April 19th, 2024 (1445شوال10)

روزے کے بنیادی احکام

حافظ محمد ادریس

ترک اور انکار صوم

روزہ بہت بڑی نیکی ہے۔ ماہ رمضان کا ایک روزہ بھی کسی شخص نے بلا عذر ترک کردیا تو اس کے عمر بھر کے روزے بھی اس کی تلافی نہیں کرسکتے۔ (بحوالہ جامع ترمذی وسنن ابوداؤد) روزے کا ترک کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ روزہ رکھ کر بغیرعذر توڑنا، اس سے بھی بڑا گناہ ہے۔ اور روزے کی فرضیت کا انکار تو کفر ہے۔ بغیر عذر روزہ توڑ دینے سے کیا مراد ہے؟ روزے کی حالت میں اگر کسی شخص کو کوئی ایسی بیماری، تکلیف یا حادثہ پیش آجائے جس سے اس کی جان کو خطرہ ہو تو روزہ توڑا جاسکتا ہے۔ یہ ایک معقول اور شرعی عذر ہے۔ محض بھوک پیاس کی شدت اور نقاہت کا احساس اس بات کے لیے کوئی جواز نہیں کہ روزہ دار روزہ توڑ دے۔ امام غزالیؒ نے تو یہاں تک بیان فرمایا ہے کہ روزے کی حالت میں بھوک پیاس کی شدت ہی انسان کو ثواب کا مستحق بناتی ہے۔ ان کے نزدیک تو افطار کے بعد بھی کھانے میں احتیاط برتنی چاہیے تا کہ قیام اللیل، تہجد اور دیگر اعمال و وظائف میں سہولت رہے۔ بلاشبہ امام غزالیؒ کے اس قول میں بڑی حکمت ہے۔

فدیہٓ صیام

اگر کوئی شخص روزے رکھنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو دو وقت کا کھانا کھلائے۔ یہ کھانا اسی معیار کا ہونا چاہیے جس معیار کا وہ اپنے گھر میں خود کھاتا ہے۔ایک روزے کے عوض بطور فدیہ، صدقہ فطر کی مقدار بھی دی جاسکتی ہے۔ یہ رعایت صرف جسمانی لحاظ سے کمزور، بیمار اورضعیف مسلمانوں کے لیے ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی واضح رہے کہ اگر کوئی شخص محض تساہل کی وجہ سے روزہ ترک کردیتا ہے اور ایک نہیں ہزار مسکینوں کو اس کے فدیے میں کھانا کھلاتا ہے تو یہ اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہے۔ اگرایسا ہو تو مالدار روزہ ہی نہ رکھیں اور انہیں یہ احساس ہی نہ ہو کہ بھوک پیاس اور احتیاج کیا چیز ہے۔

نواقضِ روزہ

اس سے مراد وہ اعمال ہیں جس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ان کو مفسداتِ صوم بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ جن میں صرف قضا واجب ہے اور ایک وہ جن میں قضا اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔

وہ اعمال جن میں صرف قضا واجب ہے:

1۔اس غلط فہمی میں کچھ کھاپی لیا کہ سحری کا وقت باقی ہے جبکہ سحری کا وقت ختم ہوچکا تھا یا غروب آفتاب سے پہلے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے کچھ کھا پی لیا۔

2۔دن بھر نہ کچھ کھایا نہ پیا، مگر روزے کی نیت نہیں کی یا نصف النہار کے بعد نیت کی۔ نصف النہار سے قبل نیت کرلی تو روزہ درست ہوگا۔ نیت کے لیے الفاظ کی ادایگی ضروری نہیں، محض دل کی نیت کافی ہے۔

۔روزے میں کسی نے ارادتاََ منہ بھر کر قے کی۔اگر قے منہ بھر کر نہ کی تو روزہ نہیں توٹتا۔

4۔بھولے سے کچھ کھاپی لیا اور پھر یہ سجھا کہ روزہ تو ٹوٹ ہی گیا اب کھانے میں کیا حرج ہے اور خوب پیٹ بھر کر کھا لیا۔ بھولے سے کچھ کھانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔

5۔روزے میں کان کے اندر کوئی دوایا تیل ڈال لیا۔

وہ اعمال جن میں قضا اور کفارہ دونوں واجب ہیں:

1۔کھانے پینے کی کوئی چیز قصداََ کھالی، یا بطور دوا کوئی چیز کھالی۔

2۔جان بوجھ کر کوئی ایسا فعل کیا جس سے روزہ فاسد نہیں ہوتا،لیکن اس عمل کے بعد ارادے سے روزہ توڑ دیا، مثلاََ سرمہ لگایا، سر میں تیل ڈالا اور پھر یہ سمجھ کر روزہ توڑ دیا کہ سرمہ لگانے اور سر میں تیل ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔

3۔روزے کی حالت میں جنسی خواہش پوری کرلی۔

وہ امور جن سے روزہ مکرو نہیں ہوتا:

1۔روزے میں بھولے سے کچھ کھا پی لیا، خواہ پیٹ بھر کر کھایا ہو اور خوب سیر ہوکر پیا ہو۔

2۔روزے کی حالت میں سوتے ہوئے غسل کی حاجت ہوگئی۔

3۔ سرمہ لگانا، سر میں تیل ڈالنا، خوشبو سونگھنا، بدن کی مالش کرنا وغیرہ ۔

4۔تھوک اور بلغم نگل لینا۔

5۔بے اختیار مکھی نگل لی، حلق میں گردوغبار پہنچ گیا یا دھواں چلا گیا، خواہ وہ دھواں تمباکو وغیرہ کا ہو۔

6۔ کان میں خود بخود پانی چلا گیا، یا دوا چلی گئی۔

7۔ بے اختیار قے ہوگئی، چاہے منہ بھرکر ہی ہو۔

8۔مسواک کرنا، خواہ مسواک بالکل تازہ ہی ہو اور اس کی کڑواہٹ بھی منہ میں محسوس ہو۔ بغیر پیسٹ

کے برش کرلیا تو بھی کوئی حرج نہیں۔

9۔گرمی کی شدت میں کلی کرنا۔ منہ دھونا، نہانا یا ترکپڑا سر یا بدن پر رکھنا۔

روزے کا کفارہ

روزہ توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام کو آزاد کرے۔ یہ نہ کرسکے تو ساٹھ مسلسل روزے رکھے، یہ بھی نہ کرسکے تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے۔

صدقۃ الفطر:

جیسا کہ بیان ہوا ہے فطر کا معنیٰ روزہ کھولنا ہے۔ روزے کے دوران انسان سے کچھ بھول چوک اور غلطی بھی ہوجاتی ہے۔ کہیں کوتاہی ہو جاتی ہے، جس سے روزہ ٹوٹتا تو نہیں مگر کوئی ایسی حرکت ہو سکتی ہے جو روزے کے مقام رفیع سے فروتر ہو۔ اس کمی کوتاہی کی تلافی کے لیے رسول اللہ نے صدقہ فطرکا حکم دیا ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ اسکے نتیجے میں رمضان کے دوران غربا و مساکین کی ضروریات پوری ہوتی ہیں نیزعید کے دن وہ بھی کھاتے پیتے لوگوں کی طرح عید کی خوشیوں میں شریک ہوسکتے ہیں۔ گویا یہ اسلام کے اس فلسفۂ اجتماعیت کا عملی مظہر ہے جو اہل ایمان کو ایک لڑی میں پروتا، ایک صف میں کھڑا کردیتا اور اخوت کی شیرینی پورے معاشرے میں گھول دیتا ہے۔

حضرت ابن عباسؓ کی ایک روایت صحیح حدیث کی کتابوں میں ملتی ہے، جس کے مطابق آنحضور نے ارشاد فرمایا: صدقۂ فطر واجب ہے، جو روزے دار کو لغو حرکات اور اخلاق سے گری ہوئی باتوں سے پاک کردیتا ہے نیز یہ مساکین کے طعام کا ذریعہ بن جاتاہے۔ پس جو شخص نمازعید سے پہلے یہ صدقہ ادا کردے، اس کا صدقہ مقبول ہے۔ نماز عید کے بعد صدقۂ فطر ادا نہیں ہوتا، البتہ وہ عام صدقہ شمار ہوجاتا ہے۔

ایک دوسری حدیث میں آنحضور نے ارشاد فرمایا: جو شخص صدقہ فطر ادا نہیں کرتا وہ نمازعید ادا کرنے کے لیے ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ پھٹکے۔

صدقہ فطرکھاتے پیتے لوگوں پر واجب ہے۔ رمضان کے دوران ادا کیا جائے تو زیادہ بہترہے تا کہ ضرورت مند ماہ مقدس میں اپنی ضروریات پوری کرسکیں۔ صدقہ فطر صرف روزہ داروں پر ہی نہیں، گھرکے مالک کی طرف سے چھوٹے بچوں، غلاموں(آج کے دور میں گھرکے خادم وغیرہ)،عید کے روز گھر میں وارد یا پہلے سے مقیم مہمان یا اسی روز پیدا ہونے والے بچے کی طرف سے بھی واجب ہے۔

صدقۂ فطر کی مقدار

صدقۂ فطر کی مقدار ایک کلو اور تقریباََ ایک سو بیس گرام گیہوں ہے۔ دیگر اجناس مثلاََ جو اور کھجور وغیرہ اس سے دگنی مقدار میں دینا ضروری ہے۔ غلہ یا جنس دینا ہی ضروری نہیں، اس کی قیمت بھی ادا کی جاسکتی ہے۔ علما ہر سال صدقہ فطر کی رقم کا تعین کر کے عوال الناس کو مطلع کردیتے ہیں، اس لیے یہ کوئی مشکل مسئلہ نہیں۔