پروفیسر سیّد ابوالخیر کشفی
قرآنِ حکیم کتابِ عجائب الغرائب ہے۔ یہ ایک ایسی دنیا ہے جس کے اسرار و رُموز ہردور میں انسانوں کے سامنے نئے انداز سے اُبھرتے آئے ہیں اور یوں ہی اُبھرتے رہیں گے۔ ہمارے علم کی سطح جیسے جیسے بلند ہوتی جاتی ہے، کائنات پر ہمارا عملِ تسخیر جس درجہ وسیع تر ہوتا جاتا ہے، قرآن اپنے معارف کو اسی نسبت سے آشکار کرتا جاتا ہے۔
انسانوں نے اس کتابِ عظیم کے بارے میں ہر دور میں جو کچھ کہا ہے وہ اسی لیے مختلف ہے۔ ہم زمان و مکان کے دائرے میں رہ کر سوچ سکتے ہیں۔ اسی لیے قرآن کی تفسیر، اس کی تعلیمات اور اس کے مطالعے کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی بنیادی اہمیت رکھتی ہے کہ ہم قرآن کی صفات اور خصوصیات کو اس کی اپنی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں۔یہ کوشش ہماری تمام ذاتی کوششوں کی نسبت حقائق سے قریب تر ہوگی۔ ’’قرآن اپنی تفسیر آپ ہے‘‘ اس جملے کو پھیلایئے تو ایک طرف یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ قرآن کی تعلیمات نہایت واضح ہیں، اور دوسری طرف اپنی تفسیر آپ ہونے کا یہ مفہوم بھی واضح ہوجائے گا کہ قرآن کی نوعیت، اس کے دائرے اور احاطے کی وسعت، اس کے مختلف پہلوئوں اور گوشوں کا تعارف، اسی کتاب کے وسیلے اور مدد سے ممکن ہے۔
اس مطالعے میں کوشش یہ کی گئی ہے کہ اس کتاب کی اہم صفات جس ترتیب سے اس میں آئی ہیں اسی ترتیب سے پیش کی جائیں:
ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ۰ۚۖۛ فِيْہِ۰ۚۛھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۲ۙ (البقرہ ۲:۲) اس کتاب میں کوئی شک و شبہہ نہیں۔ یہ متقیوں کے لیے رہنما ہے۔
کتاب کے لفظ کے ساتھ ہی پہلا تصور جو ہمارے ذہنوں میں اُبھرتا ہے وہ ایک مرتب چیز کا ہے، منتشر اوراق کو کتاب نہیں کہا جاسکتا۔ قرآن نے کئی مقامات پر اپنے آپ کو ’کتاب‘ کہا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وحیِ ربّانی کی روشنی میں مرتب فرمایا اور ایک مرتب و منظم شکل میں انسانیت کو عطا فرماکر تکمیلِ فریضۂ نبوت و رسالت فرمائی۔
قرآنِ کریم کی سورتوں اور آیتوں پر ہی غور کیجیے تو اس کی ترتیب ِ محکم واضح ہوجائے گی۔ رہی بات تکرار کی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اہم احکام کی وضاحت مختلف صورتِ حال (situations) کے تحت کی گئی ہے، یا اہمیت کو اُبھارنے کے لیے بعض احکام کو دُہرایا گیا ہے یا تصریف ِ آیات کا مقصد خالص نفسیاتی اور تعلیمی ہے کہ مختلف انداز یا ایک ہی انداز سے ایک بات کو وقفے وقفے کے ساتھ یوں دُہرایا جائے تاکہ وہ بات کے مرحلے سے گزر کر ’مسلکِ حیات‘ کا اشارہ اور قرینہ بن سکے۔
’کتاب‘ کے اس عام اور مروجہ مفہوم سے آگے بڑھیے تو عربی زبان کی رُو سے کتاب کے اور بھی کئی معانی سامنے آتے ہیں۔ کتاب مجموعۂ قوانین کو بھی کہا جاسکتا ہے، بلکہ وہ کتاب جو احکام و قوانین کا مجموعہ ہو ، اسے ہی الکتاب کہنا زیب دیتا ہے۔ اس معانی کو قرآنی آیات کی روشنی میں پرکھا جاسکتا ہے، مثلاً کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کا مطلب یہی ہوا کہ تم پر روزے فرض کیے گئے۔ قرآن کے باب میں کتاب کے انھی معانی کی وضاحت سورئہ نساء کی اس آیت سے ہوتی ہے:
اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰکَ اللّٰہُ ط (النساء ۴:۱۰۵) (اے رسولؐ) ہم نے تم پر یہ کتاب حق کے ساتھ نازل کی ہے تاکہ تم اللہ کی ہدایات کے مطابق لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو۔
ھُدٰی کے معنی ہیں راستہ دکھانے کے لیے آگے آگے چلنا۔ زندگی کی تاریک راہوں کو ہمارے لیے قرآن نے اسی طرح روشن کیا ہے۔ اس لفظ کے بنیادی معنوں میں رہنمائی کے ساتھ ساتھ روشنی کا مفہوم بھی موجود ہے۔ وہ چیز جو روشن ہو (اور جس کی روشنی میں دوسری اشیا بھی صاف نظر آئیں) ھُدٰی ہے جیسے دن۔قرآن کی اس روشنی کا نتیجہ ہے کہ اس کے بتائے ہوئے حقائق کے بارے میں کوئی شک و شبہہ باقی نہیں رہتا لیکن قرآن کی یہ رہنمائی، یہ ہدایت اور روشنی، متقی لوگوں کے لیے ہے۔
لفظ متقی کا ترجمہ ’ڈرنے والے‘ مکمل نہیں۔ تقویٰ قرآن کی ایک نہایت جامع اصطلاح ہے اور اُردو میں اسے قبولِ عام حاصل ہے، اسی لیے کسی دوسرے لفظ کے سہارے کی ضرورت نہیں۔ قرآن میں اکثر مقامات پر تقویٰ کے ساتھ اللہ کا ذکر ضرور ہے۔ اس سے قرآنی تقویٰ کی وضاحت خود بخود ہوجاتی ہے۔ متقی وہ لوگ ہیں جو اللہ کی حفاظت اور نگہداشت کے متمنی ہیں، جو ہر اس چیز سے احتیاط اور اجتناب برتتے ہیں جو احکامِ الٰہی کے مطابق نہ ہو۔ متقی اپنی زندگی کا ہرلمحہ اللہ کے احکام کے مطابق بسر کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کوشش میں اسوئہ حسنہ کو نمونے کے طور پر اپنے سامنے رکھتا ہے۔ متقی احکامِ الٰہی سے پیوست رہتا ہے اور فاجر (متقی کی ضد) وہ ہے جو راستے سے علیحدہ ہوجائے۔
شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ ج (البقرہ ۲:۱۸۵) وہ رمضان ہی کا مہینہ ہے جس میں (اوّل اوّل) قرآن نازل ہوا، جو لوگوں کا رہنما ہے اور جس میں ہدایت ہے، کھلی ہوئی نشانیاں (بینات) ہیں اور فرقان ہے۔
’مبین‘ اور ’بینّات‘ کے بیان کردہ مفہوم سے بیّنات کی وضاحت اس کے مروجہ ترجمے، یعنی ’ہدایت کی کھلی ہوئی نشانیاں‘ کی نسبت زیادہ بہتر طور پر ہوجاتی ہے۔ ’فرقان‘ کے لفظ میں بھی مبین کے معنی کسی حد تک موجود ہیں۔ فرقان الگ الگ کردینے والے کو کہتے ہیں۔ یہ وہ کتاب ہے جس نے حق و باطل کو ہمیشہ کے لیے الگ الگ کر دیا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ یہ کتاب’مبین‘ بھی ہوتی۔ اللہ کی وحی ہر دور میں فرقان رہی ہے۔ حضرت موسٰی کے عہد میں ایک طرف فرعون، قارون اور ہامان کی مشترکہ قوتیں باطل کے آستانے پر انسانیت کے سر کو جھکانا چاہتی تھیں، اور دوسری طرف موسٰی کے ذریعے خدا حق کو آشکار کر رہا تھا۔ قرآنِ کریم نے توریت کو بھی فرقان کہا ہے۔ اسی بناپر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وحی الٰہی ہر زمانے میں فرقان رہی ہے۔
فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ (البقرہ ۲:۹۷) اس (جبرئیلؑ) نے تو یہ کتاب اللہ کے حکم سے تمھارے دل پر نازل کی ہے، جو پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے۔
اللہ نے ہمیشہ انسانوں کو فسانہ و فسوں کی بھول بھلیوں سے بچانے کے لیے اپنے انبیاؑ کے ذریعے وحی کی صورت میں حقائق کے تحفوں سے سرفراز فرمایا ہے۔ انسانوں نے ان حقائق کو فسانہ و فسوں کے رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کی لیکن قرآنِ حکیم نے ان کوششوں کے سلسلے کو ہمیشہ کے لیے ناکام و نامراد بنا دیا اور وہ اس طرح کہ قرآن کے دامن میں صحف ِ اولیٰ کے حقائق بھی جگمگا رہے ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ مرتب ہوتا ہے کہ وہ حقائق جن میں کوئی شک و شبہہ نہیں اور جو رہنمائی کرتے ہیں وہ اَبدی ہیں___ وقت اور زمانے سے بلندتر!
مصدّق کے معنی ہیں تصدیق کرنے والا اور سچ کر دکھانے والا۔ سچ کر دکھانے کے لیے قوت ایک بنیادی عنصر کا درجہ رکھتی ہے۔ قرآن نے تعلیماتِ الٰہی اور انسانی زندگی کی بنیادی اقدار کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کے وسیلے سے سچ کر دکھایا۔
قرآن اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے، وہ کتابیں جن میں انسانوں کی مختلف جماعتوں اور اَدوار کے لیے اللہ تعالیٰ کی وحی موجود تھی۔ وحی الٰہی کا مقصد انسانوں کی رہنمائی ہے۔ رہنمائی کا تعلق اعمال سے ہے۔ تمام صحف ِ سماوی اور قرآن میں اچھے اعمال کے لیے بشارت دی گئی ہے اور بُرے اعمال کے نتیجے سے ڈرایا گیا ہے (یہ کام نبی اکرمؐ کے وسیلے سے ہوا، اسی پر حضوؐر کو بشیر و نذیر کہا گیا)۔
ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ نَزَّلَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ ط(البقرہ ۲:۱۷۶) اللہ نے یہ کتاب حق کے ساتھ نازل فرمائی ہے۔{ FR 549 }
حق کے ساتھ نازل کرنے کا منطقی اور لازمی تعلق مصدّق کے ساتھ ہے۔ اُسی کتاب کو ہم حق کہہ سکتے ہیں جس کی تمام تعلیمات وقت کی گردشوں پر غالب آئیں اور جس کے دامن میں وہ ربانی تعلیمات محفوظ ہوں جو ابتدائے کائنات اور آغازِ وحی سے زمانۂ نزولِ قرآن تک انسانی زندگی کی شیرازہ بندی کرتی رہی تھیں:
نَزَّلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَ اَنْزَلَ التَّوْرٰ ۃَ وَالْاِنْجِيْلَ۳ۙ (اٰل عمرٰن ۳:۳)اس نے (اے محمدؐ) آپؐ پر سچی کتاب نازل کی جو پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور اسی نے توریت اور انجیل نازل کی۔
حق کے سلسلے میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حق میں دوعناصر ہیں: ۱-صحت، ۲-پایداری۔ ثبات و دوامِ صحت اور ثبات کے عناصر جس چیز میں ہوں گے، اسے ایک محسوس شکل عطا کردیں گے۔
قرآنی تعلیمات محسوس و مشہود شکل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے رفقا کی زندگی میں یوں اُبھریں کہ ۱۴۰۰ سال گزرنے کے بعد نقشِ پا کی شوخی آج بھی یہ کہہ رہی ہے کہ کوئی ابھی ابھی یہاں سے گزرا ہے۔ جب حقیقتیں محسوس طور پر سامنے آتی ہیں تو ان کے نتائج بھی ہم مرتب شکل میں دیکھ سکتے ہیں۔ قرآن اس لیے بھی حق ہے کہ اس کی تعلیمات میں صحت و دوام ہے، اور اس لیے بھی کہ اس کی تعلیمات کے یہ پہلو انسانی زندگی میں نتائج کے طور پر مرتب ہوچکے ہیں۔ حق کی لازمی پہچان یہ ہے کہ وہ باطل کے ساتھ سمجھوتا نہیں کرسکتا۔ بقول اقبال ؎
باطل دُوئی پسند ہے حق لاشریک ہے
شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول
حق اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے اور حالات اس کے سانچے میں ڈھلتے رہتے ہیں۔ ایک محترم بزرگ نے حق کے معانی کی قرآنی توضیح کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’جو زمانے کے تقاضوں کا ساتھ دے سکے‘‘۔۱
یہ توضیح گمراہ کن ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ حق زمانے کے تقاضوں کا ساتھ نہیں دیتا، بلکہ زمانے کے تقاضے اس کا ساتھ دیتے ہیں۔۲ کیوں کہ حق صاحب ِ حکمت بھی ہے اور صاحب ِ تخلیق و ایجاد بھی۔ اللہ اسی لیے حق ہے اور رسول و قرآن بھی اسی مفہوم کے اعتبار سے حق ہیں۔ حق کا مقابل لفظ ’ظن‘ ہے جس طرح اسلام و کفر۔ اور ظن و حق کا فرق یہی تو ہے ؎
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
مومن میں آفاق اس لیے گم ہوتے ہیں کہ حق اسے صاحب فقر غیور بنا دیتا ہے۔ حق کے سلسلے میں قرآن نے یہ بات بھی واضح کردی ہے کہ نَزَّلَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ ، یعنی حق (وحی الٰہی) ایک خارجی شے ہے، محض نبیؐ کے ذہن کی پیداوار نہیں۔ خدا اسے نازل کرتا ہے، آدمی کا علم اسے منکشف نہیں کرتا۔ حق کا استحکام و ثبات اسے محفوظ رکھتا ہے۔ اسی لیے اللہ نے اپنی کتاب کو ذکریٰ اور تذکرہ کہا ہے:
ذٰلِکَ نَتْلُوْہُ عَلَیْکَ مِنَ الْاٰیٰتِ وَ الذِّکْرِ الْحَکِیْمِ o(اٰل عمرٰن ۳:۵۸) (اے محمدؐ) ہم تم کو یہ آیات اور حکمت بھری نصیحتیں (ذکرالحکیم) سناتے ہیں۔
آج دنیا کے دوسرے مذاہب کی کتابیں (بالخصوص عہدنامۂ عتیق و جدید) جس صورت میں ہمیں ملتی ہیں وہ افسانے کی صورت میں ہیں، ایسے افسانے جن کی دل چسپیوں میں ہم گم ہوجائیں اور جب سطح پر اُبھریں تو رہنمائی کا کوئی تابناک اور درخشاں موتی ہمارے ہاتھ میں نہ ہو۔
فسانہ و فسوں میں گم شدہ ذہن صحف ِ سماوی اور کتابِ قوانین سے بھی دل چسپی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جون ڈی یہانن (John D. Yohannan) نے ’ایشیائی ادب‘ کے ایک مجموعے میں قرآنِ کریم کے انتخاب سے پہلے اس کتاب کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ادب کے ایک کارنامے کی حیثیت سے شدید دبائو کے تحت ہے، کیوں کہ لازمی طور پر دنیا کے دوسرے سامی مذاہب کے صحف سے اس کا مقابلہ کیا جاتا ہے‘‘۔(ٹریژری آف ایشین لٹریچر، مطبوعہ نیو امریکن لائبریری، اشاعت پنجم، ۱۹۶۴ء، ص ۳۸۹)
قرآنِ حکیم کے اسالیب و خصوصیات کے بارے میں آپ جو کچھ جانتے ہیں اور جو کچھ یہاں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس کے پیشِ نظر اس خیال پر تبصرہ کی ضرورت نہیں۔ قرآن جہاں روح، جنّت اور اللہ کے انعامات کا ذکر کرتا ہے وہاں الفاظ پرِ جبرئیلؑ کی آواز بن جاتے ہیں، اور جہاں احکا م و ہدایت دیتا ہے وہاں ہرلفظ زندگی کی طرح سنگین ہے۔ اسالیب کا یہ تنوع اس کے اعجاز کا ایک پہلو ہے۔
ذکر کے معنی عظمت اور بڑائی کے بھی ہیں۔ اس اعتبار سے بھی یہ کتابِ جلیل ’الذکر‘ ہے۔ جس آیت ِ کریمہ (آل عمران، آیت ۵۸) کا اقتباس ابھی آپ نے پڑھا ہے اس میں ’ذکرالحکیم‘ کے ساتھ ساتھ ’آیات‘ بھی کہا گیا ہے۔ آیت نشانی کو کہتے ہیں۔ اللہ کی نشانیاں ہماری ذات اور کائنات دونوں میں موجود ہیں ع
اے انفس و آفاق میں پیدا ترے آیات
قرآن حق ہے اور اس اعتبار سے اللہ کی سب سے محکم آیت اور نشانی ہے (ویسے قرآن کے ہرحکم یا جملہ کو آیت کہا جاتا ہے)۔ اللہ ہمارے دائرہ ادراک سے باہر ہے ع
ہے پرے سرحدِ ادراک سے اپنا مسجود
اور اس مسجود کے لیے قبلہ نمائی کے فرائض قرآنِ حکیم ادا کر رہا ہے۔ یہ معبود کی طرف سب سے اہم اشارہ ہے۔ اس میں غوروفکر لقائے رب کا وسیلہ بنتا ہے۔
ھٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًى وَّمَوْعِظَۃٌ لِّلْمُتَّقِيْنَ۱۳۸ (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۸) یہ (قرآن) انسانوں کے لیے بیان اور اہلِ تقویٰ کے لیے ’ہدایت‘ اور ’موعظت‘ ہے۔
یعنی اس کتاب سے ایک طرف تو عام انسانوں کو دینِ حق کے بارے میں حقائق معلوم ہوتے ہیں اور دوسری طرف مومنوں اور متقیوں کے لیے یہ کتابِ ہدایت ہے___ ایسی ہدایت جو بُرے اعمال اور غلط روش کے نتائج سے آگاہ کرتی ہے اور حکماً ان سے روکتی بھی ہے۔
علم: ہدایت اور موعظت کے لیے لازمی ہے کہ وہ حق ہو اور حق کا تعلق علم سے ہے۔ قرآن اللہ کا علم ہے۔ اس اجمال کی تفصیل مناسب ہوگی۔ اللہ نے اسے اپنے علم سے نازل کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
لٰكِنِ اللہُ يَشْہَدُ بِمَآ اَنْزَلَ اِلَيْكَ اَنْزَلَہٗ بِعِلْمِہٖ۰ۚ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃُ يَشْہَدُوْنَ۰ۭ وَكَفٰي بِاللہِ شَہِيْدًا۱۶۶ (النساء۴:۱۶۶) اللہ نے جو کتاب تم پر نازل کی ہے اس کی نسبت وہ گواہی دیتا ہے کہ اس نے اپنے علم سے نازل کی ہے اور فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں اور اللہ کافی ہے گواہی کے لیے۔
یہ ہے قرآن کے بارے میں اس کے بھیجنے والے کا بیان، اور خطاب ہے اپنے رسولؐ سے۔
’علم‘ یقین اور حقیقت کے احاطہ و ادراک کو کہتے ہیں۔ یقین اور حقائق کی بنیاد دلیل و بُرہان پر ہوتی ہے۔ حق اور علم کو محض جذبات کا سہارا نہیں لینا پڑتا بلکہ حق اپنے آپ کو دلیل اور عقل کی بنیادوں پر منواتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عقلی طور پر حقائق کو قبول کرنے کے بعد ہم انھیں اپنے جذبات کے پیکر میں ڈھال لیں۔ عقل اور دل کے درمیان اتنے فاصلے نہیں ہیں جن کا عام طور پر ذکر کیا جاتاہے۔ ایک طرف اگر مومن کی پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ: وَ اِذَا سَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ (المائدہ ۵:۸۳) ’’اس کتاب کو سن کر ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں‘‘، تو دوسری طرف اسی جماعت کے لیے کہا گیا ہے کہ وہ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْھَا صُمًّا وَّعُمْیَانًا (الفرقان ۲۵:۷۳)’’اس کتاب پر اندھے اور بہرے بن کر نہیں رہ جاتے‘‘ ، بلکہ اسے ذہنی اور عقلی طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ اس کتاب کی تفصیلات علم کے ستونوں پر بلند کی گئی ہیں۔ فَصَّلْنٰہُ عَلٰی عِلْمٍ(اعراف ۷:۵۲)۔
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ کُمْ بُرْھَانٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًاo (النساء ۴:۱۷۴) اے لوگو تمھارے رب کی طرف سے تمھارے پاس بُرہان آچکی اور تمھاری طرف واضح نُور بھیج دیا۔
’بُرہان‘ روشن اور مستحکم دلیل کو کہتے ہیں۔ باطل کے پاس بودی دلیلیں تو ہوتی ہیں لیکن بُرہان نہیں ہوتی۔ اسی لیے قرآن نے اپنے مخالفین سے کہاکہ اگر ’’تم سچے ہو تو اپنی دلیلیں اور بُرہان لائو‘‘۔ظاہر ہے کہ باطل کے ترکش میں بُرہان کا تیر کہاں سے آیا؟
قرآن نے اپنے کو بُرہان کے ساتھ ساتھ نُور بھی کہا ہے اور اس نور کے ساتھ ساتھ مبین کی صفت بھی آئی ہے۔ گویا قرآن کی دلیلیں خود بھی روشن ہیں اور دوسری چیزوں کو بھی روشن کر دیتی ہیں۔ اس طرح یہ بُرہان (اور کتاب) اپنا ثبوت آپ ہے۔
جو معروضات پیش کی گئی ہیں ان کی روشنی میں غور فرمایئے تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ نُور کا ہدایت (ھُدٰی) سے گہرا اور راست رشتہ ہے۔ جو چیز نُور نہ ہو وہ سبب ِہدایت نہیں ہوسکتی۔ کیوں کہ نُور اشیا، ارادوں، افراد سب کے مقا م کا تعین کرتا ہے۔ جو شے حقیقی معنوں میں نُور ہوگی وہ وسعت اور فراخی سے ہم کنار ہوگی۔ اس کا دائرہ اور احاطہ وسیع ہوگا۔ قرآن نُور بھی ہے، اللہ کے احکام کے نُور کا سفر بھی ہے اور سفر کی داستان بھی۔ یہ نُور جو ہردور میں وحی کے ذریعے انسانوں کو ملا۔ اس طرح قرآن نُور، حق، ہدایت اور ان تمام صفات جن کا ذکر آچکا ہے یا آئے گا، کے ساتھ ساتھ مُھَیْمِن ہے۔ مُصَدِّقاور مُھَیْمِن میں نہایت لطیف فرق ہے۔ قرآن نے ان دونوں صفات کو ایک ساتھ استعمال کرکے اس فرق کو اور اُبھار دیا ہے:
وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَّا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَ مُھَیْمِنًا عَلَیْہِ (المائدہ ۵:۴۸) پھر اے نبیؐ! ہم نے تمھاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے، اور الکـتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اُس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ و نگہبان ہے۔
قرآن اللہ کے ابدی قوانین (جو پہلی کتابوں میں آچکے ہیں) کی تصدیق بھی کرتا ہے اور ان کا پوری طرح احاطہ بھی کیے ہوئے ہے۔ اسی لیے ان صفات کی روشنی میں اسی آیت میں آگے چل کر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ’’جو حکم اللہ نے نازل فرمایا ہے اس کے مطابق اُن کا فیصلہ کرنا اور جو حق تمھارے پاس آچکا ہے اسے چھوڑ کر ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا‘‘۔ (المائدہ ۵:۴۸)
قرآنِ حکیم صحف ِ اولیٰ کا مُھَیْمِن اس لیے ہے کہ اس کے سہارے انسان اپنی منزل تک پہنچ سکے اور منزل تک پہنچنے کے لیے اسے جس سہارے کی ضرورت ہے وہ یہی ابدی تعلیمات ہیں۔ اسی لیے قرآن نے اپنے آپ کو بلاغ بھی قرار دیا ہے:
وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَ مَنْ م بَلَغَ ط (الانعام ۶:۱۹) اور یہ قرآن مجھ پر اس لیے وحی کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے سے تم کو اور جس تک پہنچ سکے اسے آگاہ کردوں۔
اِنذار (ڈراوے) کا ذکر بشارت کے ساتھ ہونا چاہیے تھا کیوں کہ بشارت اور اِنذار دونوں سے مل کر ایک بات کی تکمیل ہوتی ہے۔ قرآن مومنوں کے لیے بشارت ہے تو غلط روشِ حیات کو اپنانے والوں کے لیے اِنذار اور تنذیر آگاہ کرنے کو کہتے ہیں۔ کسی ایسی چیز (خطرے) کے نتائج سے آگاہ کرنے کو جو ابھی واقع نہ ہوئی ہو۔ قرآن نے زندگی کے دو اسالیب کو صاف صاف پیش کر دیا ہے: ایک اسلام، دوسرا کفر۔ ایک کے لیے بشارت ہے ، دوسرے کے لیے اِنذار۔ لیکن اس ڈراوے اور آگاہی سے صرف وہی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں جن کے دل مقفّل نہ ہوں۔ کان کھلے ہوں اور آنکھیں دیکھ رہی ہوں ورنہ:
سَوَآئٌ عَلَیْھِمْ ئَ اَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۶ (البقرہ ۲:۶)ان کے حق میں برابر ہے خواہ آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں۔ وہ ایمان نہ لائیں گے۔
قرآن حکیم کی جو صفات اللہ تعالیٰ نے اس مقدس اور آفاقی کتاب میں بیان فرمائی ہیں وہ ایک دوسرے سے جس قدر وابستہ ہیں ان کا ہلکا سا اندازہ اس حقیر کوشش سے ہوسکتا ہے۔ میری ناچیز رائے میں یہ صفات اس ترتیب کے ساتھ آتی ہیں کہ ہرصفت اپنے بعد آنے والی صفت کی وضاحت کردیتی ہے۔
وَ ھٰذَا کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَکٌ فَاتَّبِعُوْہُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَo (الانعام ۶:۱۵۵) اور یہ مبارک کتاب (بھی) ہم نے نازل کی ہے۔ پس اس کی پیروی کرو۔ اور (اللہ کا) تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
’مبارک‘ کی وضاحت اسی آیت کریمہ میں تقویٰ اور رحم سے ہوگئی ہے۔ ’مبارک‘ وہ چیز ہے جس میں ایسا ثبات ہو، یا ایسا ثبات دوسروں کو عطا کرے جس میں استحکام کے ساتھ نمو بھی ہو، یعنی بڑھتے رہنے کی صلاحیت۔ اُردو میں یہ لفظ اپنی وسعتوں کے ساتھ منتقل ہوا ہے: ’’اس کے ہاتھ میں کتنی برکت ہے‘‘۔ ’’اس کے قدم ہمارے گھر کے لیے کتنے مبارک ثابت ہوئے‘‘۔ ثبات اور نمو کے ساتھ ساتھ برکت میں خیروفلاح اور کثرت کے معنی بھی موجود ہیں۔
وَّ ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ اِلَیْکُمُ الْکِتٰبَ مُفَصَّلًا ط (الانعام ۶:۱۱۴) اور وہی تو ہے جس نے تمھاری طرف مفصل کتاب بھیجی۔
قرآن دین و کفر اور حق و باطل کے درمیان حدِ فاصل ہے اور اس اعتبار سے یہ کتاب مفصل ہے۔ پھر اس لحاظ سے بھی، کہ نہایت وضاحت رکھنے والی کتاب ہے۔ وضاحت کا مفہوم ذہن میں واضح ہونا چاہیے۔ اس کے احکام میں اُلجھن نہیں۔ یہی صفائی وضاحت ہے۔ وضاحت تفصیلات کو نہیں کہتے۔ قرآن کے احکام میں کہیں اُلجھن نہیں۔ اس میں جہاں تفاصیل اور عملی شکلیں نہیں دی گئی ہیں، اس کا مقصد یہ ہے کہ انھیں اسوئہ حسنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں تلاش کیا جائے جو قرآن کے اجمال کی تفصیل اور اشارات کی تفسیر ہے۔
فَقَدْ جَآئَ کُمْ بَیِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ ھُدًی وَّ رَحْمَۃٌ ج (الانعام ۶:۱۵۷) تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے ایک دلیلِ روشن اور ہدایت اور رحمت آگئی ہے۔
یہ کتاب انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی ایسی دین اور عطا ہے جس نے اس کی کمیوں کو دُور کردیا ہے۔ کمی دو قسم کی ہوسکتی ہے: داخلی اور خارجی۔ داخلی کمی کا تعلق انسانوں کی دنیا میں تہذیب، ثقافت اور اندازِ فکر سے ہوتا ہے، اور خارجی کمی کا تعلق تمدن، معاشرتی زندگی اور رہن سہن سے۔ قرآن نے ان دونوں کمیوں سے انسان کو نجات دلا دی۔ ایک طرف توحید، رسالت، قیامت، عدل، مساوات، اخوت اور ایسی ہی دوسری بنیادی اقدار کی بنا پر ذہن کی دنیا میں انقلاب برپا کیا، اور دوسری طرف سیرتِ اجتماعی کو اس ذہنی انقلاب نے یکسر بدل دیا۔
رحمت کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اس کے کئی معنوی پہلو (shades) ہیں۔ رحمت کمیوں کو دُور کرنے والی عطا اور بخشش کو بھی کہتے ہیں اور حفاظت کرنے کو بھی۔ قرآن نے نقصانات اور خسرونامرادی کے طوفانوں کے مقابل میں انسان کو اپنے دامنِ رحمت میں چھپا لیا۔ مجموعی طور پر وحی الٰہی کو رحمت کہا گیا ہے، اور قرآن کو خاص طور پر، کیوں کہ قرآنِ حکیم پر سلسلۂ وحی ختم ہوا اور اس میں قیامت تک کے لیے انسانوں کے واسطے سامانِ رحمت ہے۔ رحمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ عطا اور بخشش جو ضروریات کے مطابق ہو۔
ھٰذَا بَصَآئِرُ مِنْ رَّبِّکُمْ وَ ھُدًی وَّ رَحْمَۃٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۲۰۳ (الاعراف ۷:۲۰۳) یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمھارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو اسے قبول کریں۔
بصائر جمع ہے، اور کتاب کو بصائر کہنا بلاغت کی اعلیٰ ترین مثال بھی ہے، اور اس کتاب کے مقام اور اس کے ایک پہلو کا نہایت ہی جامع احاطہ بھی۔ وہ یوں کہ قرآن واضح دلیلوں اور واشگاف حقیقتوں کا مجموعہ ہے، ایسی حقیقتیں جن میں چمک اور روشنی ہو۔ یہی وضاحت اور روشنی بصیرت کو دیکھنے سے اور بصر کو نظر سے ممتاز اور علیحدہ کردیتی ہے۔ قرآن نے اس حقیقت کا اظہار یوں فرمایا ہے:
وَ تَرٰھُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ وَ ھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَo(الاعراف ۷:۱۹۸) ان کو آپ دیکھتے ہیں کہ گویا وہ آپ کو دیکھ رہے ہیں، حالاں کہ وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے۔
حکمت کا ترجمہ عام طور پر دانائی کیا گیا ہے، لیکن دانائی اتنا چھوٹا لباس ہے جو اِس عظیم اصطلاح کے جسم پر راست نہیں آسکتا۔ حکمت میں قوتِ فیصلہ، انصاف، حسن اور تناسب کے سب مفہوم ہیں۔ قرآن کو حکمت ِ بالغہ کہا گیا ہے، کیوں کہ یہ انسان کو اُن فیصلوں، اُس تناسب اور مقامِ عدل تک پہنچاتی ہے جو اس کی منزل ہے۔ حکمت میں قوت کا عنصر بھی شامل ہے، اور یہی عنصر اسلامی نظامِ مملکت کو ایک نظامِ حکمت بنا دیتا ہے۔
يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ۰ۥۙ وَہُدًى وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ۵۷ (یونس ۱۰:۵۷) لوگو، تمھارے رب کی طرف سے موعظت اور دلوں کی بیماریوں کی شفا اور مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت آگئی۔
ما فی الصدور کا اشارہ قلب کی طرف ہے۔ قلب جس کی صحت سارے جسم بلکہ انسانی معاشرے کی صحت ہے۔ اور اگر گوشت کا یہی ٹکڑا بیمار ہو تو سارا جسم (اور روح) بیمار ہوتا ہے، یعنی پوری زندگی بیماری میں مبتلا ہوجاتی ہے۔
عِبْرَۃٌ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ ط (یوسف ۱۲:۱۱۱) ان میں سوچنے سمجھنے والوں کے لیے عبرت ہے۔
یعنی یہ واقعات ایسے ہیں جن کی مدد سے انسان ان جیسے دوسرے واقعات و اعمال کے نتائج تک پہنچ جائے۔ ایک منزل سے دوسری منزل کو عبور کرنا۔ عبور کا لفظ اُردو میں ان معنوں میں مستعمل ہے۔ تاریخ عبرت کا سامان اسی لیے ہے کہ اس سے ہم مختلف طریقۂ ہائے حیات اور اسالیب ِ زیست کے نتائج کو سمجھ لیتے ہیں اور اس تفہیم کے لیے ان نتائج کو آنکھوں سے دیکھنا ضروری نہیں۔
قرآن نے اسی عبرت کی خاطر تاریخ کو بڑی اہمیت دی ہے اور اسے وقائع نگاری کی سطح سے بلند کر کے فلسفے کی اس سطح تک پہنچا دیا جس نے عہدِ حاضر کو تاریخ کے مفہومِ حقیقی سے آشنا کرایا۔
عظیم: سورئہ حجر (آیت ۸۷) میں قرآن کو ’قرآن العظیم‘ کہا گیا ہے۔ عظیم بنیادی اہمیت کی حامل چیزوں کو کہتے ہیں ، مثلاً انسانی جسم میں ہڈی کو، کسان کے ہل میں لکڑی کو وغیرہ وغیرہ۔ عظمت میں اہمیت، بڑائی اور پاکیزگی کے مفاہیم موجود ہیں۔ قرآن اس لیے عظیم ہے کہ اس کی بنیادی تعلیمات اہم ہیں اور انسان کو بڑائی اور پاکیزگی عطا کرتی ہیں۔ اللہ نے اپنے آپ کو بھی انھی معانی کے پیش نظر عظیم کہا ہے۔
وَ قِیْلَ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا مَاذَآ اَنْزَلَ رَبُّکُمْ ط قَالُوْا خَیْرًا ط (النحل ۱۶:۳۰) اور جب متقیوں سے پوچھا جاتا ہے کہ تمھارے رب نے کیا نازل کیا ہے تو کہتے ہیں کہ خیر۔
عربی کی طرح اُردو میں بھی خیر کا لفظ ’شر‘ کے مقابل میں استعمال ہوتا ہے۔ ہرچیز جو عزیز ہو، منفعت بخش ہو، اچھی ہو، خوبی رکھتی ہو اور بلند مرتبہ ہو، وہ خیر ہے۔ قرآن میں یہ لفظ کئی معنوں میں آیا ہے، مثلاً: (۱) شر،فتنہ اور ادنیٰ کے مقابلے میں (۲) مال و دولت کے لیے (۳) منتخب اور برگزیدہ افراد کے لیے (اخیار) (۴) عمدہ اشیا کے لیے (۵) حسین اور صاحب ِ کردار خواتین کے لیے (خیرات)۔
قرآن نے وحی الٰہی کو بھی اسی لیے خیر کہا ہے کہ اس لفظ کی ان وسعتوں کے پیش نظر اس کا مروجہ اُردو ترجمہ ’بہترین‘ یا ’بہترین کلام‘ بہت تنگ معلوم ہوتا ہے۔ ورنہ ’خیر‘ کا لفظ جب ہماری زبان نے قبول کرلیا ہے تو اس کے ترجمے کی کون سی ضرورت ہے؟ قرآن خیر ہے، کیوں کہ اس میں عزت، نفع بخشی، خوبیاں، مرتبۂ بلند، تناسب،حسن، یہ سب چیزیں ہیں، اور اس کی پیروی سے یہی چیزیں مومنوں کو انفرادی طور پر اور پھر اجتماعی طور پر نصیب ہوتی ہیں۔ اپنی اجتماعی زندگی کو قرآن کے مطابق ڈھالنے کا مطالبہ اس لیے کیا جارہا ہے کہ یہ برکتیں ہمارے معاشرے کی بنیادیں بن سکیں۔
احسن: خیر کے معنوں کا ایک اہم پہلو حُسن ہے۔ قرآن صرف حسین نہیں بلکہ احسن ہے:
وَاتَّبِعُوْٓا اَحْسَنَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ (الزمر ۳۹:۵۵) تم کو چاہیے کہ اپنے رب کے پاس سے آئے ہوئے، اچھے اچھے حکموں پر چلو۔
یعنی خدا نے جو کچھ نازل کیا ہے اس میں حد درجہ تناسب و توازن ہے۔ ایسا تناسب جو انسانی زندگی اور ذہن کی کمیوں کو پورا کر دیتا ہے۔ جہاں حُسن ہوگا وہاں سیئات اور گناہوں کی گنجایش نہ ہوگی۔
اگلی ہی آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ اس پر جھوٹ کا دخل نہ آگے سے ہوسکتا ہے نہ پیچھے سے، کیوں کہ یہ حکیمِ حمید(اللہ) کی نازل کردہ ہے (حم السجدہ۴۱:۴۲)۔ عزیز صاحب ِ قوت، صاحب ِ غلبہ اور محافظ و رفیع کو کہتے ہیں۔ یہ صفت قرآن میں اللہ تعالیٰ کے لیے باربارآتی ہے کیوں کہ اس کے پیغام پرعمل کرکے مسلمان قوت و غلبہ حاصل کرسکتا ہے اور ایسی بلندی پر پہنچ سکتا ہے کہ ستارے اس کی گردِ راہ ہوں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب مسلمانوں نے کتاب اللہ کو مضبوط رسی کی طرح ہاتھ میں پکڑا تو دنیا کی ہرطاقت اور سارے معبودانِ باطل اس کے سامنے جھک گئے۔ آج ہم عملی و نظری طور پر اس کتابِ عزیز سے اتنے دُور ہیں کہ اس میں ایسے اندازِ حیات کا سراغ تلاش کرتے ہیں جو ہمیں ترکِ جہان کی لذت عطا کرسکے ؎
اسی قرآں میں ہے اب ترکِ جہاں کی تعلیم
جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر
قرآن کو اس لیے اللہ نے میزان کہا ہے کہ اس سے ہم اشیا اور بالخصوص انسانی زندگی کے توازن و اعتدال کو ناپ سکتے ہیں:
اَللّٰہُ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ وَالْمِیْزَانَ ط(الشوریٰ۴۲:۱۷) اللہ ہی ہے جس نے اِس کتاب (قرآن) کو انصاف اور حق کے ساتھ نازل فرمایا۔
وَ کَذٰلِکَ اَنْزَلْنٰہُ حُکْمًا عَرَبِیًّا ط (الرعد ۱۳:۳۷) اور اسی طرح ہم نے اس کو اس طور پر نازل کیا کہ وہ ایک خاص حکم ہے عربی زبان میں۔
یہاں ’حکمِ عربی‘ سے مراد واضح حکم کے ہیں۔ ایسا حکم جو فصیح زبان میں ہو۔ عربی کے معنی صرف جغرافیائی حد تک، محدود نہیں، بلکہ فصیح اور واضح کرنے کو بھی کہتے ہیں۔ اسی لیے کہا گیا کہ: قُراٰنًا عَرَبِیًّا غَیْرَ ذِیْ عِوَجٍ (الزمر ۳۹:۲۸) ،یعنی جس کی کیفیت یہ ہے کہ عربی قرآن ہے جس میں ذرا کجی نہیں۔ یہاں غَیْرَ ذِیْ عِوَجٍ، عَرَبِیًّا کی تشریح ہے، یعنی قرآن جو بہت واضح اور سیدھا ہے اور جس میں کوئی کجی نہیں۔ یعنی یہ کتاب عربی زبان میں نازل ہوئی اور اس کی تعلیمات بہت واضح اور سیدھی ہیں۔ ہرکجی سے پاک، ہردور کے لیے رہنما اور روشن!
۱ زمانے کے بدلتے تقاضوں کا ایک تصورِ فاسد ہماری ذہنی دنیا میں مغربی فلسفے نے لا ڈالا ہے، اور ہمارے ’دانش ورَ قرآن اور دین کو اس تصور کے تابع کرنے کے لیے زورلگارہے ہیں۔ اس ساحرانہ کلمے میں جو کلیہ مخفی ہے وہ یہ ہے کہ جو کچھ نظریات بھی رائج ہوجائیں، ادارات جو شکل بھی اختیار کرلیں، ثقافت جس طرز پر بھی ڈھل جائے، انسانی ذہن و اخلاق میں جو بگاڑ بھی آجائے، اسے تقدیرِ غیرمتبدل سمجھ کر نہایت فدویانہ طریق سے قبول کرلینا چاہیے ، اور آیات و احکام قرآن اور فرمودات و اسوئہ رسولؐ کو بھی زمانے کے بدلتے تقاضوں کے سانچے میں ڈھال کر نت نیا مفہوم دے لینا چاہیے یعنی وہی صورت کرنی چاہیے کہ’خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں‘۔ (نعیم صدیقی)
۲ اور اُمت مسلمہ کو تو برپا ہی اس مقصد کے لیے کیا گیا ہے کہ جب زمانہ حق سے انحراف کرکے کچھ تقاضے پیدا کردے تو زمانے کی رَد کا مقابلہ کرکے اُن تقاضوں کو تابع قانونِ الٰہی کر دیا جائے۔ کتاب الٰہی تو ’زمانہ ستیز‘ مسلک سکھاتی ہے، نہ کہ ’بازمانہ بساز‘ کا! (ن ص)