November 2nd, 2024 (1446جمادى الأولى1)

رحمت للعالمین ﷺ امن عالم کی ضمانت

راجہ نجم الحسن

بطور مسلمان ہمارے لیے حضرت محمد ﷺکی ذات پاک کا ہر عمل بہترین نمونہ ہے۔ زندگی کے تمام تر معاملات میں ﷺ نے عملی مثال قائم فرمائی ہے۔ اگر بطور شوہر دیکھنا ہو تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شوہر کو دیکھیں۔ اگر ایک والد کو دیکھنا ہوتو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد کو دیکھیں۔ کیونکہ ہمارا موضوع یہاں آپﷺ کی ذات پاک بطور امن عالم کی ضمانت ہے تو ہم اس تناظر میں بات کرتے ہیں۔

تبلیغ اسلام کے اوائل میں کفار مکہ کے ساتھ معاملات کی انجام دہی دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ کیسے ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ نے امن عالم کے لیے مثالیں قائم کی ہیں؟ جس وقت کفار نے آپ ﷺ کے متعلق سازش کی کہ نعوذباللہ آپ ﷺ کو قتل کردیا جائے۔ اس وقت آپ ﷺ نے مکہ سے ہجرت کی اور آپ ﷺ کےپاس مکہ کے لوگوں کی امانتیں تھیں لیکن آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ یہ تمام امانتیں واپس کرنی ہیں۔ اس سے ثابت ہو ہے ﷺ کی ذات نے ہمیشہ امن کو پروان چڑھایا اور اتنے انتشار کے باوجود امن کا پیغام دیا۔ آئندہ آنے والے ہر مسلمان کو یہ سبق دیا کہ حالات کیسے بھی ہوں ایمانداری سے کام کرنا اور ہر ایک کا حق اس کو ادا کرنا تاکہ امن کا فروغ ہو۔ آج کے دور میں امن کی بنیادیں اس وجہ سے کمزور ہیں کیونکہ امانت میں خیانت عام ہوچکی ہے۔

 آپ ﷺ کی ذات کو بطور ریاست مدینہ کے سربراہ کے طور پر دیکھیں کہ کس طرح آپ نے ایک ریاست کی بنیاد رکھی اور کس طرح سب کو اکٹھا کیا ؟ میثاق مدینہ آپ کی سیاسی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہجرت کےبعد مسلمانوں کے درمیان رشتہ اخوت یعنی بھائی چارے کا رشتہ قائم فرمایا تو دوسری طرف یہودی سے بھی امن کا معاہدہ کر لیا۔ آج کی بہترین سے بہترین جمہوریت کے معاہدات کو دیکھیں لیں اس میثاقِ مدینہ سے بہتر اور جامع معاہدہ آپ کو شاید ہی نظر آئے۔ اس ایک معاہدے میں ریاست کی تمام تر ضروریات کو پورا کردیا گیا ۔ آپس کے معاملات کے لیے قبائلی سربراہ موجود تھے اور دفاع کے لیے بہترین حکمت عملی بھی موجود تھی ۔ جو مذہبی آزادی ریاست مدینہ کے یہودیوں کو حاصل تھی شاید آج کی کسی سیکولر ریاست کے لوگوں کو بھی حاصل نہ ہو ۔ اس سے بڑی امن عالم کی مثال کیا ہوگی ؟

اگر دوسری طرف دیکھیں تو صلح حدیبیہ جیسا معاہدہ بھی موجود ہے۔ جس کی شرائط نہایت سخت تھی لیکن آپ ﷺ نے اس معاہدہ کے ذریعے بھی صبر کا درس دیا ہے۔ آپ کی ہر حکمت عملی میں رضا الہٰی شامل تھی جس کی وجہ سے بعد کے نتائج نے ثابت کیا کہ آپ ﷺ نے ہمیشہ امن قائم کرنے میں پہل فرمائی ہے۔

فتح مکہ کو دیکھ لیں تو اس موقع پر آپ ﷺ کاعمل مبارک بہت مثالی ہے۔ آپ نے بڑے بڑے دشمنوں سے بدلہ نہیں لیا عام معافی کا اعلان فرمایا۔ جس سے معلوم ہوتا کہ کہ آپﷺ کی ذات سے بڑھ کر امن عالم کا دائی کوئی اور نہیں ہوسکتا۔

آپ ﷺ نے ایسا نظام دیا ہے جو تمام عالم میں امن کی ضمانت ہے۔ اسلام میں جہاں بہت سے احکامات ہیں وہاں جہاد جیسی عبادت بھی ہے۔ آج بد قسمتی سے ہمارے نبی رحمت ﷺ کی اس سنت کو ان اصطلاحات سے جوڑا جاتا ہے جس کا دور دور تک اس عمل مبارک سے تعلق ہی نہیں۔ جہاد ہمیشہ امن قائم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ آج مسلمانوں نے اس عبادت کو چھوڑ دیا ہے جس کی وجہ سے عالم اسلام میں بد نظامی اور انتشار ہے۔ اگر آج بھی تمام امت محمدیہ ﷺ اس عمل مبارک پر عمل کریں تو کشمیر و فلسطین میں آسانی سے امن قائم کیا جاسکتا ہے لیکن ہمارے دانشوروں نے دین اور دنیا کو الگ الگ کر کے پیش کیا جس کی وجہ سے اسلامی معاشرے میں انتشار عام ہوگیا ہے۔

آپ ﷺ نےخطبہ حجتہ الوداع میں پوری دنیا کو امن کا بہترین چارٹر عطاء فرمایا جس کو اقوام متحدہ کے دانشوروں نے بھی کاپی کیا ہے ۔ ہمارے نبی سرکار عالم محمد ﷺ نے دنیا کو معاشی، معاشرتی اور سیاسی  حکمت عملیاں عطاء کی ہیں ۔ کیونکہ آپ ﷺ کا ہر فرمان احکام الٰہی کے عین مطابق ہے اس وجہ سے جس قوم  نے بھی ان احکام پر عمل کیا آج وہ کامیاب اور ترقی یافتہ ہیں ۔ انصاف کے لیے قاضی سسٹم، غریبوں کی امداد کے لیے بیت المال اور تعلیم و تربیت کے لیے مسجد میں درس اور محفل کا اہتمام۔ یہ تمام چیزیں اپنی اپنی جگہ اہم ہیں اور ایک پر امن معاشرے کے عوامل کے طور پر اپنا کردار ادا کرتی رہی ہیں ۔

رحمت للعالمین ﷺ امن عالم کی ضمانت اس لیے بھی ہیں کہ آپ نے معاشرے بنیادی عنصر یعنی ایک فرد کی تربیت کے لیے بھی مکمل نظام عطاء فرمایا ہے۔ معاشرہ فرد اور خاندان سے قائم ہوتا ہے۔ آپ ﷺ کے عطاء کردہ رہنما اصول ہی تھے جس کی وجہ سے معاشرے میں امن تھا ۔ فرد اپنے معاشی، مذہبی، معاشرتی، نفسیاتی اور سیاسی معاملات سے مکمل طور پر آگاہ بھی تھا اور مطمئن بھی ۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں امن کی فضاء قائم تھی۔

مال غنیمت کی تقسیم کا بہترین نظام موجود تھا۔ زکوٰۃ جیسا معاشی ماڈل موجود تھا۔ سود جیسے نظام کی مکمل حوصلہ شکنی موجود تھی۔ ذخیرہ اندوزوں کی شدید مذمت موجود تھی۔ یہ سب چیزیں حضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے بیان کی تھیں اور آپ کے جان نثار اصحاب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عملی طور پر ثابت کر دیکھایا تھا۔ آج کے معاشرے میں غلط معاشی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے جس میں سودی نظام عام ہے۔ آج ہمارا پیارا وطن پاکستان بھی سود جیسی لعنت میں جکڑا ہوا ہے۔ روز روز آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے بڑھتے سود نے ملکی معاشی کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرہ مکمل انتشار کا شکار ہے۔ اگر آج بھی اس معاشرے میں سنت نبوی ﷺ پر عمل کیا جائے تو تمام تر مسائل سے خود کو محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ سنت نبوی ﷺ پر عمل کرنا ایک فرد کے لیے بھی آسان ہے اور ایک ریاست کے لیے بھی۔ اس پراگر دیگر اقوام عالم بھی عمل کرنا شروع کردیں تو پورے عالم میں امن قائم ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ہمارے ﷺ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ تمام دنیا اور آخرت کے دن کے لیے بھی رحمت ہیں۔