May 3rd, 2024 (1445شوال24)

کیا یہ قائد اعظم کا پاکستان ہے؟

آج ۲۵ دسمبر ہے بابائے قوم بانی پاکستان قائداعطم محمد علی جناح کا یوم ولادت۔ آج تمام قومی علاقائی سیاسی فوجی سماجی رہنما قائداعظم کے اصولوں پر قربان ہونے کے پیغامات دیں گے۔ ہر سال یہ پیغامات جاری ہوتے ہیں۔ ان میں کہا جاتا ہے کہ قائداعظم اصول پسند رہنما تھے وہ سچے رہنما تھے ان کی سیاست جھوٹ سے خالی تھی۔ وہ جو کہتے تھے کرتے تھے۔ ان کا وژن تھا ان کے وژن ان کے اصولوں اور ان کی تعلیمات پر عمل کرکے ہی ہم ملک کو منجھدار سے نکال سکتے ہیں۔ اور پھر ہر سال ۲۵ دسمبر گزر جاتی ہے۔ اس سال بھی یہ دن گزر جائے گا اور اگلے دن سے یہ سارے پیغام دینے والے قائداعظم کے پیغامات کے برخلاف کام میں لگ جائیں گے، بلکہ لگ جاتے ہیں۔ اگر کتابوں کو کھنگالیں تاریخ کے اوراق الٹیں تو جس پاکستان کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا اور جس کا نقشہ قائداعظم نے کھینچا تھا اس میں اور اس پاکستان میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ صرف ایک مماثلت ہے کہ اب بھی اس کا نام پاکستان ہے۔ قائداعظم سچ کے علمبردار تھے، پوری حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی رہنمائوں کی طویل قطار کو دیکھ لیں یہ سب سچ کے علمبردار نظر نہیں آئیں گے۔ قائداعظم اصولوں کے پاسدار تھے۔ آج کے حکمران، سیاستدان، فوجی، عدلیہ، وکلا، طلبہ، علما کوئی اصولوں کا پابند نہیں۔ بہت سوں کو اصولوں کا علم ہی نہیں۔ ان میں سے کسی کو اصول یاد دلائے جائیں تو اصلاح کے بجائے توجہ لانے والے کی درگت بنادی جاتی ہے۔ قائداعظم نے بستر علالت پر ہونے کے باوجود ائرمارشل اصغر خان کو ائرایمبولینس لانے پر یہ کہہ کر لوٹادیا کہ یہ تمہارا کام نہیں ہے۔ قائداعظم نے جنرل ایوب خان کو سیاست میں دلچسپی لینے پر مشرقی پاکستان ٹرانسفر کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے نہ صرف حکم عدولی کی بلکہ سیاست میں دلچسپی اتنی لی کہ مارشل لا ہی لگادیا۔ اس کے بعد سے فوجی جرنیلوں نے سیاست میں خوب دلچسپی لی اور دفاع وطن کا بیڑا غرق کردیا۔ مشرقی پاکستان گیا، سیاچن گیا، کارگل گیا، کشمیر گیا اور پاکستان کا وقار گیا۔ اب جرنیل سیاست میں حصہ لیتے ہیں، سیاست دان سازشوں اور فوج کی کاسہ لیسی میں مصروف رہتے ہیں۔ عدلیہ چشم و ابرو کے اشاروں پر فیصلے دیتی ہے۔ جس ملک کا قانون اور دستور قائداعظم قرآن کو قرار دیتے تھے وہاں قرآن و سنت کو اجنبی بنادیا گیا ہے۔ قائداعظم پاکستان میں اقلیتوں کو محفوظ بنانے کی بات کرتے تھے آج اس ملک کی اکثریت ہی غیر محفوظ ہے۔ ہزاروں لوگ محض حکومت سے اختلاف کی بنیاد پر لاپتا کردیے گئے ہیں۔ اور عام آدمی بھی ہر وقت خود کو غیر محفوظ تصور کرتا ہے سیاستدانوں میں جنگ ہے تو عوام کے لیے نہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ کون اسٹیبلشمنٹ کا اچھا آلہ کار بن سکتا ہے۔ جب جنگ اس پر ہوگی تو عوام کے لیے کون لڑے گا۔ سیاسی جماعتیں اپنے منشور پر کام نہیں کرتیں اور دوسرے کے منشور پر تنقید نہیں کرتیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے کے مطابق سیاست کرتی ہیں۔ ان کی مستقل دوستی ہے نہ مستقل دشمنی یا اختلاف، یہ صرف مفاد کی سیاست میں مصروف ہیں۔ مفاد ہو تو تین عشروں تک ایک دوسرے کو غدار قرار دینے والے ایک ساتھ کھڑے ہوکر حکومت بنا لیتے ہیں۔ ملک میں تباہی کی بڑی وجہ سیاسی پارٹیوں کی یہی سودے بازی اور غیر اصولی سیاست ہے۔ بلکہ اسے سیاست تو کہا نہیں جاسکتا یہ تو خریدوفروخت اور جوڑ توڑ ہے۔ جو آج کل بھی زور و شور سے جاری ہے جسے سیاست کہا جارہا ہے قائداعظم خود آزادی صحافت کے داعی تھے اور ان کے ملک میں صحافت کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے اور یہ کام صرف اسٹیبلشمنٹ، فوج اور سیاسی جماعتوں نے نہیں کیا بلکہ اس میں خود اخبارات کے مالکان اور صحافیوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ قائداعظم اس ملک میں اسلامی نظام چاہتے تھے اور ان کے جانے کے بعد تمام حکمران اسلام کے خلاف رہے۔ خواہ وہ نام کوئی بھی لیتے ہوں۔ آج عدالت میں عدل، تھانے میں حق، بازار میں اصلی مال، اسکولوں، کالجوں میں تعلیم، مدارس میں علم، علما میں حق اور حلم نہیں مل رہا۔ صحافیوں میں حق گوئی عنقا ہوگئی ہے۔ قائداعظم اور علامہ اقبال نے اس قسم کے پاکستان کا کوئی خواب نہیں دیکھا تھا۔ وہ اگر آج اس ملک میں آجائیں تو حیران ہو کر اپنا پاکستان تلاش کرنے کے لیے خود نکل کھڑے ہوں گے اور بے اختیار پکار اْٹھیں گے کہ

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں

شاید بانی اور مصور پاکستان کے اس کرب کو فیض احمد فیض پہلے ہی محسوس کرچکے تھے اس لیے داغ داغ اجالا کا ذکر کرنے کے بعد انہوں نے قائداعظم اور علامہ اقبال کو جواب بھی لکھ دیا تھا اور یہی پیغام انہوں نے پاکستانی قوم کو بھی دے دیا۔

ابھی چراغ سررہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
جلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

اور پاکستانی قوم نے ترقی خوشحالی، ایشین ٹائیگر، عوامی حکمرانی، تبدیلی کے خوشنما دعوئوں کا بہت دھوکا کھالیا۔ ہماری قوم ہر الیکشن میں دھوکا کھا جاتی ہے۔ ابھی الیکشن میں کچھ وقت ہے عدالت عظمیٰ کے حکم کی روشنی میں یقینی بھی ہیں سازشوں کے ہوتے ہوئے کچھ کہا بھی نہیں جاسکتا لیکن اس عرصے میں قوم خود غور کرے کہ پاکستان کیوں بنا تھا۔ ہم پاکستان کو کیا بنانا چاہتے ہیں۔ کمیونزم، اسلامی سوشلزم، فوجی ڈکٹیٹر شپ، جمہوری تماشے، معاشی ٹائیگر وغیرہ سب دیکھ چکے صرف اسلامی نظام کی طرف توجہ نہیں دی۔ اب قوم اور اسلام کے لیے سنجیدہ جماعتیں اسلام کے لیے کام کریں، اس ملک کو اس کی حقیقی منزل سے ہمکنار کریں یہ تو بہت ہوچکا کہ قوم نے کئی کئی بار شوق گل بوسی میں کانٹوں پر زبان رکھ دی۔ اب پھول اور کانٹے الگ الگ کرنے ہوں گے اور پھول قوم کو اور کانٹے ان کے دشمنوں میں تقسیم کیے جائیں گے۔ لیکن یہ کام کون کرے گا کون۔ قوم سیاسی جماعتوں، اداروں الیکشن کے نظام حتیٰ کہ عدل کے نظام سے بھی مایوس یوتی جارہی ہے ۔ اس مایوسی کو ختم کرنے کے لیے قوم کو خود آگے بڑھنا ہوگا۔ قائداعظم کو پڑھنا اور سمجھنا ہوگا اور سب سے بڑھ کر اس جھگڑے سے نکل کر کل قائداعظم کیسا پاکستان بنانا چاہتے تھے۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم کون ہیں ہمیں قوموں کی برادری میں کس طرح رہنا ہے اور اس کے لیے کیسا پاکستان چاہیے۔

                                                                                                             بشکریہ جسارت