December 21st, 2024 (1446جمادى الثانية19)

محبتِ رسولؐ کے معانی اور تقاضے

ڈاکٹر کمال اشرف قاسمی

محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم، ایمان کے ارکان و اصول میں سے ایک اہم رکن ہے۔ اس کے وجود پر ایمان کا وجود قائم ہے۔ کوئی مسلمان اس وقت تک کامیاب مومنوں کی فہرست میں شامل نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جان، اپنے والدین اور اولاد اور  دنیا کے تمام انسانوں اور جملہ محبوب چیزوں اور خواہشوں کے مقابلے میں زیادہ محبوب نہ بنا لے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جن عظیم خصوصیات اور اعلیٰ اخلاق و شمائل سے نوازا اور آپؐ کے ذریعے امت کے لیے جن مختلف قسم کی بھلائیوں اور برکتوں کا دروازہ کھولا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ذریعے ہم بندوں پر جو عظیم احسان فرمایا، ان سب کا عقلی اور شرعی تقاضا یہی ہے کہ ایک مسلمان کے دل میں آپؐ کی محبت دنیا کے تمام انسانوں، بلکہ خود اس کی جان کے مقابلے میں غالب اور راجح ہو۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کی آیت قُلْ  اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ (التوبہ ۹:۲۴﴾) میں ایسی آٹھ چیزوں کا ذکر فرمانے کے بعد جن پر انسانی رشتوں کی بنیاد اور انسان کی مصلحتوں اور اس کی معیشتوں کا دارومدار اور مکانات جنھیں انسان موسم کے شدائد سے بچنے اور عزت اور آبرو کے ساتھ رہنے سہنے کے لیے تعمیر کرتا ہے۔ یہ ساری چیزیں جو اپنی اپنی جگہ ضروری ہیں اور انسان کے دل میں ان کی محبت بھی فطری طور پر ودیعت کی گئی ہے، اگر یہ تمام اہم اور ناگزیر اشیاء بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جہاد فی سبیل اللہ کے مقابلے میں کسی شخص کی نظر میں زیادہ محبوب ہوں اور اللہ و رسولؐ کی محبت کے تقاضوں کی تکمیل میں حارج ہوتی ہوں، تو اسے فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰي يَاْتِيَ اللہُ بِاَمْرِہٖ ۝۰ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ۝۲۴ۧ (التوبہ ۹:۲۴﴾) ’’انتظار کرویہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا‘‘ کے ذریعے سخت قسم کی تہدید اور وارننگ دی جا رہی ہے کہ اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

فداک ابی و اُمی

یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی ہے کہ اس نے مذکورہ بالا آیت میں رشتے داروں، کسب و معاش کے ذرائع اور اِمکانات کی محبت کی مذمت اور ان سے کنارہ کش ہونے کی تلقین نہیں فرمائی۔ کیوں کہ یہ چیزیں زندگی کے لوازمات میں سے ہیں۔ البتہ اللہ و رسولؐ پر ایمان لانے کا تقاضا یہ بتایا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت ان تمام اشیاء پر مقدم ہونی چاہیے۔ یہی وہ مفہوم ہے جسے’احب‘ اسم تفضیل کے صیغے سے بیان کیا گیا ہے۔ اسی معنی و مفہوم کی حدیث صحیحین میں بھی انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُوْنَ أَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ (صحیح البخاری ومسلم، کتاب الایمان، باب حب الرسول ؐ، حدیث:۱۴)تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کو اس کے والد سے، اس کی اولاد سے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔

 یہ حدیث تھوڑے سے الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ صحیح بخاری میں ابو ہریرہؓ سے بھی مروی ہے۔ بہر حال یہ حدیث بھی واضح طور پر محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وجوب پر دلالت کرتی ہے اور یہ کہ رسول کریمؐ کی جو محبت شریعت میں مطلوب ہے وہ راجح اور غالب محبت ہے، اور قلبِ مسلم میں جب تک کہ یہ محبت، والدین، اولاد، اور دنیا کے تمام انسانوں کی محبت پر غالب نہ ہو وہ کامل الایمان مومن اور مسلمان نہیں کہلا سکتا۔ اس حدیث میں جس ایمان کی نفی کی گئی ہے یا جس محبت پر ایمان کو موقوف کیا گیا ہے وہ ایمان واجب ہے۔ شریعت میں جہاں کہیں بھی ایمان، اسلام اور دین وغیرہ امور کی نفی کی گئی ہے وہ دراصل واجب کے ترک کے سبب سے ہے۔ کسی مستحب عمل کے چھوڑنے پر ایمان کی نفی نہیں کی گئی۔ایمان واجب کا مطلب یہ ہے کہ اس کے فقدان پر بندہ عذاب کا مستحق قرار پا سکتا ہے۔ لہٰذا جس کے دل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی غالب محبت نہ ہو گویا اس نے ایمان کے واجبات میں سے ایک واجب کو ترک کر دیا اور ایسا شخص عذاب الٰہی کا مستحق ہے۔ اسی نکتے کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مجموعہ الفتاوٰی ۷/۱۵ میں تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ محبت رسولؐ کے مذکورہ حکم اور مفہوم کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے واقعے سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی سند سے عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ حضرت عمرؓ نے کہا: یا رسولؐ اللہ! مجھے آپ میری جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَاوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ حَتَّی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْکَ مِنْ نَفْسِکَ، ’’نہیں، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک میں تمھیں خود تمھاری جان سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں‘‘۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: واللہ اب آپؐ مجھے میری جان سے زیادہ محبوب ہیں۔ آ پؐ نے فرمایا: الآنَ یَاعُمَرُ، ’’اے عمر! اب تم مومن ہو‘‘۔( صحیح البخاری مع فتح البخاری، کتاب الایمان ﴾ والنذو، حدیث: ۶۲۶۹)

اس حدیث کی تشریح میں علامہ ابو سلیمان الخطابی لکھتے ہیں کہ انسان کا اپنے نفس سے محبت کرنا طبعی اور فطری امر ہے اور دوسرے سے محبت کرنا متعدد اسباب ووجوہ کی بنا پر اختیاری معاملہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ اختیاری محبت کو فطری محبت پر غالب کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس پر اضافہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: حضرت عمرؓ کا پہلا قول تقاضائے فطرت کے مطابق تھا، پھر جب انھوں نے غور وفکر سے کام لیا تو ان پر یہ حقیقت منکشف ہو گئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری جان سے زیادہ محبوب اور قیمتی ہیں۔ کیونکہ وہی دنیا و آخرت کی ہلاکتوں سے میرے نفس کو نجات دلانے کا سبب ہیں۔ لہٰذا یہ اختیاری محبت اس لائق ہے کہ اسے فطری محبت پر ترجیح دی جائے اور اب وہ برملا کہہ اٹھے: پس واللہ! اب آپؐ مجھے میرے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری)

محبت اگرچہ قلبی شئے ہے، لیکن اس کے اثرات اعضاء و جوارح پر بھی قولاً و عملاً ظاہر ہوتے ہیں۔ چوں کہ اظہار محبت میں لوگ عام طور پر زبانی جمع خرچ یا دعووں اور نعروں سے کام لیتے ہیں اور کچھ لوگ اس کی آڑ میں مختلف قسم کی بدعات اور غلو آمیز حرکتوں کے مرتکب ہوتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ محبتِ رسولؐ کے دعوے کی اصل حقیقت معلوم کرنے کے لیے کچھ شواہد اور واضح تقاضے معلوم کیے جائیں، تاکہ محبتِ صادق اور محبتِ کاذب کے درمیان تمیز آسان ہو۔ محبتِ رسولؐ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند واضح علامات او رروشن تقاضے باختصار یہاں ذکر کئے جاتے ہیں۔

محبتِ رسولؐ  کی کسوٹی

محبت جیسی بھی ہویاجس سے بھی کی جائے اس کا سب سے بڑا ثبوت یہی ہوتا ہے کہ محب اپنے محبوب کی تمام باتوں سے موافقت کرتا ہو۔ اس کے بغیر دعویٰ ٔ محبت جھوٹا اور کھوکھلا سمجھا جاتا ہے۔ اس قاعدے کی بنیاد پر بہ آسانی یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت جس پر ہمارا ایمان ہے، اطاعت و اتباع کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتی ۔ لہٰذا محبتِ رسولؐ کی پہلی دلیل اور روشن شہادت اتباع اور پیروی ہے۔ اس کے بغیر محبت شرعیہ کا تصور بالکل بے معنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع و پیروی کو محبتِ الٰہی کی دلیل بنایا ہے۔لہٰذا یہی اتباع و پیروی محبتِ رسولؐ کی بدرجۂ اولیٰ دلیل ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ۝۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۳۱ (اٰل عمرٰن ۳: ۳۱﴾) اے نبیؐ، لوگوں سے کہہ دو کہ ’’اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھاری خطائوں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے‘‘۔

یہ آیت تمام دعوے دارانِ محبت کے لیے ایک کسوٹی اور معیار ہے۔ محبتِ رسولؐ کا مدعی اگر متبع سنت ہے تو یقیناً وہ اپنے دعوے میں سچا ہے اور اسے بطور انعام اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہوگی، ورنہ وہ جھوٹا اور اس کا دعویٰ محض فریب ہے۔ اس لیے بعض علماء اور حکماء نے کہا ہے کہ انسان کا کمال یہ ہے کہ وہ محب سے محبوب بن جائے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے رسولؐ سے سچی محبت کرکے اللہ کا محبوب بن جائے۔ یہ بڑا اونچا مقام ہے ۔اتباعِ رسولؐ کی اہمیت پر بہت سی آیات و احادیث وارد ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ دارین میں ایک مسلمان کی سعادت نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی پر موقوف ہے۔ اس کے بر عکس اس کی شقاوت و ہلاکت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپؐ کے طریقہ کی مخالفت کا نتیجہ ہے۔

رسولؐ اللہ کی تعظیم و توقیر

مقام نبوت و رسالت اس امر کا متقاضی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعظیم و توقیر، علم و معرفت کے تابع ہوتی ہے۔ جس کو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت جس قدر زیادہ معلومات اور معرفت تامہ حاصل ہوگی وہ اسی قدر آپؐ سے سچی محبت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شایانِ شان عزت کرے گا۔ اسی بنا پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ زندگی بسر کی اور آپؐ کو قریب سے دیکھا، دنیا کے تمام انسانوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ اپنے رسولؐ سے محبت تھی اور انھوں نے شیفتگی، والہانہ عقیدت اور جاں نثاری کی جو مثالیں پیش کیں، ہم ان کا عشر عشیر بھی پیش نہیں کر سکتے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم قلبی، لسانی اور اعضاء و جوارح تینوں ذریعے سے ہونی چاہیے۔ قلبی تعظیم یہ ہے کہ آپؐ کے تئیں یہ عقیدہ دل میں راسخ ہو کہ آپؐ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ اور آخری رسولؐ ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے مقام کو اعلیٰ و ارفع اور آپؐ کے ذکر کو بلند کیا ہے اور تمام مخلوقات پر آپؐ کو فضیلت بخشی ہے۔ قلبی تعظیم کا یہ بھی لازمی تقاضاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بندۂ مومن کے دل میں اس کی اپنی جان اور اعلیٰ ترین رشتے داروں، والدین و اولاد اور دوسرے تمام انسانوں سے زیادہ ہو۔ جب بھی دو محبتوں کا ٹکراؤ ہو تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت غالب اور دوسری محبت مغلوب ہو جائے۔

زبان و بیان سے تعظیم یہ ہے کہ آپ ؐکی شایان شان تعریف و توصیف کے کلمات کہے جائیں۔ اُن القاب و آداب سے آپ ؐکو ملقب کیا جائے جن سے خود آپ ؐنے اپنی ذات کو ملقب کیا ہے اور ان الفاظ سے آپ ؐکی ثنا خوانی کی جائے جو رب العالمین نے آپؐ کی شان میں استعمال کیے ہیں۔ اس معاملے میں مبالغہ آمیزی اور تقصیر و کوتاہی دونوں طریقوں سے پرہیز کیا جائے۔ لسانی تعظیم کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ و سلام پڑھنا بھی داخل ہے اور خطاب کرنے یا آپؐ کا نام لینے میں عمدہ اور ثابت الفاظ مثلاً رسول اللہ، خاتم الانبیاء والمرسلین، امام الانبیاء ، رحمتہ للعالمین وغیرہ القاب و آداب استعمال کیے جائیں۔ اور اعضاء و جوارح کے ذریعے ہونے والی تعظیم میں آپؐ کی خالص پیروی، ان چیزوں سے محبت جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو محبت تھی اور ان چیزوں سے نفرت جن سے آپ ؐکو نفرت تھی۔ نیز آپؐ کے دین کے اظہار و غلبہ کی کوشش، شریعت کی نصرت و حمایت اور دفاعِ دین کا اہم فریضہ بھی شامل ہیں۔

گویا تعظیم نبیؐ کی اساس اور بنیادی قاعدہ یہی ہے کہ آپؐ کی رسالت پر ایمان لایا جائے، آپؐ کی خبر کردہ باتوں کی تصدیق کی جائے، آپؐ کے اوامر کی بجاآوری اور منہیات سے اجتناب کو لازم جانا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی بندگی اس طریقے پر کی جائے جو آپ ؐسے ثابت ہے اور آپؐ کی باتوں پر کسی دوسرے فرد و بشر کی باتوں کو مقدم نہ کیا جائے، چاہے وہ کتنا ہی بڑا اور بلندپایہ کیوں نہ ہو۔ نہ کوئی عالم و امام اور نہ کوئی حاکم وبادشاہ ۔غرض دنیا کا کوئی فرد اس لائق نہیں ہے کہ اسے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم پلہ قرار دیا جائے۔ چہ جائیکہ اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر مقدم سمجھا جائے۔ اسی مذکورہ اساس اور بنیادی قاعدہ سے انحراف کے نتیجے میں غلویا تقصیر پیدا ہوتی ہے اور امت جادۂ مستقیم سے ہٹ کر ضلالت و گمراہی کی پگڈنڈیوں پر چلنے لگتی ہے۔ کوئی آپؐ کی صداقت، امانت اور عدالت پر زبان طعن دراز کرتا ہے۔ جسے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ معلوم نہیں وہ اپنی گفتگو اور اپنی تحریر میں بعض حکمرانوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات سے متصف مانتا ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف ایک مفکر و دانشور باور کرتا ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو رو جفا میں یہ بھی داخل ہے کہ زبانی یا تحریری طور پر آپؐ کے نام کے ساتھ ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کہا اور لکھا نہ جائے۔ بعض بڑے علماء بھی صرف ’ص‘ یا ’صلعم‘ لکھ کر گزر جاتے ہیں حالانکہ یہ ان کی ستم ظریفی ہے اور حدیث میں اسے بخل کا نام دیا گیا ہے۔ چنانچہ سنن ترمذی، کتاب الدعواۃ، باب ماجاء فی فضل التوبہ و الاستغفار میں حضرت ابوہریرہؓ اورحضرت علی ؓ سے تھوڑے الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ مروی ہے: اَلْبَخِیْلُ مَنْ ذُکِرْتُ عِنْدَہٗ  فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیَّ ’’وہ شخص بخیل ہے جس کے سامنے میرا ذکر کیا گیا اور اس نے مجھ پر صلوٰۃ نہ بھیجی‘‘۔ اسی طرح کتب سیرت و شمائل نبویؐ اور سنن نبویہؐ کے مطالعے سے عام مسلمانوں کی دوری بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو روجفا اور آپؐ کی عدم تعظیم و توقیر کا سبب ہے۔ دوسری جانب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے اندر مبالغہ آرائی اور آپؐ کو صفاتِ الٰہیہ سے متصف کرنے کا گھناؤنا اور شرکیہ عمل بھی باعث صد افسوس ہے، امت کا ایک بڑا طبقہ اس مرض کے اند ر مبتلا ہے۔ اس کی نظر میں اللہ اور رسولؐ کے درمیان کوئی فرق نہیںہے اور رسولؐ کے دم سے ہی کائنات کا وجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پوری امت پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کو واجب قرار دیا ہے۔ لیکن ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود و قیود کے اندر ہو۔ اس معاملے میں غلو اور تقصیر دونوں سے پرہیز لازم ہے۔

حضرت عمر ؓ سے مروی ہے انھوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہوئے سنا :

لَا تُطْرُوْنِیْ کَمَا اَطَرَتْ النَّصَارَی ابْنَ مَرْیَمَ اِنَّمَا اَنَا عَبْدُہٗ فَقُوْلُوْا عَبْدُاللّٰہِ وَرَسُوْلُہٗ  (صحیح البخاری، کتاب احادیث الانبیاء، حدیث:۳۲۷۷) ﴾،مجھے میرے مقام سے آگے نہ بڑھاؤ جس طرح نصاریٰ نے ابن مریم ؑ کے ساتھ غلو کا معاملہ کیا۔ میں تو صرف ایک بندہ ہوں لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔

اسی مفہوم کی روایت مسند احمد میں حضرت انسؓ سے بایں الفاظ وارد ہے:

اَنَـا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللّٰہِ ،  عَبْدُاللّٰہِ   وَرَسُوْلُہٗ  وَاللّٰہِ  مَا اُحِبُّ اَنْ تَرْفَعُوْنِیْ   فَوْقَ مَنْزِلَتِیْ الَّتِیْ اَنْزَلَنِی اللّٰہُ  (مسنداحمد، من مسند بنی ہاشم ، مسندانس بن مالک، حدیث:۱۲۳۲۶) میں محمد بن عبداللہ ہوں، اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ واللہ! میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ تم مجھے میرے اس مقام و مرتبہ سے اونچا دکھاؤ جس مرتبہ پر اللہ تعالیٰ نے مجھے فائق کیا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم و تعظیم کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّـرًا وَّنَذِيْرًا۝۸ۙ لِّتُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ۝۰ۭ وَتُسَـبِّحُوْہُ بُكْرَۃً وَّاَصِيْلًا۝۹ (الفتح ۴۸: ۸،۹﴾) اے نبیؐ، ہم نے تم کو شہادت دینے والا، بشارت دینے والا اور خبردار کردینے والا بناکر بھیجا ہے تاکہ اے لوگو، تم اللہ اور اُس کے رسولؐ پر ایمان لائو اور اُس کا (یعنی رسولؐ کا) ساتھ دو، اُس کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے رہو۔

اس آیت میں انذار و تبشیراور امداد واستعانت کے ذریعے تقویت اور توقیر و تعظیم کا تعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اور تسبیح کا اللہ تعالیٰ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادب و توقیر کے تعلق سے مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی ہے۔ چنانچہ سورۂ حجرات کی ابتدائی آیات چند اہم اخلاقی پہلوؤں اور تربیتی توجیہات پر مشتمل ہیں۔ پہلی بات یہ فرمائی گئی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے نہ بڑھو۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ دین کے معاملے میں اپنے قول اور اپنی رائے اور سمجھ کو ترجیح نہ دی جائے۔ دین میں کسی قسم کے اضافے سے پرہیزکیا جائے، جسے علمی اصطلاح میں ’بدعت‘ کہتے ہیں ۔ دوسری بات یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر اپنی آواز اُونچی نہ کرو۔ یہ حبط ِعمل کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔ ادب حیاتِ نبویؐ میں بھی مطلوب تھا کہ آپؐ کی مجلس میں وقار و سکون سے بیٹھنااور ادب و تواضع کے ساتھ پست آواز میں گفتگو کرنا لوگوں کے لیے ضروری تھا۔ اسی طرح بعد ممات بھی اُمت کے ہر فرد سے یہ ادب و احترام مطلوب ہے۔اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس یا آپؐ کی مسجد میں اُونچی آواز میں گفتگو کرنا جور و جفا اور تعلیم ربانی کے خلاف ہے۔ کیوںکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب و احترام بعد ممات بھی اسی طرح واجب ہے جس طرح آپؐ کی حیات میں واجب تھا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں سائب بن یزید ؓ سے مروی ہے :

 میں مسجد ﴿نبویؐ میں کھڑا تھا، مجھے ایک شخص نے کنکری مار کر متوجہ کیا دیکھا تو عمر بن خطاب ؓ تھے۔ انھوں نے فرمایا کہ جاؤ اور ان دونوں آدمیوں کومیرے پاس لے آؤ جو مسجد نبویؐ کے ایک گوشہ میں زور زور سے باتیں کر رہے تھے۔ میں انھیں ان کے پاس لے آیا۔ حضرت عمر ؓ نے   ان دونوں سے دریافت کیا: تم کون ہو اور کہاں کے رہنے والے ہو؟ دونوں نے جواب دیا: ہم طائف کے رہنے والے ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: لَوْ کُنْتُـمَا مِنْ اَھْلِ الْبِلَادِلَاَوْجَعْتُکُمَا تَرْفَعَانِ اَصْوَاتَکُمَا  فِیْ  مَسْجِدِ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی عَلَیْہِ وَسَلَّم،’’اور اگر تم دونوں مدینہ کے رہنے والے ہوتے تو میں تمھیں سخت سزا دیتا ، تم دونوں مسجد رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی آواز اُونچی کرتے ہو۔ (صحیح البخاری کتاب الصلوٰۃ ﴾، باب رفع الصوت فی المسجد، حدیث:۴۶۰)

آج کل حج کے موقع پر زیارت کرنے والے جس قدر بلند آواز سے قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ و سلام اور دعا کے کلمات پڑھتے اور اپنے پیچھے چل رہے قافلے سے پڑھواتے ہیں اور عام نمازیوں کے لیے تشویش اور الجھن پیدا کرتے ہیں وہ نہایت افسوس ناک ہے۔ یقینا یہ ادبِ نبیؐ کے مخالف، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذاء رسانی کا باعث اور مسجد نبویؐ کے احترام و تقدیس کی پامالی کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نام لے کر پکارنا یا محمد یا احمد جس طرح عام لوگ آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہیں یا فلاں، بے ادبی ہے۔ یہ آپؐ کی زندگی کے لیے تھا، بعض لوگ آپؐ کے دروازے پر کھڑے ہو کر نام لے کر پکارا کرتے تھے جیسا کہ ارشاد بانی ہے:

لَا تَجْعَلُوْا دُعَاۗءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاۗءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا۝۰ۭ (النور۲۴:۶۳﴾) مسلمانو، اپنے درمیان رسولؐ کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کا سا بلانا نہ سمجھ بیٹھو۔

اور دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ جس طرح عام لوگوں کی پکار پر آدمی کبھی کان دھرتا اور کبھی اَن سنی کر دیتا ہے، نبی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار پر کان دھرنا ہی لازم اور اَن سنی کرنا حرام اور باعثِ خسران ہے۔ گویا ان کی پکار پر لبیک کہنا اور سمع و طاعت کرنا ہی اصل ادب اور اصل دین ہے۔

درود و سلام

مظاہر محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بکثرت درود و سلام پڑھنا بھی داخل ہے اور خاص کر جمعہ کے دن درود کی فضیلت، کیفیت اور مخصوص اوقات جن میں درود کی تاکیدی حیثیت ہے، صحیح حدیثوں سے ثابت ہے۔ اس سلسلے میں صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے درود کے جو مسنون کلمات اپنے صحابہ کرام ؓ کو سکھائے ہیں وہ افضل ہیں۔ کیونکہ وہ مشکوٰۃ نبوت سے صادر ہوئے ہیں اور اس لیے بھی کہ ان ہی کلمات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے پسند فرمایا۔ لہٰذا ان سے زیادہ اشرف ، افضل اور اکمل ہیٔت وکیفیت اور کلمات کا تصور محال ہے۔

ذکرِ نبیؐ اور دیدار کی تمنا

علامات محبت کے اندر یہ بات بھی داخل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بکثرت تذکرہ کیا جائے اور ملاقات و دیدار کی تمنا رکھی جائے۔ کیونکہ آدمی جب کسی چیز سے محبت کرتا ہے تو اس کو کثرت سے یاد کرتا ہے۔ ہم سب کو اللہ تعالیٰ سے توفیق محبت و دیدارِ رسول کی دعا کرنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے سوال کرنا چاہیے کہ وہ ہمیں ایمان کی حالت میں موت عطا کرے اور جنت میں آپ ؐکی رفاقت نصیب کرے۔ جب دنیا سے رخصتی کا وقت آئے تو ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات اور ان کے دیدار کی خواہش محسوس ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آ پ کا یہ فرمان ثابت ہے :

مِنْ اَشَدِّ اُمَّتِیْ لِیْ حُبًّا نَاسٌ یَکُوْنُوْنَ بَعْدِیْ یَوَدُّ اَحَدُھُمْ لَوْرَآنِیْ بِاَھْلِہٖ وَمَالِہٖ (رواہ مسلم فی صحیحہ عن ابی ہریرہ، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا، باب فیمن یودّ رؤیۃ النبیؐ،حدیث:۵۱۶۷)،میری امت کے ان لوگوں میں جو سب سے زیادہ مجھ سے محبت کرنے والے ہوں گے، وہ ایسے لوگ بھی ہوں گے جو میرے بعد آئیںگے اور ان کی خواہش ہوگی کہ تمام مال و متاع اور اہل و عیال کو لٹا کر میرا دیدار کرتے۔

اہل بیت سے محبت

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ آپؐ کے قرابت داروں، اہلِ بیتؓ، ازواج مطہراتؓ اور صحابۂ کرام ؓ سے محبت کی جائے اور اس کے اندر بھی غلو اور تقصیر سے بچا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : اُذَکِّرُ کُمْ اللّٰہَ  فِیْ اَھْلِ بَیْتِیْ، تین مرتبہ آپؐ نے فرمایا: ’’میں اپنے اہل بیت کے حقوق اور ان کے آداب و احترام کے سلسلے میں تمھیں اللہ کو یاد دلاتاہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر اور اس کا خوف دلا کر اپنے اہل و عیال کے حقوق کی رعایت و حفاظت کی وصیت فرمائی۔ ازواجِ مطہرات ؓ بھی اہل بیتؓ کے اندر داخل ہیں جیسا کہ سورۂ احزاب کی آیت ۳۳ : اِنَّمَا يُرِيْدُ اللہُ لِيُذْہِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَيْتِ وَيُطَہِّرَكُمْ تَطْہِيْرًا۝۳۳ۚ  (اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم اہلِ بیت ِنبیؐ سے گندگی کو دُور کرے اور تمھیں پوری طرح پاک کردے) دلالت کرتی ہے۔ تاہم، اہل بیت میں جن لوگوں کے لیے صدقات و زکوٰۃ حرام ہیں وہ آلِ علی، آلِ عقیل، آلِ عباس ہیں۔(صحیح مسلم)

اسی طرح صحابۂ کرامؓ کا معاملہ ہے۔ جملہ صحابۂ کرام ؓ جو شرف صحبت سے باریاب ہیں وہ امت کے باقی افراد کے مقابلے میں بدر جہافائق ہیں۔ امت کا بڑے سے بڑا آدمی بھی کسی ادنیٰ صحابی کے مرتبے کونہیں پہنچ سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر صحابہ کرام ؓ کی تعریف و توصیف کی ہے۔ مثلاً: وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ (التوبہ ۹:۱۰۰)، اور  لَقَدْ رَضِيَ اللہُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ (الفتح۴۸:۱۸)، اور لَايَسْتَوِيْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ۝۰ۭ (الحدید ۵۷:۱۰) میں وَكُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰى۝۰ۭ کہہ کر جملہ  صحابۂ کرامؓ کو جنت کا مستحق ٹھیرایا گیا ہے۔ اور سورۂ حشر کی آیات لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُہٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِہِمْ  …… رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۝۱۰ۧ  (الحشر۵۹:۸-۱۰)، اور ان کے علاوہ آیات صحابۂ کرامؓ کے مقام و مرتبہ کو متعین کرتی ہیں اور سورۂ حشر کی آیت ۱۰ بعد میں آنے والی امت پر یہ واجب قرار دیتی ہے کہ وہ جملہ صحابۂ کرامؓ کے حق میں دعائے خیر کرے اور کسی کے تئیں اپنے دل میں کدورت نہ رکھے۔ بعض حضرات جلیل القدر صحابۂ کرامؓ کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے ہیں، انھیں اللہ تعالیٰ سے خوف کھانا چاہیے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات لا تسبوا أصحابی  ’’میرے اصحاب کو گالی نہ دو‘‘ (صحیح البخاری و مسلم، کتاب فضائل الصحابہ عن ابی سعید الخدری) اور خیرالناس قرنی (رواہ الشیخان عن عمران بن حصین) یعنی سب سے بہتر لوگ میرے زمانہ کے لوگ ہیں، ان فرمودات کو ہمیشہ اپنی نظروں کے سامنے رکھنا چاہیے۔

محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مظاہر و علامات میں سے ایک اہم علامت یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اور سنت کی نشر و اشاعت کرنے والے علما، محدّثین اورفقہا سے بھی محبت کی جائے، جنھوں نے نہایت جاںفشانی اور عرق ریزی سے سنت کے ذخیرے کو جمع کیا اور پھر امت کی خیر خواہی کے لیے صحیح حدیثوں کوضعیف حدیثوں سے چھانٹ کر الگ کر دیا، تاکہ امت کے لیے سنت پر عمل کرنا آسان ہوجائے۔ یہ لوگ ہمارے سلف صالحین ہیں، ہمیں ان کا احسان مند ہونا چاہیے۔ ان کی خدمتوں اور کوششوں کو سراہنا چاہیے اور ان کے حق میں مخلصانہ دعائیں کرنی چاہییں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنی رضا و خوشنودی کے لیے دین کی کسی ادنیٰ خدمت کے لائق بنادے، اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تقاضوں کو زیادہ سے زیادہ پورا کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین!