خلیفہ اوّل کا عمل
حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قیام کے لیے رغبت دلاتے تھے۔ لیکن تاکیداََ حکم نہیں دیتے تھے۔ آپﷺ فرماتے تھے کہ جو شخص اعتقاد کے ساتھ ثواب کی خاطر قیام رمضان کرتا ہے اس کے پہلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ پھر جب نبی کریم ﷺ رحلت فرماگئے تو حضرت ابو بکرصدیقؓ کی خلافت میں بھی یہ معاملہ اسی طرح چلتا رہا اور حضرت عمرؓ کے ابتدائی زمانہ خلافت میں بھی یہی معمول تھا۔
اس رویت سے معلوم ہوا کہ خلیفہ دوم نے اپنے دوسرے نصف دورِ خلافت میں نمازِ تراویح کو مساجد میں باجماعت ادائیگی کی شکل میں اختیار فرمایا جو آج تک مسلمانوں میں رائج ہے۔ چونکہ آںحضور ﷺ نے اپنے ساتھ لوگوں کو جمع ہونے کو ناپسند نہیں کیا بلکہ ایک دوسرے موقع پر لوگوں پر قیام کے لیے جمع بھی کیا، تو ثابت ہوا کہ حضرت عمرؓ نے جو انتظام قیامِ رمضان کے سلسلے میں کیا وہ خلافتِ سنت نہیں ہے۔
خلیفہ دوم کا عمل
حضرت عبدالرحمٰن بن عبدالقاری روایت کرتے ہیں کہ ایک شب حضرت عمر بن خطابؓ کے ساتھ مسجد میں گیا تو دیکھا کہ لوگ علیحدہ علیحدہ مسجد میں نماز پڑھ رہے ہیں اور کچھ لوگ ایک امام کے ساتھ نماز ادا کررہے ہیں۔ اس وقت حضرت عمرؓ نے فرمایا: اگر میں انہیں ایک امام کے پیچھے جمع کردوں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ پھر فیصلہ کر کے حضرت ابی بن کعبؓ کو امام مقرر کردیا۔ جب دوسری شب مسجد کی طرف آئے تو دیکھا اب لوگ امام کی اقتدا میں نماز ادا کررہے ہیں۔ یہ دیکھ کر حضرت عمرؓ نے فرمایا: یہ کیا اچھی بدعت ہے اور جس نماز سے تم غفلت برتتے تھے۔ یہ زیادہ بہتر ہے کہ تم قیام اللیل کرو، خود حضرت عمرؓ آخر شب کے قیام کو ترجیح دیتے تھے اور لوگ اوّل شب قیام کرتے تھے۔
تراویح کی تعداد
حضرت سائب بن یزید روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابی بن کعبؓ اور حضرت تمیم داریؒ کو حکم دیا کہ وہ رمضان میں لوگوں کو 11 رکعت جماعت سے پڑھائیں اور امام ان سورتوں کی تلاوت کرتے تھے جن میں تقریباََ سو آیات ہوتیں۔ طویل قیام کی وجہ سے ہم لاٹھیوں کے سہارے کھڑے ہوتے تھے اور مسجد سے ہماری واپسی فجر کے قریب ہوتی۔(موطا)
حضرت اعرجؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ رمضان کے مہینے میں کفار پر لعنت کرتے تھے اور امام سورہ بقرہ آٹھ رکعت میں پڑھتے اور اگر وہ اس سورہ کو 21 رکعت میں ختم کرتے تو ہم سمجھتے کہ انہوں نے نماز میں تخفیف کی ہے۔ (ایضاََ) حضرت عبداللہ بن ابوبکر روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعبؓ سے سنا ہے وہ فرماتے ہیں کہ جب ہم رمضان میں قیام اللیل سے فارغ ہوتے تو خادموں سے کہتے کہ کھانا لانے میں جلدی کرو تا کہ سحری چھوٹ نہ جائے۔ ایک دوسری روایت میں اس طرح ہے کہ فجر(صبح صادق) طلوع نہ ہوجائے ۔(ایضاََ)
نمازِ تراویح کے بارے میں اکثر احادیث میں قیامِ اللیل کا لفظ استعمال ہوا ہے جو بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ قیام کرنے والا حسب توفیق قیام کرے۔ تعداد رکعات کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مندرجہ بالا تینوں احادیث میں بھی مختلف تعداد کا بیان اس معاملے میں کسی پابندی کو ظاہر نہیں کرتا۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مقتدیوں کی آسانی اور رمضان المبارک میں قرآن کو دورانِ نماز پڑھنا اس بات کا متقاضی تھا کہ تعدادِ رکعات میں مناسب اضافہ کرلیا جائے تا کہ طویل قیام کے لیے لاٹھیوں کا سہارا نہ لینا پڑے۔ لہٰذا تراویح کے سلسلے میں جس قدر بھی اختلافی آرا سامنے آتی ہیں ان کی بنیاد کسی نص یا حکمِ رسالت کی نفی نہیں ہوتی۔ (افاداتِ مودودی ،درس حدیث مشکوٰۃ، باب الصلوٰۃ مرتبین، میاں خورشید انور، بدرالدجیٰ خان)