ہرسا ل ہماری زندگی میں رمضان المبارک کا مہینہ آتاہے اور چلا جاتاہے لیکن ہماری حالت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آتی۔کیا ہم لوگوں نے اس پر کبھی غور کیا ہے کہ ایسا کیوں ہوتاہے؟ یہ اس لیے کہ ہم روزے کے اصل مقصد کو نہیں جانتے اور رمضان المبارک کی فضیلتوں سے ناآشنا ہیں جس کی وجہ سے ہم روزے تو رکھتے چلے جاتے ہیں مگر تقویٰ ہمارے اندر پیدا نہیں ہوتا۔ ماہِ رمضان میں مسجدیں اتنی بھری ہوتی ہیں کہ دیر سے آنے والے نمازیوں کو مسجد میں جگہ نہیں ملتی، جب کہ اس مہینے سے پہلے اور بعد میں مسجدوں میں مشکل سے دو یا تین صفوں کے نمازی ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے عبادات کو صرف رمضان تک ہی محدودکررکھاہے جو کہ درست نہیں ہے۔ ہماری ان کوتاہیوں کی کئی وجوہات ہیں جن میں چند بڑی کوتاہیوں کا ہم یہاں ذکر کریں گے۔
روزے کا مقصد تقویٰ پیدا کرنا ہے جیسا کہ سورئہ بقرہ کی آیت ۱۸۳ میں بیان ہواہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۱۸۳ۙ ،اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے پہلے لوگوں پرفرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
تقو یٰ اصل میں اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے، ممنوعات سے بچنے اور احکامِ الٰہی پر عمل کرنے کا نام ہے۔روزے سے خواہشاتِ نفسانی کو قابو میں رکھنے کا ملکہ پیدا ہوتاہےاوریہی تقویٰ کی بنیاد ہے۔اگر ہم روزے کے اس مقصد کو سمجھیں اور جو قوت اور طاقت روزہ دیتاہے اس کو اپنانےکے لیے تیار ہوجائیں اور روزے کے ذریعے اپنے اندر اللہ کا خوف اور نبی ؐ کی اتباع کا جذبہ پیدا کرلیں، توجو تقویٰ پیدا ہوتاہے وہ صرف رمضان المبارک ہی میں نہیں بلکہ باقی گیارہ مہینوں میں بھی باقی رہے گا۔روزوں کے اہتما م کے باوجودکسی کی زندگی میں تقویٰ نہ پیدا ہوسکے تو ایسے روزہ دار وں کو سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ملتا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے ایمانی کیفیت کے ساتھ اور اجرِآخرت کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے تو اللہ اس کے گناہوں کو معاف کردے گا جوپہلے ہوچکے ہیں۔جس نے رمضان کی راتوں میں ایمانی کیفیت اور اجرِ آخرت کی نیت کے ساتھ نمازیں پڑھیں تو اس کے ان گناہوں کواللہ تعالی معاف کردے گاجوپہلے ہو چکے ہیں‘‘۔ اس حدیث کی رُو سے ہم پر واجب ہوتا ہے کہ رمضان کے مبارک مہینے میں ایک لمحہ کے لیے بھی اللہ کی بندگی و اطاعت اور عبادات سے غافل نہ ہوں۔
احادیث میں صراحت سے فرمایا گیاہے کہ روزہ محض کھانے پینے سے رُکے رہنے اور گناہ کے کام کرتے رہنے کا نام نہیں ہے۔ایسے شخص کو بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ہمیں چاہیئے کہ روزہ کی حالت میں شریعت کے احکام کی پابندی کے ساتھ ساتھ اپنے سارے اعضا کوبھی اپنے قابو میں رکھیں۔مثلاً آنکھ کا روزہ یہ ہوگا کہ کسی غیر شرعی چیز یا کسی حرام چیز یامنظر کو نہ دیکھیں۔ کان کا روزہ یہ ہے کہ بری باتیں سننے سے رکیں۔زبان کا روزہ یہ ہے کہ زبان سے کوئی فحش کلامی یا گالی گلوچ نہ کریں۔دیگر اعضا کا روزہ یہ ہے کہ ا ن کوہر گناہ سے روکے رکھیں۔
انھی اعضامیں ہماری زبان بھی ہے۔حالاں کہ یہ جسم کا ایک چھوٹا سا عضو ہے لیکن اس سے بڑ ے بڑے گناہ سرزد ہوتے ہیں، جیسے جھوٹ، غیبت، چغلی، کسی کی تحقیر، لایعنی باتیں وغیرہ۔آج ہماری زبان سے جو باتیں نکلتی ہیں قیامت کے دن ان کاحساب دینا پڑے گا۔ سورئہ نور کی آیت ۲۴میں بیان ہوا ہے: يَّوْمَ تَشْہَدُ عَلَيْہِمْ اَلْسِنَتُہُمْ وَاَيْدِيْہِمْ وَاَرْجُلُہُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۲۴ ’’اس دن جس دن ان کی زبانیں، ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے سامنے ان کے اعمال کی گواہی دیں گے کہ وہ جوکچھ کرتے رہے تھے ‘‘۔
زبان کے استعمال کے حوالے سے ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: روزہ ڈھال ہے، جب تم میں سے کوئی روزہ سے ہوتووہ نہ گالی گلوچ کرے اور نہ شور وہنگامہ ہی مچائے۔اگر کوئی اس کے ساتھ گالی گلوچ کرے یا جھگڑاکرے تو وہ کہے کہ میں روزہ سے ہوں (متفق علیہ)۔جو شخص روزے سے ہو تووہ فحش باتیں نہ کرے (بخاری ،جلد اوّل، ص۲۵۵ )
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے روزہ رکھنے کے باوجود جھوٹ بات کہنا اور اس پر عمل کرنانہیں چھوڑا تو اللہ کو اس سے کوئی دل چسپی نہیں کہ وہ بھوکا اور پیاسا رہتاہے‘‘۔
اکثر لوگ رمضان کے مہینہ کو کھانے پینے کا مہینہ سمجھتے ہیں۔ سارا دن روزہ رکھ کر جب افطار کرتے ہیں تو ضرورت سے زیادہ کھالیتے ہیں جس سے تراویح کی نماز ادا کرنے میں سُستی ہوتی ہے۔اس کے علاوہ مرد حضرات کا اکثر وقت بازاروں میں کھانے پینے کی چیزیں خریدنے اور عورتوں کا ان کو پکانے میں صرف ہوتاہے۔ اس طریقے سے روزہ کے دوران عبادات کاموقع بہت کم ملتاہے اور لوگ روزہ کی برکات سے محروم رہ جاتے ہیں۔
جن لوگوں کو بھوکے رہنے کی عادت نہیں ہوتی یا جومسلسل سگریٹ نوشی کے عادی ہوتے ہیں، ان کے لیے رمضان المبارک کے روزے رکھنا بہت ہی دشوار ہوجاتاہے۔ایسے میں یہ لوگ ایسے مشغلے اختیار کرلیتے ہیں جو روزے کے ثواب کے بجائے روزے کو خراب کرنے کا سبب بنتے ہیں۔کچھ لوگ اپناسارا وقت سوکر گزارلیتے ہیں،یعنی سحری کھاکرسارادن سوتے رہتے ہیں، صرف اُٹھ کر نماز اداکرلیتے ہیں اور مغرب کے وقت اٹھ کر افطار کرلیتے ہیں۔اس طریقے سے انھیں بھوک کا احساس نہیں ہوتا، تاہم روزہ کا بنیادی مقصد فوت ہوجاتاہے۔
کچھ حضرات وقت گزاری کے لیے عبادات میں وقت صرف کرنے کے بجائے ٹی وی سیریل یا فلمیں دیکھنے کاسہارا لیتے ہیں۔اول تو یہ کہ غیر شرعی قسم کے ٹی وی سیریل اور فلمیں دیکھنا عام دنوں میں حرام ہے، پھررمضان المبارک میں یہ کیسے حلال ہوسکتاہے؟
کچھ حضرات اپنے دوستوں کو گھر بلالیتے ہیں اور تاش کھیلنے یاشیخیاں بگھارنے میں وقت گزار لیتے ہیں۔تاش کھیلنا لایعنی فعل ہے اور ان کی شیخیوں میں جھوٹ اور غیبت جیسے گناہ کبیرہ شامل ہوتے ہیں۔اپنی وقت گزاری کے اس مرحلے میں یہ حضرات ثواب کمانے کے بجائے الٹا گناہ کبیرہ کے مستحق ہوجاتے ہیں، جب کہ روزہ ہماری روحانی اور اخلاقی بیماریوں اور خرابیوں کا مؤثر علاج ہے۔
موجودہ وقت کی بہت بڑی بیماری یعنی موبائل فون اور سوشل میڈیا پر وقت ضائع کرنا بھی رمضان کے نہایت قیمتی لمحات کی ناقدری ہے۔ بعض لوگ تو اعتکاف کی زریں ساعتیں بھی ان کی نذر کردیتے ہیں، اور انھیں احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ اپنا کتنا بڑا نقصان کررہے ہیں۔
اکثر لوگ اپنے دوست احباب کو افطار کے لیے مدعوکرتے ہیں۔ رمضان میں افطار کرانا ثواب کا کام ہے، لیکن اس کا بنیادی مقصد غریبوں اور مسکینوں کو کھلانا ہے تاکہ انھیں بھی روزہ رکھنے میں آسانی ہو۔ حضرت زید بن خالد جہنیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کروایااس کو اتنا ہی اجر ملے گاجتنا اس روزہ دار کو ملے گا بغیر اس کے کہ روزہ دار کے اجر میں سے کچھ کم ہو (ترمذی)۔اس لیےغریب پڑوسی،رشتہ دار یادوست کو افطار کرانا ثواب کا کام ہے۔
مگر افطار کرانے کا اصل مقصد فراموش ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ عام طور پر ان دعوتوں میں ایسے لوگوں کو مدعو کیاجاتا ہے جو صاحب حیثیت ہوتے ہیں اور جن کے پاس ضرورت سے زیادہ مال واسباب ہوتاہے۔ان پارٹیوںمیں افطار کے وقت تذکیر و دُعا کے بجائے آپس میں ہنسی مذاق اور گپ شپ ہوتی ہے۔ دعا وتسبیح یا اللہ اور رسول کا کوئی ذکر نہیں ہوتا۔
رمضان المبارک کا آخری عشرہ دوزخ کی آگ سے نجات کا ذریعہ ہے۔اس عشرے میں عبادات کا زیادہ اہتمام ہونا چاہیے۔اس عشرے میں ایک رات ایسی بھی ہوتی ہے جسے شبِ قدر کہتے ہیں۔اس عشرے کی راتوں میں عبادت کا بہت ثواب ہے، اس لیے ان راتوں کو ضائع کرنا بڑے گھاٹے کی بات ہے۔
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کوبیداررہتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے (کہ اٹھ کر عبادت کریں)اورعبادت میں بہت کوشش فرماتے اور اس کے لیے کمر ہمت باندھ لیتے۔(مسلم)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: جس نے لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے قیام کیا اس کے گذشتہ تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔
اکثر دیکھاجاتاہے کہ رمضان کی راتوں میں لوگ مسجدوں کو چھوڑ کر اپنے اہل وعیال کے ساتھ عید کے کپڑے اور سامان خریدنے کے لیے گھومتے رہتے ہیں اور عبادتوں سے غافل اور لاپروا ہوجاتے ہیں۔ اس طرح وقت برباد کرنا آخری عشرے کی فضیلتوں سے محروم ہونے کا سبب بنتا ہے۔
تمام لوگوں کی طرح بچوں اور نوجوانوں میں بھی یہی کوشش ہونی چاہیے کہ اس ماہ کی برکتوں سے خوب فیض یاب ہوں۔رمضان المبارک بچوں اور نوجوانوں کے لیے ایک روحانی تربیت کا مہینہ ہے۔والدین کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولادکی صحیح تربیت کرتے وقت روز ہ کے مقصد کو اجاگر کریں۔ مگر مشاہدے میں آیا ہے کہ بعض نوجوان روزہ رکھنے کے بعدبدمزاجی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔انتہائی معمولی باتوں پر دوسروں سے جھگڑ پڑتے ہیں۔ ان کے مزاج میں چڑچڑاہٹ پیدا ہوجاتی ہے، جب کہ روزہ تو نام ہی صبروبرداشت کا ہے۔کچھ نوجوان تو صبح سے شام تک پورادن سوکر گزارتے ہیں جس سے ان کا روزہ بے مقصد ہوجاتاہے۔
بعض نوجوان روزے کی حالت میں بھی ڈرامے، فلمیں دیکھنے اور موبائل فون اور سوشل میڈیا پر فضول باتوں میں اپنا وقت بربادکرنے سے باز نہیں آتے۔اکثر نوجوان تراویح کی نماز کے لیے مسجد میں تو آجاتے ہیں مگر نماز میں شامل ہونے کے بجائے گپ شپ میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ ان کے والدین ان کی اس حرکت سے غافل ہوتے ہیں اور ان کی غلط تربیت کے ذمہ دار بنتے ہیں۔
رمضان سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے درج ذیل باتوں کا لحاظ ضرور کرنا چاہیے:
رمضان کے مہینے کو روزے رکھنے کے لیے مخصوص کیا گیاہے اور مسلمانوں کے لیے یہ لازم قرار دیاگیاہے کہ وہ روزے کے اصل مقصد اللہ کی اطاعت و بندگی کو جانیں اور اس پورے مہینے کے روزے رکھیں۔
جب تک کوئی شرعی عُذر نہ ہو،روزہ نہ چھوڑیں۔اگر کوئی عذر ہوتو روزہ چھوڑدیں اور رمضان کے بعد ان کی قضاکر لیں۔افطاری اور سحری میں ضرورت کے بقدرکھانا کھائیں۔ حد سے زیادہ کھانے سے پرہیز کریں تاکہ تراویح کی نمازمیں کوئی مشکل نہ ہو۔خواتین کو کھانے پکا نے میں زیادہ مصروف نہ رکھیں،تا کہ انھیں بھی کثرت سے عبادت کرنے کا موقع مل سکے۔
روزے کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت کریں، ہر آیت کے معنی اور مطلب کو سمجھیں، اور اس پر سختی سے عمل کریں۔ہروقت اللہ تعالی کے اذکار سے اپنی زبان کو تر رکھیں۔ احادیث اور اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کریں۔خود بھی اور اپنے اہل وعیال کو بھی رمضان المبارک کی عظمت سے آگاہ کریں۔گھر میں درس کا بھی اہتمام کریں تاکہ اہل خانہ بھی مستفید ہوسکیں۔خود بھی اہتمام کریں اور اپنے بچوں کو بھی تاکید کریں کہ وہ تراویح کی نماز پابندی سے اداکریں۔گپ شپ اور کھیل کود میں قیمتی وقت کو ضائع نہ کریں۔ اپنے بچوں کو وقتاًفوقتاً رمضان المبارک کی فضیلتوں کی تعلیم دیتے رہیں، تاکہ رمضان کا مقصد اور فوائد ذہن نشین ہوجائیں اور ان کی عاقبت سنور جائے۔
رمضان المبارک میں ہر نیکی کی جزا دس سے سات سو گنا تک ملتی ہے، اس لیےاس مہینے میں انفاق فی سبیل اللہ میں اضافہ کردیں۔ غریبوں کو کھانا کھلائیں، محتاجوں کی حتی المقدور ضروریات پوری کریں، بیماروں کی تیمارداری کریں، لوگوں کو درس و تدریس یا زبانی گفتگو کے ذریعے ہدایت کی راہ دکھائیں، یتیموں اور بیواؤں کا خیال رکھیں، گھر کے ملازموں کے کاموں میں کمی کریں یا ان کی مدد کریں، مجالسِ خیر میں شرکت کریں، اہل خانہ کو زیادہ آرام پہنچانے کی کوشش کریں وغیرہ۔ یہ سب کام بے پناہ اجر کا باعث ہوتے ہیں۔عید کے کپڑوں اور سامان کی خریداری رمضان المبارک کی آمد سے پہلے ہی کرلیں تاکہ اطمینان سے آخری عشرے کی عبادات کا اہتمام کرسکیں۔
اگر ہم ماہِ رمضان کے تقاضے سامنے رکھیں اور اپنی کوتاہیوں کے سلسلے میں حساس رہیں، تو ماہِ رمضان کی برکتوں سے مالا مال ہوسکیں گے۔