ رسومات کی غلامی، مغربی استعمار سے مرعوبیت، بیرونی اداروں کی غلامی اور خصوصاً ملک کے دستور کی خلاف ورزیوں کو دور کیا جائے۔ پاکستان جس مقصد کے لیے حاصل کیا گیا تھا اس کے حصول کی جدوجہد کے لیے سرگرم ہوا جائے ۔
اس ماہ کی ۲۷ویں شب کی اہمیت اور برکت پر نہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم جیسی لازوال نعمت کے نزول کے حوالے سے بلکہ خود قیام پاکستان کے اصل مقاصد کو غور و فکر کا موضوع بنایا جائے اور جس طرح قرآن کریم نے شرک اور بت پرستی کے فتنہ کو دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں دور کیا، ایسے ہی آج اس عظیم کلام کے ذریعے پاکستان سے بدعتوں، بد عنوانیوں، دہشت گردی، معاشی استحصال ، نظام خاندان کے انہدام،معاشرتی زوال اور سیاسی بےیقینی کو دُور کر کے ملک کے دستور کی روشنی میں ایسے افراد کو برسرِ اقتدار لایا جائے، جو اللہ اور اس کے رسولؐ کے وفادار، ایماندار، سچے اور امین ہوں ۔جو نظریۂ پاکستان کے محافظ اور اسلامی طرزِ حیات پر عامل ہوں۔ جن کا ماضی ہر قسم کی بد عنوانیوں سے پاک ہو اور جو بے لوثی کے ساتھ اللہ کی دی ہوئی اس عظیم نعمت و امانت پاکستان میں اللہ کے دیے ہوئے نظام کو نافذ کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔
اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ سے زیادہ وعدہ کی پابندی کوئی اور نہیں کر سکتا ۔ اس کا وعدہ ہے کہ وہ ایسے افراد کو جو خلافت فی الارض کی امانت کے اہل ہوں اور اس جدوجہد میں مخلص ہوں، جو اپنی ذات کی نمایش کی جگہ غلبۂ حق و صداقت اور عدل اجتماعی کو اہمیت دیتے ہوں، ایسے افراد کو وہ جنتوں کا وارث بنائے گا اور عین ممکن ہے کہ وہ انھیں اس دنیا میں میں بھی سلطنت اور اقتدار بخش دے ۔ اگر اس وعدہ کی تکمیل میں تاخیر ہے تو اس کا واضح سبب اہل امانت میں صلاحیت کا فقدان ہے کیوں کہ وہ صرف اصحاب رُشد وکمال ہی کو قیادت دیتا ہے ۔