مسلم میں انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص ایک آب و گیاہ ریگستان میں سفر کر رہا تھا، اُونٹ پر اس کے کھانے پینے کا سامان لدا ہوا تھا۔ ایک جگہ وہ سستانے کے لیے رکا، اتفاق سے اس کی آنکھ لگ گئی۔ آنکھ جب کُھلی تو اونٹ غائب ہے۔ وہ اِدھر اُدھر دوڑا، اونٹ کو تلاش کیا مگر اونٹ کا پتہ نہ چلا۔ اب وہ زندگی سے مایوس ہوگیا، کہ اس بے آب و گیاہ ریگستان میں اس کا کھانا پینا سب کچھ اونٹ پر لدا ہوا تھا اور اونٹ غائب ہے۔ وہ زندگی سے مایوس ہوگیا تھا۔ پھر اس کی آنکھ لگ گئی۔ اب جو آنکھ کھلتی ہو تو دیکھتا ہے کہ اونٹ سامنے کھڑا ہے۔ اس نے اونٹ کی لگام پکڑی اور خوشی کی انتہائی مدہوشی میں کہتا ہے: اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب!خوشی کی انتہا میں الٹا کہہ رہا ہے۔ اللہ تعالٰی کو جب اس کا بھٹکا ہوا بندہ توبہ کے ذریعے واپس ملتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس اونٹ والے بندے سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے۔
ادھوری توبہ: رمضان سے واقعی فیض یاب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ بندہ رمضان آنے سے پہلے توبہ کر لے، تمام گناہوں سے رُک جائے اور خدا سے سچا معاہدہ کرے کہ اب وہ کبھی ان گناہوں کی دلدل کے قریب نہ جائے گا۔ توبہ کے سلسلے میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ آدمی سارے گناہوں سے توبہ کرلے اور کچھ کے سلسلے میں خدا سے معاملہ کرنے بیٹھ جائے کہ فلاں فلاں گناہ کچھ عرصہ اور کرتا رہوں گا یا صرف رمضان تک ان سے باز رہنے اور ان کو ملتوی رکھنے کا عہد کرتا ہوں۔ یہ آدھی پونی توبہ پسندیدہ توبہ نہیں ہے۔ اللہ بندے سے کہتا ہے کہ میں سارے گناہ معاف کردوں گا تو پھر خدا کی معافی کو کچھ گناہوں کے حق میں اس لیے ملتوی رکھنا کہ ان سے ابھی اور لذت اندوز ہونے کی خواہش ہے.......حقیقت میں توبہ کی صحیح اسپرٹ نہیں۔ سارے ہی گناہوں سے توبہ کرکے انسان کو چاہیے کہ خدا کے حوالے کردے۔ خدا کس پیار بھرے انداز میں اپنے بندے کو اپنے دربار میں معافی نامہ داخل کرنے کے لیے بلاتا ہے۔ قرآن میں ہے:’’(اے نبی ﷺ!)کہہ دیجئے، اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتیاں کی ہیں، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ اللہ تمہارے تمام گناہوں کو معاف فرما دے گا۔ وہ بڑا ہی معاف کرنے والا اور انتہائی رحم فرمانے والا ہے۔(الزمر53)
اللہ تو کہتا ہے کہ میں سارے ہی گناہ معاف کردوں گا اور بندہ کچھ ہی گناہ معاف کرانے کا معاملہ کرے تو یہ درحقیقت قلب کی صفائی کا وہ معاملہ نہیں ہے جو مطلوب ہے۔
توبہ کی تین شرطیں ہیں اور اگر بندے نے کسی انسان کا حق مارا ہے اور کسی کے ساتھ زیادتی کی ہے تو پھر چار شرطیں ہیں۔
پہلی شرط یہ ہے کہ گناہ سے پوری طرح باز آجائے۔
دوسری شرط یہ ہے کہ واقعی اپنے گناہوں سے شرم سار ہو۔
تیسری شرط یہ ہے کہ وہ پختہ عزم کرے کہ اب کبھی بھی کسی گناہ کو دوبارہ نہیں کرے گا ۔
اگر کسی بندے کا حق مارا ہے، اس کی کوئی چیز ناحق لی ہے تو وہ تو اس کو واپس کرے خواہ جس طرح کی بھی چیز ہو، اور اگر اس کو کوئی اور تکلیف پہنچائی ہے تو اس کو بدلہ لینے کا موقع دے یا یہ کہ وہ معاف کردے، اور اگر کوئی الزام لگایا ہے یا غیبت کی ہے تو معاف کرالے۔ بندے سے معاملہ صاف کرلینا تونہ کی لازمی شرط ہے۔
توبہ کے بعد ہی آدمی اس لائق بنتا ہے کہ وہ رمضان کا شایانِ شان استقبال کرسکے اور اس حال میں رمضان کا آغاز کرے کہ وہ فی الواقع رمضان سے استفادے کے لائق ہو۔ آپ کسی زمین میں اگر لہلہاتی کھیتی اور رنگارنگ مہکتے پھول کھلے دیکھنا چاہتے ہیں تو بیج ڈالنے سے پہلے زمین کے جھاڑ جھنکاڑ صاف کرنا، اینٹ روڑے سے نکال باہر کرنا اور زمین کو پہلے نرم کرنا ضروری ہے۔ آپ سنگلاخ زمین میں یا جھاڑجھنکاڑ سے ڈھکی ہوئی زمین میں لہلہاتی کھیتی اور مہکتے پھول دیکھنے کی توقع پوری نہیں کرسکتے۔ اگر واقعی یہ سنجیدہ خواہش ہے کہ دل کی سرزمین میں نیکیوں کی بہار آئے تو دل کی سرزمین کو پہلے گناہوں اور اللہ کی نافرمانیوں سے پوری طرح صاف کیجیئے، تب ہی توقع کیجیئے کہ اس میں نیکیوں اور بھلائیوں کی بہار آئے گی اور آپ اس بہار سے فیض یاب ہوسکیں گے۔