November 13th, 2024 (1446جمادى الأولى11)

معلمِ اخلاقؐ

تحریر: محمد عنایت اللہ سبحانی

دنیا کی مختلف قوموں اور مختلف ملکوں میں ایک سے ایک مصلح گزرے ہیں، جنھوں نے انسانی معاشرے کو سدھارنے کی جدوجہد کی، جنھوں نے اچھائیوں کی دعوت دی اور برائیوں سے روکا، لیکن ان میں سے ہر ایک کا حال یہ تھا کہ اس نے کچھ خاص خاص اچھائیوں پر زور دیا اور چند ایک برائیوں کے خلاف آواز اٹھائی۔

ایسا کوئی مصلح نہیں پاؤگے، جس نے پوری انسانی زندگی کو اچھائی کے سانچے میں ڈھال دیا ہو، جس نے زندگی کے تمام پہلوؤں کا گہرا مطالعہ کیا ہو۔ ہر شعبۂ زندگی میں جتنی اچھائیاں ہوسکتی تھیں، ان سب کی تاکید کی ہو اور جتنی برائیاں ہوسکتی تھیں، ان سب کے خلاف آواز اٹھائی ہو۔

یہ خصوصیت بس محمد عربیؐ کو حاصل تھی، جنھیں ربّ العالمین نے رحمۃٌ للعالمینؐ بنا کر بھیجا تھا اور تورات و انجیل میں، جن کی خصوصیات میں سے یہ خصوصیت خاص طور سے ذکر فرمائی تھی:

یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ (الاعراف ۷:۱۵۷) وہ انھیں اچھائیوں کا حکم دے گا اور برائیوں سے روکے گا۔

چنانچہ اس پیش گوئی کے مطابق آنے والا نبی آیا تو اس نے ایسا نہیں کیا کہ وہ عام انسانوں سے الگ تھلگ رہتے ہوئے کچھ اچھائیوں کی تلقین کردے اور کچھ برائیوں سے دُور رہنے کی نصیحت کردے، بلکہ اس نے عام انسانوں کے درمیان اور مسائل کے منجدھار میں رہتے ہوئے اپنی زندگی گزاری اور قدم قدم پر پیش آنے والے معاملات میں بتایا کہ خیر کیا ہے؟ شر کیا ہے؟  جائز کیا ہے؟ ناجائز کیا ہے؟ کیا کرنا ہے؟ اور کیا نہیں کرنا ہے؟

تاجر کو ہدایت

اس نے بتایا اگر تجارت کی جائے تو اس طرح کی جائے کہ کسی کو دھوکا نہ دیا جائے۔    اس نے تاکید کی کہ جو چیز لوگوں کو دکھاؤ، وہی چیز ان کے ہاتھ فروخت کرو۔ ایسا نہ ہو کہ سامنے تو اچھا مال رکھ دو اور دیتے وقت غلط مال دے دو۔

ایک بار آپؐ نے دیکھا کہ ایک شخص غلے کی تجارت کر رہا ہے اور سامنے غلّے کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ آپؐ نے اس غلّے کے اندر اپنا ہاتھ ڈال دیا۔ دیکھا تو اوپر جو غلہ تھا، اندر کا غلہ اس سے مختلف تھا۔ اوپر تو سوکھا ہوا غلہ تھا مگر اندرکا غلہ بھیگا ہوا تھا۔

آپؐ نے فرمایا: ’’اے گندم بیچنے والے یہ کیا ہے؟‘‘

’’اللہ کے رسولؐ! یہ بارش سے بھیگ گیا ہے‘‘ گندم بیچنے والے نے عرض کیا۔

آپؐ نے فرمایا: تو اس بھیگے ہوئے غلے کو اوپر کیوں نہیں رکھا کہ لوگ اسے دیکھ سکیں۔ یادرکھو، جو لوگوں کو دھوکا دیتا ہے وہ ہم میں سے نہیں۔مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنِّی(مسلم:۱۰۲)

اس طرح آپؐ نے حیات انسانی کے ایک ایک گوشے کا جائزہ لیا اور زندگی کی کوئی ایسی اچھائی نہیں، جس کی تاکید نہ کی ہو اور کوئی ایسی برائی نہیں، جس سے خبردار نہ کیا ہو۔

ایمان کا دلکش تصور

حد یہ ہے کہ آپؐ نے ایک مومن کے ایمان کی علامت ہی یہ قرار دی کہ اسے اچھائی کرکے خوشی ہو اور برائی سرزد ہو جائے تو تکلیف ہو:

مَنْ سَرَّتْہُ حَسَنَتُہُ وَ سَائَ تْہُ سَیِّئَتُہُ فَذَلِکَ الْمُوْمِنُ (سنن ترمذی: ۲۱۶۵) آپ نے مومن کی شان ہی یہ بتائی کہ لوگ اس کی طرف سے پرامن رہیں۔ اس سے کوئی اندیشہ نہ رکھیں:

وَالْمُوْمِنُ مَنْ أَمِنَہُ النَّاسُ(سنن النسائی:۴۹۹۵)

آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ہاں بندے کا نام مومنین کے رجسٹر میں لکھا ہی نہیں جاتا، جب تک لوگ اس کے ہاتھ اور زبان سے محفوظ نہ ہوں، اور وہ مومنین کا درجہ نہیں حاصل کرسکتا جب تک اس کا پڑوسی اس کی اذیتوں سے محفوظ نہ ہو۔

آپؐ نے فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں، جو کسی کے اندر بھی ہوں تو وہ منافق شمار ہوگا، چاہے وہ روزے رکھتا ہو اور نمازیں پڑھتا ہو۔ حتیٰ کہ اس نے حج اور عمرہ بھی کرلیا ہو اور یہ دعویٰ کرتا ہو کہ وہ مسلم ہے۔ وہ شخص جو بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔

آپؐ نے فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں، جو عصبیت کی دعوت دے۔ وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں، جو عصبیت کی بنیاد پر جنگ کرے۔ اور وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں جو عصبیت پر جان دے۔

کیا قوموں کی پوری تاریخ میں کوئی بھی مصلح ایسا گزرا ہے، جس نے زندگی کے ایک ایک شعبے کی اصلاح کی ہو؟

کیا ایسا کوئی مصلح گزرا ہے، جس کی پوری دعوت کی بنیاد عام امن و محبت ہو؟

کیا ایسا کوئی مصلح گزرا ہے، جس کی دعوت کا طرۂ امتیاز ہی اچھائیوں سے محبت اور برائیوں سے نفرت ہو؟

اب آیئے ذرا تفصیل سے دیکھیے، زندگی کا کون سا گوشہ ہے، جس کی رحمت عالمؐ نے اصلاح نہیں کی؟ حیاتِ انسانی کا کون سا شعبہ ہے، جس کی برائیوں کا سد باب نہیں کیا اور اس میں بھلائیوں کو فروغ نہیں دیا؟

ظلم کا خاتمہ

انسانی زندگی کی سب سے بڑی برائی ظلم ہے۔ ظلم کے خلاف بے شمار لوگوں نے آواز اٹھائی، لیکن رحمۃٌ للعالمین نے ظلم کی جڑوں پر جس طرح تیشہ چلایا، اس کی کوئی نظیر نہیں پاؤگے۔

آپؐ نے فرمایا: اگر کوئی کسی کے بارے میں جانتا ہے کہ وہ ظالم ہے، اور پھر وہ اس ظالم کے ساتھ اس کی مدد کے لیے چند قدم بھی چلتا ہے، تو وہ اسلام کے دائرے سے خارج ہے۔

آپؐ نے فرمایا: اگر کوئی ظلم و زیادتی سے کسی کی زمین پر قابض ہو جاتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر سخت غضب ناک ہوگا۔

ظلم تو بہت دور کی بات ہے، آپؐ نے تو یہ تاکید فرمائی کہ اگر کسی مزدور سے تم نے خدمت لی ہے تو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے پہلے اس کی مزدوری ادا کردو۔

آپؐ نے یہاں تک تاکید فرمائی کہ اگر کوئی آدمی کسی سے کوئی سودا کر رہا ہو تو تم اس کے بیچ میں نہ کودو۔ اگر کسی نے کسی کونکاح کا پیغام دیا ہے تو تم اس کے قریب نہ پھٹکو، اور اس کا معاملہ خراب   نہ کرو۔ غرض آپؐ نے ظلم اور حق تلفی کے تمام دروازے، بلکہ یوں کہو کہ ظلم اور حق تلفی کے تمام رخنے بند کردیے۔ کوئی بھی ایسی بات، کوئی بھی ایسا معاملہ، کوئی بھی ایسا انداز، جس سے ظلم کی بوآتی ہو،  اس سے آپؐ نے کبھی چشم پوشی نہیں کی۔

حیوانوں کے ساتھ شفقت

انسان تو انسان، آپؐ نے کسی حیوان کو بھی مظلومی کی حالت میں دیکھنا پسند نہیں فرمایا۔ آپؐ کا ارشاد ہے: اگر کسی نے کوئی ننھی سی چڑیا بھی ناحق ماری تو قیامت کے دن وہ اللہ کے یہاں جواب دہ ہوگا۔

آپؐ نے فرمایا: لعنت ہے اس شخص پر، جو کسی حیوان کا مُثلہ کرے۔ محض اپنی تفریح کے لیے اس کے جسم میں چیر پھاڑ کرے۔

آپؐ نے ظلم و زیادتی کو، چاہے وہ کسی پر کسی بھی شکل میں ہو، ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہیں کیا۔ اس کے برعکس آپؐ نے اخوت اور محبت کا درس اور شفقت اور دل سوزی کا پیغام دیا۔

ایک موقعے پر آپؐ نے مہاجرین و انصار کو مخاطب کرکے فرمایا:

’’اے گروہ مہاجرین! اور اے گروہِ انصار! تمھارے کچھ بھائی ایسے بھی ہیں، جن کے پاس نہ مال ہے، نہ ان کا کوئی گھر بار ہے، تو تم میں سے ہر شخص دودو تین تین آدمیوں کو اپنے ساتھ ملا لے‘‘۔

ایک اور موقعے پر صحابہ کرامؓ سے فرمایا:

’’جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو، وہ ایک تیسرے آدمی کو بھی اپنے ساتھ لے جائے۔ جس کے پاس چار آدمیوں کا کھانا ہو، وہ اپنے ساتھ ایک پانچواں، بلکہ چھٹا شخص بھی لے جائے‘‘۔

ایک دوسرے موقعے پر آپؐ نے ساتھیوں کو نصیحت کی:’’جس کے پاس فاضل سواری ہو وہ اپنی سواری اسے دے دے، جس کے پاس سواری نہ ہو اور جس کے پاس ضرورت سے فاضل کھانا ہو، وہ اس شخص کو کھلادے، جس کے پاس کچھ کھانے کو نہ ہو‘‘۔

اخوت ومحبت اور ہمدردی و غم خواری کا کتنا زبردست پیغام ہے یہ!

پیغام محبت

آپؐ کا پیغام محبت مسلمانوں کے لیے خاص نہ تھا بلکہ ہر ہر انسان سے آپؐ نے محبت کرنا سکھایا ہے۔ ہر انسان کے دکھ درد میں شریک ہونے اور مصیبت میں اس کا ساتھ دینے کا پیغام دیا۔

آپؐ نے فرمایا: اگر کوئی آسودہ اور سیر شکم ہوکر سوتا ہے اور اس کے بغل میں اس کا پڑوسی بھوکا رہتا ہے، اور ایسا وہ جانتے بوجھتے کرتا ہے تو اس کا ایمان قابل قبول نہیں۔

وہ پڑوسی، جس کے ساتھ ہمدردی و غم خواری کو آپؐ نے ایمان کے لیے ضروری قرار دیا، اس کا مسلم ہونا ضروری نہیں ہے۔ وہ یہودی بھی ہوسکتا ہے، عیسائی بھی ہوسکتا ہے، ہندو بھی ہوسکتا ہے، سکھ بھی ہوسکتا ہے۔ وہ کسی بھی قوم، کسی بھی نسل اور کسی بھی مذہب کا ہو سکتا ہے۔

آپؐ نے پڑوسی کے حقوق کی مزید تاکید کرتے ہوئے فرمایا:تم میں سے کوئی شخص اپنی زمین یا گھر یا کھیت یا باغ بیچنے کا ارادہ کرے تو پہلے اپنے پڑوسی کو اس کی اطلاع دے۔

یہاں بھی آپؐ نے کسی پڑوسی کو خاص نہیں کیا۔ یہ پڑوسی کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ کسی بھی طبقے اور کسی بھی مذہب کا ہوسکتا ہے۔ جو بھی پڑوسی ہو اسے یہ حق حاصل ہوگا۔

حقیقت یہ ہے کہ رحمۃٌ للعالمین کی یہ محبت و شفقت ہر ایک کے لیے عام تھی۔ مسلم ہو یا غیرمسلم، دوست ہو یا دشمن، انسان ہو یا حیوان کوئی بھی آپؐ کی اس محبت سے محروم نہ رہا۔ سب سے آپؐ نے خود محبت کی اور ساتھیوں کو بھی اسی محبت کی تعلیم دی۔

آپؐ نے ساتھیوں کو تاکید فرمائی: لوگوں کی نقالی نہ کرو۔ یہ نہ کہو کہ لوگ اچھا سلوک کریں گے تو ہم بھی اچھا سلوک کریں گے، لوگ ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے۔ تم اپنا یہ اصول بنا لو کہ لوگ تمھارے ساتھ اچھا سلوک کریں تو ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ وہ براسلوک کریں، تو  تم بُرا سلوک نہ کرو۔ تم کبھی کسی پر ظلم نہ کرو۔

کیا باہمی سلوک اور انسانی تعلقات کے سلسلے میں اتنی جامع اور مکمل تعلیمات کہیں اور ملتی ہیں؟ کیا انسانی تعلقات کے لیے اس سے زیادہ خوب صورت ہدایات کسی اور مصلح کے یہاں موجود ہیں؟

انسانوں کو عزت دی

اور آگے بڑھو، دیکھو اس رہبر کامل نے انسانوں کو کتنی عزت دی۔ ایک طرف تو آپؐ نے حسن تعلق اور حُسنِ سلوک پر زور دیا، مگر دوسری طرف انسانیت کی عظمت اور  احترام بھی ملحوظ رکھا۔

آپؐ نے انسانوں سے محبت کرنے کی تعلیم تو دی، مگر انسانوں کی غلامی سے منع کیا۔ آپؐ نے فرمایا:کسی مخلوق کی اطاعت، جس سے خالق کی نافرمانی ہوتی ہو، کسی بھی حال میں جائز نہیں۔ کسی بھی انسان کی اطاعت بس بھلائی کے کاموں میں کرنی ہے۔

کیا یہ انسان کی بے عزتی نہیں کہ وہ اپنے ہی جیسے انسانوں کی غلامی کرے؟ اور کیا یہ انسان کی نادانی نہیں کہ وہ جس خدا کا بندہ ہے، جس کی نعمتوں سے رات دن سیراب ہوتا ہے، اور جو غضب ناک ہو جائے، تو اس کے مقابلے میں کوئی پناہ دینے والا نہیں، ایک ایسی ذات کو وہ ناخوش کرکے اپنے ہی جیسے بے بس انسانوں کو خوش کرنے کی کوشش کرے؟چنانچہ آپؐ نے فرمایا: اپنے رب کو ناخوش کرکے اگر کسی نے اپنے بادشاہ کو خوش کیا تو اس کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

رحمۃ للعالمینؐ نے انسان کے مقام کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا، جب اسے یہ احساس دلایا کہ تمھارا خالق ہی اس لائق ہے کہ اس کی بندگی کرو۔ کوئی دوسرا اس قابل نہیں کہ اس کی عبادت کی جائے، یا آنکھیں بند کرکے ہر صحیح اور غلط بات میں اس کی اطاعت کی جائے۔

انسانی تاریخ میں کتنے بڑے بڑے مصلحین اور کتنے بڑے بڑے رہنما گزرے ہیں۔ ان رہنماؤں اور مصلحین کی بہت لمبی فہرست ہے۔ اس لمبی فہرست کو سامنے رکھو، اور پھر بتاؤ، ان رہنماؤں اور مصلحین میں سے کون ہے، جس نے انسان کو یہ عزت دی ہو؟

انسانی مساوات

آپؐ نے فرمایا: سارے انسان آدمؑ سے ہیں اور آدمؑ مٹی سے بنائے گئے۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی گورے کو کسی کالے پر برتری حاصل نہیں ہے۔ تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے، جو سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا ہو۔

آپؐ نے یہ ارشاد فرما کر پوری نوعِ انسانی کو کیسی عظمت عطا کردی! وہ مظلوم اوربدحال طبقے، جو پشت ہا پشت سے بلکہ ہزاروں سال سے کچلے ہوئے ہیں، جو ہر طرح سے دبائے اور ستائے ہوئے ہیں، جو ہر طرح کی عزت اور ہر طرح کی رعایت سے محروم ہیں، ان کے ٹوٹے ہوئے زخمی دلوں پر آپؐ نے کیسا ٹھنڈا مرہم رکھ دیا!!

سارے انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں، لہٰذا وہ سب برابر ہیں۔ آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ پیدایشی طور سے ان میں کوئی اونچ نیچ نہیں۔ کوئی چھوٹا بڑا نہیں۔ ان میں سب سے اونچا اور سب سے بڑا بس وہ ہے، جو اپنے کاموں کے لحاظ سے سب سے اونچا ہو، جو اپنے رب سے سب سے زیادہ ڈرنے والا اور اس کا سب سے زیادہ فرماں بردار ہو۔

عزت و ذلت کا کیسا منصفانہ اور کیسا بے مثال پیمانہ ہے! اگر کسی سماج میں عزت و ذلت کا یہ پیمانہ رائج ہوجائے، تو اس سے بہتر سماج اور کون سا ہوسکتا ہے؟

حکام کو گالیاں نہ دو

پھر آپؐ نے جہاں برائی اور خدا کی نافرمانی میں کسی حاکم کی اطاعت سے منع فرمایا، وہیں رعایا کو اس بات کی تاکید فرمائی کہ وہ اپنے ذمے داروں یا سربراہوں کو گالیاں نہ دے۔ آپؐ نے فرمایا: امرا و حکاّم کو گالیاں نہ دو، ان کے لیے دعائیں کرو کہ وہ سدھر جائیں، کیونکہ ان کے سدھر جانے سے تمھارے تمام معاملات سدھر جائیں گے۔

کتنی حکیمانہ بات فرمائی ہے آپؐ نے! امرا اور حکام کی برائیوں اور بدعنوانیوں سے نفرت اور بے زاری تو بہت اچھی اور قابل قدر بات ہے، لیکن اس کا علاج یہ تو نہیں ہے کہ انھیں گالیاں دی جائیں۔ انھیں گالیاں دینے سے ان کی برائیاں اور بدعنوانیاں تو دور نہیں ہوں گی، البتہ اس سے ایک نئی برائی جنم لے گی۔ ان سے خود گالیاں دینے والوں کا کردار داغ دار ہوگا۔

ایسے موقعے پر تو بہترین طرزِ عمل یہی ہوسکتا ہے کہ ان برائیوں کو دور کرنے کی سنجیدہ کوششیں کی جائیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے کہ وہ حاکموں اور سربراہوں کو ہدایت دے۔ انھیں صحیح روش اختیار کرنے کی توفیق ارزانی کرے۔

حکاّم کو تنبیہ

آپؐ نے حکمرانوں کو تنبیہ کی، فرمایا: جس نے کسی گروہ میں سے کسی شخص کو کوئی عہدہ دیا، حالانکہ اس گروہ میں کوئی ایسا شخص موجود ہے، جو اس سے زیادہ اللہ کی نگاہ میں پسندیدہ ہے، تو اس نے اللہ، اللہ کے رسول اور تمام مومنین کے ساتھ خیانت کی۔

کتنی عمدہ، متوازن اور جچی تلی ہدایت ہے یہ!

اگر عہدوں اور مناصب کی تقسیم محض نیکی، دین داری اور اہلیت کی بنیاد پر ہونے لگے تو   یہ دنیا خیر کا گہوارہ بن جائے اور شر و فساد کو کہیں پنپنے کا موقع نہ ملے۔

یہ چند مثالیں ہیں، ورنہ آپؐ نے زندگی کے تمام شعبوں کے سلسلے میں اسی طرح رہنمائی دی۔ ہر معاملے کے، جو اچھے اور تعمیری پہلو تھے، ان کی تلقین فرمائی اور جو برے اور منفی پہلو تھے، ان سے منع فرمایا۔ آپؐ نے ہر اچھائی کی بھر پور حوصلہ افزائی کی اور ہر برائی کی شدت سے مذمت کی۔

رحمۃٌ للعالمین ؐ کا امتیاز

یہ رحمۃ للعالمینؐ کی ایسی خصوصیت ہے، جس میں آپ ؐ کا کوئی شریک نہیں۔ دنیا کی ایک ایک قوم کے مصلحین اور دانشوروں کو دیکھ ڈالو۔ ان کے کاموں اور ان کے پیغاموں کو دیکھ ڈالو، ان کی ہدایتوں اور ان کی نصیحتوں کا مطالعہ کر ڈالو، تم کسی کے یہاں بھی نیکی اور بدی، حق اورناحق، صحیح اور غلط کا وہ واضح اور وسیع و ہمہ گیر تصور نہیں پاؤگے، جو رحمۃٌ للعالمینؐ کے یہاں نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔

اپنی بعثت کا تعارف کراتے ہوئے آپؐ نے کتنی صحیح بات فرمائی تھی:میں بھیجا گیا ہوں، تاکہ اچھے اخلاق کی تکمیل کروں، تمام اچھائیوں کو کمال کی بلندیوں تک پہنچا دوں۔(موطا)

اگر آج دنیا چاہتی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرہ اور ایک پاکیزہ ماحول کے اندر ایک پاکیزہ زندگی بسر کرے۔ اور ایک پاکیزہ زندگی کی، جو لذتیں اور برکتیں ہوتی ہیں، ان سے ہمکنار ہو، تو اس کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ کسی تعصب سے کام لیے بغیر رحمۃٌ للعالمینؐ کی دی ہوئی تعلیمات اورہدایات کو اپنے لیے مشعل راہ بنائے۔ وہ زندگی کی تاریک گلیوں میں ان سے روشنی حاصل کرے۔ ورنہ زندگی کی ظلمتوں سے نکلنا ممکن نہیں۔ انسانی سماج کی برائیوں سے نجات پانا ممکن نہیں اور ان ظلمتوں اور برائیوں کے ہاتھوں آج کا انسان کرب و اضطراب کے، جن انگاروں پر لوٹ رہا ہے، ان انگاروں سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں۔