October 4th, 2024 (1446ربيع الأول30)

! تحفظ ختم نبوت ایک اہم فریضہ

اللہ رب العزت نے اشرف الخلائق حضرت انسان کی ہدایت کے لیے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا، سنۃ اللہ کے مطابق اس سلسلۃ الذہب کو نبی کریمﷺ پر ختم کیا؛ کیوںکہ دنیا میں اللہ کا دستور ابتدائے آفرینش سے چلا آیا ہے کہ ہر چیز کا مبدأ بھی لازم ہے اور منتہاء بھی، چاہے وہ مادی ہو یا روحانی؛ لہٰذا نبوت کے اس وہبی دستور کے مطابق حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام سے سلسلۂ نبوت کا آغاز ہوا، اور حبیبِ کبریاء، احمد مصطفی محمد مجتبیٰﷺ پر یہ سلسلۂ نبوت ختم ہوا؛ گویا یہ ایک قدرتی قانون کے تحت ہوا۔ نبی کریمﷺ کی بعثت ایک انقلاب آفریں بعثت ہے، آپﷺ کی بعثت سے دنیا میں تمام ظلمتیں چھٹ گئیں، دنیا جو ظلمت کدہ بنی ہوئی تھی پُرنور اور روشن ہوگئی،جس کی برکتوں کے اثرات آج چودہ صدیوں کے بعد بھی محسوس کیے جارہے ہیں اور قبیل قیامت تک محسوس کیے جاتے رہیں گے اور پھر حشر ونشر میں بھی اور میزان وحساب میں بھی آپ کی برکتیں جلوہ گر ہوںگی۔ انشاء اللہ تعالیٰ! آپ کی وفات حسرت آیات کے بعدعظیم فتنوں نے سراٹھایا، مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی غیرت ایمانی، حمیت اسلامی، بلند حوصلگی اور حکمت عملی نے تمام فتنوں کو ایک سال سے بھی کم عرصے میں کافور کرکے رکھ دیا۔ اللہ تعالیٰ آپ رضی اللہ عنہ کو پوری امت کی طرف سے بہترین بدلہ عطا فرمائے، آمین! یہ بات تعجب خیز ہے کہ اہل کتاب یہود ونصاریٰ نے سب سے پہلے اسلام کے خلاف جو سازش رچی وہ تھی عقیدۂ ختم نبوتﷺ پر کاری ضرب؛ اس لیے کہ آپﷺ کی وفات کے بعد جو پانچ افراد نے دعوۂ نبوت کیے، الاستاذ جمیل مصری کی تحقیق کے مطابق ان سب کے اہل کتاب یہود ونصاریٰ کے ساتھ گہرے مراسم تھے۔دوسری جانب حضرات صحابہ نے بھی اس کو گویا بھانپ لیا، خاص طور پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اور آپ نے ’’أ ینقص الدین وأنا حی‘‘ کا تاریخی جملہ کہہ کر صحابہ کرامؓ کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ عقیدۂ ختم نبوتﷺ کی اہمیت خوب اچھی طرح سمجھیں اور تاریخ کے رُخ پھیردینے والے اس فتنے کی سرکوبی کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔ الحمدللہ! حضرت ابوبکرؓ کی کوششوں اور اللہ کے فضل سے صحابہؓ نے اس بات پر اجماع کرلیا کہ عقیدئہ ختم نبوتﷺ کو تحفظ فراہم کیا جائے، نبوت کے دعویداروں کو کافر قرار دیا جائے اور ان کے خلاف جہاد فرض گردانا جائے، اس طرح یہ صحابہؓ کا سب سے پہلا اجماع منعقد ہوگیا کہ ختم نبوت کا تحفظ ایک اہم ترین فریضہ ہے اور دعویِ نبوت کرنے والا کافر ہے، اس سے جہاد فرض ہے۔ بس پھر کیا تھا، اس عقیدے کے تحفظ کی خاطر مدینہ سے گیارہ لشکر ان مدعیان نبوت کی سرکوبی کے لیے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے حکم پر میدان کارزار میں کودپڑتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک سال سے بھی کم عرصہ میں یا تو مدعیان نبوت اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں، یا توبہ وانابت کرکے دوبارہ اسلام میں داخل ہوجاتے ہیں۔ مؤرخ کبیر، مفکراسلام حضرت مولانا علی میاں ندویؒ بیسویں صدی میں مسلمانوں کی گمراہیوں کو دیکھ کر دل برداشتہ ہوکر فرماتے تھے ’’رِدَّۃٌ ولا أبا بکرٍ لھا‘‘ کہ ارتداد ایک بار پھر زوردار سراٹھایا ہے؛ مگر افسوس اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ابوبکر جیسا حوصلہ نہیں، ان جیسی حمیت وغیرت نہیں، واقعتا حضرت نے بالکل درست کہا جیسی فکری یلغار حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں تھی آج بھی ویسی ہی کیفیت ہے، تب ابوبکر تھے؛ مگر آج کوئی ابوبکر تو کیا ان کا عشر عشیر بھی نہیں، اللہ ہی مدد اور حفاظت فرمائے، آمین! حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں تحفظ ختم نبوت کی خاطر ہزاروں صحابہؓ نے اپنی جانوں کو قربان کردیا، بیسویں صدی میں تحفظ ختم نبوت کے لیے نمایاں خدمات انجام دینے والوں میں حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا نام سرِفہرست ہے، آپ فرماتے ہیں: ’’جولوگ تحریک ختم نبوت میں جہاں جہاں شہید ہوئے، ان کے خون کا جوابدہ میں ہوں، وہ عشقِ رسالت میں مارے گئے، اللہ تعالیٰ کو گواہ بناکر کہتا ہوں، ان میں جذبۂ شہادت میں نے پھونکا تھا۔‘‘ (حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری نوراللہ مرقدہٗ کی تحریک کی وجہ سے ختم نبوت کے لیے امت میں بیداری پیدا ہوئی اور امت مسلمہ ہندیہ پورے جوش وجذبہ کے ساتھ میدان کارزار میں کود پڑی، جب کچھ جدید تعلیم یافتہ لوگوں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ اس تحریک کی خاطر شہید ہورہے ہیں تو انھوں نے اپنے آپ کو اس تحریک سے علیحدہ کرکے یہ ثابت کرنا چاہا کہ جولوگ مارے گئے یا مارے جارہے ہیں، ہم اس کے ذمہ دار نہیں، تب پھر حضرت نے اپنی تقریر میں کہا) جو لوگ ان کے خون سے دامن بچانا چاہتے ہیں، میں ان سے کہتا ہوں کہ میں حشر کے دن بھی، ان کے خون کا ذمہ دار ہوںگا؛ کیونکہ ختم نبوت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی سات ہزار حفاظ قرآن، تحفظ ختم نبوت کی خاطر شہید کروادئیے تھے۔ (اور غیرحافظوں کی تعداد اس سے تقریباً دوگنی ہوگئی)۔ خلاصہ یہ کہ اسلامی دور حکومت میں، جب بھی کسی نے ختم نبوت پر حملہ کیا، یا حرف زنی کی، مسلمان خلفاء وامراء نے ان کو کیفرکردار تک پہنچادیا، جس کی سیکڑوں مثالیں تاریخ کے سینے میں محفوظ ہیں،اسی طرح برصغیر میں بھی جب فتنہ قادیانیت نے سر اٹھایا تو علماء کرام نے مل جل کر اس کی سر کوبی کرنے کی پوری پوری کوشش کی اور آخر کار پاکستان بننے کے بعد 1974 میں قومی اسمبلی میں فیصلہ ہواکہ لاہوری و قادیانی مرزائی دونوں گروہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں یاد رہے کہ یہ فیصلہ صرف یک طرفہ دلائل سن کر نہیں کیا گیا بلکہ ان کو پورا پورا موقع دیا گیا کہ وہ اپنا موقف اور دلائل دینے قومی اسمبلی میں آئیں تو وہ بھی آئے اور 13دن تک قادیانیوں کے ساتھ بحث و مباحثہ کیا گیا اور مرزا ناصر قادیانی سفید شلوار کرتے میں ملبوس طرے دار پگڑی باندھ کر آیا۔متشرع سفید داڑہی۔قرآن کی آیتیں بھی پڑھ رہے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اسم مبارک زبان پر لاتے تو پورے ادب کے ساتھ درودشریف بھی پڑہتے۔ مفتی محمود صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایسے میں ارکان اسمبلی کہ ذہنوں کو تبدیل کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ماہ نامہ ’’الحق اکوڑہ خٹک‘‘ کے شمارہ جنوری 1975 کے صفحہ نمبر 41 پر بیان فرماتے ہیں۔’’یہ مسئلہ بہت بڑا اور مشکل تھا‘‘ للہ کی شان کہ پورے ایوان کی طرف سے مفتی محمود صاحب کو ایوان کی ترجمانی کا شرف ملا اور مفتی صاحب نے راتوں کو جاگ جاگ کر مرزا غلام قادیانی کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔حوالے نوٹ کیئے۔سوالات ترتیب دیئے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ مرزا طاہرقادیانی کے طویل بیان کے بعد جرح کا جب آغاز ہوا تو اسی ’’الحق رسالے‘‘ میں مفتی محمود صاحب فرماتے ہیں کہ ’’ہمارا کام پہلے ہی دن بن گیا‘‘اور پھر دلائل کے بعد متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا لاہوری و قادیانی مرزائی دونوں گروہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور پھر اس فیصلے پر محترم جناب سابق صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے دستخط کیے اور اس کے بعدجو انہوں نے تقریر کی وہ ختم نبوت کے محاذ پر کام کرنے والے دوستوں کے لیے ایک مشعل کی مانند ہے ۔ صحابہ کرامؓ نے اس عقیدہ کی حفاظت فرض سمجھ کر کی اور اکابرین امت نے بھی صحابہ کی سنت زندہ کرتے ہوئے اس کے دفاع کا حق ادا کیا اور اب باری ہماری اور آپ کی ہے کہ ہم کہاں تک اس فریضہ کو ادا کر سکتے ہیں اللہ رب العزت تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر کام کرنے والوں کی مدد و نصرت فرمائے آمین