December 22nd, 2024 (1446جمادى الثانية20)

ماہِ رمضان کی اصل روح

سید منور حسن

رمضان المبارک کی آمد سے صاحب ایمان کی دل کی کلی کھِل اٹھی ہے۔ ہرچہار طرف رمضان کی آمد اور اس کے استقبال کے لیے طبیعتوں کو آمادہ کرنے کے سامان فراہم کیے جارہے ہیں۔ ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو جانتا پہچانتا ہے اور اپنے زندگی کے شب و روز اور معمولات سے واقف ہے، لازم ہے کہ وہ اس ماہِ مبارک کا بڑی بے چینی سے انتظار کرے، اس کے استقبال کی تیاری کرے، اور بحیثیت مجموعی اللہ تعالیٰ کے ساتھ رابطے کی جو شکلیں رمضان المبارک میں نظر آتی اور دکھائی دیتی ہیں، ان کا نہ صرف پہلے سے احاطہ کرے، بلکہ ان تمام حوالوں سے اپنی زندگی کو اس ماہِ مبارک میں مکمل طور پر تبدیل کرنے اور یکسوئی اور طمانیت کے ساتھ اپنے رب سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرے۔

نبی اکرم کا یہ معمول تھا کہ جب آپ رجب کا چاند دیکھتے تھے تو یہ دعا فرماتے تھے: اَللّٰھمّ بَارِکَ لَنَا فِی رَجَب وَشَعبَان وَلعہ رَمَضَان، (اے اللہ! ہمیں رجب اور شعبان کی برکتیں عطا فرمایئے، اور رمضان المبارک تک پہنچا دیجیے)۔ ماہِ رمضان کی آمد سے دو مہینے پہلے ہی آپ کی طبیعت کا یہ اشتیاق چھلکا پڑتا تھا۔ رمضان المبارک کا استقبال کرنے کے لیے طبیعتوں کو جس طرح آمادہ ہونا چاہیے، اس دعا میں اس کا احاطہ کردیا گیا ہے۔ اس کے ذریعے آپ نے اپنی امت کو رمضان المبارک سے بھرپور استفادہ کرنے کی ترغیب دی ہے تا کہ اس کی برکتوں کو سمیٹا جاسکے، اس کی رحمتوں کا سزا وار ہوا جاسکے، اس سے مغفرت کے پروانے حاصل کیے جاسکیں، دوزخ سے آزادی حاصل کی جائے اور نجات کی جانب چلا اور بڑھا جاسکے۔

نبی اکرمکا رمضان کے لیے اشتیاق: نبی اکرم کے شوق، انتظار اور اشتیاق کا اظہار اس حدیث سے بھی ہوتا ہے جس میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ آ پ اپنی مسجد میں تشریف لائے اور اپنے منبر کی طرف بڑھے، جب پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو لوگوں نے سنا، آپ کی زبان مبارک سے کلمہ نکلا:’’آمین‘‘، آپ دوسری سیڑھی پر پہنچے تو پھر فرمایا: ’’آمین‘‘۔ تا آنکہ آپ کی زبان مبارک سے سنا:’’آمین ‘‘۔ آپ کے خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ایک انوکھی سی صورت آج ہمارے سامنے آ ئی ہے۔ آپ کی زبان مبارک سے تین دفعہ ہم نے آمین کا کلمہ سنا ہے، لیکن ا س سے پہلے اور اس کے بعد ہم کوئی ایسی بات نہ جان سکے جس سے یہ معلوم ہوتا کہ یہ آمین کس بات پر کہی گئی ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ: جبرئیل امین تشریف لائے تھے۔ جب میں نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو انھوں نے فرمایا کہ ہلاک اور برباد ہوجائے وہ شخص جو اپنے بوڑھے ماں باپ کو یا ان میں سے کسی ایک کو اپنی زندگی میں پائے اور پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوسکے۔ میں نے اس پر کہا آمین۔ فرمایا کہ جب میں نے دوسری سیڑھی پر قدم رکھا توجبرئیل امین نے فرمایا کہ ہلاک ہوجائے وہ شخص کہ جس کے سامنے نبی اکرم کا نام نامی اسم گرامی لیا جائے اور پھر بھی وہ آپ پر درود نہ بھیجے تو میں نے کہا آمین۔ جب میں نے تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو جبرئیل نے کہا ہلاک ہوجائے وہ شخص جو رمضان کا جیسا رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ پائے اور پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوسکے تو میں نے کہا کہ آمین۔

اس حدیث کو بالعموم ایسے بیان کیا جاتا ہے جسے جبرئیل امین نے کوئی بددعا کی ہو اور حضور نبی کریم نے اس کی تصدیق فرمائی ہو۔ حالانکہ بات اس سے مختلف ہے۔ جب چاروں طرف بہار کا موسم ہو، پورا معاشرہ لہلہارہا ہو، دور تک پھیلا ہوا منظر گل وگلزار بنا ہوا ہو اور ہرگرا پڑا بیج برگ وبار لارہا ہو، چٹانیں بھی سبزہ اگل رہی ہوں اور پتھروں سے بھی سبزے کی نمو نظرآتی ہو، ان حالات کے اندر بھی اگر کوئی بیج واقعی گرا پڑا رہ جائے، برگ و بار نہ لاسکے، اور اپنی نمو اور افزایش کا سلسلہ شروع نہ کرسکے، تو اس کے لیے بددعا کی نہیں بلکہ یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ واقعی وہ قابل تھا کہ ہلاک ہوجائے۔ بالفاظ دیگر اس حدیث کے اندر ترغیب و تشویق اور تحریض کی ایک پوری دنیا آباد ہے کہ رمضان المبارک کو سمجھو، اس کے شب و روز کی برکات کو جانو اور پہنچانو، اس میں جو کچھ حسنات پنہاں ہیں، ان کو حاصل کرنے کے لیے اپنے دامن کو پھیلاؤ۔ اپنے رب سے رجوع کرنے کے جوعنوانات ہوسکتے ہیں، ان کو سجاؤ۔ جنت کے سارے دروازے کھلے ہوئے ہیں، دوزخ کے سارے دروازے بند کردیے گئے ہیں۔ شیاطین قید کردیے گئے ہیں، نیکی کرنا آسان ہوگیا ہے۔ برائی اور گناہ کے لیے حالات کے اندر ایک ناسازگاری، اور طبیعتوں کے اوپر ایک گرانی جو پہلے نہ بھی پائی جاتی ہو، موجود ہے۔ ہر شخص یہ مصمم ارادہ کرلے، یہ نیت دل کی گہرائی کے اندر سمولے کہ بہت سے رمضان المبارک یوں ہی گزرگئے ہیں لیکن اس رمضان کو یوں ہی نہیں گزرنے دینا ہے، بلکہ اس کے اندر جوکچھ برکات موجود ہیں ان سے استفادہ کرنا ہے۔ دل و دماغ کی دنیا میں جو کانٹے بچھے ہوئے ہیں، منکرات کے جو جھاڑ جھنکار نظرآتے ہیں، معصیت کے جو طوفان اٹھے ہوئے ہیں۔ گناہ کے لیے لذت اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی نافرمانی کی طرف بڑھنے میں کوئی قدغن نظر نہیں آتی ہے، ان تمام چیزوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔ استقبالِ رمضان کے تقاضے: استقبالِ رمضان اور اس کی برکات کے حوالے سے نبی اکرم نے ایک عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا، اس کا ایک ایک لفظ ایسا ہے کہ ہر لفظ سے انسان رہنمائی حاصل کرے، طبیعتوں کے اندر ایک گداز کی کیفیت پیدا ہو۔ ایک خوف اور خشیت کی کیفیت محسوس ہو کہ کہیں یہ رمضان بھی پہلے کی طرح گزر نہ جائے۔ اگر یوں ہی گزر گیا تو پھر ہائے وائے کرنا اور ہاتھ ملتے رہنا بے معنی ثابت ہوگا۔